ہم جس مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتے تھے اس گھرانے کے سربراہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ ان کی چھوٹی بیٹی شیریں ہم عمر تھی تبھی میری اس کے ساتھ دوستی ہوگئی۔
شیریں کے پانچ بھائی اور چار بہنیں اس سے بڑی تھیں۔ اور وہ سب شادی شدہ تھے۔ یہ بہت خوشحال لوگ تھے تبھی شیریں کی پرورش بہت نازو نعم سے ہوئی تھی اور اس نے کبھی تنگدستی کے زخم نہیں کھائے تھے۔
ایوب احمد کا تعلق دوسرے صوبے سے تھا لیکن وہ پڑھنے کی خاطر اس شہر آیا تھا کہ جہاں ہم رہتے تھے۔ اس کی فیملی نے بیٹے کی خاطر ہمارے محلے میں ایک اچھا سا مکان کرایہ پر لے لیا اور والدین بھی یہاں آبسے۔
ان دنوں ایوب ایک مقامی کالج میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ جب اس کی ملاقات شیریں سے ہوئی اور وہ اس کے حسن کا گرویدہ ہوگیا۔ دونوں محلے کے پارک میں ملاقات کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ محلے کے لوگ بھی وہاں جاتے تھے۔ وہ آکر کبھی شیریں کے بھائیوں کو اور کبھی ایوب کے والدین کو آگاہ کرتے کہ آپ کے بچے اکثر پارک میں اکٹھے دیکھے جاتے ہیں اور یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔
ایوب احمد کے والد نے اسے بہت سمجھایا ۔ ماں نے بھی نصیحتیں کیں کہ بیٹا تم اتنی دور سے یہاں پڑھنے آئے ہو اور تمہاری خاطر ہم اپنا گھر بار چھوڑ ادھر ٹھہرے ہوئے ہیں اور تم ہو کہ عشق و عاشقی کے چکر میں پڑگئے ہو۔ اپنا مقصد بھلا کر کیوں وقت ضائع کررہے ہو؟ اس پر ایوب نے کہا کہ میں شیریں کو پسند کرتا ہوں اور اس سے جدا رہ کر مجھے سکون نہیں ملتا لہٰذا آپ اس کے ساتھ میری شادی کرادیں۔ بیٹے کی اس خواہش پر والدین حیران رہ گئے وہ کہنے لگے کہ ابھی تم پورے سترہ سال کے بھی نہیں ہو اور ایف اے میں پڑھ رہے ہو… ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے جبکہ شادی تو ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے… پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شادی بھی ہو جائے گی۔
والدین کے سامنے زیادہ بات نہ کرسکتا تھا وہ مجبور تھا مگر شیریں سے رابطہ بھی ترک نہ کرسکا۔ گھر والوں کی بارہا تنبیہ کے باوجود یہ دونوں اسی طرح ملتے رہے۔
لوگ جاسوسی سے باز نہیں آتے۔ محلے دار کبھی کوئی ، کبھی کوئی… خاص طور پر شیریں کے بھائیوں سے آکر اشارتاً آگاہ کرجاتے کہ تمہاری بہن کو اپنے خاندان کی عزت کا پاس کرنا چاہئے ورنہ آپ لوگ اس کو اسکول جانے نہ دیں اور گھر بٹھالیں۔
شیریں کے بھائی ان طعنے بازیوں سے تنگ آگئے انہوں نے کئی بار اپنی بہن کو تنبیہ کے بعد مارا پیٹا بھی۔ مگر کہتے ہیں نا کہ… عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب، جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔ یہ کم سنی کا عشق تھا جو حد سے زیادہ خطرناک عمر میں لاحق ہوا تھا۔ اس عمر میں یوں بھی لڑکے بالے اور الھڑ لڑکیاں… جوش جذبات میں بے خطر عشق کی آگ میں کود جاتے ہیں اور آنے والے وقت کی سنگینی سے نہیں ڈرتے۔
پہلے وہ نزدیکی پارک میں ملتے تھے پھر دور کی کسی تفریح گاہ میں ملنے لگے۔ آخر ایک دن شیریں کے بڑے بھائی، ایوب کے والد واحد خان کے پاس گئے اور ان کے بیٹے کی بھرپور شکایت کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر آپ نے اپنے لڑکے کو کنٹرول نہیں کیا اور وہ ہماری بہن سے ملنے سے باز نہ آیا تو ہم آپ کا بوریا بستر یہاں سے گول کرادیں گے۔
واحد خان بیچارے ایک شریف آدمی تھے۔ انہوں نے بیٹے کو مارا پیٹا وہ پھر بھی باز نہ آیا تو اسے گھر سے ہی نکال دیا اور خود واپس اپنے شہر کو لوٹ گئے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ بغیر پیسوں کے چند دنوں میں ہی ایوب کا دماغ ٹھکانے آجائے گا اور وہ خود گھر لوٹ کر آجائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ایوب کا ایک دوست امجد جو اس کا کلاس فیلو تھا وہ ایک وکیل کا بیٹا تھا اور تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا پس وہ لڑکا ایوب کے ہمراہ ہوگیا۔ اس نے کچھ دن اسے اپنے گھر مہمان رکھا اور جب ایف اے کے امتحان ختم ہوگئے… تو ایک روز شیریں کو ساتھ لے کر یہ لوگ کورٹ چلے گئے۔ اور وہاں ایوب نے شیریں سے ’’کورٹ میرج‘‘ کرلی۔
اسی دوست کے توسط سے ایوب کو ایک معمولی ملازمت مل گئی اور وہ چھوٹے سے کرائے کے گھر میں شیریں کے ہمراہ رہنے لگا۔ وقت گزرتا گیا۔ دونوں جانب کے گھرانے ان دونوں محبت کرنے والوں سے مایوس ہو کر خاموش بیٹھ گئے ۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور یہ اپنی مرضی اور خوشی کی زندگی بسر کرنے لگے۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی ، جوں توں کرکے انہوں نے تنگدستی میں بھی زندگی کے چھ برس گزار دیئے۔اس دوران ایوب کی والدہ … ممتا سے مجبور ہو کر کبھی کبھی اپنے شوہر سے چوری چھپے بیٹے سے رابطہ کرلیا کرتی تھی اور جو بن پڑتا اسے رقم وغیرہ بھجوادیتی تھیں۔ لیکن واحد خان کو ایوب کی اس جسارت کا ایسا صدمہ ہوا کہ اس نے پھر اس سے رابطہ نہ کیا۔
وقت کے ساتھ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہوتا گیا ۔ حالات نے پلٹا کھایا اور چار بچوں کے ساتھ تھوڑے پیسوں میں گزارا کرنا بہت دُشوار ہوگیا۔ جب تنگدستی قابل برداشت نہ رہے تو گھر میں جھگڑا ہونا لاز می ہوجاتا ہے۔ ان میں روز جھگڑا رہنے لگا حالانکہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے۔
حالات سے تنگ شیریں اپنی ماں کے گھر گئی۔ بھائیوں سے معافی طلب کی اور والدہ کے قدموں میں گر گئی۔ تب انہوں نے ایوب احمد کو قبول تو کیا مگر دل سے قبول نہ کیا ، ہاں رہنے کے لئے نانی نے جگہ ضرور دے دی تاکہ مکان کے کرایے سے بچیں اور حالات مزید خراب نہ ہوں کیونکہ اب چار بچے بھی ہمراہ تھے۔
ایوب کی ملازمت بدستور جاری تھی جس سے گزر بسر ہوجاتی تھی لیکن شیریں کی والدہ اور بہنیں ہر وقت اس کے کان بھرتی تھیں کہ اگر تونے اس آدمی سے لو میرج نہ کی ہوتی تو ہم تیری خوشحال گھرانے میں شادی کرادیتے اور تُو اس وقت غربت کی زندگی گزارنے کی بجائے عیش کررہی ہوتی۔
شیریں بہت زیادہ بے سکون رہنے لگی تھی۔ اس کو بچے بھی تنگ کرتے اور رات بھر جاگتی رہتی تب بہنوں نے اس کو خواب آور گولیاں کھلانی شروع کردیں کہ روز یہ کھا کر سوجایا کرو تم کو سکون مل جائے گا۔
شیریں نادان تھی۔ وہ بہنوں اور بھابیوں کے کہنے میں آکر خواب آور گولیاں کھانے لگی لہٰذا اس کا دماغ مائوف رہنے لگا۔ اب وہ ایوب سے خوب لڑتی ، ان لوگوں کو تو ایوب پر غصہ تھا اور وہ اپنے دل کا خار نکالنا چاہتے تھے۔ سو انہوں نے اس کا گھر برباد کرنے کی ٹھان لی۔
جب ساس اور سالیاں…سالے اور ان کی بیویاں ایوب سے حقارت بھرا سلوک کرتے اور اس کو غریب ہونے کے طعنے دیتے تو اس کا دل مضطرب ہوتا۔ بالاخر اس نے ایک غلط شخص کے ساتھ مل کر غیرقانونی کام شروع کردیئے تاکہ دولت کما سکے اور سسرال والوں کے منہ بند ہوجائیں۔
ایوب بے شک اب جلد اور زیادہ رقم کمانے لگا… مگر اس کے حالات پھر بھی سنور نہ سکے۔ وہ اپنی بیوی سے والہانہ محبت کرتا تھا اس کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا اور اسے ہرحال میں خوش دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی جذبے کے تحت اس نے خود کو ’’ہیروئین‘‘ کے دھندے میں پھنسالیا اور پھر ایک روز ایسا آیا پولیس اسے گرفتار کرکے لے گئی۔ وہ لمبی مدت کے لئے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے چلاگیا۔ پولیس نے اس پر کئی کیس بنادیئے اور کوئی ایسا نہ تھا جو اس کے کیسوں کی پیروی کرتا۔
اس کے جیل جانے سے شیریں کی دنیا ویران ہوگئی۔ وہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے شوہروں کے آگے ہاتھ جوڑتی اور منتیں کرتی کہ کسی طرح میرے خاوند کو چھڑوادو لیکن ان کے خون سفید ہوگئے تھے۔ وہ کہتے تھے جو جیسا کرے ویسا بھرے۔ ہم کیوں خواہ مخواہ کوئلے کی دلالی میں اپنے ہاتھ کالے کریں… ہمارا تمہارے شوہر کے غیرقانونی کاموں سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہم اس کو چھڑواسکتے ہیں۔
شیریں کا برا حال تھا وہ پاگلوں کی طرح شوہر کو ڈھونڈتی تھی، جو اس کے دکھ اور سکھ کا ساتھی تھا۔ اس کے بچے باپ کی جدائی میں روتے تھے اوپر سے خواب آور گولیوں نے اس کی صحت اور دماغ پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔
شیریں کے بھائی اور بہنوئی سبھی پیسے والے تھے مگر اب تو کوئی بھی اس کے معصوم بچوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنے پر تیار نہیں تھا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ بچوں کے نام اسکول سے کٹ گئے اور ایک دن آیا کہ شیریں اور اس کے بچے ایک وقت کے کھانے کو بھی محتاج ہوگئے۔
شیریں سے بڑا بھائی جس کا نام شاہد تھا اس کا دل کچھ نرم تھا لیکن شومئی قسمت کہ یہ بھائی زیادہ پیسے والا نہ تھا کہ اپنے گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ بہن اور اس کے چار بچوں کے اخراجات اٹھاتا۔ تاہم وہ کسی نہ کسی طرح شیریں کے ان معصوم بچوں کے لئے ایک وقت کی روٹی ضرور مہیا کرتا تھا۔
شیریں کے دو بہنوئی تو پاکستان میں اعلیٰ عہدوں کے حامل تھے ۔ وہ اس غریب اور اس کے بچوں کے لئے بہت کچھ کرسکتے تھے مگر انہوں نے بھی اس کی مدد سے گریز کیا۔ سگی بہنوں اور بھائیوں کے درمیان ایک بہن اور اس کے بچے فاقوں سے رہتے تھے مگر ان کو توفیق نہ تھی کہ وہ ان پر رحم کھاتے حالانکہ سبھی پیسے والے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ دو وقت کی روٹی انہیں دینا، ان کے لئے کوئی بڑی بات نہ تھی۔
شیریں کے بھائی اور بہنوں کو ملا کر یہ کل نو گھرانے بنتے تھے ، اگر چاہتے تو سب مل کر اس کا اور بچوں کا پالن کرسکتے تھے۔ بچوں کے نام اسکول سے کٹتے اور نہ ہی ان پر فاقوں کی نوبت آتی۔ ان میں سے چند ایک بھی رحم دلی سے کام لیتے تو شیریں کے گھر کا چولہا نہ بجھتا اور نہ بچے تعلیم سے محروم ہوتے۔
سگی بہن پر جب اپنوں نے ترس نہ کیا تو شیریں کا دل برا ہوگیا۔ اس نے سوچا اگر ایوب ساتھ ہوتا تو آج وہ یہ دن نہ دیکھ رہی ہوتی۔ کاش وہ غریب ہی رہتے۔ ایوب نے امیر سسرال والوں کے برابر آنا چاہا تو یہ دن دیکھنے پڑگئے۔
ایک دن شیریں کی ماں اپنی ایک امیر سہیلی کے پاس گئی اور بیٹی کے حالات بتائے تو اس خاتون کا دل پسیج گیا اور انہوں نے چھ ماہ کا راشن لے کردیا اور بچوں کو اسکول میں داخل کرانے کا بھی وعدہ کیا۔ خدا کی کرنی شیریں کی والدہ کا ان ہی دنوں انتقال ہوگیا۔ جن دنوں شیریں کے حالات ایسے تھے ہم ان کے مکان سے چلے گئے تھے مگر میرا چھوٹا بھائی چونکہ اس محلے میں دوستوں سے ملنے جاتا رہتا تھا اس کی زبانی شیریں کے حالات مجھ کو معلوم ہوجاتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد میرا یہ بھائی پڑھائی کی غرض سے بیرون ملک چلاگیا تو ہم کو پھر خبر نہ رہی کہ شریں اب کس حال میں ہے۔ کیونکہ ہم لوگ بھی دوسرے شہر چلے گئے۔ ایک روز میں اپنی ساس کے علاج کی غرض سے لاہور گئی اور اسپتال سے ایک عزیز کے گھر لوٹ رہی تھی تو میں نے شیریں کو دیکھا۔ وہ ایک گاڑی سے اتر کر گلی میں جارہی تھی ۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ اس عورت کے پیچھے لے چلو۔ یہ میری پرانی کلاس فیلو ہے اور مجھے اس سے بات کرنی ہے۔
ہم شاہی قلعے کے قریب تھے، وہ اس کے عقب میں کسی گلی میں چلی گئی تھی تبھی میں نے ڈرائیور کو اس کے پیچھے دوڑایا کہ اسے روکے تاکہ میں اس تک پہنچ کر بات کرسکوں۔ ڈرائیور اس طرف گیا جدھر وہ گئی تھی، کچھ دیر بعد اس نے آکر کہا۔
بی بی… وہ عورت ایک گھر میں چلی گئی ہے۔ میں نے اس کا گھر بھی دیکھ لیا ہے لیکن آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ گاڑی ادھر نہ لے جائیں اور نہ ہی گاڑی سے اُتر کر اس کی گلی میں جائیں۔ میں نے پوچھا ۔ محمد حاصل، مگر کیوں وہ میری سہیلی ہے۔ اس سے کیوں نہ ملوں۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
بی بی… وہ جگہ آپ کے جانے کے لئے مناسب نہیں ہے۔ وہاں شریف عورتیں نہیں جاتیں۔ وہ خراب عورتوں کا محلہ ہے۔ اگر صاحب کو پتا چلا کہ آپ وہاں گئی تھیں تو وہ بہت ناراض ہوں گے۔ ڈرائیور کی بات سن کر میں ششدر رہ گئی ، مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا تو بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا… محمد حاصل ایسا مت کہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا… میری سہیلی شیریں ایک اچھی عورت ہے۔ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
اس نے کہا۔ بی بی… مجھے غلط فہمی نہیں ہوئی۔ وہ سامنے جو پولیس والا آرہا ہے اس سے دریافت کرلیں وہ اسی کے گھر سے نکلا ہے۔
بی بی … بھوک اور غربت بری چیز ہے۔ بھوک اور فاقوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کیا اب چلیں یہاں سے؟
ہاں، محمد حاصل چلو… کیا خبر کیا معاملہ ہے۔ بغیر صاحب سے پوچھے واقعی اس جگہ جانا صحیح نہیں ہے۔ تم ٹھیک کہتے ہو… میں نے کار کو واپس موڑنے کا حکم دیا۔ اور تمام رستے یہی سوچتی رہی کہ کیا واقعی شیریں اور اس کے بچوں کو بھوک نے شریفوں کے محلے سے اس محلے میں آکر بس جانے پر مجبور کیا یا کوئی اور وجہ تھی؟ خدا ہی جانے مگر اس سے نہ مل پانے کی ایک خلش دل میں آج بھی ہے اور کبھی کبھی بہت تکلیف دیتی ہے۔
(م۔ فرید… کراچی)