نام تو سجل تھا لیکن جوان ہوتے ہی کالے کرتوتوںکی وجہ سے اس کی عرفیت ناگ پڑگئی اور لوگ اسے ناگ کے نام سے ہی پکارنے لگے کیونکہ اس کا ڈسا پانی نہیں مانگتا تھا۔ شروع میں وہ ایک سیدھا سادہ دیہاتی لڑکا تھا لیکن جب اس کی دعا سلام زمیندار صاحب خان کے بیٹے سے ہوئی، پرپرزے نکل آئے۔ بہت جلد طور طریقوں میں ایسی تبدیلی آگئی کہ گائوں کے لوگ اسے ناگ پکارنے اور سجل کے سائے سے بھی ڈرنے لگے۔
سجل اب آوارہ اور بدکردار مشہور ہوگیا جس حسین لڑکی کو دیکھتا اس کے درپے ہوجاتا۔ کسی خوبصورت دوشیزہ کا گھر سے نکلنا اور گائوں کی نہر تک جانا محال ہوگیا۔ وہ جب تک اس لڑکی کی زندگی برباد نہ کرلیتا چین سے نہ بیٹھتا تھا۔ تبھی گائوں کی گوریوں نے کھیتوںمیں کام کرنا اور کنویں سے پانی بھرلانا ہی چھوڑ دیا۔
سبھی گائوں والے اس سے نفرت کرنے لگے لیکن وہ اس کے منہ نہیں لگتے تھے، کیونکہ سجل ناگ کو چھیڑنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ خدا جانے علاقے کے زمیندار اس سے کون سا کام لیتے تھے کہ پولیس سجل پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتی تھی۔ زمیندار کی پشت پناہی کے باعث وہ اب علاقے کا غنڈہ بن چکاتھا۔
سجل نے نجانے کتنی معصوم لڑکیوں کی زندگیاں برباد کی تھیں کہ چچا رحیم اپنے اس بیٹے کے سدھار کے لئے مسجد میں دعائیں مانگا کرتے تھے، جس نے اس شریف انسان کی پگڑی کا شملہ نیچا کردیا تھا۔ جب لوگ سجل کی شکایتیں لیکر چچا رحیم کے پاس جاتے تو وہ خوف خدا سے کانپ جاتے اور شرم سے پانی پانی ہوجاتے تھے۔
کچھ لوگوں نے رحیم چچا کو مشورہ دیا کہ اپنے بیٹے کو لگام ڈال دو، اس کی شادی کردوگے تو یہ کھونٹے سے بندھ جائے گا۔
اسے اپنی بیٹی کون شریف آدمی دے گا… چاچا کا جواب ہوتا، اسے تو کوئی اٹھا کر ہی لانی پڑے گی۔
سجل ایک خوبرو تندومند اور اونچے قد کاٹھ کا جوان تھا۔ اس کی صورت بھی اچھی تھی۔آنکھیں گہری کالی بھور لیکن دل بھی کالا تھا، تبھی گائوں کی کسی لڑکی کی ہمت نہ پڑی کہ اس کا سامنا کرتی۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو سچ مچ دل ہار گئی۔کہتے ہیں ناکہ محبت بے اختیار ہوجاتی ہے، کی نہیں جاتی، تو سچ ہی کہتے ہیں۔ میںبھی پہلی نظر میں اسے دیکھ کر مجنوں ہوگئی۔ جانتی تھی کہ وہ کیسا بدکردار اور خوفناک ہے لیکن کیسا بھی خوفناک تھا اس کی خوبصورتی ایک بار تو دل گرما دیتی تھی۔
مجھے بھی اعتراف ہے کہ میں نے گائوںمیں آج تک ایسا با اعتماد سجیلا گبرو نہیں دیکھا تھا۔ سوچنے لگی اے کاش اس کو راہ راست پر لاسکتی۔ سنا تھا کہ محبت اور موت میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ ہر شے کو بدل دیں، تبھی میں نے بھی اس شیش ناگ کو بدل ڈالنے کی قسم کھالی۔
وہ جو کسی لڑکی کو دیکھ لیتا تو اس کے حسن کے لئے بدبختی کی علامت بن جاتا تھا۔ میں نے اسے اپنے حسن کے جال میں جکڑنے کا ارادہ کرلیا۔ وہ میرے والد کے تایازاد بھائی کا بیٹاتھا، میرا اس سے پردہ نہیں تھا لیکن ہم سب لڑکیاں ہی اس سے پردہ کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ بچپن میں تو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھیلے تھے، جوانی آتے ہی پردہ ہوگیا۔
میرا اس کا سامنا پھر سولہ برس کی عمر میں اس وقت ہوا جب ایک روز کھیت سے ساگ کا گٹھا سرپر رکھ کر گھر لوٹ رہی تھی وہ سامنے پگڈنڈی سے آتا دکھائی دیا۔
میں نے اسے دیکھ کر ساگ کا گٹھا گرادیا اور جہاں کھڑی تھی وہیںبیٹھ کر پائوں پکڑ لیا، کچھ اس انداز سے اداکاری کرنے لگی جیسے پائوںمیں کانٹا چبھ گیا ہو!
اس نے مجھے بیٹھے د یکھا تو پکار کر پوچھا کیا ہوا تجھے؟
تجھے کیا؟ نفرت سے جواب دے کر میں اپنے پائوں پر دوبارہ جھک گئی۔ میرے انداز تخاطب نے گویا اس کے اندر کے ناگ کو ٹھوکر ماردی…تلملا کر نزدیک چلا آیا۔ حسنہ یہ تو ہے؟
ہاں… میں ہوں حسنہ… کیا ابھی تک تجھے میرا نام یاد ہے، اتنے برس بعد بھی؟
کتنے برس؟ ابھی کل ہی کی تو بات ہے تو ہماری گلی میں ننگے پائوں دوڑتی پھرتی تھی۔
آج بھی ننگے پائوں ہوں … پیر میں جوتی ہوتی تو کانٹا کیوں چبھتا۔
سجل ناگ کو شاید اس بات کی توقع نہ تھی کہ میں ایک نازک سی لڑکی اس درندہ صفت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گی کہ جس کے نام سے گائوں والے دہشت کھاتے تھے۔
میں نکال دوں تیرے پیر کا کانٹا… وہ مجھ پر جھکا تو میں نے اسے پرے کرتے ہوئے کہا۔
مجھے مت چھوئو،کیا تجھے لاج نہیں آتی؟
لاج… وہ زور سے ہنسا۔کیا ہوتی ہے لاج؟
کسی دوشیزہ کی خوبصورتی ہوتی ہے اس کی لاج مگر تو کیا جانے تیرا تو کام ہی ہے… کسی کی خوبصورتی کو بدصورتی میں بدل دینا۔
بڑی دلیر بن رہی ہے کیا تجھے مجھ سے ڈر نہیں آتا… اگر میں تیری خوبصورتی کو بدصورتی میں بدل دوں؟
ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اگر تو دلیر ہے تو خوبصورت کو خوبصورت ہی رہنے دے اور عزت سے اسے اپنا بنالے۔
کیا …کیا؟ وہ حیران ہو کر بولا۔
یہی کہ میرا ہاتھ میرے ابا سے مانگ لے۔آخر تو… تو میرے چاچے کا بیٹا ہے۔
اچھا… چل سوچوں گا۔ جیسے کہ اس کو توقع نہ تھی یہ لڑکی اسے ایسا جواب دے گی۔ وہ درخت سے ٹیک لگا کر مجھے جاتے ہوئے دیکھنے لگا۔
ابھی دو قدم چلی تھی کہ آواز دی…اے خوبصورت یہ اپنا ساگ کا گٹھر تو لیتی جا۔
دیکھ نہیں رہے میرے پیر میں کانٹا چبھا ہے، کتنی تکلیف ہے میں کیسے اسے اٹھائوں؟ تو ہی میرے گھر تک پہنچادے۔
سجل کا گھر ہمارے مکان کے پاس ہی تھا۔ کسی انجانی قوت نے جیسے اسے حکم دیا ہو، اس نے ساگ کا گٹھر اٹھالیا اور میرے پیچھے پیچھے ایک پالتو جانور کی مانند چلنے لگا۔گھر کے دروازے پر پہنچ کر اس نے گٹھر کو میرے سر پر دھردیا۔
لے اب جا… اور دوبارہ مجھے نظر نہ آنا، ورنہ…
ورنہ کیا؟میں بھی ڈھیٹ بن گئی۔
چاچا… جیسے وہ زچ آگیا ہو۔ وہ دیکھ سامنے تیرا باپ کھیتوں سے آرہا ہے۔ اس کا لحاظ نہ ہوتا تو ابھی بانہہ سے کھینچ کر لے جاتا۔
بانہہ سے کھینچنے کی ضرورت نہیں ہے ابا سے میری بانہہ مانگ لے نا۔ یہ کہہ کر میں جھپاک سے گھر کے اندر چلی گئی۔
ضرور ابا نے اسے مجھ سے بات کرتے دیکھ لیاتھا تبھی جب وہ گھر کے اندر داخل ہوا تو رنگت اڑی ہوئی اور پسینہ پسینہ ہورہے تھے۔ آتے ہی مجھ سے سوال کیا، یہ سجل ہمارے در پر کیوں کھڑا تھا؟ آپ کا پوچھ رہا تھا ابا۔
میرا پوچھ ر ہا تھا اس بدمعاش کو مجھ سے کیا کام پڑ گیا بھئی۔
جب ملے تو اسی سے پوچھ لینا۔ ابا گہری سوچ میں ڈوب گئے، جیسے سجل کے در تک آنے کا مطلب سمجھ گئے ہوں۔
اماں چولہے کے پاس بیٹھی آگ سے بھری لکڑیاں کھینچ کر ان پر پانی کے چھینٹے ڈال رہی تھی کیونکہ ہانڈی پک کر تیار تھی اور اب چولہے میں انگارے ہی کافی تھے، جلتی بلتی لکڑیوں کی ضرورت نہ رہی تھی۔
یہ سجل بدمعاش کیوں ہمارے در تک آیا؟ حسنہ کی ماں… ابا نے متفکر ہو کر اماں کو مخاطب کیا۔
میں کیا جانوں۔
تو تو نجانے کب جانے گی۔ سنا ہے ڈائن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے، ہمارا تو ان سے چوتھا گھر ہے۔
ہاں ہے تو! مگر سجل کب گھر میں رہتاہے، زیادہ تو بدمعاشوں کے اڈوں پر اس کا ٹھکانہ ہے کبھی کبھار نظر آتا ہے۔
مجھے تو اس کا گلی میں کبھی کبھار آنا بھی گوارا نہیں ہے، نجانے کب کسے ڈس جائے ناگ جو ٹہرا۔
حسنہ کے ابا یہ تم آج کیسی باتیں لے بیٹھے ہو، ہانڈی تیار ہے، تنور پر روٹیاں لگا چکی اب کھانا کھالو۔
والد نے ٹھنڈی آہ بھری اور نلکے سے ہاتھ منہ دھو کر چارپائی پر براجمان ہوگئے۔
بظاہر وہ کھانا کھارہے تھے مگر ایک ایک لقمہ کے ساتھ جیسے دور دراز اندیشوں کو چبا رہے ہوں۔ تھوڑے سے توقف کے بعد بولے حسنہ سے کہو اب باہر نہ جایا کرے۔
یہ کب جاتی ہے کبھی کبھار ہی ضرورت سے نکلتی ہے۔ پہلے تم نے اس کا اسکول چھڑوادیا، بیچاری کو چھٹی جماعت بھی پاس نہ کرنے دی۔
اماں کے تاسف کا میرے باپ نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ من ہی من میں نجانے کون سے اندیشے اسے ڈرا رہے تھے لیکن میں آج بہت مسرور تھی کہ وہ سجل جس کو سبھی غنڈہ اور بدمعاش کہتے تھے، ناگ بلاتے تھے۔ آج وہی میرے قبضے میں آگیا تھا۔ اس بات کی تو مجھے ہر گز امید نہ تھی کہ میرے حسن کا جادو اس کے سر چڑھ کر بولے گا لیکن عشق کا بھی کوئی دین ایمان نہیں۔
کوئی کتنا بھی برا ہو یہ امید باقی رہتی ہے کہ شاید برائی سے کبھی باز آجائے اور سدھر جائے۔ میرے دل میں کبھی یہی جوت جگی تھی جب ہمارے گائوںکی ایک لڑکی لیلا نے اپنی دکھ بھری داستان بتائی تھی کہ کیسے اس ظالم سجل نے اسے برباد کیا، تبھی قسم کھالی تھی کہ لیلا کا بدلہ ضرور لوںگی۔ سجل کو راہ راست پر لائوں گی چاہے مجھے اس کے ساتھ شادی ہی کیوںنہ کرنی پڑے۔ حالانکہ یہ دیوانگی تھی کہ جس بدمعاش سے سارا گائوںبات کرنے سے گریزکرتا تھا اس کے کرتوتوں کو جانتے ہوئے میں نے اسے سدھارنے کے شوق میں بیاہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔
امید کے برعکس بہت جلد مجھے اپنے عزائم میں کامیابی حاصل ہوگئی کیونکہ میرا خیال تھا کہ برُے سے برا مرد سدھر سکتا ہے اگر اس کا دل کسی پر آجائے۔ اور جس پردل آئے وہ نیک عورت ہو۔
چچا رحیم کی اللہ نے سن لی اور سجل میرے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ اس کو خود بھی یقین نہ آتا ہوگا وہ کسی کے عشق میں گرفتار ہوسکتا ہے اور اس کی بھی راتوں کی نیندیں حرام ہوسکتی ہیں۔
وہ اپنی ساری بدکرداری اور بدمعاشی بھول گیا۔ شاید کہ خدا کی طرف سے اس کے مقدر میں سدھرنا لکھا تھا یا پھر اس کے ماں باپ کی دعائیں قبول ہوگئیں… کیونکہ سبھی والدین کو یقین ہوتا ہے کہ بری اولاد کبھی نہ کبھی سدھر جاتی ہے۔ خدا ایک بار تو ہر گناہ گار اور خطاکار کو یہ موقع ضرور دیتا ہے۔
سجل ناگ اپنی ساری زہرناکی بھول گیا اور میرے عشق میں رات دن بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ میرا عشق گویا اس کے کڑیل وجود پر بجلی بن کر گرا تھا۔ وہ گم صم رہنے لگا۔ اب گھر سے کم نکلتا تھا۔ اس کے والدین کو حیرت ہوئی کہ جو کسی کے قابو میں نہ آتا تھا اسے کس نے ایسا قابو کیا ہے کہ اب زندوںمیں ہے نہ مردوںمیں۔
باپ نے بار بار پوچھا کہ تجھے کیا ہوا ہے جو بھولے بھٹکے گھر آتا تھا، اب گھر سے نکلتا ہی نہیں ہے، تب وہ لب کشا ہوا۔
شادی کرنا چاہتا ہوں۔
کون بدبخت تجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دے گا۔
ظاہر ہے اپنے ہی دیںگے، کوئی غیر تو نہیںدے گا۔ ابا، چاچا فضل دین کے پاس جاکر ان کے پائوں پر اپنی پگڑی ڈال دو، آگے ہماری قسمت… ہاں کچھ ترلے منتیں تو کرنا پڑیں گی۔ جو قسم کہو اٹھانے کو تیار ہوں، حسنہ کا رشتہ مل گیا تو سجل عمر بھر کوئی برا کام نہیں کرے گا۔
سجل کے باپ نے ابا کے قدموںپر پگڑی رکھ دی اور اس کی ماں نے جھولی پھیلا کر کہا، ہم کو مایوس نہ کرنا… یہ پہلا اورآخری موقع ہے میرے بیٹے کے سدھرنے کا… وہ مسجد کے اندر جاکر قسم اٹھانے کو تیار ہے کہ حسنہ کا ہاتھ مل گیا تو پھر کبھی برائی کی طرف نہ جائے گا۔
کافی سوچ بچار کے بعد ابا نے ہاں کردی۔ جانتا تھا کہ سجل درتک آچکا ہے اسے گھر کی دہلیز کو پار کرتے بھی دیر نہ لگے گی…بیٹی بیاہنی ہے، آگے اس کا نصیب۔ ابا نے رحیم چچا سے کہا بڑے بھائی ہو میرے قدموںمیں پگڑی ڈال کر مجھے گناہ گار نہ کرو اور پگڑی اٹھا کر ان کے سرپر رکھ دی۔
خوشخبری سنتے ہی سجل کے دل کا مرجھایا ہوا پھول کھل اٹھا۔ سوکھے دھانوں پانی پڑ گیاتھا۔ وہ دیوانہ وار باپ سے لپٹ گیا۔چند دنوں بعد ہی میں دلہن بن کر اس کے آنگن میں سج گئی۔
اس رشتے پر سبھی دنگ تھے اورکچھ میرے والد کی عقل کا ماتم کررہے تھے کہ جانتے بوجھتے بیٹی کو آگ میںجھونک دیا لیکن ابا اپنی خفت مٹانے کو ہر ایک سے یہی کہتے تھے۔
اپنے پھر اپنے ہوتے ہیں…بازو ٹوٹا ہوا ہو تو اپنے گلے لگاتے ہیں۔ اللہ سے امیدہے شادی کے بعد سجل سدھر جائے گا۔
والد کی دعا قبول ہوئی کہ میرا ارادہ نیک تھا۔ سجل نے برے کاموں سے توبہ کرلی اور وہ واقعی سدھر گیا۔ اب وہ کماحقہ شریف آدمی بن گیاتھا۔ اس نے ہر غلط روش کو ترک کردیا۔ڈاکہ، چوری چکاری، ہیرا پھیری، بدمعاشی، بدکاری، شراب نوشی غرض ہر برائی سے منہ موڑ لیا۔
اب اس کی زندگی پرسکون اور دل مطمئن تھا۔ مجھے کہتا تھا، حسنہ تم مجھے پہلے ہی کیوںنہ مل گئیں جو میںاتنے پاپوں سے بچ جاتا اور میں جواب دیتی صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے، توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ماضی کے بارے میںاتنامت سوچا کرو جو وقت گزر گیا ہاتھ نہیںآنے کا… حال کے بارے میں سوچو۔
وقت گزرتا گیا۔ اللہ نے ہم کو دو بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نواز دیا۔ زندگی خوشیوں بھری ہوگئی۔ میں پانچویں پاس تھی اور سجل نے دوسری جماعت سے ہی اسکول چھوڑ دیا تھا، وہ پڑھا لکھا نہ تھا۔کھیتوں میں کام کرنے کی عادت نہ تھی، بھری دوپہروں تھوڑی سی جو زمین تھی اس کی کھیتی باڑی میں چچا رحیم کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ ساتھ مال مویشی چَرانے لگا۔ ہمارا تو اچھا گزارا ہوجاتا تھا کیونکہ زرعی اراضی چار بیگھے بھی ہو تو اس کی دیکھ بھال سے آدمی بھوکا نہیں مرتا۔
وقت کے پَر ہوتے ہیں، اسے گزرتے دیر نہیں لگتی دیکھتے دیکھتے ہمارے بچے جوان ہوگئے۔
مجھ سے زیادہ سجل کو بیٹیوںکی شادی کی فکر تھی لیکن اس کا سیاہ ماضی آج بھی اس کی بیٹیوں کے رشتوں میں حائل تھا۔
وہ لڑکیوں کو پڑھانے کے خلاف تھا، مگر میںنے ضد کرکے دونوں کو اسکول پڑھایا۔ اسی دوران کسی طرح ان کے مراسم گائوں کے دو نوجوانوں سے ہوگئے۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے، سمرا اور نمرا کی نجانے کیسے آنکھیںچار ہوئیں اور یہ … ان لڑکوں سے چوری چھپے ملاقاتیں کرنے لگیں۔ میں نے ان کی اچھی تربیت کی تھی، پھر بھی وہ کچی عمر میں جذبات کی رو میں بہہ گئیں۔
ایک روز میرے بیٹے کو کسی نے بتادیا کہ تیری بہنیںکھیتوںمیں چھپ چھپ کر فلاں فلاں سے ملتی ہیں، وہ تو زیادہ جذباتی تھا صرف پندرہ برس اس کی عمر تھی، خالد نے باپ کو اس معاملے سے آگاہ کردیا کہ ایسے لڑکے مجھے طعنے دیتے ہیں ۔ یہ سن کر میرے شوہر کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ آپے سے باہر ہوگیا۔
اب وہ وقت آگیاتھا جس کو مقدر نے اپنے انتقام کے لئے مقرر کیا تھا۔ جوان بچیوں کا باپ ہونابھی ایک قیامت ہوتاہے۔ اب سجل کو صحیح معنوںمیں احساس ہوا کہ جن لوگوں کی عزتوں کواس نے روندا تھا ان پر کیا گزری تھی۔
جن سے بیٹیوں کے معاشقے تھے وہ ان لڑکوں کو سبق پڑھانا چاہتا تھا لیکن میں نے سجل کو روکا اور سمجھایا کہ بہتر ہے ان سے ہی بیٹیوںکو بیاہ دو، کیونکہ ماضی انسان کا عمر بھر پیچھا کرتا رہتاہے۔ تمہارا ماضی داغدار ہے، سیدھے سبھائو کوئی تمہاری لڑکیوں کو بیاہ کر لے جانے سے رہا۔
یہ دونوں لڑکے شریف گھرانوں کے تھے۔ سجل نے ان کو باری باری بلا کر کہا کہ مجھے معلوم ہوچکاہے تم لوگ میرے گھر میں نقب لگانے کی فکروں میں ہو۔ بہتر ہے اپنے رشتے مانگ کر مناسب طریقے سے میری بچیاں بیاہ لے جائو، ورنہ میں تم کو زندہ درگور کردوں گا۔
وہ نوجوان امجد اور اطہر ڈر گئے اور انہوںنے مارے باندھے میری بیٹیوں سے منگنیاں کرلیں۔ سجل خوش تھا کہ جب ہماری بچیوں کو من پسند رشتے مل گئے ہیں تو اب چوری چھپے کی ملاقاتوںاور نامہ و پیام کا سلسلہ بند ہوجائے گا اور ڈھکے چھپے تعلق حقیقی رشتوں میں بدل جائیں گے۔
بدقسمتی کہ ان دونوں نوجوانوں کے رشتے بچپن سے ان کے قریبی عزیزوں کی لڑکیوں سے طے تھے۔ جب ان لڑکیوں کے والدین کو علم ہوا کہ ان کے ہونے والے دامادوں نے بچپن کے طے شدہ رشتے توڑ کر سجل کی لڑکیوں سے منگنیاں کرلی ہیںتو وہ لوگ مل کر امجد اور اطہر کے والد کے پاس پہنچے جو کہ ان کے چچیرے بھائی تھے۔ بات جھگڑے سے آگے بڑھ گئی تو امجد اور اطہر کی بہنوں کو انہوں نے طلاق کی دھمکی دے کر میکے پہنچادیا۔ یہ سانحہ بڑا تھا کہ بیاہتا اور بچوں کی مائیں دو عورتیں مطلقہ ہو نے والی تھیں۔محض اس وجہ سے کہ ان کے بھائیوںنے اپنی مرضی کی منگنیاں کرلی تھیں۔
خالد اور اطہر دونوں کے والدین نے ان پر دبائو ڈال کر ہماری لڑکیوں سے رشتہ ختم کرادیا۔ یہ منگنیاں اتنی عجلت میں ہوئی تھیں کہ گائوں والوں کویقین تھا یہ بیل منڈھے نہ چڑھے گی، وہی ہوا۔
میری بڑی بیٹی کی منگنی پہلے ٹوٹ گئی اور چھوٹی کی منگنی اس کے چند روز بعد ختم ہوگئی۔ یہ سجل کی غیرت پر ایک طمانچہ تھا۔ وہ اپنی اس توہین کو برداشت نہ کرسکا۔ اس نے اپنے ماضی کے ساتھیوںکو اکٹھا کیا اور لڑکے والوں کے گھروں پر دھاوا بول دیا۔
میںنے روکا بھی تو کہا، میں اب ان کو مزہ چکھا کر رہوںگا۔ جب شادیاں نہ کرنی تھیںتو میری لڑکیوں سے محبت کا کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت تھی۔ سجل کی پرانی خو لوٹ آئی تھی۔ اس کے اندر کا سویا ہوا ناگ برسوں بعد جاگ اٹھا۔ یہ جھگڑا معمولی نہ تھا، خونی فساد تھا کیونکہ رشتے سے انکار ہی نہیں ہوا تھا منگنیاں بھی ٹوٹی تھیں۔ اس نے دونوں لڑکوں خالد اور اطہر کو باری باری بندوق کی گولیوںسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور پولیس کے آنے سے پہلے خود کو بھی بندوق کے بٹ سر پر مار مار کر لہولہان کرلیا۔
یہی تھا مکافات عمل… شاید قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے قدرت سجل سے انتقام لے چکی تھی۔ وہ جس نام نہاد عزت کا بدلہ لینے گیاتھا وہ تو کب کی برباد ہوچکی تھی، اب دونوں بیٹیاں سر پکڑے اپنے نصیبوں کو کوس رہی تھیں۔ سجل نے چاہا کہ وہ خودکشی کرلے لیکن وہ خودکشی نہ کرسکا۔ پولیس نے بندوق اس سے چھینی اور ہاتھوںمیں ہتھکڑیاں پہنا دیں۔
آہ… کبھی کبھی گناہوں کا گھڑا اتنا بھاری ہوجاتا ہے کہ انسان ڈوب کر رہتاہے۔ سجل نے نجانے کتنے شریفوں کا کس قدر دل دکھایا تھا کہ وہ ایسے انجام سے نہ بچ سکا۔ اس کا انتقال عمر قید کے دوران جیل میں ہی ہوگیا۔ وہ پھانسی لگنے سے تو بچ گیا لیکن جو ذہنی اذیت اسے برداشت کرنا پڑی وہ پھانسی کی اذیت سے زیادہ تھی۔
(س، ق …ڈیرہ غازی خان)