Wednesday, October 16, 2024

Unkahi Muhabbat

نہیں میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ نہیں ہو سکتا – وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بیٹھی ,اب تک بے یقینی کی کیفیت میں تھی – اس کے کہے لفظوں کو گونج اب بھی کانوں میں سن رہی تھی – وہ میرے ساتھ دھوکہ کر ہی نہیں سکتا – آخر میں وہ جو اس وقت سے ایک ہی جگہ پر ساکت بیٹھی تھی, تڑپ کر اٹھی, خود کو یقین دلاتے ہوئے بے ساختہ زبان لڑکھڑائی – اور وہ بے دم سی واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی – لیکن ایک وہ ہی تو ہے جو میرے ساتھ دھوکہ کر سکتا ہے – دل کو خوش فہمی سے نکالنے میں بس چند ہی پل لگے تھے-  کتنی آسانی سے بے وقوف بن گئی میں, اس کی اصلیت جان کر بھی اس کی باتوں میں  آ گئی-مائی گارڈ میں اتنی احمق ,اتنی کم عقل کس طرح ہو سکتی ہوں – کتنی آسانی سے اس نے مجھ سے بدلہ لیا اور میں اس بار اس کا دل اپنے بال نوچنے کو چاہا- واقعی اس نے سب کچھ اپنی رضامندی سے ہی تو کیا تھا, کوئی خبر کوئی دباؤ نہ تھا بہت آرام سے وہ ,وہ سب کچھ کرتی چلی گئی- جو وہ اس سے کہتا رہا – اس کی ہر بات پہ آنکھ بند کر کے یقین کرتی رہی – پھر اب کس لیے اپنے کیے پچھتا رہی تھی- تو پھر آج کے بعد زندگی میں پچھتاوے کے سوا باقی کچھ تھا ہی نہیں – کمرے میں اس وقت الارم کی آواز گونج رہی تھی- الارم کیآ آواز اتنی اونچی تھی کہ کان پڑی آواز کا سننا بھی مشکل تھا – لیکن یہ اسی کا حوصلہ تھا جو اتنی پرسکون نیند سو رہا تھا ,ورنہ خیر سے اس کمرے میں بچتے الارم کی آواز سے تو پڑوسی تک جاگ جاتے تھے – وہ جتنی گہری نیند سوتا تھا جاگنے کے بعد اتنی چستی اور بشاشت بے سب ہی حیران ہوتے تھے – سامنے رکھے ڈرنکس ٹیبل کے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے بے اختیار انگلیوں سے اپنے بال سنوارے اور اپنی سٹڈی ٹیبل کی طرف بڑھا- جہاں کل رات دیر تک کام کرنے کی وجہ سے بہت سے کاغذ اور کتابیں  رکھی تھی میز پہ ان ہی کاغذات کے درمیان سفید  کاغذوں کا ایک دستہ الگ رکھا تھا – جو دوسرے کاغذات کے نسبت ترتیب میں تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ان کاغذات کو اٹھایا اور ایک ایک ورق پلٹنے لگا بے اختیار اس کے لبوں پہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی – اسمیں اس کی پچھلی ایک ہفتے کی محنت تھی ہلکی سی سیٹی بجاتے ہوئے اس نے کاغذات اپنی فائل میں احتیاط سے رکھ دیے اور خود باتھ روم میں جا گھسا – دل ہی دل میں اس پر ہزار بار لعنت بھیجی – اور پھر اپنے ہاتھ  میں پکڑا کاغذ میز پر رکھ کر جلدی سے اس کی فائل کھول کر اس کے رکھے کاغذوں کا دستہ نکال لیا, جس یہ جلی حروف سے اس کا نام لکھا تھا-  نہایت احتیاط سے الگ کر کے ٹائٹل کور کو اپنے ساتھ لائے کاغذوں کے دستے پہ لگا کر انہیں اسٹیبل کر کے اس کی فائل میں بالکل اس طرح واپس رکھ دیا ,جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا- اس کاروائی کے بعد اس نے فائل میں رکھے اس کے پرنٹ شدہ کاغذات کو اٹھایا اور خاموشی سے  باہر نکل گئی- دروازہ بند کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر اس بات کی تسلی کی تھی کہ ایسے کسی نے بھی دیکھا نہیں ہے- چچی جلدی سے ناشتہ لے ائیے آ ج ہمیں جلدی پہنچنا ہے- لاؤنج میں لگے گھڑیال  نے ساڑھے سات بجائے – اور ارحم اپنے گیلے بالوں کو   سنوارتا فائل اور گاڑی کی چابی تھامے داخل ہوا مسکرا کر سلام کرتے ہوئے اس نے ناشتے کے لیے آواز لگائی- ڈرائنگ ٹیبل پہ پہلے ہی امیر اور شاہان بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے عطیہ, بیٹے اور بھانجی کو ناشتہ دے کر اب اس کی منتظر تھی – صبح کے ناشتے کی ذمہ داری ان کی تھی- جبکہ دوپہر کا انتظام صفیہ بیگم نے کے ذمہ تھا – البتہ رات میں ان دونوں کے ساتھ دونوں لڑکیاں بھی  مدد کرتی تھی-  یہ ژالے نہیں آئی اب تک ہر روز اس کی وجہ سے دیر ہوتی ہے ابھی ناشتے میں 10 گھنٹے لگائے گی جاؤ   اسے بلا کر لاؤ پھر ہمیں نکلنا ہے – –

ڈرائنگ ٹیبل پر اس کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے وہ بڑبڑایا ,اور صبح کے اخبار پہ نظر ڈالتے ہوئے بہن کو اسے بلانے کا حکم دیا ,وہ اٹھنے کی بجائے سر جھکائے ناشتہ کرتی رہی – ژالے  تو اج اپنی دوست کے ساتھ چلی گئی یونیورسٹی کہہ رہی تھی جلدی پہنچنا ہے – اسے اسائنمنٹ جمع کروانا ہے- چچی نے اس کی پلیٹ اور چائے کا مگ میز پہ رکھتے ہوئے اسے مطلع کیا- ہاں لیکن اسائنمنٹ تو ہم  کو بھی جمع کروا کروانا تھا اخبار لپیٹ کر میز پہ واپس رکھتے ہوئے اس نے حیرت سے پہلے اپنی کلائی پہ گھڑی کو دیکھا – چلو تم لوگ گاڑی میں بیٹھو میں بس آ رہا ہوں -ارحم نے ناشتے کی پلیٹ ہاتھ سے  پرے کی اور اپنی فائل اٹھا کر ان دونوں کے پیچھے ہی چل دیا اس کی بھوک ایک دم غائب ہو گئی تھی-یاور علی خان صاحب نے دونوں بیٹوں کی تربیت اس نہج پر کی تھی کہ دونوں کے درمیان محبت اور خلوص شامل تھے – یہی وجہ تھی کہ برسوں سے نہ صرف کاروبار مشترکہ تھا – بلکہ گھر میں بھی دونوں خاندان نہایت اتفاق سے رہتے-ایک دوسرے پہ انحصار کرتے تھے اور ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے – گھر میں قائم امن اور سکون کی فضا کے پوری خاندان میں مثال دی جاتی تھی- البتہ ارہم اور ژالے اس پیمانے پہ پورے نہ اترنے –  اس پہ ستم شروع سے ایک ہی سکول کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتے تھے یہی وجہ کہ دونوں میں بھی کبھی نہیں بنی تھی – ارحم کی تعریف سن سن کر صالح کو ارحم سے خواہ مخواہ  کی چڑ ہو گئی تھی جو بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئے کہ  گھر میں سب لوگ ان دونوں کی روز روز کی نوک جھونک سے اس قدر عادی ہو گئے تھے ہو چکے تھے کہ اب کوئی سرے سے پرواہ ہی نہیں کرتا تھا – بلکہ جس دن ان میں جنگ و جدل نہ ہو سب کو پریشانی لاحق ہو جاتی – ان سب باتوں کے باوجود عبدالرحمن اور عبدالرحیم کے خاندان کے درمیان سے سوئی گزارنا بھی ناممکن تھا-  یونیورسٹی پہنچ کر ژالے نے سب سے پہلے وہ کام کیا, جس کے لیے وہ اج اتنی صبح خوار ہونے یونیورسٹی آئی تھی, یعنی اسائنمنٹ جمع کروانا – ارحم کی اسائنمنٹ فائل پہ اپنے نام کا لیبل لگا کر اس نے صبح آتے ہی پروفیسر کو دے دی تھی اور ان سے اپنی ذمہ داری اور قابلیت پہ ڈھیروں داد بھی وصول کر چکی تھی – اب تک تو اسے پتہ چل چکا ہوگا نا – سیما نے سوال کیا , پتہ چل جاتا تو اس کی کال آ جاتی ابھی تک رابطہ نہ کرنے کا مطلب ہے کہ اس کو فائل چیک نہیں کی- وہ ارحم سے بخوبی واقف تھی- اسے معلوم تھا کہ ارحم کبھی اپنے لکھے کو  دوبارہ چیک نہیں کرتا ,کیونکہ وہ  اسے کامل بنانے میں اتنی تحقیق کرتا کہ تمکیل کے بعد کسی غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہتی- ویسے تم نے  بیچارے کے ساتھ اچھا نہیں کیا – ماہ نور کو بہرحال اس کی حرکت اچھی نہیں لگی- وہ اس کا بھی ہم جماعت تھا اور اکثر پڑھائی کے سلسلے میں اس کی مدد کرتا رہتا تھا – ژالے کی دوست ہونے کی باوجود ماہ نور کی ہمدردیاں ارحم کے ساتھ تھی -ژالے کا بدلہ مائی ڈیئر ,اس نے جو میرے ساتھ کیا میں نے وہ اس کے ساتھ کر دیا – اس کی وجہ سے میرا اتنا ٹائم ضائع ہوا – اپنی مسکراہٹ سمیٹتے ہوئے اس نے جواب دیا –  ژالے  تمہارے پاس کافی وقت تھا اسائنمنٹ مکمل کرنے کے لیے , تم چاہتی تو تسلی سے اپنا کام مکمل کر سکتی – پچھلے ہفتے وہ یونیورسٹی اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں آ سکتی اور اسی دوران پروفیسر نے ان کے فائنل اسائنمنٹ  سمسٹر کا جمع کرنے کا اعلان کر دیا تھا-  ارحم نے اسے موضوع ہی غلط بتایا اور ژالے اسی موضوع پر گھر بیٹھی کام کرتی رہی- وہ تو فقط دو دن پہلے یونیورسٹی آنے کے بعد اس کو  حقیقت کا معلوم ہوا- ارحم بخوبی جانتا تھا کہ ژالے  گاہے پہ گاہے اس کے کمرے کی تلاشی لیتی ہے اس لیے وہ چیزیں جنہیں ژالے سے چھپانا مقصود ہوتا, انہیں ہمیشہ تالے میں ہی رکھتا جیسے اس کی ڈائری جس سے وہ باقاعدگی سے لکھنے کا عادی تھا  لیکن ارحم کی احتیاط کے سبب آج تک وہ اس کے ہاتھ نہ لگ سکی –

  ارحم کے تو وہم و گمان میں  نا تھا کہ اس کے ساتھ یہ ہونے والا ہے اس لیے جب پروفیسر نے اسے کلاس سے پہلے آفس میں آنے کو کہا, تو وہ احساس تفاخر سے ان کے پاس پہنچا وہ ان کا لائق طالب علم تھا- اسے یقین تھا کہ انٹرنشپ وغیرہ میں مدد کے لیے یا پھر کسی اہم مشورے کے لیے دفتر میں بلایا ہوگا – لیکن وہاں پہنچتے ہی جو بم اس کے سر پر پھٹا اس کی گونج اتنی تباہ کن تھی کہ وہ سن بیٹھا کا بیٹھا رہ گیا- لیکن سر مارک شیٹس پر اپنے نام کے ساتھ بڑا سا زیرو دیکھ کر اس کا دل دہل گیا-  تم میرے انتہائی لائک سٹوڈنٹ ہو محنتی ہو تمہارا رزلٹ میں نے کلاس میں اناؤنس نہیں کیا-لیکن سیریسلی تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے سر میں قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے اسائنمنٹ کو کاپی نہیں کیا – بہرحال وہ سچا تھا اس لیے دو ٹوک اس الزام کو قبول کرنے سے انکاری رہا- اب کیا کہو گے کہ تم نے اسسائنمنٹ کاپی نہیں کی – لیکن سر یہ میری فائل نہیں ہے اس بات کی تو میں پہلی لائن سے ہی تصدیق کر سکتا ہوں – انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے جانے کو کہا – تم اب جا سکتے ہو اور ائندہ ایسی حرکت مت مت کرنا – یہ لاسٹ سیمسٹر ہے اور تمہارے لیے بہت اہم- کوشش کرو کہ سنجیدگی برقرار رکھو – ورنہ تمہیں نقصان ہوگا – جی سر وہ اچانک دروازے کی طرف بڑھتے رک گیا – سر کیا  ژالے  کا اسائنمنٹ دیکھ سکتا ہوں- اگر ژالے اس کی اجازت دے تو- وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ دونوں کزن ہیں- اس کے باوجود کسی اور کی اسسائنمنٹ کی فائل دکھانا انہیں درست نہیں لگا – اس لیے صاف منع کر دیا- سر اس کے کتنے مارکس ہیں   19 جواب فلفور آیا –  ارحم کے پاس اب شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ یہ جو سب کچھ ہوا ہے اس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ  ژالے ہے –

 مٹر پلاؤ کے مٹر چیلتی صفیہ بیگم اپنی دیورانی عطیہ بیگم کے سامنے بیٹی کی لا ابالی طبیعت سے پریشان تھی اسی وقت میں صفیہ بیگم کے بڑے بھائی کا امریکہ سے فون آ گیا جو کہ اپنے بچوں کی نااہلی کا رونا رو رہے تھے- آخر کمال کو ایک ترکیب سوجی کے کیوں نہ اپنی بہن کے اگے رشتہ ڈال دیا جائے – ژالے کے لیے انہوں نے اپنے بیٹے شمیم کا رشتہ دیا جبکہ اپنی چھوٹی بیٹی ممتاز کے لیے بھانجے ارحم کو داماد بنانے کی خواہش کا اظہار کر دیا – اندھا کیا چاہے دونوں آنکھیں – صفیہ اور عطیہ کو کمال کی باتیں بہت اچھی لگی اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ یہ بات ہم اپنے مردوں کے سامنے رکھیں گے- کوئی بھی اس بات کے لیے انکاری نہ تھا سب ہی کو یہ رشتے بہت معقول لگے اور ادھر کمال نے پاکستان آنے کی تیاری پکڑ لی-

گھر میں اچانک خوشی اور ہنگامہ سر اٹھانے لگا- ارحم کے کمرے میں ژالے دوڑی چلی ائی کہ شمیم بھلا کیسے کسی مرد کا نام ہو سکتا ہے- تمہیں نام سے کیا ہے ,وہ تو خود اپنا سر گھٹنوں میں دیے پریشان بیٹھا تھا- کیونکہ کل سے اسے ماں نے شیروانی سلوانے کا حکم دے دیا تھا -ژالے نے اسے مشورہ دیا کہ کیا مسئلہ ہے تم ریڈی میڈ خرید لو اس کا دل چاہا کہ اپنا سر پھاڑ لے – کس طرح اسے میری کسی دل کی بات کا کوئی اثر ہی نہیں- اسی لیے اسے کہنے لگا کہ تم فورا یہاں سے چلی جاؤ – ادھر ارحم نے شمیم کو فون کیا اور کہا کہ یار یہ شادیاں نہیں ہو سکتی- شمیم نے  مشکوک نگاہوں سے اپنے سمارٹ فون کو دیکھا – تم اچھی طرح جانتے ہو تو پھر میرے ساتھ یہ ظلم مت کرو – میں یہ شادی ہرگز نہیں کر سکتا -میرے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت بالکل سلب ہو چکی ہے-   شمیم اسے سوچتے ہوئے ایک ترکیب بتانے لگا ارحم کو لگا یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ژالے  کو منانے کے سوا کوئی اور دوسرا راستہ بھی نہ تھا-

ارحم کی بات سن کر وہ سیخ پا ہو گئی تمہارا دماغ ٹھیک ہے – لیکن اگر تمہیں شمیم سے جان چھڑانی ہے تو پھر تو  تمہیں یہ کرنا پڑے گا – ارحم نے اسے یہ نہیں بتایا کہ شمیم بھی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا- کیونکہ یہ مشورہ بھی اسے شمیم نہیں دیا تھا – لیکن اب ما ہ نور کا کیا ہوگا , ژالے  کو تشویش ہوئی لیکن وہ صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے غصے پر قابو پاتا رہا -اس کی تم فکر نہ کرو ضروری یہ ہے کہ ہم گھر میں سب کو بتائیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں- اور شادی کرنا چاہتے ہیں – تب ہی ہم اس مصیبت سے بچ سکتے ہیں – حسب عادت ژالے  چپ نہ رہ سکی اور بولی محبت اور تم سے مجھے تو سوچ کر وحشت ہو رہی ہے – لیکن اس کے سوا اور کوئی اپشن نہیں – گھر میں جس نے سنا وہ یہ سن کر حیران رہ گیا-  کہ ہر وقت کی گولا بارود کرنے والی فوجیں آج ایک دوسرے سے شادی کرنے کے لیے کیسے تیار ہے- جس پر عطیہ اور صفیہ بیگم کو تو دل سے اطمینان ہو گیا کہ دونوں بچے گھر پر ہی رہیں گے-   گھر میں نکاح کی تیاریاں شروع ہو گئیں – ژالے نے جا کر ارحم کے کمرے پر دھاوا بول دیا کہ تم کوئی اور طریقہ اپنا لیتے لیکن کم از کم نکاح تو رکواتے – جس پر وہ فورا بولا کہ اگر تمہیں شمیم سے شادی کرنی تھی تو ٹھیک ہے میرے پاس اس کے سوا اور کوئی اپشن نہ تھا – کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں لیکن تم فکر مت کرو  ہم دونوں کی مرضی کے بغیر رخصتی تو  کوئی بھی نہیں کروا سکتا – اس لیے بے فکر رہو اس سے پہلے یہ معاملہ ختم ہو جائے گا

گھر میں نکاح کی تیاریاں عروج پر تھیں – ژالےکی مرضی نہ ہونے کے باوجود تائی جی کی خواہش پر اسے سرخ رنگ کا غرارہ پہننا پڑا – ارحم کو مدد کے لیے پکارتی رہی لیکن وہ کسی پراجیکٹ کا بہانہ بنائے منظر سے بالکل غائب ہو گیا – مجبورا اسے ہتھیار ڈالنے پڑے – لیکن جب نکاح کے وقت  دوستوں کے ہمراہ بڑے ٹھاٹ سے ڈیزائنر شیروانی پہنے ارحم ہوٹل پہنچا تو دل اس کی  جان لینے کو چاہا – کیونکہ اس کے انداز سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ ڈرامہ ہے اور یہ مجبوری کا نکاح ہے- دل چاہا سب کے سامنے پول کھول دے لیکن نہ تو موقع تھا اور نہ ہی دستور- بلکہ صبر کے گھونٹ پینے کے علاوہ وہ کچھ نہ کر سکی اور انسو بہاتے اس نے نکاح نامے پر دستخط کر دیے – نکاح کے بعد وہ ابھی برائیڈل روم میں ہی بیٹھی تھی کہ ارحم کی بہن دوڑتی ہوئی ائی اور ایک بم پھوڑ دیا ارحم بھائی اور ان کے دوست رخصتی کی بات کر رہے ہیں – وہ ایک دم سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اسے یقین ہوا کہ اس کے ساتھ کوئی بہت بڑی سازش ہو گئی ہے – جس کی اسے خبر نہیں –   بس اب اپ اپنے گھر نہیں بلکہ ہمارے پورشن میں ائیں گی-  اخر یہ سب کیا ہے اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ ارحم کیسے کر سکتا ہے- گھر میں کسی کے پاس اس کا احتجاج سننے کے لیے وقت نہ تھا -اسے خوبصورتی سے سجی سٹیج پر بٹھا دیا گیا – ارحم اس کے ساتھ بیٹھا نہایت خوش اور مطمئن دکھائی دے رہا تھا – اور وہ بے بسی کی تصویر بنی تھی واپسی پر اسے جب ارحم کے کمرے میں پہنچایا گیا – تو خوبصورت پھولوں سے پورا کمرہ سجا ہوا تھا جسے دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ یہ سب کچھ پہلے سے ارحم کے پلان میں شامل تھا – جیسے ہی ارحم کمرے میں داخل ہوا اس نے اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا –   تم نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا- پہلے نکاح اور اچانک رخصتی- تم نے کہا تھا کہ تم نکاح ختم کر دو گے –  اس نے اپنی تشویش کو سوالات کی صورت میں ڈال دیا جس پر وہ پیار سے کہنے لگا ,کہ جھوٹ بولا تھا لیکن مجھے پتہ تھا کہ تم میری بات کا یقین نہیں کرو گی- جھوٹ کیا مطلب ارحم یہ سب تم نے مجھ سے اسائنمنٹ کا بدلہ لیا ہے- جس پر وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا -کہ یار اسائنمنٹ کی بات درمیان میں کہاں سے اگئی – لیکن ژالے  کو یقین نہ ا رہا تھا کہ اس بدترین انتقام کو لینے کے پیچھے اس نے اس کی زندگی کا تماشہ بنا دیا – اور اس کے اعتبار کا خون کیا, میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی- جس پر ارحم بولا کہ تم ایک انتہائی احمق اور جذباتی لڑکی ہو – یہی وجہ ہے کہ کبھی سوچ سمجھ کر بات کیا کرو – لیکن ژالے کہاں اس کے باتوں میں انے والی تھی بولی, کہ تم کسی دھوکے میں مت رہنا میں اتنی اسانی سے خاموش نہیں ہوں گی – تم مجھے گھر میں قید کر کے خود مہ نور کے ساتھ عشق لڑاؤ گے – میں ابھی گھر والوں کو جا کر تمہاری حقیقت بتا دوں گی – ارحم نے اسے کھینچ کر واپس بٹھایا کہ تم نہیں ایسا کر سکتی –  تمہارے اور میرے درمیان ماہ نور کہاں سے گھوم کر ا جاتی ہے –   تم مانور سے محبت کرتے ہو اور وہ محبت نامے جو تم چھپا کر ڈائری میں لکھا کرتے تھے وہ مسلسل اب رو رہی تھی – میں نے یہ تم سے کہا تھا  ژالے میں نے اج تک ماہ نور یا کسی بھی لڑکی سے محبت کی حامی نہیں بھری

ارحم مجبور ہو کر اسے وہ ڈائری دکھانے کے لیے اٹھا-  جس میں اس نے اج تک اپنی محبت کو قید رکھا تھا-  اور واحد اس بات کا گواہ شمیم تھا – وہ اج تک یہ نہ سمجھ سکی تھی کہ شمیم اس رشتے پر اتنا خوش کیوں ہے لیکن اسے یہ یقین نہ آیا کہ وہ نام کسی اور کا نہیں ڈائری میں اس کا درج تھا- وہ کہنے لگی کہ اج تک اپ نے مجھ سے یہ بات چھپائی مجھے ہمیشہ تنگ کیا کرتے تھے- جس پر ارحم نے جواب دیا کہ میں اس وقت تمہیں معصومیت اور محبت سے دیکھا کرتا تھا – جب تم میری باتوں پر چڑتی تھی اور بھاگ بھاگ کر میری شکایتیں تایا ابا کے پاس جا کر لگاتی تھی – اور مجھے تمہاری معصومیت پر پیار اتا تھا وہ   شرارتی نظروں سے ژالے  کو دیکھنے لگا- او میرے اللہ کیا ہو جاتا اگر تم یہ سب سیدھے راستے سے کر لیتے – اگر غصے اور فرسٹریشن میں ا کر میں کچھ الٹا سیدھا کر لیتی – محبت اور دل کا حال اس لیے نہیں بتایا کہ تم پتہ نہیں یقین کرتی یا نا اور ڈرامہ رچانے سے پہلے میں بڑے ابا کو سب کچھ بتا چکا تھا – اور ان سے کچھ بھی چھپا نہیں – انکشاف پر انکشاف ہو رہے تھے یعنی اس نکاح اور رخصتی والے کھیل میں بڑے ابا تمہارے ساتھ شامل ہیں- جی ہاں ارحم نے سر ہلا کر جواب دیا- قسم سے دل تو کر رہا ہے کہ تمہارا سر پھاڑ ڈالوں- لیکن ارحم نے ہاتھ بڑھا کر الام کلاک ژالے  سے لے لیا- اور خوبصورت سی انگوٹھی اپنی جیب سے نکال کر اس کی انگوٹھی پر رکھی -سچ تو یہ ہے ژالے کہ محبت نہیں بندے کو عشق ہے تم سے- اور اس عشق نے مجنوں فرہاد سب کو ہی پیچھے چھوڑ ڈالا ہے – اب چاہے سر پھوٹے یا ماتھا ہم نے تو ہاں کر دی ہے- اس نے شرارت سے ژالے کی طرف دیکھا کمرے میں پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ارحم کی محبت کے رنگ حاوی ہو رہے تھے ژالے  مسکراتے ہوئے شرما کر سر جھکا لیا –

Latest Posts

Related POSTS