Monday, March 17, 2025

Wafa Ke Qeemat

یہ کہانی ایک یتیم لڑکی، صدف، کی ہے صدف کے اصل والدین ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اور ان کی لاشیں کبھی نہیں ملیں۔ اسی وجہ سے اس کے رشتہ داروں نے اسے مردہ سمجھ لیا تھا۔انکل عادل نے صدف کو گود لے کر اسے بیٹی کی طرح پالا اور ہر طرح سے اس کی کفالت کی۔

انکل عادل نے اسے اپنی بیٹی کی طرح پالا، اعلیٰ تعلیم دلوائی اور اپنی ساری جائیداد بھی اس کے نام کر دی۔ صدف ان کی محبت اور شفقت کو دل سے چاہتی تھی اور ہمیشہ خود کو خوش قسمت سمجھتی تھی کہ اسے انکل عادل جیسے سرپرست ملے۔ اس کی زندگی خوشحال تھی، اور وہ بے حد پرجوش تھی کیونکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر چکی تھی اور اب اپنی کانووکیشن کے دن اپنی ڈگری وصول کرنے جا رہی تھی۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے خاص دن تھا، اور وہ چاہتی تھی کہ انکل عادل اس لمحے میں اس کے ساتھ ہوں۔ وہ خوشی خوشی گھر آئی اور انہیں کانووکیشن کارڈ دینے کے لیے ڈھونڈنے لگی۔لیکن جب وہ پورے گھر میں تلاش کے باوجود انہیں نہ پا سکی، تو اس نے ان کے بیڈروم کی کھڑکی میں جھانکا—اور جو منظر اس نے دیکھا، وہ ناقابلِ یقین تھا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ انکل عادل فرش پر اوندھے منہ پڑے تھے، اور کھڑکی آدھی کھلی ہوئی تھی۔ وہ خوف اور حیرت میں کھڑی رہ گئی، لیکن پھر تیزی سے کھڑکی کے ذریعے اندر گئی۔ جیسے ہی اس نے قریب جا کر دیکھا، اسے احساس ہوا کہ ان پر کسی نے فائرنگ کی ہے۔ خون سے لت پت انکل عادل ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے جا چکے تھے۔صدف کی دنیا اندھیر ہو چکی تھی۔ اس کے سب سے قریب جو شخص تھا، جو اس کا سب کچھ تھا، وہ اب نہیں رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ انکل کا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ انکل نے کبھی اسے اپنے کاروباری معاملات میں شامل نہیں کیا تھا، تو پھر ان کا قتل کیوں ہوا؟پولیس کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ انکل عادل کا قاتل کوئی دشمن نہیں، بلکہ ایک معمولی چور تھا جو چوری کی نیت سے گھر میں گھسا تھا اور مزاحمت کے دوران انکل کو گولی مار دی تھی۔ صدف کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی بڑی مصیبت محض ایک حادثے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔انکل کے انتقال کے بعد صدف بالکل تنہا ہو گئی۔ اس نے ایک سال لگا کر ان کا کاروبار ختم کیا اور معاملات سمیٹ لیے، لیکن اب اسے لندن میں رہنا بے معنی لگنے لگا۔ وہ پاکستان جانا چاہتی تھی، اپنے اصل رشتے داروں کو ڈھونڈنا چاہتی تھی۔پاکستان کا شہر لاہور، جہاں بادشاہی مسجد، شالیمار باغ اور مینارِ پاکستان اس کی یادوں میں بسے تھے، آج بھی اسے اپنی طرف بلا رہے تھے۔ کافی کوششوں اور تگ و دو کے بعد بالآخر وہ دن آ گیا جب صدف اپنے وطن کی سمت پرواز کر رہی تھی۔ایئرپورٹ پر ابو کے پرانے دوست، انکل صالح، اسے لینے آئے۔ انکل صالح نے صدف کی ہمیشہ مدد کی تھی اور اس کا خیال رکھا تھا۔ جب وہ لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر اتری تو اس نے اپنے وجود میں ایک خوشگوار ٹھنڈک محسوس کی۔ ایک مدت بعد، وہ اپنی مٹی میں واپس آئی تھی۔لاہور آج بھی ویسا ہی پررونق تھا، مگر اس کا گھر ابھی تک نگاہوں سے اوجھل تھا۔ وہ اپنی دوست نسرین کے چچا، عاصم انکل، کے گھر گئی، جنہوں نے اسے خوش دلی سے خوش آمدید کہا اور اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ صدف نے ان کے ساتھ مل کر سارا شہر چھان مارا، لیکن اپنے آبائی گھر کا کچھ سراغ نہ ملا۔ وہ مایوس ہو چکی تھی، مگر ایک دن جب وہ انکل عاصم کے ہمراہ شہر کے مضافات سے گزر رہی تھی، تو اچانک اسے ایک پرانی حویلی نظر آئی۔ دروازے پر بڑا سا تالا لگا تھا اور تختی پر دادا احسان کا نام مدہم سا لکھا تھا۔دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

صدف نے بے اختیار حویلی کے اندر جا کر پکارا، “دادی! تایا ابو! دانیال! عائشہ! سلیمان! لیکن ہر طرف خاموشی تھی۔قریب ہی ایک بوڑھا شخص مسجد کے باہر بیٹھا تھا۔ اس نے صدف کو حیرانی سے دیکھا اور کہا، بیٹی، کہیں باہر سے آئی ہو؟ کسے ڈھونڈ رہی ہو؟ یہ حویلی تو کئی سالوں سے ویران ہے۔بوڑھے نے بتایا کہ پہلے یہاں کچھ عرصہ وہ چوکیداری کرتا تھا، مگر جب مکین چلے گئے تو اس نے بھی حویلی چھوڑ دی۔ صدف کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے بوڑھے سے اپنی دادی اور باقی رشتہ داروں کا پوچھا۔ بوڑھے نے افسوس سے بتایا کہ دادی کا انتقال ان کے چھوٹے بیٹے کے کار حادثے کے بعد ہو گیا تھا۔ باقی دو بھائیوں میں جائیداد کے لیے شدید جھگڑا ہوا، مقدمے بازی تک نوبت آ گئی۔ ایک بھائی عبید کہیں اور منتقل ہو گئے، اور دوسرے، حسیب، ابھی لاہور میں رہتے تھے۔یہ سن کر صدف کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ وہ خوشی اور بے چینی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ تایا حسیب کے گھر پہنچ گئی۔ دروازے پر بیل دی، ملازم نے اندر بٹھایا، اور تھوڑی دیر بعد تایا اور تائی اندر آئے۔ انہوں نے صدف کو حیرت سے دیکھا اور اس کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے۔ صدف نے انکل عادل، اپنی زندگی اور یہاں تک پہنچنے کی ساری کہانی انہیں بتائی۔رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں، اور پھر اسے گیسٹ روم میں سلا دیا گیا۔ اگلی صبح صدف خوش تھی، اس کا دل ہلکا ہو گیا تھا، جیسے اس نے دوسرا جنم لیا ہو۔ وہ اپنے کزنز سے ملنے کے لیے بے چین تھی، لیکن ناشتے کی میز پر ہی اس کی خوشی ختم ہو گئی۔تایا اور تائی کے رویے میں عجیب سی سرد مہری تھی۔ ناشتے کے دوران تایا نے الٹے سیدھے سوالات کرنے شروع کر دیے۔ صدف کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اس پر شک کر رہے ہیں۔ تایا نے پولیس کو فون کر دیا اور صدف سے اس کا پاسپورٹ طلب کر لیا۔تائی نے کہا، تم اگر صدف ہو بھی، تو بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عادل مر گیا، اس کے وارث بھی مر گئے۔ ہمیں اب تمہیں اپنا رشتے دار ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔صدف کی آنکھیں حیرت اور دکھ سے بھر گئیں۔ وہ قسمیں کھا کھا کر کہتی رہی کہ اسے جائیداد نہیں چاہیے، صرف اپنے چاہئیں، مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔یہی وہ لمحہ تھا جب صدف کو احساس ہوا کہ دنیا میں سب رشتے جھوٹے ہیں۔ اس کے اپنے وطن میں، اپنے ہی رشتے داروں نے اسے ٹھکرا دیا تھا، جبکہ انکل عادل، جو غیر تھے، اس کے لیے سب کچھ کر گئے۔وہ اس ذلت اور دھوکے کو کبھی نہ بھول پائی۔ وہ جان گئی کہ دولت، رشتے اور خون کے تعلقات سے زیادہ اہم، ایک انسان کا سچا ہونا ہوتا ہے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گی۔ اس کے لیے اب بس ایک ہی حقیقت تھی—وہ واپس لندن جائے گی اور ماضی کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گی

Latest Posts

Related POSTS