میں بستر مرگ پر تھی۔ میرا حسین گلاب سا چہرہ کملا چکا تھا اور رنگ کانٹے بھری ٹہنی جیسا ہو گیا تھا۔ جب بیٹی جدا ہو گئی، تو میرا وجود اس کے پیار میں سمٹا ہوا تھا، وہ پتی پتی ہو کر بکھر گیا۔ اس کے انتظار میں ریزہ ریزہ ہوتی میری آنکھیں رورو کر بے رونق ہو گئیں۔ جس کی راہ تکتے برسوں میرے گھر کا دروازہ کھلا رہا، وہ نہیں آیا اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اب آئے گا بھی نہیں۔ جس کے انتظار میں آنکھیں پتھرانے کو تھیں، وہ کوئی غیر نہیں، میرا شوہر تھا، جس نے اب مجھے اپنی یادوں سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔ میرے دل سے آج تک نہ اس کی صورت محو ہو سکی اور نہ اس کی یادیں مٹیں۔ اس نے مجھے طلاق بھی نہیں دی، پھر میں کیسے سمجھ لوں کہ میں اس کی بیوی نہیں رہی۔ ہماری شادی 1970 میں ہوئی تھی۔ اس وقت ہم دونوں کم سن تھے اور ہمارے دل ایک دوسرے کی محبتوں سے بھرے ہوئے ساگر تھے۔ میں ایک بیوہ ماں کی بیٹی تھی۔ مالی حالات خراب تھے۔ ایک چھوٹا سا ذاتی گھر تھا۔ جب مرحوم والد صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد رقم ملی تو انہوں نے دو کمروں کا گھر بنوایا۔ وہ اسکول ماسٹر تھے۔ والدہ نے باوجود کم آمدنی کے، پر سکون زندگی بسر کی تھی۔ جب میں نویں میں تھی، والد صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا، تب انہیں ریٹائرڈ ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ جب مکان کی تکمیل ہوئی، یہ حادثہ پیش آ گیا اور وہ اپنے خوابوں کی جنت، اپنے ذاتی مکان میں صرف دو ماہ ہی رہ پائے۔ میں والد کی وفات سے غمزدہ تھی کہ میری ملاقات فاخر سے ہو گئی۔ وہ حادثے کا عینی شاہد تھا۔ وہ اس بس میں سوار تھا، جس نے ابو کے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری تھی۔ اس نے بس سے اتر کر والد صاحب کی مدد کی کوشش کی، مگر وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس حادثے کی اطلاع دینے فاخر ہی اپنے دوست کے ساتھ گھر آیا تھا۔ ابا کے بٹوے میں ان کا شناختی کارڈ تھا۔ اس نے تجہیز و تکفین میں ہماری مدد بھی کی تھی۔ اس طرح اس کا امی جان سے تعارف ہوا اور وہ ہمارے گھر آنے جانے لگا۔ وہ ضرورت کے وقت ہماری مالی مدد بھی کر دیا کرتا تھا۔ اس وقت میرے دادا حیات تھے۔ وہ فاخر کے حسن اخلاق سے کافی متاثر تھے۔
فاخر کے دل میں ہمارے لیے یونہی ہمدردی نے جنم نہیں لیا تھا۔ دراصل وہ مجھے پسند کرنے لگا تھا اور دل میں شادی کا ارادہ بنا رکھا تھا۔ میں نے نویں کا امتحان دیا تو وہ حرف مدعالیبوں پر لے آیا۔ اس کے اچھے اخلاق سے میرا دل بھی اس کا گرویدہ ہو چکا تھا۔ اس نے دادا جان سے بات کی۔ انہوں نے شرط رکھ دی کہ میٹرک کرنے کے بعد ہم سلطانہ کی شادی کر دیں گے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ فاخر رشتے کے لیے اپنے والدین کو لائے گا۔ پہلی شرط تو قابل قبول تھی مگر دوسری کا پورا کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ جب اس نے مجبوری ظاہر کی کہ اس کے والدین شادی میں شریک نہیں ہو سکتے تو دادا نے انکار کر دیا۔ اس انکار کا اسے اس قدر صدمہ ہوا کہ اس نے خواب آور گولیاں کھائیں۔ ڈاکٹروں نے بہت کوششوں کے بعد اس کی جان بچائی۔ اب والدہ اس کی طرف ہو گئیں اور دادا سے کہا کہ آپ بوڑھے ہیں اور ہم اکیلے ہیں۔ اگر اس کے والدین شادی میں شامل نہیں ہوتے تو کوئی مجبوری ہو گی۔ دادا سوچ میں پڑ گئے اور اسے بلا کر پوچھا کہ جو معاملہ ہے، سچ سچ بتا دو۔ اس نے کہا کہ وہ لاوارث ہے۔ باپ کی وفات کے بعد اس کی ماں نے کسی اور سے شادی کر لی۔ سوتیلے باپ نے اس کو رکھنے سے انکار کر دیا، تب اس کی ماں کے ایک رشتہ دار نے اس کو پالا پوسا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ والدین کو رشتے کے لیے لانے سے قاصر ہے۔ دادا نے کہا کہ جس رشتہ دار نے پالا ہے، اس سے ہی ملادو۔ ہم اس کے ساتھ معاملات طے کیے لیتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس مہربان نے مجھے پال تو دیا، میٹرک تک پڑھایا بھی، لیکن اب اس کے اپنے بیٹے جوان اور شادی شدہ ہیں۔ اس کی بہوؤں نے مجھے اپنے گھر رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ میں ایک دوست کے ساتھ رہتا ہوں۔ ہم نے کرایے پر کمرہ لیا ہوا ہے۔ میری معمولی سی نوکری ہے۔ یہ میرے حالات ہیں۔ سب کچھ سچ بتا دیا ہے۔
والدہ اور دادا سوچ میں پڑ گئے، بالآخر ماں نے کہا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ کیوں نہ ہم اس کو گھر داماد بنا کر بیٹے کی کمی کو پورا کر لیں۔ بہر حال، میری شادی فاخر سے ہونا تھی ہو گئی، مگر ہماری شرطوں پر نہیں، اس کی شرطوں پر۔ یعنی نہ اس نے اپنے گھر والوں سے ملایا اور نہ اس کی طرف سے کوئی رشتہ طلب کرنے آیا۔ سادگی سے میری شادی اس کے ساتھ ہو گئی۔ جیسا کہ توقع تھی، دادا کی حیات تک وہ بہترین داماد ثابت ہوا۔ ساری تنخواہ میرے ہاتھ پر لا کر رکھتا، امی اور دادا کا خیال کرتا۔ ہمارے گھر کے تمام مسائل کے حل کا ذمہ بھی اس نے اٹھا لیا۔ امی خود کو خوش قسمت سمجھتی تھیں کہ ایسا نیک اور تابعدار داماد مل گیا تھا۔ فاخر نے خاص طور پر یہ شادی اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں سے چھپائے رکھی، تاہم اب مجھے ان باتوں سے کچھ غرض نہ تھی۔ محبت کرنے والے شوہر کو پا کر میں بہت خوش تھی۔ میرے گھر والے بھی خوش اور مطمئن تھے۔ ایک سال سکون کا گزر گیا۔ میں ایک بیٹی کی ماں بن گئی۔ ہماری شادی کو دو سال بمشکل گزرے تھے کہ ایک دن اس نے بتایا کہ میرے سوتیلے باپ نے امی کو چھوڑ دیا ہے، اب ان کو میری ضرورت ہے۔ میرے بغیر وہ خود کو بے سہارا محسوس کرتی ہیں۔ وہ اکیلی ہو گئی ہیں، اس لئے سوچ رہا ہوں، جب تک ان کا زخم تازہ ہے، میں رات کو ان کے پاس چلا جایا کروں۔ کیوں نہیں، تم ضرور اپنی غمزدہ ماں کی دل جوئی کرو۔ اس عمل سے اللہ پاک آپ سے خوش ہوں گے۔ میں سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنی والدہ کی عدت تک ان کے پاس رہیں گے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ مجھے اور امی کو ان کے پاس لے چلئے تاکہ ہم ان کے غم میں شریک ہو سکیں۔ کسی وقت لے چلوں گا۔ فی الحال تو وہ اتنی غمزدہ ہیں کہ اپنے کمرے میں بند رہتی ہیں اور کسی سے نہیں ملتی ہیں۔ اس کے بعد فاخر نے اپنی ماں کے پاس پڑاؤ ڈال دیا۔ وہ صبح سویرے آتے، تیار ہو کر کام پر چلے جاتے، شام کو آ کر کھانا کھاتے، بیٹی سے پیار جتاتے اور رات کو اپنی والدہ کے گھر چلے جاتے۔ انہوں نے میرے بار بار پوچھنے پر بھی نہیں بتایا کہ ان کی ماں کہاں رہتی ہیں، تاہم مجھ سے ان کے پیار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ جب گھر سے جانے لگتے تو اداس ہوتے۔ کہتے، “جب تم سے ملنے کے بعد گھر جانے لگتا ہوں تو مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے۔ رات بھر تمہاری یاد میں نیند نہیں آتی۔ گھر کی چھت سے تمہارے گھر کی طرف جانے والے راستے پر نگاہیں جما کر گھنٹوں کھڑا رہتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ تم بھی تو میرے بغیر پریشان ہوتی ہو گی۔ صبح ہوتی ہے تو فوراً تمہارے گھر کی طرف چل دیتا ہوں۔ وہ یہ باتیں کہتے تو خوشی سے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ سوچتی کہ کیا سبھی محبت والے شوہر ایسی ہی باتیں اپنی بیویوں سے کرتے ہیں؟ اور آج جب فاخر کا دور دور تک کوئی پتا نہیں، مجھے اپنے سارے سوالوں کا جواب آپ ہی مل چکا ہے۔ ہم نے کتنے بہت سے دن، یونہی ایک دوسرے کی جدائی میں تڑپ تڑپ کر گزار دیئے۔ کبھی اس صورت حال سے تنگ آ جاتی تو کہتی کہ مجھے اپنی والدہ کے پاس لے چلو، آخر میں ان کی بہو ہوں۔ وہ تم کو قبول نہیں کریں گی۔ بہتر ہے کہ ان سے مت ملو ورنہ وہ تمہاری طلاق کروادیں گی۔ میں ان کی بات سن کر سہم جاتی۔ کبھی کبھار دل بیٹھنے لگتا، مگر ان کی شکل دیکھتی تو سب وسوسے بھول جاتی۔ پھر اچانک ان کے آنے جانے میں فرق آنے لگا۔ پہلے وہ روز آتے، پھر دو چار دن کا وقفہ پڑنے لگا، بعد میں ہفتے اور پھر ماہ بھر کی دوری اختیار کر لی۔ میری بچی چار سال کی ہونے کو آئی تھی۔ وہ باپ کو یاد کرتی، شکایت کرتی، روٹھتی اور وہ بہانے بناتے۔ وجہ پوچھتی تو مصروفیت بتا دیتے۔ اب میں اپنی بچی کو مل کر گلے سے لگا کر وقت گزارنے لگی۔
ایک دن آئے، عید کا دن تھا۔ میں نے اپنی بیٹی کو نیا جوڑا پہنایا اور تیار کر دیا۔ آج تو میں اپنی بیٹی کو گھمانے پھرانے لے جاؤں گا، میلے کی سیر کراؤں گا، شام کو واپس لے آؤں گا۔ میں نے خوشی خوشی کو مل کو بنا سنوار کر ان کے ساتھ کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر وہ لوٹ کر نہ آئے۔ فاخر تو کیا، میں اپنی بچی کی صورت دیکھنے کو ترس گئی۔ اس کے بعد تو دن کا چین اور راتوں کی نیندیں ہی مجھ پر حرام ہو گئیں۔ انتظار کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ دل پر خوف کے سانپ لوٹنے لگے اور ذہن میں برے برے خیالوں کے بچھو ڈنک مارنے لگے۔ فاخر پر اعتماد تھا۔ خدا خیر کرے، کوئی حادثہ نہ پیش آ گیا ہو۔ ان کے گھر کا پتہ بھی معلوم نہ تھا۔ ایک دن دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ ایک شخص تھا، جس نے اپنا نام ساجد بتایا۔ بولا، میں فاخر کا دوست ہوں۔ وہ اپنی شادی سے پہلے میرے ساتھ کچھ عرصہ ایک کوارٹر میں رہا تھا، پھر وہاں سے چلا گیا۔ آج وہ میرے پاس آیا تھا اور یہ لفافہ دے گیا ہے کہ آپ کو دے دوں۔ وہ لفافہ مجھے تھما کر چلا گیا۔ میں نے لفافے کو بے تابی سے چاک کیا۔ اندر خط تھا۔ فاخر نے لکھا تھا: بچی کو گھر لے کر آیا تھا کہ اسے دیکھ کر شاید امی کا دل موم ہو جائے اور اس کی وجہ سے وہ تم کو بہو تسلیم کر لیں، مگر میرا یہ حربہ ناکام رہا۔ امی نے بچی کو تو قبول کر لیا اور اپنی بہن کے پاس بھجوا دیا تاکہ میں اس کو ان سے جدا کر کے نہ لے جاؤں، لیکن تم کو گھر لانے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔ بہر حال، میں ان کو منانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تھوڑا سا صبر کرو، جلد ان کو منا کر تم کو بھی لے جاؤں گا۔ یہ خط پڑھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کے بعد کے حالات بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ میں فاخر سے ملنے اور دیکھنے کے لیے تڑپتی رہی، مگر اس سنگدل نے اپنی تو کیا، میری معصوم کلی تک کی شکل مجھ کو نہ دکھائی۔ اب میں ایک زندہ لاش تھی۔ ڈاکٹروں نے میری زندگی سے مایوسی ظاہر کر دی تھی۔ ساری دنیا کہتی، فاخر نے تم کو دھوکا دیا ہے لیکن میرا ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ ابا کی پنشن پر گزارہ تھا، اماں کی وفات کے بعد وہ بھی بند ہو گئی۔ میں نے ایک کمرہ اپنے رہنے کے لیے رکھ کر باقی حصہ کرایے پر اٹھا دیا۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ہمت کر کے پرائیویٹ امتحان دیتی رہی۔ بالآخر بی اے کر لیا تو ایک اسکول میں ملازمت مل گئی۔ دو وقت کی روٹی کا آسرا ہوا، مگر فاخر کا دکھ بھولتا نہ تھا۔ ہر وقت دعا کرتی کہ اے اللہ! مجھے میری بیٹی سے ملادے۔ ایک دن اسکول سے گھر لوٹ رہی تھی کہ ایک شخص پر نظر پڑی۔ غور کیا تو مجھے لگا، یہ ساجد ہے۔ آواز دی، بھیا، ذرا ٹھہرو! کیا آپ ساجد ہیں؟ میں نے سوال کیا۔ ہاں، میں ساجد ہوں۔ میں فاخر کی بیوی ہوں۔ کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ پہچان تو لیا ہے، لیکن آپ کافی بدل گئی ہیں۔ ہاں بھیا، غموں نے مجھے ایسا کر دیا ہے۔ دعا کیا کرتی تھی، آپ مل جائیں تو فاخر کا پتہ پوچھوں۔ شاید آپ جانتے ہوں، وہ کہاں ہے؟ میری بیٹی چار سال کی تھی جب عید کے دن اسے سیر کرانے بہانے سے لے گیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن دونوں کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ بھیا، مجھ پر ترس کھاؤ۔ اگر ان کا پتہ یا ان کے بارے میں کوئی خیر خبر دے سکتے ہو تو بتا دو۔ میں نے ہاتھ جوڑے اور پھر اس کے پیروں میں بیٹھ کر رونے لگی۔ اٹھو بہن، رستے میں اس طرح نہ بیٹھو۔ میں آپ کو تمام احوال بتاتا ہوں – وہ میرے ساتھ گھر آ گیا، پھر اس نے بات شروع کی۔ تمہیں بہن کہا ہے تو سچ بھی کہوں گا۔ بات یہ ہے کہ فاخر برا انسان نہیں تھا، مگر بدقسمتی سے اس کا جنم ایسی جگہ ہوا، جس کا نام بھی لینا شرم پسند نہیں کرتے۔ پس وہ بھی بازار حسن کے محلے میں پیدا ہوا، وہاں پلا بڑھا۔ اس کی ماں نہایت حسین عورت تھی۔ وہ ایک دولت مند عیاش شخص کو پسند آ گئی۔ اس نے اس کے ساتھ شادی کر لی، یوں وہ بازار حسن سے ایک بنگلے میں چلی گئی، تاہم وہ اپنا بیٹا اپنی بہن کے حوالے کر گئی تھی جو بازار حسن میں ہی رہتی تھی۔ وہ بڑا ہو گیا تو اس کی ملاقات ایک مولوی صاحب سے ہوئی، جس نے اس کو سیدھے راستے پر لگا دیا۔ وہ ان کے ساتھ چلا گیا، وہاں اس نے میٹرک کیا۔ مولوی صاحب کا انتقال ہو گیا تو اس کو پھر سے اپنی خالہ کے پاس آنا پڑا۔ فاخر نے بچپن سے طبلہ بجانے کا ہنر سیکھا تھا۔ خالہ کے پاس آ کر اسی کام کو اختیار کر لیا، کیونکہ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا تھا۔ بہن! تم سے شادی کے بعد اس نے خالہ کا گھر چھوڑ دیا اور تمہارے گھر چلا گیا۔ اس کی خالہ اس کی کھوج میں تھی۔ اس نے فاخر کا پتہ ڈھونڈ لیا اور ایک روز دوبارہ اپنے گھر لے گئی۔ فاخر نے اسے بتایا کہ وہ شادی شدہ اور ایک بچی کا باپ ہے تو خالہ نے خواہش کی کہ وہ اس کی بچی کو دیکھنا چاہتی تھی۔
کومل چھوٹی سی تھی۔ فاخر کو گمان بھی نہ تھا کہ جس عورت نے اسے ماں بن کر پالا ہے ، وہ اس کے ساتھ دھو کا کرے گی۔ کومل کو دیکھ کر اس کی خالہ کے دل میں فتور آ گیا اور اس نے بچی کو چھپادیا اور فاخر سے جھوٹ بولا کہ بچی سیڑھیاں اتر کر گئی تھی، کہیں بازار میں آگے چلی گئی ہے۔ فاخر نے اس کو بہت ڈھونڈا، اس لئے تمہارے پاس نہیں آیا کہ بچی مل جائے تو جائے ورنہ تم کو کیا منہ دکھائے گا۔ جب بچی نہ ملی تو فاخر نے غصے میں اپنی خالہ کو گولی مار کر قتل کر دیا اور جیل چلا گیا۔ وہ اب تک سزا بھگت رہا ہے۔ ادھر بچی کو اس کی خالہ نے جس عورت کے حوالے کیا، وہ بھی طوائف تھی اور اس کے کوٹھے پر بھی طرح طرح کے لوگ آتے تھے۔ بچی بڑی ہو گئی تو اسے بھی اس دھندے سے لگانا چاہا، مگر اس کی قسمت اچھی تھی۔ ایک پروڈیوسر کو ٹھے پر آیا، کو مل کو دیکھا اور کافی رقم کی پیش کش کی تو وہ عورت اس کو ڈراموں میں کام پر بھیجوانے پر راضی ہو گئی۔ یوں کو مل کی زندگی بن گئی۔ آج وہ اپنے فن کی بدولت بہت دولت کما رہی ہے۔ اسے عزت اور شہرت بھی مل گئی مگر اس نے اپنے ماں باپ کو کھو دیا ہے۔ یہ قصہ سن کر اپنے کانوں کو یقین نہ آرہا تھا۔ میں نے ساجد سے کہا کیا تم مجھے کو مل سے ملوا سکتے ہو ؟ کیا وہ مجھے پہچان لے گی ؟ ہاں ، اگر تمہاری کوئی تصویر اس کے ساتھ ہے تو پہچان بھی سکتی ہے۔ میں دوڑ کر کمرے میں گئی اور البم لے آئی۔ ساجد نے ایک تصویر نکالی اور بولا ۔ تم یہ لے کر میرے ساتھ چلنا۔ جب وہ اسے دیکھے گی تو تم کو ضرور پہچان لے گی۔ اگلے دن ساجد مجھے لے کر کو مل کے بنگلے پر گیا اور چوکیدار سے کہا کہ میڈم کو کہو، ان کے چچا سا جد آئے ہیں اور ساتھ خاص مہمان کو بھی لائے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں کو اندر بلا لیا گیا۔ کو مل نے مجھ کو دیکھا اور ٹھٹھک گئی۔ جب ساجد نے اس کو تمام احوال بتا کر تصویر دکھائی تو وہ میرے گلے لگ گئی۔ یوں اللہ تعالی نے معجزہ کر دکھا یا ہم دونوں کو ملا دیا۔ آج میں کو مل کے پاس ہوں۔ میرا بڑھاپا سکون سے گزر رہا ہے ، لیکن پچھلے دکھ گرچہ بھول نہیں سکتی، بھلانے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ افسوس کہ فاخر کو پھانسی کی سزا ہو گئی تھی، اس لئے اس سے ملاقات کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔