والد صاحب کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا تو ہم خوش ہوئے۔ مجھے یہ شہر دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جس علاقے میں ہمیں رہائش ملی، قریب ہی ایک بڑا سا مکان تھا جس کا صحن بالائی منزل سے نظر آتا تھا۔ میرا کمرہ اسی جانب تھا، لہٰذا روزانہ بالکونی سے اس گھر میں جھانکتی جہاں پڑوس کے صحن میں ایک خوبصورت لڑکی نظر آتی۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیتی اور ہاتھ کے اشارے سے گھر آنے کا کہتی تھی۔
ایک روز میں نے امی سے اس کا تذکرہ کیا۔ وہ بولیں۔ نیا پڑوس ہے، میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ یوں امی کے ساتھ میں ان کے گھر پہلی بار گئی۔ وہ لڑکی بہت محبت سے ملی، ہم سہیلیاں بن گئیں۔ اس کا نام شیریں تھا۔
اس گھر میں بہت سے لوگ رہتے تھے۔ شیریں کے دادی، دادا، اس کے والد، سوتیلی والدہ اور ان کے بچے…! یہ ایک بھرا پرا گھر تھا۔ شیریں کی سگی ماں وفات پاچکی تھی۔ وہ بہن، بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور یہ سب سوتیلی ماں سے تھے۔ شیریں کے دادا اور دادی اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ بظاہر وہ خوش نظر آتی تھی لیکن رفتہ رفتہ مجھ پر کھلا کہ سوتیلی ماں اس کے ساتھ کچھ اچھا رویہ نہیں رکھتی۔
پڑوس میں اور کسی سے جان پہچان نہیں تھی، تبھی میں اکثر شیریں کے گھر جانے لگی۔ اس نے بتایا کہ برابر والا گھر اس کے چچا کا ہے جو ٹھیک آدمی نہیں ہے اور اس کا پیشہ منشیات کی اسمگلنگ کا ہے۔ اس کا بیٹا حیات بھی صحیح نہیں ہے۔ بزرگوں کا خیال ہے کہ میری شادی حیات سے کردی جائے، جبکہ مجھے چچا کی بہو بننا منظور ہے اور نہ حیات کی شریک حیات!
کچھ دن گزرے کہ شیریں گم صم رہنے لگی۔ ہر وقت افسردہ سی دکھائی دیتی۔ میں امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئی، کافی دن اس کے پاس جانا نہ ہوسکا۔ میں جب کبھی شام کو اوپر سے دیکھتی، وہ اکثر درخت کے نیچے خاموش بیٹھی دکھائی دیتی۔ ایک روز اس کے گھر گئی، اس نے نہ ملنے کا شکوہ کیا اور میں نے خاموشی کی وجہ پوچھی۔ اس نے بتایا۔ میری شادی ہونے والی ہے اور میں حیات سے شادی پر راضی نہیں ہوں کیونکہ وہ اچھے کردار کا انسان نہیں ہے۔ تم اپنے دادا کو بتا دو کہ حیات سے شادی منظور نہیں۔ وہ تم سے محبت کرتے ہیں، ضرور اس بات پر غور کریں گے۔
وہ حیات سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اداسی سے بولی۔ میں کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ کر آگئی۔ چاہتی تھی اپنا مسئلہ کھل کر بتائے مگر اس نے کھل کر نہ بتایا۔ میرے پرچے شروع ہوگئے، یوں ایک ماہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ امتحان ختم ہوگیا تو اس نے بلا بھیجا۔ وہ پہلے سے زیادہ پریشان تھی۔ کہنے لگی۔ میرے لیے دعا کرنا۔
شیریں! ہمت نہ ہارنا۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے اسے تسلی دی۔ انہی دنوں چند روز کی چھٹیاں ملیں تو ہم اپنے ننھیال چلے گئے۔ چھٹیاں ہنسی خوشی گزر گئیں اور وقت گزرنے کا پتا نہ چلا۔ لوٹے تو شیریں آگئی۔ مجھ سے ملنے کے لیے بے قرار تھی۔ پہلے سے زیادہ اداس بلکہ ان کا سارا گھرانہ اداس تھا۔ سبب پوچھا تو رو دی۔ بتایا کہ تم لوگوں کے جانے کے بعد دادا وفات پا گئے اور اب سوگواری گھر سے جاتی نہیں۔
موت برحق ہے، ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ شیریں! اس میں بندوں کا کیا اختیار… سوائے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں۔ اللہ تمہیں یہ غم سہنے کی توفیق دے۔ کہنے لگی۔ تم نہیں جانتیں وہ تھے تو کتنی عافیت تھی، ان کے مرتے ہی گھر میں جھگڑے شروع ہوگئے ہیں اور چچا نے پنجے نکال لیے ہیں۔ وہ میرے والدین پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ شیریں کی شادی حیات سے کردو، نہیں تو گھر فروخت کردوں گا اور رقم بانٹ لیں گے۔ والد کو علم ہے یہ گھر فروخت نہیں کریں گے، اونے پونے دام لگا کر تھوڑی سی رقم دیں گے جس سے کوئی دوسرا مکان ہم نہ خرید سکیں گے اور بے گھر ہوجائیں گے، جبکہ ان کا اپنا گھر برابر میں موجود ہے، انہیں تو رہائش کا کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔ ہم ضرور بے ٹھکانہ ہوجائیں گے۔ چچا کا دبائو ڈالنے کا یہ طریقہ تھا۔ دادا کو حیات کے کرتوتوں کا علم ہوگیا تھا، تبھی انہوں نے والد کو ہدایت کردی تھی کہ شیریں کو حیات کی شریک حیات نہ بنانا، ورنہ یہ میری پوتی کی زندگی تباہ کردے گا۔ دادا نے چھوٹے بیٹے کو راضی کرنے کے لیے کافی رقم دی کہ شیریں کا حیات سے رشتہ نہیں کرنا ہے لہٰذا اس رقم کے عوض اپنے بیٹے کے لیے دلہن لے آئو مگر میری پوتی کو اپنے غلط روش بیٹے سے بیاہ کر اسے عذابوں میں مت ڈالنا۔ اس وقت تو چچا نے رقم لے لی اور خاموش ہوگئے مگر دادا کے فوت ہوتے ہی پھر سے مجھے حیات کے پلے باندھنے کا مطالبہ کردیا۔ دادا کو موت نے مہلت نہ دی کہ کسی اچھے گھرانے میں میرا رشتہ کرجاتے، وہ سب کچھ ادھورا چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ یہ کہہ کر شیریں رونے لگی۔
میں نے تسلی دی کہ تمہارے بھائی بھی ہیں۔ سوتیلے سہی مگر وہ تمہارا خیال رکھتے ہیں، ان سے کہو تمہارا ساتھ دیں یا پھر تمہارے ماں، باپ، چچا کو ٹکا سا جواب دے دیں۔
چچا خطرناک آدمی ہیں۔ اپنے پرائے سبھی ان سے ڈرتے ہیں، ان کے پولیس والوں سے تعلقات ہیں۔ میرے ماں، باپ ان سے بہت خوف زدہ رہتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ان کے سامنے اونچی آواز میں بات کرے، بندوق تان لیتے ہیں۔ تھپڑوں اور جوتوں سے مارنا تو ان کے نزدیک کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ ایک ہفتے تک شیریں سے ملنا نہ ہوا تو اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو ہمارے گھر بھیجا۔ میں اس کے پاس چلی گئی۔
چچا میری شادی زبردستی کررہے ہیں۔ مر جائوں گی مگر حیات سے شادی نہ کروں گی۔ تبھی اس کی ماں مجھے دوسرے کمرے میں لے گئی۔ کہنے لگی۔ شیریں شادی کے لیے نہیں مان رہی، اسے سمجھائو ورنہ اس کے چچا اسے جان سے مار دیں گے۔ یہ صرف تمہاری بات سنتی ہے۔
دادا اپنی زندگی میں اس بات کا فیصلہ کرگئے تھے، پھر یہ لوگ اس کے ساتھ زبردستی کیوں کررہے ہیں؟ ابھی میں اور آنٹی یہ بات کررہے تھے کہ شیریں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ ہم جلدی سے باہر آئے۔ اس کے چچا نے شیریں کے بال پکڑ رکھے تھے۔ وہ اسے بری طرح زدوکوب کرنے لگے۔ مجھے دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی آئی اور میرے پیچھے چھپنے لگی۔ میں نے کہا۔ چچا! آپ کیوں اسے مار رہے ہیں؟ بولے۔ یہ نافرمان ہے، بڑوں کا کہنا نہیں مانتی۔ اس کو سمجھائو ورنہ میں اس کا گلا دبا دوں گا۔
چچا تو یہ کہہ کر پھنکارتے ہوئے باہر چلے گئے۔ میں نے شیریں کو سمجھایا کہ بزرگوں کی مان لو۔ اب تمہارے دادا بھی نہیں رہے مگر وہ فریاد کرنے لگی کہ میں یہ شادی نہیں کروں گی۔ مجھے حیات کے ساتھ رہنا قبول نہیں۔ تم اس کے بارے میں وہ حقائق نہیں جانتیں جو میں جانتی ہوں۔ دادا کے بعد شیریں کے چچا اس کنبے کے سربراہ تھے کیونکہ شیریں کے والد کماتے نہ تھے، وہ بیروزگار تھے۔ اسی وجہ سے سب خاموش تھے اور شیریں کے رونے دھونے پر کوئی دھیان نہ دیتا تھا۔ ماں سوتیلی اور دادی ضعیف تھی۔ کوئی اس کی حمایت میں نہیں بولتا تھا۔
یہ وقت شیریں پر بہت گراں تھا۔ وہ اکیلی اپنے مؤقف پر ڈٹی تھی اور سارے گھر والے اس پر حیات کے ساتھ شادی کے لیے دبائو ڈال رہے تھے۔ آخرکار اس کے چچا نے اس کی رضامندی کے بغیر شادی کی تاریخ طے کردی۔
شادی والے دن بہت سے رشتے دار آئے۔ شیریں کے رونے دھونے پر ان کو بھی علم ہوگیا کہ وہ اس شادی پر راضی نہیں ہے۔ انہوں نے بھی شیریں کو سمجھانا چاہا مگر وہ نہ مانی۔ ان کے خاندان میں لڑکی کے گھر سے چلے جانے کا رواج تھا نہیں۔ مجھے ڈر تھا کہ یہ ضدی لڑکی کہیں اپنی جان نہ دے دے۔
میں اس کے ساتھ ساتھ رہی۔ مہندی والے دن وہ میرے پہلو سے لگ کر بیٹھ گئی۔ اس نے لباس بھی تبدیل نہ کیا تھا۔ رشتے دار عورتیں جب مہندی لگانے لگیں، اس نے اپنے ہاتھوں پر حنا لگانے نہ دی، ہاتھ جھٹک کر مہندی گرا دی۔ تب اس کی دادی نے مجھ سے کہا۔ نائلہ! تم اسے کسی طرح راضی کرو ورنہ شہنائی نہ بج سکے گی بلکہ آگ بھڑک اٹھے گی۔
میں نے ضدی لڑکیاں دیکھی تھیں، مگر شیریں جیسی نہیں۔
بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ نجانے کس مٹی کی بنی تھی، ٹس سے مس نہ ہوئی۔ خوف اس کے خمیر میں نہ تھا۔ اس کا سوتیلا بھائی دلاور اندر آیا۔ اس نے شیریں کا ہاتھ پکڑ کر اس پر مہندی رکھ دی، اس طرح رسم ادا ہوگئی۔ چچا کو پتا چلا، وہ رسمیں نہیں کرنے دے رہی، وہ اندر آیا اور رشتے دار عورتوں کے سامنے اسے برابھلا کہنے لگا۔ تبھی شیریں کے بھائی چچا کو پکڑ کر کمرے سے باہر لے گئے۔
شیریں کا رنگ زرد تھا اور وہ ایک تن مردہ جیسی ہوچکی تھی۔ اس کی ایسی حالت دیکھ کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں نے ہاتھ جوڑے۔ شیریں…! خدا کے لیے خود کو سنبھالو۔ اپنے لیے نہیں اپنے والد اور بھائیوں کی خاطر مان جائو۔ مجھے علم تھا کہ اس کے سخت گیر اور ظالم چچا کے آگے شیریں کی مرضی نہیں چل سکتی۔ وہ بھی ایک ضدی آدمی تھے، تبھی اسے سمجھا رہی تھی کہ ٹھنڈے دل سے سوچو۔ ہمارے یہاں ہزاروں لڑکیوں کی ایسے ہی زبردستی شادیاں کردی جاتی ہیں، کیا وہ سب مر جاتی ہیں؟ آخر کو انہیں زندگی کی حقیقتوں سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ بعد میں وہ اچھی زندگی بھی گزار لیتی ہیں۔ خدا نے چاہا تو دوسرے کئی مردوں کی طرح حیات بھی تمہارے ساتھ سیٹ ہوجائے گا تو تم اچھی زندگی گزار لو گی۔
تم کو کیسے بتائوں، اس کے کرتوت بتا نہیں سکتی۔ اگر کسی لڑکی سے تعلق رکھتا، لڑکیوں کا رسیا ہوتا تو بھی میں اس کے ساتھ شادی کرلیتی لیکن وہ تو جس روش کا ہے، تمہیں نہیں بتا سکتی۔ وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتا مجھے اس کے ساتھ شادی سے ہی گھن آتی ہے۔ اتنے برے ہیں اس کے کرتوت…!
میں حیرت سے شیریں کا منہ تک رہی تھی، مگر وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ایسے الزامات حیات پر لگا رہی تھی جو میری سمجھ سے بالاتر تھے۔ میں نے اس کی تقریر کا کچھ اثر نہ لیا اور اس کے ہاتھ پر مہندی رکھ دی۔ مجھے دکھ ہورہا تھا کہ میری سہیلی کی صبح شادی تھی اور وہ رو رو کر نڈھال تھی۔ دل ڈر رہا تھا کہیں یہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لے کہ اس کے گھر والوں کو مشکل ہوجائے۔ خیریت گزری کہ رونے کے سوا اس سے کچھ بن نہ پڑا۔ وہ کہتی تھی۔ نائلہ! میں اور کچھ نہیں چاہتی۔ بس عزت کی زندگی گزارنا چاہتی ہوں، نیک شوہر چاہتی ہوں، جبکہ حیات غلط آدمی ہے۔ بہرحال…! اسے سر جھکانا ہی پڑا اور اس کا نکاح حیات سے ہوگیا۔ اس نے شادی والے دن بھی شادی کا جوڑا پہنا اور نہ کوئی زیور! وہ اجڑی سی بس خلا میں گھورتی رہی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ تھوڑی سی مہندی اس کے ہاتھ پر لگی تھی، اس کے پھیکے رنگ کو وہ گھورنے لگی تو میں نے سہم کر ہاتھ چھوڑ دیا، جیسے وہ مجھے بھی اپنے دشمنوں میں شامل سمجھتی ہو۔
شادی کے ایک ہفتے بعد میں نے اسے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ نہیں آنا چاہتی تھی مگر ہم سب کے اصرار پر آگئی۔ ہم نے اسے چوڑیاں اور میک اَپ کا سامان تحفے میں دیا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہ ابھری۔ میں نے اسے قسم دے کر پوچھا۔ سچ بتائو کیا اب بھی شادی پر پچھتا رہی ہو؟ اس نے کہا۔ کیسی شادی، کیا بتائوں حیات مجھ سے جو سلوک کرتا ہے، وہ بیان نہیں کرسکتی۔ ایک دن اس نے سب کے سامنے حیات کو صاف کہہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ نارمل رویہ اختیار کرے اور برا سلوک اختیار نہ کرے ورنہ وہ تمام رشتے داروں کو اس کے غلط سلوک کے بارے میں آگاہ کردے گی۔ یہ سن کر طیش میں آکر حیات نے اس کو خوب مارا۔ چچا اور چچی نے بھی بیٹے کی طرف داری کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ وہ اسے اور زیادہ مارنے لگے۔ شیریں کی چیخ پکار سن کر اس کا بھائی دلاور، چچا کے گھر گیا۔ بہن کو ان سے چھڑوایا اور اپنے ساتھ گھر لے آیا۔چچااور حیات پھر شیریں کے والد کے گھر آگئے اور شور مچانے لگے کہ اب یہ ہماری ملکیت ہے، اسے واپس لے کر ہی جائیں گے ورنہ گھر خالی کردو۔
اس بار شیریں کا بھائی ڈٹ گیا۔ اس نے کہا کہ ہم کیوں گھر خالی کریں، یہ ہمارے دادا کا گھر ہے۔ ہم بھی اس جائداد میں برابر کے شریک ہیں۔ چچا اور حیات اسے بھی مارنے کے لیے لپکے کہ بے غیرت، نمک حرام ہمارے سامنے بولتا ہے؟ نکل جا اس گھر سے! یہ ہمارا ہے تم لوگوں کا نہیں ہے۔ درمیان میں شیریں کا باپ آگیا، اس نے بیٹے کو پکڑ کر کمرے میں بندکردیا۔
اس روز تو شیریں کی جان بچ گئی، لیکن ایک دن پھر اسی طرح جھگڑا ہوا اور سب نے بندوقیں اٹھا لیں۔ شیریں ننگے پائوں بھاگ کر ہمار ےگھر آگئی اور جب اس کے بھائی نے چچا اور حیات کو اس کے پیچھے جانے سے روکا تو ان میں جھگڑا بڑھ گیا۔ چچا نے بھتیجے کو بندوق کے بٹ مارے اور کہا۔ اس نافرمان کو پڑوسی کے گھر سے نکال کر لے آئو اور ہمارے حوالے کردو پھر وہ خود ہمارے در پر آگیا جس پر والد صاحب باہر گئے اور اس شخص کو برابھلا کہا۔ شیریں میرے کمرے میں چھپی ہوئی تھی اور اس کا چچا ہمارے در پر کھڑا چلا رہا تھا کہ آپ کی بیوی اور بیٹی نے میری لڑکی کو ورغلارکھا ہے۔ آخر وہ آپ کے گھر کیوں چھپی ہوئی ہے۔ آئندہ آپ کی عورتیں ہمارے گھر نہ آئیں ورنہ اچھا نہ ہوگا۔
میرے والد نے اندر آکر شیریں سے کہا۔ ’’بیٹی! تم اپنے گھر چلی جائو، تمہارے چچا ہمیں الزام دے رہے ہیں۔ وہ مسلسل جانے سے انکار کررہی تھی۔ کہتی تھی۔ آپ نہیں جانتے میں گھر جائوں گی تو یہ مجھے جان سے مار دیں گے۔ تبھی ابو نے کہا۔ ڈرو مت، جان سے مارنا ہنسی مذاق کا کھیل نہیں ہے۔ گھر میں تمہارے والد اور بھائی ہیں، وہ ان کو ایسا نہ کرنے دیں گے۔ بادل نخواستہ وہ گھر گئی۔ ابو نے اس کے بھائی کو دکان پر فون کردیا کہ جلد گھر پہنچو، تمہاری بہن کی جان خطرے میں ہے۔ ہمیں والد نے منع کردیا کہ اب تم لوگ ان کے گھر ہرگز مت جانا۔ مجبوراً میں اور امی شیریں کی خبر لینے نہ جاسکے۔ کچھ روز بعد رات کے وقت جب سارے گھر والے سو رہے تھے صرف میں جاگ رہی تھی، اچانک پڑوس سے فائرنگ کی آواز سنائی دی اور پھر چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ امی، ابو بھی اس شور سے بیدار ہوگئے۔ ہم تو اسی وقت حال جاننا چاہتے تھے مگر ابو نے منع کردیا کہ یہ کسی کے گھر جانے کا وقت نہیں ہے، صبح دیکھیں گے۔
جب صبح صادق کی کرن پھوٹی تو ہم حال جاننے کے لیے نکلے۔ صحن میں چارپائی پر شیریں ابدی نیند سو رہی تھی اور اس پر چادر پڑی تھی جس پر جگہ جگہ خون کے دھبے موجود تھے۔ دادی اور بہنیں آہستہ آہستہ رو رہی تھیں۔ اس کی ماں نے بتایا کہ جھگڑا ہونے پر شیریں نے آدھی رات کو اپنے باپ کے پستول سے خودکشی کرلی ہے کیونکہ اس کا شوہر اسے گھر چلنے پر مجبور کررہا تھا اور وہ جانا نہ چاہتی تھی۔ والد نے پولیس کو فون کیا تو گھر میں شیریں کا ایک چھوٹا بھائی اور خواتین موجود تھیں۔ گھر کے تمام مرد کہیں چلے گئے تھے بعد میں تفتیش کے بعد پتا چلا کہ شیریں نے خود پستول سے گولی نہیں چلائی تھی بلکہ اس کو فائر کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔
پولیس نے اپنی جو کارروائی کرنی تھی، کرلی۔ اس کا چچا اسمگلر تھا۔ سنا ہے کہ پولیس کو اس نے راضی کیا اور خودکشی کا کیس بنوا دیا۔ یہ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا مگر ہم بے بس تھے۔ یہ حادثہ اس کے والد کے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوا تھا، لہٰذا ہم واردات دیکھ سکے اور نہ کسی نے شہادت دی کہ شیریں کو فائر کرکے مارا گیا ہے یا اس نے خودکشی کی ہے تاہم میں جانتی تھی کہ شیریں نے خودکشی نہیں کی ہے۔ اگر وہ ایسا کرتی تو شادی سے قبل کرلیتی مگر وہ عزت سے جینا چاہتی تھی، اپنے غلط روش والے شوہر کے ہمراہ غیر فطری زندگی بسر نہیں کرنا چاہتی تھی، اسی لیے اس نے احتجاج جاری رکھا اور اب وہ ہر غم سے آزاد ہوچکی تھی۔ وہ ایک اچھی لڑکی تھی، صاف ستھری زندگی بسر کرنا چاہتی تھی۔
شیریں کو دنیا سے گزرے بائیس سال ہوچکے ہیں۔ میں آج بھی سوچتی ہوں یہ کیسا چچا تھا جس نے بھتیجی کی موت کو گوارا کرلیا مگر اپنے بیٹے کو غلط حرکت سے نہ روک سکا۔ شیریں کا بس اتنا ہی قصور تھا کہ وہ صاف ستھرے ذہن کی مالک تھی۔ میں اس کے دکھ کو اچھی طرح جان چکی تھی، تبھی میں اسے آج تک نہیں بھلا سکی۔ (ن… کراچی)