سوچتی ہوں کہ بعض رشتے کتنے مقدس ہوتے ہیں کہ جس کا دنیا میں نعم البدل نہیں ہوتا۔ دنیا میں سبھی کچھ مل جاتا ہے لیکن ماں باپ بہن بھائی کھو جائیں تو پھر نہیں ملتے۔ میری بہن نمرا بھی ایسی ہی وفا کی پتلی تھی کہ جس نے ہم بہن بھائیوں پرزندگی واردی لیکن ہم سے اس کو بے وفائی کے سوا کچھ بھی نہ ملا۔ نمرا، باجی سے دو برس چھوٹی تھی لیکن اپنی اٹھان اور اونچے قد کی وجہ سے ان سے بڑی لگتی تھی۔ سبھی اسے بڑی بہن اور زارا باجی کو چھوٹی سمجھتے تھے۔ اور اس نے آگے چل کر یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی بڑی تھی۔ دنیا میں ماں باپ بہن بھائی کےعلاوہ بھی پیار کے رشتے ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم ان پیارے رشتوں سے محروم رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے والدین نے آپس میں محبت کی شادی کی تھی۔ پہلے تو دونوں نے اپنے اپنے والدین کو منانے کی بہت کوشش کی۔ پھربھی والدین نہ مانے تو انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کرلی۔ اس طرح ہم دادا دادی، نانا نانی اور ان سے وابستہ سبھی پیارے رشتوں سے محروم رہ گئے۔ دادا نے ابا جان کوعاق کردیا اور نانا نے کہہ دیا کہ آج سے صنوبر ہمارے لئے مر گئی۔ اب نہ کبھی ہم اس کا منہ دیکھیں گے اور نہ وہ ہمارے گھر آئے گی۔ اور ہوا بھی یہی۔ انہوں نے عمر بھر کے لئے ہم سے رشتہ توڑ لیا تھا۔ ابا ایک اچھے عہدے پر تھے ، ان کو کسی قسم کی مالی پریشانی نہ تھی۔ جب اپنوں نے چھوڑ دیا تو کچھ ملال تو ہوا لیکن اپنی محبت اور خوشی پا کر نئی زندگی میں دل لگا لیا اور مسرور و مگن ہو گئے۔ انہوں نے بھی پلٹ کر پھر اپنوں کی طرف نہ دیکھا۔ آپا زارا پیدا ہوئیں تو زندگی اور خوبصورت ہو گئی۔ دو سال بعد نمرا، پھر بھائی اور میں، پھر سنعیہ دنیا میں آگئے۔ یوں میرے والدین کی جنت مکمل ہو گئی۔ ہمارے آجانے سے ان کی حیات میں چار چاند لگ گئے۔ ہم چاروں ماں باپ کے جگر کے ٹکڑے تھے۔ کچھ لوگ جو خوشیاں جمع کر کے اپنے لئے سلیقے سے جینے کا انتظام کرتے ہیں، کبھی کبھی قدرت ان کو اجاڑ نے کا انتظام پہلے سے کر لیتی ہے۔ ایساہی ہمارے ساتھ ہوا۔ امی ابا ایک شادی میں شرکت کرنے جا رہے تھے کہ ان کی کار کاٹرک سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ جاں بحق ہو گئے ، ہم چاروں بچے گھر میں تھے سوبچ گئے لیکن مالی بنا کیا باغ اور ماں باپ بنا کیا اولاد ان دونوں زارا باجی میٹرک، میں ساتویں جبکہ نمرا نویں جماعت میں تھی۔ بھائی بھی زیر تعلیم تھے۔ باجی کی منگنی میرے والد اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کر گئے تھے لہذا میٹرک کرتے ہی، ان کی شادی ہو گئی۔ انہوں نے یہ سوچ کر شادی کر لی کہ وہ اپنے شوہر اور سسرال والوں کے تعاون سے ہم لوگوں کی زیادہ دیکھ ریکھ کرپائیں گے ۔ کچھ دن تک تو ان کے شوہر اور سسرال والوں نے ہماری دیکھ بھال کی، خرچے میں بھی مددگار ہوئے لیکن جب میرے بہنوئی اسد کو کینیڈا جانے کا چانس ملا تو وہ ہمیں اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر دیار غیر چلے گئے۔ اب ہمیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ نمرا میٹرک کر چکی تھی۔ اسے آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا، لیکن حالات نے اجازت نہ دی، سو نمرا نے نوکری کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اس کی ایک کلاس فیلو کی بڑی بہن اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھی۔ اس لڑکی کی سفارش پر ان کو اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔ ہمارا چولہا پھر سے جلنے لگا۔ دن گزرتے گئے۔ اسد بھائی نے میٹرک کر کے کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔ میں نے اور سنعیہ نے بھی میٹرک کر لیا۔ نمرا اپنی شادی کا خیال دل سے نکال کر ہماری فکروں میں غلطاں رہنے لگی۔ اس نے اپنی زندگی ہم دونوں بہنوں اور اسد بھائی کے لئے وقف کر دی۔ نمرا ہمارا بہت خیال رکھتی تھی لیکن ہم اپنے آپ میں مگن تھے۔ ہم نمرا کی طرف سے غافل رہنے لگے تھے۔ اگر وہ بیمار ہو جاتی تو پروا نہ کرتے ، وہ بستر میں پڑی رہتی ہم پانی کا بھی نہ پوچھتے، وہ آواز دے کر کوئی کام بتاتی تو ناگواری سے کر دیتے۔ وہ کسی بات پر ٹوک دیتی تو کئی کئی دنوں تک اس سے بات نہ کرتے۔ وہ کھانا نہ کھاتی تو بھی ہمیں پروانہ ہوتی۔ ایک رات بھائی شب بھر گھر نہ آیا۔ نمرا بہت پریشان تھی۔ اگلے دن وہ بھائی کو سمجھاتی رہی کہ گھر میں ہم بہنیں اکیلی ہوتی ہیں۔ تم رات کو گھر آجایا کرو۔ رات کو گھر سے باہر رہنے کی عادت اچھی نہیں ہوتی۔ اسد پر بہن کے سمجھانے کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ وہ اب اکثر راتوں کو گھر سے باہر ہی رہنے لگا۔ آخر ایک رات وہ شراب پی کر گھر آگیا تو نمرا سے ضبط نہ ہو سکا اور اس نے غصے میں آکر اس کو ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ پھر کیا تھا اسد نے تو آسمان سر پر اٹھالیا۔ سنعیہ بھی اس کے ساتھ مل گئی اور بڑی بہن کے مقابل آکر بولی۔ تم کون ہوتی ہو بھائی کو روکنے والی ؟ نمرا ان دونوں کو دیکھتی رہ گئی۔ دکھ سے کہا۔ میں تمہاری وہ بہن ہوں جس نے تم لوگوں کی خاطر اپنی خوشیاں آرام حتی کہ زندگی قربان کر دی ہے اور آج تم پوچھتی ہو کہ میں کون ہوتی ہوں۔ احسان مت جتلائو۔ ٹھیک ہے۔ کل سے ہم بہن بھائی یہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ تم ہم کو کما کر کھلاتی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ہم پر ہاتھ اٹھائو۔ رات بھر نمرا روتی رہی، صبح اس کو بخار نے آلیا۔ وہ اسکول بھی نہ جاسکی پھر بھی ہمارا ناشتہ پکانے کو اٹھی۔ دیکھا کہ اسد بریف کیس لئے جارہا ہے تو بھائی کو پکارا۔ اسد کہاں جارہے ہو ۔ جواب ملا۔ ہوسٹل۔ کیوں ، گھر ہوتے ہوتے ہوسٹل کیوں ؟ اس پر سنعیہ نے کہا۔ میں بھی ہوسٹل جارہی ہوں اب اس گھر میں کون سی عزت ملنے والی ہے۔ ہر وقت نصیحت ، روک ٹوک، طعنے اور اب تو نوبت مار تک پہنچ گئی ہے۔ اسد مت جائو۔ تمہارے سوا ہمارا کون ہے۔ میں نے تم کو ماں کی طرح پیار دیا ہے ، پالا ہے۔ آج اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے ہو تو یہ صلہ دے رہے ہو مگر وہ بہن کو روتا چھوڑ کر گھر سے نکل گیا اور پھر نہ لوٹا۔ اس وقت تو میں اور سنعیہ کالج چلے گئے لیکن واپس آکر وہ اٹھتے بیٹھے اس کو طعنے دینے لگی کہ تم نے ہی بھائی کو گھر سے نکالا ہے۔ تم ہماری دشمن ہو۔ اب سنعیہ ہر وقت مجھ کو اکساتی کہ تم نمرا آپی کو چھوڑ دو اور میر اساتھ دو تا کہ ہم کوئی گھر کرایے پر لے لیں۔ اس طرح ہم اپنے بھائی اسد کو ادھر ادھر بھٹکنے رہنے سے روک سکیں گے۔ میں اکیلی یہ قدم نہیں اٹھا سکتی۔ تم ساتھ دو گی تو ہم ایسا کر سکیں گے۔ میں نے ایک دو بار کہا بھی کہ نمرا کو ہم سب نے چھوڑ دیا تو وہ بالکل اکیلی پڑ جائے گی۔ وہ کہتی۔ اکیلی کیوں؟ اپنے گھر میں ہی تو رہ رہی ہے۔ یہاں آس پڑوس میں سب واقف کار ہیں۔ اس کا خیال رکھتے رہیں گے لیکن ہمارے بھائی کا کون خیال رکھے گا۔ وہ اور زیادہ بھٹک جائے گا۔ یوں میں بھی سنعیہ کی باتوں میں آگئی اور نمرا کو چھوڑ کر سنعیہ کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے ایک سہیلی کو کالج میں اپنی داستان کو دکھ بھری بنا کر اس کے دل میں ہمدردی جگالی تھی۔ اس کی وساطت سے ان کا خالی مکان معمولی کرائے پر لے لیا اور اسد بھائی سے رابطہ کر کے اس کو گھر آنے کو کہا۔ اسد کی اس وقت معقول ملازمت تھی۔ وہ کرایہ دے سکتا تھا۔ اس طرح بھائی ہم بہنوں کے ساتھ آکر رہنے لگا لیکن یہاں وہ صرف دو پہر کا کھانا کھانے آتا تھا ورنہ باہر ہی رہتا تھا۔ راتیں اپنے شرابی دوستوں کے ساتھ گزارتا تھا۔ سنعیہ پہلے تو بھائی کی فکر کرتی رہی ، جب وہ سیدھی راہ پر نہ آیا تو اسے یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اسد نوکری سے نکال دیا جائے گا، کیونکہ وہ راتوں کو جاگنے کی وجہ سے صبح سویرے بیدار ہونے سے قاصر تھا۔ آئے دن اپنی ڈیوٹی سے بھی غیر حاضر رہتا تھا۔ سنعیہ نے سہیلی کو حالات بتائے اور خود نوکری کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی سہیلی کافی آزاد خیال تھی۔ اس نے صلاح دی فی الفور نوکری کا ملنا تو مشکل ہے البتہ تم خوبصورت ہو۔ اگر ماڈلنگ کر لو تو کامیاب رہو گی اور پیسہ بھی خوب کمالو گی۔ وہ اس کی باتوں میں آگئی اور یوں آزاد ماحول میں پھنس گئی۔ جب عزت کے لالے پڑ گئے تو سنعیہ کو ہوش آیا اور نمرا کی یاد آئی۔ ادھر نمرا گھر میں اکیلی تنہائی کی آگ میں جلتی رہتی اور اپنی بہنوں اور بھائی کو یاد کر کے روتی۔ میں نے سنعیہ کو صلاح دی کہ تم نمرا باجی سے صلح کر لو۔ ان کے پاس چلتے ہیں مگر وہ نہ مانی کہنے لگی۔ اب کس منہ سے وہاں جائیں۔ ہم تو ان سے لڑ کر آگئے ہیں۔ میں کسی اور طرف قسمت آزماتی ہوں۔ کہیں نہ کہیں تو نوکری مل ہی جائے گی۔ پس وہ کچھ ماہ ادھر ادھر بھٹکتی رہی۔ ان دنوں میں اپنی گریجویشن مکمل کرنے میں لگی تھی۔ نمرا باجی نے امی کا زیور ہم دونوں بہنوں میں بانٹ دیا تھا۔ میں نے اپنے حصے کا زیور بیچ کر ایف ایس سی کیا۔ اسد بھائی کی طرح اب سنعیہ کے مستقبل کا بھی کچھ پتا نہ تھا۔ گھر کا بوجھ مجھ کو ہی سنبھالنا تھا۔ سنعیہ ملازمت کے چکر میں ایک بڑے آدمی کے ہتھے چڑھ گئی، جس نے اس کا سودا ایک ایسے شخص سے کر دیا جو اس کو لے کر بیرون ملک جا رہا تھا۔ جب مجھے اس امر کی سن گن ہوئی تو میں نے بھاگ دوڑ کر ایک پڑوسی کے ذریعہ سنعیہ کو ان بد معاشوں کے چنگل سے نکالا۔ وہ اتنا ڈر گئی تھی کہ اب گھر سے باہر قدم نہ رکھتی تھی۔ ادھر اسد کثرت شراب نوشی کے سبب بیمار پڑ گیا۔ میں اس کو ایک دن زبردستی اسپتال لے گئی، جہاں میری ملاقات ایک نرس سے ہوئی۔ اس کا نام لیلی تھا۔ اس کی زندگی بھی میری بہن نمرا جیسی تھی۔ اس نے ہمارا درد محسوس کیا اور مجھے اپنی چھوٹی بہن بنا لیا۔ بھائی کی نوکری چھٹ گئی تھی اور وہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ میں مکان کا کرایہ نہ دے سکتی تھی۔ لیلی نے مجھے زارا باجی سے بات کرنے کا مشورہ دیا اور رابطہ کرایا۔ زارا باجی نے کہا کہ میں نہ تو پاکستان آسکتی ہوں اور نہ آپ لوگوں کو بلا سکتی ہوں کیونکہ یہاں کے قانون اور طرح کے ہیں۔ ابھی ہم لوگوں کو شہریت نہیں ملی ہے۔ اس کے لئے تین سال مزید یہاں رہنا ہے۔ میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں لہذا میرا آنا بھی ممکن نہ ہے۔ البتہ کچھ رقم تم کو بھجوا سکتی ہوں۔ لیلی باجی نے مشورہ دیا کہ تم اپنی باجی کا آسرا مت کرو بلکہ خود اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائو۔ میں یہاں سینئر نرس ہوں۔ آج کل نرسوں کی ٹریننگ کے لئے آسامیاں نکلی ہوئی ہیں۔ اس موقع کو ہاتھ سے مت جانے دو اور نرسنگ کر لو۔ آنے والے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے ان کی بات مان لی جبکہ میں تو ڈا کٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ ادھر اسد کا علاج جاری تھا کہ مالک مکان نے ہم سے گھر خالی کرا لیا۔ لیلی باجی نے ہم کو عارضی طور پر اپنے کوارٹر کا ایک کمرہ دے دیا، جہاں میں وہ ماں بیٹی ہی کواٹر میں رہتی تھیں۔ ان کا بیٹا ان کو چھوڑ کر کہیں چلا گیا تھا۔ وہ بیٹے کا غم کرتی رہتی تھیں۔ لیلی کی ماں اسد کا خیال رکھتی۔ لیلی بھی میرے بھائی کا بہت خیال رکھتی تھی اور اس کی ایک بڑی بہن کی طرح خدمت کرتی۔ پیار سے بات کرتی تو اسد کو نمرا کی یاد ستانے لگتی۔ اب اس کا احساس جاگا کہ اس کی بہن نے کتنے دکھ اٹھا کر اسے کسی قابل بنایا تھا اور وہ اس کی خیر خبر سے بھی غافل تھا۔ ایک دن لیلی اور میں اسد کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو وہاں ہم نے نمرا کو دیکھا، جو بیمار تھی اور دوا لے کر جا رہی تھی۔ ہم دونوں ہی اس کو دیکھ کر تڑپ گئے۔ میں نے بھائی سے کہا چلو ہم اپنی بہن کے پاس چلتے ہیں۔ اس سے معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسا مت کرنا۔ وہ تو خود اتنی لاغر ہورہی ہے۔ مجھ کو اس حال میں دیکھے گی تو صدمے سے گر پڑے گی ۔ اس کو جانے دو ، جب میں ٹھیک ہو جائوں گا تو ہم دونوں اس کے پاس چلیں گے اور معافی مانگ لیں گے۔ اسد کو ٹھیک ہوتے ہوتے بھی سال لگ لیا۔ بالآخر ایک روز میں اس کو بتائے بغیر ہی نمرا سے ملنے چلی گئی کیونکہ آج مجھ کو اس کی یاد بہت بری طرح ستارہی تھی۔ جب سے اسے بیماری سے تنہا نبرد آزما دیکھا تھا، مجھ کو چین نہ آتا تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا جو اندر سے بند تھا۔ کوئی جواب نہ آنے پر پڑوس میں جا کر پتا کیا۔ انہوں نے کہا کہ نمرا کافی دنوں سے بیمار تھی۔ ہفتہ بھر سے ہم نے اس کو دیکھا ہے اور نہ ملاقات ہوئی ہے۔ میں نے کافی دیر دستک دی ہے اندر سے جواب نہیں ملا۔ اچھا میں چل کر دیکھتی ہوں۔ پڑوسن میرے ساتھ آئی اس نے بھی دیر تک در بجایا مگر نمرا نے نہ کھولا۔ دوپہر کا وقت تھا ہم کو تشویش ہوئی۔ میں اپنے لڑکے کو بھیجتی ہوں۔ وہ چھت سے آپ لوگوں کی چھت پر کودے گا اور دیکھے گا کہ کیا معاملہ ہے۔ ان کا لڑکا جو پندرہ سولہ برس کا تھا۔ وہ اپنی چھت سے ہماری چھت پر گیا اور وہاں سے زینے کی ذریعے صحن میں آپہنچا۔ نمرا کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ نمرا بستر پر سورہی تھی۔ لڑکے نے گھر کے اندر سے بیرونی دروازہ کھولا۔ میں اور اس کی والدہ اندر گئیں۔ اپنے کمرے میں میری بہن بستر پر ایسے لیٹی تھی جیسے سونہ رہی ہو بلکہ نیم کھلی آنکھوں سے ہم کو دیکھ رہی ہو۔ میں قریب گئی اس کو ہلایا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ زندہ نہیں ہیں۔ پڑوسن سے کہا۔ آپ دیکھئے۔ انہوں نے ہلایا جلایا اور بولیں۔ یہ زندہ نہیں ہیں۔ یہ سن کر میرا بدن ٹھنڈا پڑ گیا۔ مجھے لگا کہ کسی نے میرے ہاتھ پیروں سے جان کھینچ لی ہو۔ مجھ کو اپنے کانوں اور آنکھوں پر اعتبار نہ آرہا تھا۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ اس نے بتایا کہ چودہ گھنٹے قبل ان کا انتقال ہوا ہے۔ گویا میں اگر ایک روز پہلے آجاتی تو ان سے ان کی زندگی میں مل لیتی لیکن مجھ کو بھی آنے میں دیر لگی۔ بھائی ان کو زندہ نہ پا سکا لیکن کندھا دینے آیا۔ پھر سنعیہ بھی روئی اور ہاتھ ملتی آگئی۔ زارا باجی کو فون کیا ، وہ آگئیں۔ تب تک نمرا کو دفنایا جا چکا تھا۔ آج ہم اپنی پیاری بہن کو یاد کر کے روتے ہیں۔ پڑوسی جب ہمیں روتے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پہلے وفا نہ کی اور اب روتے ہیں۔ سچ ہے اولاد سے وفا ممکن نہیں پھر بھلا بھائی بہن وفا کب کرتے ہیں۔ ہم نے تو جس کو بھی بھائی بہنوں کے پیچھے زندگی خراب کرتے دیکھا، اس کی زندگی آخر خراب ہی ہوئی۔ یہاں تک کہ وہ مٹی میں جا ملے۔