میرا تعلق ایک دیہات سے۔ ہے، جہاں ہم لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ مواقع نہیں ملتے تھے ، تاہم میں ان خوش قسمت لڑکیوں میں تھی جن پر دیہات میں بھی تعلیم کے دروازے بند نہیں کئے جاتے کیونکہ میرے والد دولت مند تھے اور دولت والے گاؤں کے ہوں یا شہر کے ، رسم ورواج بھول بھی جائیں تو کوئی ان پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا، اس لئے میں اسکول جاتی تھی۔ ان دنوں ہمارے دیہات کے اکثر اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں اس وجہ سے ساتھ پڑھتے تھے کہ حکومت پر ایک چھوٹی آبادی کے لئے الگ الگ اسکول بنا کر اور اس میں اسٹاف رکھنے سے اخراجات کا بوجھ بڑھ جاتا تھا لہٰذا ایک اسکول سے ہی چھوٹے دیہاتوں میں کام چلا لیا جاتا تھا۔ یوں تعلیم کا انتظام لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مشترکہ ہوتا تھا۔ ہمارے اسکول میں بھی لڑکیوں کے لئے علیحدہ اسکول نہیں تھا۔ لڑکے، لڑکیاں ساتھ پڑھتے تھے۔ میرے ساتھ ایک لڑکا پڑھتا تھا، جس کا نام نذیر تھا۔ وہ میرا بڑا خیال کرتا تھا، اس لئے مجھ کو اچھا لگتا تھا۔ جس روز وہ اسکول نہ آتا میرا جی پریشان رہتا، حالا نکہ سارے اسکول میں وہ شرارتی مشہور تھا لیکن میرے ساتھ اس کا رویہ شائستہ تھا اور ہمیشہ مجھ سے مختصر بات کرتا تھا۔ مڈل پاس کرنے کے بعد میں نے اسکول چھوڑ دیا کیونکہ بابا جان کا خیال تھا کہ میں اب بڑی ہو گئی تھی اور میرا لڑکوں کے ساتھ پڑھنا ٹھیک نہیں تھا۔ بتاتی چلوں کہ ہمارا اسکول میٹرک تک کر دیا گیا تھا۔ دو سال بعد میری بہن اسی اسکول میں پڑھنے جانے لگی۔ ایک روز میں نے اس کی کاپی چیک کی تو ایک تصویر اس میں رکھی دیکھی۔ حیران رہ گئی کہ یہ تصویر تو نذیر کی تھی۔ تمام پرانی باتیں یاد آگئیں۔ میں نے وہ تصویر چھپالی۔ جب موقعہ ملتا تو میں وہ فوٹو نکالتی اور سب سے چھپ کر دیکھتی۔
آٹھویں پاس لڑکی جو دو سال تک گھر میں بیٹھی رہے اس کے ذہن میں ادھر ادھر کے خیالات کا گھر کر جانا غیر فطری بات تو نہیں۔ میں بھی تصور ہی تصور میں ، چپکے چپکے نذیر کو چاہنے لگی یہ سوچے بغیر کہ وہ کبھی مجھے ملے گا بھی یا نہیں۔ ایک دن چھوٹی بہن نے مجھے کہا کہ آپی ! میری کاپیوں سے کوئی تصویر تو نہیں ملی ؟ میں نے پوچھا کس کی؟ وہ بولی۔ ایک لڑکی میری کلاس میں پڑھتی ہے ، اس کے بھائی کی تھی۔ وہ ہر روز مجھ سے مانگتی ہے کیونکہ اس کے بھائی نے میٹرک کا امتحان دینا ہے اور یہ فوٹو اس نے بورڈ میں فارم پر لگا کر بھیجنی ہے۔ اچھا، میں تلاش کروں گی۔ میں نے جواب دیا۔ تلاش کیا کرنی تھی، تصویر تو میرے دل میں لگی تھی۔ خیر صبح میں نے نذیر کی تصویر دردانہ کو واپس کر دی۔ ایک دن میں دردانہ سے کوئی سوال پوچھ رہی تھی۔ اس نے جواب صحیح نہ دیا تو میں نے اسے خوب ڈانٹا کہ تم توجہ سے پڑھتی نہیں ہو، تبھی تم کو سوال کا جواب نہیں آتا، اس پر وہ کہنے لگی۔ ٹھہرو آپی ، میں ابھی سوال سمجھ کر آتی ہوں۔ وہ گئی اور تقریباً آدھے گھنٹے میں واپس آگئی۔ کہاں سے سمجھ کر آئی ہو ؟ میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ جس لڑکے کا فوٹو آپ نے تلاش کر کے دیا تھا، وہ اپنے ماموں کے گھر آیا ہوا ہے ، فائزہ کے ہاں۔ فائزہ نذیر کی ماموں زاد تھی جس کا گھر ہمارے گھر کے پاس ہی تھا۔ میں بڑی خوش ہوئی کہ جو میرے تصورات میں بسا ہوا تھا، میں اسے دیکھ سکوں گی۔ ایک روز اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھی تھی کہ سامنے سے ایک لڑکا گزرا۔ ہماری زمینیں گھر کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی تھیں۔ تب ان میں گندم کی فصل لگی ہوئی تھی۔ در کھلا ہوا تھا۔ میں برآمدے سے فصل کو دیکھ رہی تھی، تبھی میں اٹھ کر باہر گئی اور اس لڑکے کو پکارا۔ ٹھہرو کون ہو تم؟ تمہیں خیال نہیں کہ تم نے گندم کی بالیاں اپنے قدموں سے روند کر خراب کر دیں۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو میں حیران رہ گئی۔ وہ نذیر تھا اور اپنے ماموں کے گھر کی طرف جارہا تھا۔ اس نے میری بات کا جواب دیا کہ میں تمہاری شکایت کے جواب میں اپنی ماں کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔
اس پر میں شرما کر رہ گئی۔ کچھ دن بعد ہی ہمارے گھر مہمان آئے۔ یہ خواتین میرا رشتہ مانگنے آئی تھیں مگر امی نے ان کو منع کر دیا اور والدین نے میری شادی کی بات ایک اور جگہ چلادی، صرف اس لئے کہ وہ دولت مند تھے حالانکہ وہ شخص پہلے سے شادی شدہ اور کافی عمر کا تھا۔ جب مجھے پتا چلا کہ نذیر کارشتہ والدین نے رد کر دیا ہے ، میں بہت روئی اور فائزہ سے کہا کہ اپنے کزن سے کہو کہ وہ ایک بار مجھ سے ضرور ملے۔ پیغام ملتے ہی وہ آگیا۔ میں اس کے ساتھ برآمدے میں باتیں کرنے لگی۔ اسے بتایا کہ میرا رشتہ ایک عمر رسیدہ، شادی شدہ شخص سے ہو رہا ہے ، صرف اس لئے کہ وہ زمیندار بڑا ہے اور دولت مند ہے مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مر جاؤں گی مگر وہاں شادی نہیں کروں گی۔ اس پر نذیر کہنے لگا۔ میں تو تم کو اس وقت سے چاہتا ہوں جب تم میرے ساتھ اسکول میں پڑھتی تھیں ، اسی لئے میں نے تمہارے گھر اپنی والدہ کو رشتے کے لئے بھجوایا تھا مگر اب تو انکار ہو گیا ہے، کیا کریں؟ ہم بزرگوں سے لڑ کر تو اپنی بات نہیں منوا سکتے۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ میری والدہ وہاں آگئیں۔ انہوں نے نذیر کو مجھ سے بات کرتے دیکھا تو اسے تو کچھ نہ کہا مگر مجھے جوتا اتار کر مارنے لگیں۔ نذیر نے امی کو روکنا چاہا تو انہوں نے اسے بھی دھکا دے دیا اور مجھ کو گھسیٹتی ہوئی اندر لے گئیں۔ نذیر بہت بے چین ہو گیا۔ وہ وہاں سے نہ گیا بلکہ کھڑکی کے پاس ہی کھڑا رہا اور امی جب مجھے مار پیٹ کر چلی گئیں تو اس نے کہا۔ آج رات تیار رہنا، میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا۔ نذیر کی اس بات پر مجھے یقین نہ آیا۔
جب شام گہری ہو گئی، امی اور بہنیں سونے کے لئے لیٹ میں تو میں چپکے سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس آکر باہر کھیتوں کی جانب دیکھنے لگی، تبھی وہ کھیتوں سے نکل کر کھڑ کی کی طرف آیا اور بولا ۔ جلدی کرو، گھر سے نکل آؤ۔ دیر نہ کرو۔ میں نے کہا۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔ نذیر نے اصرار کیا۔ ذرا ہمت کر لو، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ان لوگوں کو کیوں نہ ہم اپنی بے عزتی کا احساس دلا کر بدلہ لیں۔ ڈرتے ڈرتے میں باہر نکل آئی۔ ہم کھیتوں کھیتوں چلتے بہت دور نکل آئے، جہاں سے نذیر کے دوست کے کھیت شروع ہوتے تھے۔ نجانے کتنی گھڑیاں اور کتنے کوس ہم پیدل چلے ہوں گے۔ میں تو تھکن سے لڑکھڑانے لگی۔ تبھی نذیر نے کہا۔ اگر اب نہیں چل سکتیں تو یہیں کھیتوں میں رات گزارتے ہیں۔ میں جاگتا رہوں گا ، تم سو جانا۔ صبیح اذان سے پہلے ہی میرے دوست احسن کے گھر پہنچ جائیں گے۔ سونا تو کیا تھا اور نیند کس کو آنی تھی اس جنگل میں ، اس رات ہم نے ہر وہ بات ایک دوسرے سے کہہ دی جو خاموشی کی زبان میں ہوتی ہے۔ صبح ہوتے ہی ہم احسن کے گھر پہنچ گئے۔ احسن کے والد نذیر کے چچا ہوتے تھے ،انہوں نے جب ہمارا حال سنا تو پہلا کام کیا کہ ہمارا با قاعدہ نکاح کر دیا اور مجھ سے پوچھا کیا تم راضی ہو اور اپنی مرضی سے آئی ہونا ؟ میں نے چار گواہوں کے سامنے کہا کہ ہاں میں راضی ہوں اور اپنی مرضی سے آئی ہوں۔ نکاح کے بعد نذیر مجھے چچا کے گھر چھوڑ کر خود ان کے ساتھ اپنے گھر گیا اور سب باتیں ان کو بتادیں۔ گھر والوں نے پہلے تو اسے خوب لعن طعن کی کہ تم نے ایسی حرکت کیوں کی ؟ آخر چھ دن اس کے چچا کے گھر رہنے کے بعد ، نذیر کے گھر والے مجھے اپنے گھر رکھنے پر راضی ہو گئے۔ چند دن سب نے اچھا سلوک کیا مگر اس کے بعد آہستہ آہستہ نفرت ابھر کر سامنے آنے لگی۔ نذیر برسر روز گار نہ ہوا تھا۔ ہم دو افراد کا بوجھ اس کے بھائیوں اور بھابیوں پر بہت کھلتا تھا۔ اس کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا تھا۔ ہم پائی پائی کو محتاج ہو گئے تھے۔
جب میرا پاؤں بھاری ہو گیا اور نذیر کی بھابیوں کو پتا چلا تو انہوں نے سوچا کہ اب ان کے بچے کا خرچہ بھی ہمارے خاوندوں پر ہو گا تو انہوں نے ایک نئی چال چلی۔ سب نے مل کر مجھ سے کہا کہ تم اپنے والد کو خط لکھو کہ وہ آکر تمہیں لے جائیں۔ جب تم وہاں جاؤ گی تو پھر ہم آکر تمہارے والدین کی منت کریں گے اور تم کو صلح سے لے جائیں گے، اس طرح تمہارے والدین کی جو سبکی ہوئی ہے ، اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ تمہارے دل کو بھی سکون ملے گا اور دونوں گھرانوں میں دشمنی ختم ہو جائے گی۔
میں بھی اپنے والدین کے لئے افسردہ تھی۔ ذرا سا اخلاقی سہارا ملا تو راضی ہو گئی اور والد کو خط لکھ دیا۔ خط ملتے ہی بابا جان آگئے۔ نذیر کے گھر والوں سے بات ہوئی اور وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ جب تو نذیر کے گھر سے راضی خوشی روانہ ہوئی تھی کہ چلو سسرال والے بھی خوش اور والدین بھی راضی ہو جائیں گے ، مگر یہاں آکر پتا چلا کہ اصل کھیل کیا تھا؟ ایسی میری مرمت ہوئی کہ میرا ماں بننے کا ارمان بھی مٹی میں مل گیا اور وقت سے پہلے ہی گود اجڑ گئی۔ ہیں بہت روئی اور اپنے والد سے کہا۔ مجھے واپس میرے شوہر کے گھر بھیج دو۔ وہ بولے۔ شوہر کیسا،ان لوگوں نے خود تجھ کو بھیجا ہے۔ وہ تجھ کو واپس نہیں لے جائیں گے ، بلکہ طلاق دے رہے ہیں۔ نجانے ان لوگوں نے میرے باپ کے ساتھ کیا ملی بھگت کی، نذیر سے کیا کہا کہ مجھے طلاق نامہ مل گیا اور والد نے پھر میری شادی وہیں کر دی جہاں وہ چاہتے تھے ، حالانکہ اس شخص کو پتا تھا کہ میں گھر سے بھاگ چکی ہوں اور ایک شخص کے نکاح میں رہ چکی ہوں۔ یقیناً پہلے اس شخص کے ساتھ شادی ہوتی تو میرا بہت چاؤ ہوتا، مگر اب تو میں ایک بھاگی ہوئی مطلقہ عورت تھی۔ اب اس گھر میری کیا عزت، میرا یہ شوہر کہتا کہ میں نے تو تمہارے باپ کی لاج رکھ لی ہے ورنہ تم بیوی بنائے جانے کے قابل کب رہی تھیں۔ میں اسے کیا جواب دیتی، چپ رہتی۔ اتنے برس بیت گئے مگر ابھی تک چپ ہی ہوں۔ اے کاش کبھی مجھے ایک بار نذیر مل جاتا تو میں اس سے پوچھتی کہ تم نے مجھے طلاق کیوں دی؟ میرا کیا قصور تھا؟ تم ہی نے مجھے گھر سے بھاگ چلنے کو کہا اور تم نے ہی بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا۔ کیا یہی میرے ماں باپ سے بے عزتی کا بدلہ تھا سو تم نے لے لیا مگر میری زندگی برباد کر دی۔ اگر قسمت میں یہ شادی شدہ شوہر ہی لکھا تھا تو اس کے ساتھ شادی، شان سے تو ہوتی اور سسرال میں قدر بھی ہوتی مگر اب کیا ملا، ہاتھ ملتے رہنے کے سوا۔