رانو ایک غریب لڑکی تھی۔ یوں تو سلیم بھی زیادہ امیر نہ تھا، مگر محبت اندھی ہوتی ہے یہ امیری، غریبی نہیں دیکھتی ۔ یہ آگ تو دل سے دل تک جاتی ہے۔ جب آگ دونوں طرف برابر لگی تو سلیم نے رانو سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس لڑکی کے ماں باپ غریب ضرور تھے مگر یہ نخوت بھرے لوگ تھے ، سو سلیم اور رانو کی ایک نہ سنی اور ان کے ارمانوں پر اپنی مخالفت کی جلتی ہوئی راکھ ڈال دی۔ سلیم کے ماں باپ نے بھی رانو سے سلیم کی شادی کو ایک نا ممکن امر قرار دے دیا۔ کچھ دنوں تک وہ دونوں بہت ناشاد رہے۔ رنج کا ایک سمندر ان دونوں کے دلوں میں موجزن تھا، جس میں وہ گلے گلے ڈوب گئے تھے۔ مایوسی کی اس دلدل سے نکلنے کا یارانہ تھا، مگر رانو کی آہوں نے سلیم کا کلیجہ شق کر ڈالا۔ وہ اب راتوں کو جاگتا تھا، لمبی اور سنسان سڑکوں پر چلتا چلا جاتا، یہ جانے بغیر کہ یہ راہ کدھر کو جاتی ہے۔ گھر تو بہت دور رہ جاتا تھا اور وہ انسانی بسیروں سے بھی پرے نکل جاتا۔ مسافت کی یہ تھکن کچھ دیر کے لئے دل کے درد کو دھیما ضرور کر دیتی تھی لیکن کچھ دیر بعد ہی یہ درد زیادہ شدت سے ابھرتا اور وہ کسی ویرانے میں ریت کے گھروندے کی مانند ڈھے پڑتا۔ سلیم کا ایک دوست ان دنوں اس کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ اس کی حالت پر غمزدہ تھا۔ وہ اس کی ڈھارس بندھانے کی کوشش کرتا۔ سلیم نے نشے کا سہارا لیا تو قدیر نے اسے روکا مگر وہ باز نہ آیا اور اس جھوٹے سہارے میں پناہ ڈھونڈ نے لگا، تبھی ایک دن قدیر نے اس کی غیرت کو جگایا اور کہا کہ جتنا نشہ کر لیا، وہ کر چکے ۔ اب ہوش میں آئو ، مصنوعی نشہ تو محبت کے پاکیزہ جذبے کی توہین ہے۔ اصل نشہ تو خود محبت ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب جنوں کی کیفیت طاقت بن جاتی ہے اور آدمی وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ ایک تم ہو کہ زور بازو سے رانو کو اپنا نہیں بنا سکتے۔ افسوس ہے، تم نے عشق و محبت دونوں کا نام ڈبو دیا ہے۔ یہی نہیں مردوں کا نام بھی ڈبو کر رکھ دیا ہے۔ اس کے طعنوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سلیم کو گویا انگلی پکڑنے کی دیر تھی۔ وہ سمجھا کہ قدیر نے اس کی مردانگی کو للکارا ہے – سب مخالفتوں کو غبارِ راہ کیا۔ رانو کو بھی کڑے تیور دکھا کر کہا۔ یہ رونا دھونا چھوڑو، محبت ہے تو ساتھ دو، ایسا کہ آگ کے دریا میں تیر کر آسمان کے اس کنارے تک چلنا پڑے تو چلنا ہو گا، ورنہ سوچ لو کہ محبت نہیں یا ہم نہیں۔ سلیم کے تیور دیکھ کر رانو ڈر گئی کہ اس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی ؟ بہر حال اس نے ہامی بھر لی اور ان دونوں نے گھر والوں کی لاکھ مخالفت کے باوجود نکاح کر لیا۔ را نو کیا ملی کہ دنیا مل گئی۔ اس کا دل و دماغ صورت تک بدل گئی ، ہر شے حسین اور پر کشش ہو گئی۔ جن کی محبت کا جذبہ جنون تک گیا ہو ، وہ جانتے ہوں گے کہ یہ کیسا نشہ ہوتا ہے اور اپنی محبت پا کر آدمی کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ سلیم اور رانو نے بھی سمجھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پا کر کائنات کو پا لیا ہے۔ انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بسا لیا۔ ایک پل بھی وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے تھے۔ وقت گزرتا گیا اور رانو ایک بچی کی ماں بن گئی۔ سلیم میں تو گو یا دگنی طاقت آ گئی تھی۔ اب وہ ڈبل شفٹ میں کام کرنے لگا تا کہ بیوی اور بچی کو زندگی کی ہر سہولت فراہم کر سکے۔ بیٹی کی صورت جب ایک ننھی سی مینا اس کے باغ میں چہکنے لگی تو اس میں دو بندوں کی محبت بھر گئی۔ وہ اب کام کرتے تھکتا نہ تھا اور سمجھتا تھا کہ اس کے مہکتے چمن کی بہار لازوال ہے۔ اس گلشن کو کسی کی بد نظر لگ سکتی ہے اور نہ خزاں کے سفاک ہاتھ اس کی شادابی تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ایک خام خیال تھا۔ جیسے دنیا کی ہر شے کو زوال ہے خوشیوں کو بھی زوال ہوتا ہے۔ سلیم کی پر مسرت دنیا کے شہاب پر وقت سے پہلے زوال شروع ہو گیا اور خوشی کا یہ چڑھتا چاند دھیرے دھیرے گہنانے لگا۔ ایک روز ایک بدبخت شخص سلیم کے گھر آیا، جو اس کا سگا ماموں تھا۔ وہ دنیا کا ستایا ہوا اور مصیبت کا مارا تھا۔ سلیم نے اسے ترس کھا کر اپنے گھر میں پناہ دے دی مگر اس ویرانیوں کے عفریت نے احسان کا بدلہ یوں دیا کہ سلیم کا ہنستا بستا گھر اجاڑ کر رکھ دیا۔ گھر میں دو خوش و خرم پیار کرنے والے آباد ہوں تو کبھی کبھی تیسرا اپنا بھی غیر بن جاتا ہے، جیسے پیار میں دو یار تو تیسرا خار کہلاتا ہے۔ ماموں بھی خار بن کر آیا – ان دنوں سلیم اپنی محنت کی بدولت بہت اچھا کما رہا تھا، گھر میں خوش حالی تھی۔ یہ خوشحالی دیکھ ماموں کو دھواں لگا اور پھر یہ دھواں اس کے دماغ میں بھر گیا۔ ا میاں بیوی کے درمیان جدائی کے بارے منصوبے سوچنے لگا۔ دراصل وہ چاہتا تھا کہ کسی طور رانو کو سلیم طلاق دے دے پھر وہ اپنی بیٹی کو اس کی دلہن بنانے کی راہ ہموار کرلے۔ عورت تو یوں بھی کانوں کی کچی ہوتی ہے اور کبھی کبھار عقل کی بودی بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ رانو کچھ زیادہ ہی نادان نکلی۔ اس نے ماموں کی ، سلیم کے متعلق چغلیوں اور بد خواہی کے اس سیلاب کو روکنے کی بجائے محبت کو کچا گھر بنا کر بد گمانی کے سیلاب کے حوالے کر دیا۔ اب ان میاں بیوی میں روز روز جھگڑا رہنے لگا۔ سلیم جب رات کو شفٹ سے لوٹتا تو رانو اس سے جھگڑ پڑتی۔ کبھی اس کے کپڑے سونگھتی اور کبھی اس کے چہرے پر لپ اسٹک کے ہلکے پھلکے آثار تلاش کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ حیران ہوتا کہ رانو کو کیا ہو گیا ہے ؟ کہیں اس کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ وہ اسے سمجھاتا کہ میری شرٹ پر جو بال چپکا ہوا تم نے دریافت کیا ہے، یہ تمہارا ہی تو ہے اور آستین پر لپ اسٹک کا ہلکا سا داغ ؟ یہ شرٹ بھی تو تمہی نے مجھے اپنے ہاتھوں سے استری کر کے دی تھی۔ جاتے وقت تمہارا کنگا ہی تو استعمال کرتا ہوں۔ دراصل یہ ساری کارستانیاں تو ماموں کی تھیں، جن سے یہ دونوں ابھی تک ناواقف تھے۔ بہر حال ماموں نے ایسی کہانی گھڑ کر رانو کو سنائی کہ وہ شوہر سے بد گمان ہوتی چلی گئی اور وہ حد آ گئی جب وہ اس سے نفرت کا اظہار کرنے لگی۔
ایک روز سلیم کے کوٹ کی جیب سے ایک لڑکی کی تصویر نکلی جو موقعہ پا کر خود ماموں نے اس کی جیب میں ڈال دی تھی۔ رانو کے دماغ میں شک راسخ ہو کر یقین میں بدل گیا کہ سلیم راتوں کو ڈیوٹی کے بہانے اس سے بے وفائی کا مرتب ہو رہا ہے۔ ماموں سو فی صد صحیح کہتے ہیں۔ سلیم بھی روز روز کی کل کل سے عاجز رہنے لگا تھا۔ ایک دن اس نے رانو پر ہاتھ اٹھادیا تو وہ روٹھ کر میکے چلی گئی۔ ماموں تو یہی چاہتا تھا۔ اب وہ رانو کے بارے میں غلط باتیں کر کے سلیم کا دل برا کرنے لگا۔ کہتا کہ رانو کا گھرانہ دراصل غلط خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور یہ بیٹیوں کی کمائی کھانے والے لوگ ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو شرفا کے علاقے میں آبسے ہیں ، ورنہ پیچھے سے یہ ٹھیک چلن کے لوگ نہیں ہیں۔ رانو کا باپ اور ماں شادیوں میں ناچ گانا کر کے بچوں کو پرورش کیا کرتے تھے۔ اب تم ان لوگوں سے ناتا مت رکھنا کیونکہ ماضی میں یہ لوگ میراثی کہلاتے تھے۔ ماموں کی ایسی باتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سلگتا ہوا ذہن اور سلگ اٹھتا تھا، تاہم سلیم کو اپنی بچی سے بہت پیار تھا۔ وہ ایک ماہ بھی اس کی جدائی برداشت نہ کر سکا اور رانو کو لینے اس کے ان رشتے داروں کے گھر چلا گیا، جہاں وہ رہ رہی تھی۔ رانو کے گھر والے تو اپنی پچھلی توہین کے انتظام میں سلگ رہے تھے۔ یہ موقع ان کے ہاتھ آیا تو انہوں نے سوچا کہ وار کیوں خطا جانے دیا جائے۔ پس جو نہی سلیم رانو کے میکے میں گیا ، قدم رکھتے ہی پہلا وار خود رانو نے کیا اور پاس پڑا گملا اٹھا کر سلیم کو دے مارا۔ چھوٹے سے اس گملے میں سدا بہار کے پھول لگے ہوئے تھے ، جو اس کے منہ پر لگے اور گملا مٹی سمیت فرش پر جاپڑا، گویا آج پھول آڑے آ گئے جو ڈھال بن گئے۔ اگر مٹی آنکھوں میں پڑ جاتی تو اندھیرا لازمی تھا۔ بہر حال ہاتھوں اور گردن پر زخم آگئے۔ سلیم سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وہ کبھی یوں رانوں کے ہاتھوں چوٹ کھائے گا۔ دشمن پتھر مارے اور دوست پھول مارے تو دشمن کے پتھر سے اتنی چوٹ نہیں کہ لگتی جس قدر کے دوست کے مارے ہوئے پھول سے لگتی ہے۔ ابھی وہ اس کاری وار سے سنبھلنے نہ پایا تھا کہ رانو کے گھر والے اس پر ٹوٹ پڑے۔ گویا وہ ایک اشارے کے منتظر تھے۔ اس کا بازو دو جگہ سے ٹوٹ گیا۔ ٹوٹے ہوئے بازو اور کرچی کرچی دل کو سمیٹ کر وہ وہاں سے چلا آیا۔ اس روز جان تو بچ گئی مگر عزت خاک میں مل گئی۔ عزت تو اسی دن خاک میں مل گئی تھی، جب اس نے ان خاک نشینوں کی لڑکی کو اپنی عزت بنا کر گھر میں لا بسایا تھا۔ اس وقت سلیم کے والد نے اس کو بہت سمجھایا تھا کہ یہ لوگ محلے میں نئے آئے ہیں اور ان کے بارے اچھی باتیں سننے کو نہیں مل رہی ہیں۔ جانے کیسا ماضی ہے ان کا ، تم یہاں شادی سے باز رہو مگر بھلا ہو عشق کا، جس نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ رانو کے میکے والوں کی اس مدارات کے بعد وہ اب اسپتال میں تھا اور اس وقت کو کوستا تھا کہ جب وہ رانو سے ملا تھا۔ اس سے ملاقات کی خاطر اس کی چھت پر پچھلی طرف سے پھلانگ کر چڑھتا تھا۔ نہیں جانتا تھا کہ اتنی بلندی پر چڑھنے سے گرا تو جان بھی جاسکتی ہے۔ اب جان جارہی تھی اور تب عزت جا رہی تھی مگر اس کو اس وقت تو کسی قسم کے خسارے کی پروا نہ تھی۔ سچ ہے عورت کی محبت آدمی کو خوار کرتی ہے لیکن مشکوک خاندان کی لڑکی کی محبت اسے ذلیل و خوار کر دیتی ہے۔ وہ اب اسپتال میں تنہا پڑا، انہی سوچوں میں ڈبکیاں لگا رہا تھا۔ اگر کوئی آتا تھا مزاج پرسی کو تو وہ ماموں تھے ، جو اس وقت اس کے بہت زیادہ غم خوار بنے ہوئے تھے۔ ماموں کی باتیں کچھ زیادہ ہی رانو کے کردار بارے اشتعال انگیز ہوتی جاتی تھیں، تبھی سلیم کو شک ہوا کہ یہ تمام کارستانی انہی کی نہ ہو ، جن کی بیٹی سے میں نے شادی سے انکار کیا تھا اور پھر بیٹے بہو سے بھی ان کی ایسی ٹھنی کہ وہاں سے نکال دیئے گئے اور میں نے یہ سوچ کر گھر میں رکھ لیا کہ میں رات کی ڈیوٹی کرتا ہوں، تو میری بیوی یوی اور اور بچی اکیلے رہتے ہیں۔ ہیں۔ ماموں باپ کی جگہ ہیں، یہ ہمارے ساتھ رہیں گے تو میرے اہل خانہ کو تحفظ ملے گا۔ ایک روز ماموں اپنی بیٹی شبانہ کو ساتھ لے آئے اور چائے وغیرہ لانے کے بہانے اسے سلیم کے پاس چھوڑ کر چلے گئے تو پہلی بار سلیم کو اندازہ ہوا کہ اس کا ماموں، کسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت گیم کھیل رہا ہے۔ بھلا میری آستیوں اور قمیص پر پشت پر لپ اسٹک کے نشان کہاں سے آتے تھے اور میرے کنگھے میں چمکیلے ذرے کون لگاتا تھا؟ سب سے بڑھ کر لڑکی کی تصویر، جس کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا، کہاں سے میری کوٹ کی جیب میں آئی اور کس نے رکھ دی ؟ جب کہ ہمارے گھر میں تو سوائے ماموں کے اور کوئی رہتا بھی نہ تھا۔ گمان کی دھندلی تصویر واضح ہونے لگی اور سلیم کی سمجھ میں پوری بات آ گئی۔ اب تو ماموں کی شکل دیکھ کر ہی سلیم کے دل کے زخم ہرے ہو جاتے تھے۔ جب اسپتال سے آئے کچھ دن گزرے تو وہ شبانہ کو کھانا پکانے کے بہانے اس کے گھر لانے لگے۔ اب سلیم نے بھی ان سے انتقام کی ٹھان لی۔ ایک دن بولا۔ ماموں آپ کی بیٹی کھانا کتنا اچھا بناتی ہے ، کیا ہی اچھا ہوا گر یہ ہمارے ساتھ ہمیشہ کو رہنے کے لئے آجائے لیکن آپ کی بیوی اور بیٹے شاید نہیں مانیں گے۔ ماموں تو اسی دن کے منتظر تھے۔ میری مانو تو رانو کو بھلا دو۔ ان لوگوں نے جو سلوک تمہارے ساتھ کہ تھ کیا ہے ، وہ تمہاری جان کے درپہ ہیں۔ مگر اس حال میں اب کون مجھے گلے لگائے گا ماموں ! سلیم نے کراہ کر کہا۔ میں لگاؤں گا بیٹے، تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔ اپنے ہی تو اپنوں کو گلے لگاتے ہیں۔ اس جواب پر سلیم دل میں ہنسا۔ کیوں نہیں، میں ضرور آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا۔ مگر ایک شرط میری ہے۔ ماموں نے کہا کہ یہ بیاہ تم کو سات دن کے اندر اندر کرنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ ان ڈھول والوں کی لڑکی کا بھوت پھر سے تمہیں چمٹ جائے۔ ٹھیک ہے ماموں، آپ تیاری کریں۔ ماموں نے سرپٹ دوڑ بھاگ کر کے شادی کی تیاری کرلی۔ روٹھی ہوئی بیوی اور بیٹوں کو بھی منا لیا۔
گرچہ وہ ہر گز اس شادی پر راضی نہ تھے مگر بادل نخواستہ شامل ہو گئے۔ یوں ماموں نے اپنی دانست میں چال میں کامیاب ہو کر بیٹی سلیم کو ٹکا دی۔ اس نے بھی صرف ایک شب کا بندھن باندھا۔ اگلے دن کہا کہ تمہاری لڑکی تو مجھ سے بیاہ پر راضی ہی نہیں تھی۔ تم نے زبر دستی اس کی مجھ سے شادی کرائی۔ وہ رات بھر روتی رہی ہے کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یوں بھی لڑکی اٹھارہ سال کی ہو تو قانون کی نظر میں بالغ ہوتی ہے ، جب کہ شبانہ ابھی سولہ کی ہے۔ دو سال اور انتظار کر لیتے تو کیا برا تھا۔ اب اس کو اپنے گھر بٹھائو۔ اب جب آپ کے گھر یہ بیٹھ کر آنسو بہائے گی تو سمجھ جائو گے کہ کسی کا گھر اجاڑنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ اس بات پر سب ہی سلیم سے ناراض ہو گئے۔ سبھی نے کہا کہ سلیم بڑا ظالم نکلا، ایک بیوی کو نہ بسایا اور دوسری بے چاری کم سن کو ایک شب کے بعد ہی اس کے میکے لا بٹھایا۔ سلیم نے مگر دل کے کان اور آنکھوں کے دروازے بند کر لیے۔ اب وہ تھا یا دل دیوانہ ، جو ہر دم رانو کا نام لیتا تھا۔ ایک روز اچانک ایک دوست کی بہن کی شادی میں رانو کو دیکھا تو خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کو آواز دے کر بلایا۔ خدارا! ناراضی ختم کر دو اور واپس آ جائو۔ وہ بولی۔ میں تو ایک میراثی کی بیٹی ہوں، گانے ناچنے اور ڈھول بجانے والوں کی لڑکی ہوں۔ تمہارے گھر آ کر کیا کروں گی ؟ تم تو عزت دار ہو ، میری تمہارے جیسے شریف کے گھر میں جگہ کہاں ؟ رانو ! طعنے نہ مارو۔ مجھے برباد کرو نہ خود کو۔ تم جانتی ہو ، تمہارے بغیر میرا گھر اور میرے بغیر تمہارا دل آباد نہیں ہو سکتے ، پھر اپنی اور میری دنیا میں اتنی ویرانیاں بانٹنے سے کیا حاصل؟ یہ تو سب ماموں کی کارستانیاں تھیں۔ اور تم گویا عقل سے پیدل تھے۔ کیا دوسری بیوی سے اتنی جلدی دل بھر گیا ؟ کیا وہ دوشیزہ تمہارا گھر آباد نہیں کر سکی۔ میں ڈھول بجانے والوں کی لڑکی اور وہ شریفوں کی اولاد، میرا جو مقام تھا، میں وہاں ہوں۔ اس کا جو مقام ہے وہ اس کو دو۔ میں نے کہا نا ! مجھے تنگ مت کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری محبت سے شکست خوردہ ہو کر میں ساری دنیا کے چمن اجاڑ ڈالوں۔ دل میں اندھیرا ہو جائے تو آدمی قدم قدم پر ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔ میری بچی سے تو مجھے ملا دو۔ کتنے دن ہو گئے ہیں، میری آنکھوں کو اس کی شبیہ نے ٹھنڈک نہیں پہنچائی۔ بچی بھی دوسری بیوی سے جاکر پیدا کرو۔ وہ بے رحم ہو کر بولی۔ تیرے لیے تیری بچی مر گئی ہے۔ جب ساری التجائیں ناکام ہو گئیں تو اس کے اندر کا شکست خوردہ مرد ایک ناگ کی مانند پھنکارنے لگا۔ آخری بار پوچھتا ہوں، کیا میری بچی کو تو مجھ سے ملواؤ گی یا نہیں ؟ وہ غصے سے بولی۔ نہیں ، اب تو میں اس سے ڈھول بجوائوں گی۔ وہ شادیوں میں گائے گی اور ناچے گی۔ یہ سن کر سلیم نے چھری اٹھالی، جو سامنے پڑی تھی اور اس پر حملہ کر دیا۔ وار چوک گیا۔ رانو کی چاند سی پیشانی پر گہرا زخم آ گیا، خون نکلنے لگا۔ اس کا خون بہتا دیکھ کر سلیم گھبرا گیا۔ اسے چکر سا آ گیا۔ تب اس نے جانا کہ یہ میں نے کیا غضب کر دیا۔ جی چاہا کہ یہی چھری یک بارگی اپنے دل میں اتار لے۔ لوگ رانو کو اسپتال لے گئے اور وہ وہاں سے واپس لوٹ آیا۔ اب وہ سوچتا تھا کہ رانو میرے پاس تھی تو میں غریب ہو کر بھی غریب نہ تھا۔ مسرت اور سکون سے میرے دل کی تجوری بھری ہوئی تھی۔ اب وہ نہیں ہے تو میں خوشحال ہو کر بھی غریب ہوں کہ اس کی محبت کے خزانے سے محروم ہوں۔ کاش کوئی میری ساری دولت لے لے اور میری بیوی اور بچی کو مجھے لوٹا دے۔انسان کی ذرا سی غلطی کبھی کبھی اس کو کس قدر ویران کر دیتی ہے۔ وہ ساری عمر پچھتاتا رہ جاتا ہے۔ یہ کوئی سلیم کے دل سے پوچھے جس کا گھر اور دل دونوں آج بھی ویران ہیں۔