دسویں کلاس کے پہلے دن سب سے آخر میں آنے والی طالبہ نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ پرکشش کتابی چہرے اور بڑی بڑی بے قرار آنکھوں والی اس لڑکی میں جانے کیا بات تھی کہ نظر اس کے چہرے سے ہٹتی نہ تھی۔ اتفاق سے میرے برابر والی سیٹ خالی تھی، ٹیچر ابھی نہیں آئی تھیں۔ اس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی اور میرے پاس خالی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے رسان سے اپنی کتابیں سامنے رکھ دیں۔ سب سے اوپر اس کی ڈائری تھی جس پر اس کا نام واضح طور پر درج تھا… ثمینہ خان۔
مجھے مخاطب کرنے کی خاطر اس سے نام پوچھنے کی زحمت نہ کرنی پڑی۔ میں نے کہا۔ خوش آمدید ثمینہ، آج کلاس میں ہمارا پہلا دن ہے اور تم مجھے بہت اچھی ہم نشست مل گئی ہو۔ شکریہ۔ اس نے قدرے خوش اخلاقی سے مسکرا کر جواب دیا۔ میں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا اور میں ہوں فاخرہ فخر۔ اوہ۔ اچھا نام ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ میں نے ہاتھ ملایا۔ اس کا ہاتھ نرم ملائم تھا جیسے کبھی گھریلو کاموں کو ہاتھ نہ لگایا ہو۔
ثمینہ کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں، جنہیں سن کر انسان اس کا گرویدہ ہو جاتا۔ تاہم کبھی کبھی وہ مجھ سے ایسی باتیں کہہ جاتی کہ میں پریشان ہو جاتی۔ مثلاً وہ کہتی۔ ہم لڑکیوں کو بھی اپنی مرضی سے جینے کا حق ہے۔ پابندی زندگی میں گھٹن بھر دیتی ہے اور باصلاحیت لوگ اس قسم کی گھٹن کو برداشت نہیں کر سکتے، اس گھٹن کو برداشت کرنے سے تو مر جانا بہتر ہے۔ وہ یہ بات اس قدر شدومد سے کہتی کہ میں ڈر جاتی تھی۔ مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی ایسا مسئلہ موجود ہے جس کی وجہ سے وہ بے چین رہتی ہے اور گھٹن محسوس کرتی ہے۔
ایک روز میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ کوئی مسئلہ ہے تو بتائو۔ آخر کیوں ایسی باتیں کرتی ہو؟ بولی۔ اداکاری کا شوق ہے، جانتی ہوں کہ گھر سے اجازت ملے گی اور نہ میں اپنا یہ شوق پورا کر سکوں گی۔ میرا تعلق ایک قدامت پسند گھرانے سے ہے، گھر کا ماحول گھٹا ہوا ہے، والد تو رسالے تک پڑھنے پر معترض رہتے ہیں۔ یہ تو والدہ کی ہمت ہے کہ ہم بہنوں کو اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔ دیکھو جہاں لڑکیوں کے پڑھنے پر پابندی ہو، ظاہر ہے وہاں کا ماحول کیسا ہو گا۔
کچھ دنوں سے محسوس کر رہی تھی کہ ثمینہ چپ چپ رہنے لگی ہے۔ وہ اب زیادہ بات نہ کرتی۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا۔ ثمینہ تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو؟ میرے سوال کے جواب میں بولی۔ مجھے حکم ملا ہے کہ پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر دوں کیونکہ ابا میری شادی کی تاریخ رکھ رہے ہیں۔ کس کے ساتھ؟ ہے ایک چغد، میرے چچا کا بیٹا ہے۔ نام وجاہت ہے مگر شکل صورت بالکل احمقوں جیسی ہے۔
شکل و صورت میں کیا رکھا ہے، بندہ ٹھیک ہونا چاہئے۔ میں نے کہا۔ شکل وجہ ہے کہ نہیں مگر مجھے نفرت ہے اس سے۔ نفرت کی وجہ…؟ کیونکہ کسی سے نفرت کرنے کی بھی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ مجھے وجہ نہیں معلوم… وجہ کوئی نہیں ہے، بس وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اس کی صورت بھاتی ہی نہیں۔ وہ بہت سیدھا سادہ ہے۔کیا سیدھا سادہ ہونے میں کچھ برائی ہے؟ وہ بولی نہیں۔ برائی کوئی نہیں، بس بلاوجہ برا لگتا ہے۔ اپنے اپنے دل کی بات ہے۔ دل کو نہ بھائے تو میں کیا کروں۔ عجیب منطق ہے تمہاری۔ دراصل تم ابھی شادی کرنے کے موڈ میں نہیں ہو اور تمہارے ابا کی ہیں پانچ بیٹیاں، انہیں اپنے فرائض سے فارغ ہونے کی جلدی ہے۔ جو بھی ہے… میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وجاہت سے تو ہرگز شادی نہیں کروں گی؟ کوئی اور پسند ہے تمہیں؟ کوئی پسند نہیں۔ پہلے کچھ کر کے دکھانا چاہتی ہوں، شادی تو کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے دلائل کے آگے میں خاموش ہو رہی۔
اگلے روز اسکول آئی تو کافی پریشان تھی، کیونکہ اس کے والد اس کی شادی کے معاملے میں بہت سنجیدہ تھے۔ کہنے لگی۔ جی چاہتا ہے کسی کو تلاش کر کے پسند کر لوں اور اس کے ساتھ گھر سے بھاگ جائوں تاکہ اس آلو کی شکل کے وجاہت سے نجات مل جائے۔ میں نے کافی سمجھایا کہ دیکھو ثمینہ تمہارے والدین جو بھی کر رہے ہیں ان شاء اللہ تمہارے حق میں بہتر ہو گا۔ اگلے روز تین دن کی چھٹیاں اکٹھی آگئیں۔ پیر کے دن وہ اسکول آئی تو ہتھیلیوں پر مہندی لگی تھی اور انگلی میں منگنی کی انگوٹھی چمک رہی تھی۔ میں نے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟ ثمینہ بولی۔ منگنی کی رسم تو انہوں نے زبردستی کرلی مگر دیکھ لینا میں بھاگ جائوں گی مگر وجاہت سے شادی نہیں کروں گی۔
بھاگ کر آخر جائو گی کہاں؟ فلم انڈسٹری چلی جائوں گی، کوئی نہ کوئی تو مل ہی جائے گا مجھے پناہ دینے والا۔ توبہ کرو۔ کیسی باتیں کرتی ہو بچوں جیسی۔ مگر تم تو ہو ہی بچی۔ میں نے اسے چھیڑا۔ کہنے لگی۔ جی نہیں، میں اب اتنی بھی بچی نہیں ہوں کہ بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل پڑوں۔ اب گھر والے کہتے ہیں کہ ادھر ادھر کی نہ سوچو بس پڑھائی پر توجہ دو، کوئی ان سے پوچھے جب آگے پڑھانا نہیں ہے تو پھر کس لئے پڑھائی پر توجہ دوں۔ ارے بھئی۔ میٹرک کا امتحان تو دینا ہے نا۔ امتحان ہی تو نہیں دے سکتی، سالانہ پیپروں سے پہلے شادی کی تاریخ رکھ دی ہے ابا نے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہی تو ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں پیپر شادی کے بعد بھی دیئے جا سکتے ہیں، جب کہ یہ ناممکن سی بات ہے۔ ناممکن تو نہیں اگر شوہر اور سسرال والے تعاون کرنے والے ہوں۔ ہاں ذرا دشوار ضرور ہے۔ تبھی تو کہتی ہوں کہ بھاگ جائوں۔ میں نے تسلی دی، ہمدردی کی تو موٹے موٹے چند آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔ تب مجھے واقعی اس پر ترس آیا کہ بیچاری کیا کرے کہ انسان کب تک دل پر جبر کر سکتا ہے۔ میں نے دعا کی کہ خدایا اس کی قسمت اچھی کر دے، میری دوست کو سکھی کر دے۔ کچھ دنوں بعد اس نے اسکول آنا چھوڑ دیا تو پریشان ہو کر اس کے گھر گئی۔ اس سے پوچھا۔ اسکول آنا کیوں چھوڑ دیا۔ جب میری شادی ہی ہونی ہے تو کیوں آئوں اسکول۔ اچھا گھر میں بیٹھ کر پڑھائی کرتی رہو۔ کس لئے پڑھوں اور کیوں امتحان کی تیاری کروں ؟جب کہ امتحان دینا نہیں ہے۔
یااللہ… تو پھر سکون سے شادی کر کے گھر بسا لو۔ میں شادی نہیں کر رہی۔ تو کیا کرنے کا ارادہ ہے۔ مجھے بتائو۔ بتاتی ہوں۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے دراز کھولی اور اخبار کا ایک صفحہ نکال کر دکھایا۔ یہ دیکھو اس میں اشتہار آیا ہے۔ ایک فلم کمپنی کو نئے چہروں کی ضرورت ہے۔ اف میرے خدا۔ اس نے اپنی سی کرنے کی ٹھان لی ہے۔ میں نے اخبار کا تراشا لے کر پڑھا۔
خدا جانے اس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ مجھے اس سے انس ہوگیا تھا۔ اس کی طوفانی سوچیں بھی مجھے اس سے دور نہ کر سکیں۔ سوچا…اے کاش اس کے والدین میٹرک کے سالانہ امتحان تک صبر کر لیتے تو اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ نہ ہوتا۔ لیکن گھر والوں کو اس کے احساسات کی پروا نہ تھی۔ وہ اپنی سی کرنے پر تلے تھے۔ اس کے والد تو پہلے ہی یہ چاہتے تھے کہ وہ اسکول نہ جائے۔ انہوں نے اس کے گھر بیٹھ جانے کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس کے لئے شادی کے جوڑے وغیرہ سل رہے تھے۔ شادی کی شاپنگ ہو رہی تھی… اور وہ بے چین سی پھر رہی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے اپنی چھوٹی بہن کو بھیج کر بلوا لیا۔ میں گئی تو بولی۔ فلم کمپنی کے اس دفتر کا پتا جاننا چاہتی ہوں کہ کہاں واقع ہے جنہوں نے اخبار میں اشتہار دیا ہے۔ تم میرے ساتھ چلو گی؟ پتا تو اخبار میں لکھا ہے، چلو جا کر دفتر دیکھ آتے ہیں۔ پاگل ہو گئی ہو۔ پندرہ دن بعد تمہاری شادی ہے اور تم فلم والوں کو انٹرویو دینے چلی ہو۔ کہنے لگی۔ تم ساتھ نہیں چلتیں نہ سہی۔ میں خود چلی جائوں گی۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ میں کیونکر اس کے ساتھ جا سکتی تھی۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ آخرکار وہ دن آ پہنچا جب اسے بابل کے گھر سے رخصت ہونا تھا۔ اس کی والدہ ہمارے گھر کارڈ دینے آئیں۔ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ ثمینہ مجھ سے ناراض ہے۔ کیسے اس کا سامنا کر پائوں گی۔ مایوں سے ایک روز قبل اس کے گھر گئی تاکہ اس کو منا لوں۔ وہ مجھے دیکھ کر ناراضگی کا اظہار کرنے کے بجائے خوش ہوگئی۔ بولی۔ جانتی ہو۔ میں فلم کمپنی کے دفتر گئی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس ماہ کی سولہ تاریخ کو انٹرویو ہے۔ کیسے گئیں تم؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ درزی کو شادی کا جوڑا دینا تھا۔ امی کے ساتھ گئی کہ اپنی پسند کا لہنگا سلوائوں گی۔ ٹیلر نے رسالے میں لہنگے کے ڈیزائن دکھائے۔ میں نے امی سے کہا کہ اس پتے پر ایک سہیلی کا گھر ہے، اسے کارڈ دینا ہے۔ میں نے اخبار کے اشتہار سے کاغذ پر پتا لکھ لیا تھا۔ وہ مجھے رکشے پر لے گئیں۔ میں نے امی سے کہا کہ آپ بلڈنگ کی سیڑھیاں نہ چڑھ سکیں گی، آخری منزل پر گھر ہے۔ آپ رکشے میں بیٹھی رہیں، میں کارڈ دے کر ابھی آتی ہوں۔ وہ رکشے میں بیٹھی رہیں اور میں اوپر چلی گئی۔ وہاں دو آدمی آفس میں موجود تھے۔ اشتہار دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا اسکرین ٹیسٹ ہوگا… سولہ تاریخ کی شام کو آ جائیں۔ سولہ کو تمہاری رخصتی ہے؟ میں نے اسے یاد دلایا۔ رخصتی تو رات کو ہو گی، شام کو بیوٹی پارلر نہیں جانا کیا؟ تو کیا تمہارا وہاں سے جانے کا ارادہ ہے؟ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی، اس کی والدہ اور کچھ رشتے دار لڑکیاں آگئیں۔ لڑکیاں اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ شام ہو رہی تھی، میں گھر آگئی۔ دل میں وسوسے لے کر دعا کرتی رہی، اللہ کرے اس کا دماغ جگہ پر رہے، کہیں کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کر گزرے کیونکہ جوشیلی ثمینہ سے کچھ بعید نہ تھا۔
مایوں کی رسم ہوگئی، خیریت گزری۔ پھر شادی کا دن آ پہنچا۔ چار بجے اسے بیوٹی پارلر جانا تھا۔ اس کے ساتھ دو بہنیں گئیں۔ ماموں نے اپنی گاڑی اور ڈرائیور دے دیا تھا۔ بیوٹی پارلر جاکر میک اَپ کرایا اور جوڑا پہن لیا۔ بہنوں سے کہا کہ امی کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ زیور لے کر آئیں۔ میں زیور یہیں سے پہن کر چلوں گی۔ بہنوں نے بہت کہا کہ زیور یہاں لانے میں خطرہ ہے، احتیاط کرنی چاہئے۔ بولی۔ امی کے ساتھ ماموں آ جائیں گے مگر یہی لوگ مجھے مکمل طور پر تیار کریں گے جنہوں نے میرا میک اَپ کیا ہے۔ مجبور ہو کر بہنیں ڈرائیور کے ہمراہ گھر آ گئیں۔ ماں کو بتایا کہ ثمینہ نے زیور لانے کا کہا ہے۔ آپ، ماموں جان کے ساتھ چلئے اور زیور بالوں اور سر میں لگانے کا اسے لے چلئے، ایسے وہ بال بنوانے کی نہیں ہے۔ مجبوراً ماں نے سب کام چھوڑا، بھائی کو ہمراہ لیا اور کچھ زیور ساتھ لیا۔ جب بیوٹی پارلر آئے، ثمینہ کو نہ پایا، خدا جانے وہ کب وہاں سے نکل گئی تھی۔ بیوٹی پارلر والوں کو بھی پتا نہ چلا۔ اسے وہاں نہ پا کر سب پریشان ہو گئے۔ والدہ رونے لگیں۔ گھر آ کر ثمینہ کے والد کو بتایا۔ وہ بھی پریشان ہو گئے۔
میں اور امی ان کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ آنٹی کو میں علیحدہ کمرے میں لے گئی اور بتایا کہ آپ فلاں جگہ جایئے۔ آج اس کا انٹرویو ہونا تھا۔ وہ دھن کی پکی، وہاں نہ چلی گئی ہو۔ اس کی والدہ نے کہا۔ ہاں بیٹی وہ بلڈنگ میں نے دیکھی ہے، مجھے لے گئی تھی سہیلی کو کارڈ دینے کا کہہ کر۔ دس منٹ سے پہلے واپس آ گئی تھی۔ میں نے اشتہار پڑھا تھا۔ پتا مجھے یاد تھا۔ کاغذ پر لکھ کر آنٹی کو دے دیا۔ یوں ثمینہ کے والد دفتر جا پہنچے۔ وہ واقعی وہاں موجود تھی۔ کچھ لڑکیاں انٹرویو دینے آئی ہوئی تھیں۔ ثمینہ عروسی لباس میں ان کے دفتر میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ باپ کو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا مگر انکل نے عقل مندی سے کام لیا اور کہا۔ بیٹی گھر چلو۔ انٹرویو بعد میں دے دینا۔ وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا انٹرویو دلوانے کے لئے میں خود آئوں گا لیکن ابھی میری عزت رکھ لو۔ انکل نے فلم کمپنی کے منیجر سے بھی بات کی کہ آج میری بچی کی شادی ہے۔ آج اس کا انٹرویو ہے، ابھی اسے دوسری تاریخ کا کہہ دیجئے۔ اس کا نکاح ہونا ہے اور سب لوگ جمع ہیں، میری عزت کا سوال ہے۔
باپ کی التجا پر اس شخص نے کہا۔ ثمینہ بی بی آپ اپنے والد کے ہمراہ گھر جایئے، ہم آپ کا انٹرویو یکم کو لیں گے۔ ابھی انٹرویو پندرہ روز تک جاری رہیں گے۔ پہلے گھر بسایئے۔ انٹرویو بعد میں ہوتا رہے گا۔ اسے مجبوراً والد کے ہمراہ آنا پڑا۔ زینہ اتر کر کار تک آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ڈرائیونگ سیٹ پر وجاہت موجود تھا۔ گویا والد نے اس کو سب سے زیادہ قابل اعتماد سمجھا تھا کیونکہ وہ خود ڈرائیو نہیں کر سکتے تھے۔ بہرحال نکاح ہوا اور پھر رخصتی ہو گئی۔
شب عروسی وجاہت نے پوچھا۔ تم کیوں عین وقت پر چلی گئیں، والد کا تو کچھ خیال کیا ہوتا۔ میں کچھ کرنا چاہتی ہوں وجاہت۔ مجھ میں جو صلاحیت ہے اسے مار کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ جب دفتر دیکھنے گئی تھی وہاں موجود کمپنی کے منیجر نے کہا تھا کہ آپ خوبصورت اور باصلاحیت ہیں، آپ کی کامیابی کے بہت امکانات ہیں۔ جب میں بیوٹی پارلر سے تیار ہو چکی اور خود کو آئینے میں دیکھا تو مجھے لگا کہ انہوں نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اگر اب موقع گنوا دیا پھر کبھی نہ ملے گا، اسی لئے انٹرویو دینے چلی گئی۔ کسی کے ساتھ بھاگی تو نہیں ہوں، بس اپنا آپ منوانا چاہتی ہوں۔
وجاہت بہت سمجھدار انسان نکلا، جسے وہ احمق کہتی تھی، اس نے باتوں باتوں میں اس کا دل مٹھی میں لے لیا۔ یقین دہانی کرائی کہ جیسی زندگی وہ چاہے گی بسر کرسکے گی، وہ ہرگز اس پر کوئی قدغن نہ لگائے گا۔ وہ آزادی کے ساتھ جی سکتی ہے۔ وجاہت کا سلوک بعد میں بھی ثمینہ کے ساتھ اس قدر اچھا رہا کہ اس نے وجاہت کی قدر کرنی شروع کر دی۔ وہی شخص جسے وہ برا جانتی تھی، جس کے بارے میں کہتی تھی کہ مجھے اس سے نفرت ہے، اسی سے محبت کا رشتہ استوار کر لیا اور وہ وجاہت کا ویسا ہی خیال رکھنے لگی، جیسا وہ اس کا خیال رکھتا تھا۔ جب میں نے ثمینہ کو اس قدر بدلا ہوا پایا تو سکھ کا سانس لیا۔ میں نے کہا۔ ثمینہ… واقعی تم نے تو کمال کر دیا۔ کہنے لگی۔ میں نے نہیں وجاہت نے کیا ہے، تم نے دیکھا کہ وہ کتنے بڑے دل کا مالک ہے۔ والد نے جب پریشان ہو کر اسے بتایا کہ دلہن غائب ہے تو اس کا دل دھک سے رہ گیا تھا کیونکہ کسی کو میرے شوق کا علم اور اندازہ نہ تھا، والدین نے قیاس آرائی سے کام لیا کہ کسی اور کو پسند کرتی ہو گی تب ہی عین شادی کے روز اس کے ساتھ چلی گئی ہے لیکن وجاہت نے والد کو حوصلہ دیا اور کہا۔ انکل آپ کی عزت ہماری عزت ہے، کسی کو خبر نہ کیجئے، میرے والدین کو بھی نہیں۔ پہلے اس پتے پر چلئے جو آنٹی نے دیا ہے، بعد میں سوچتے ہیں کیا کرنا ہے۔
انکل نے کہا تھا۔ مل جائے ثمینہ، گھر لا کر اس کا گلا نہ دبا دیا تو کہنا۔ وجاہت نے انہیں قسم دی تھی کہ آپ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ جیسی بھی ہے میری امانت ہے۔ مجھے ہر حال میں منظور ہے، اگر میرے ساتھ شادی نہ کرنا چاہے گی تب بھی میں ثمینہ کا ساتھ دوں گا، شادی میں پسندیدگی اور رضامندی اس کا حق ہے۔ تم میں بچپنا بہت ہے، ابھی تم نے دنیا کو نہیں سمجھا ہے، تمہیں خبر نہیں کہ فلم انڈسٹری میں جانا اور کامیاب ہو جانا بچوں کا کھیل نہیں ہے، وہاں کامیابی کے راستوں پر جو کانٹے بچھے ہوئے ہیں، ان کا درد انہی کو معلوم ہے جنہوں نے یہ درد سہا ہے۔ اس وقت تو میں وجاہت کی بات نہ سمجھی تھی مگر اب سمجھتی ہوں۔
وجاہت کے وجیہ دل اور اچھے کردار کے سامنے ثمینہ کے شوق نے ہتھیار ڈال دیئے۔ سارے زمانے کو پس پشت ڈال کر وہ اسی کی ہو رہی۔ سچ ہے آدمی کی پرکھ اسی وقت ہوتی ہے جب اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ہمیں کوئی برا لگتا ہے لیکن وہ برا ہوتا نہیں بلکہ ہزاروں سے اچھا ہوتا ہے۔ ثمینہ بھی جس شخص کو برا جانتی تھی، بلاوجہ اس سے نفرت کرتی تھی، آج اس کے بغیر ایک منٹ جینے کا تصور نہیں کرسکتی کیونکہ وجاہت جو شکل و صورت سے سیدھا دکھائی دیتا تھا، وہ عقل مندی اور اعلیٰ ظرفی کی مثال ہے، بلکہ لاکھوں میں ایک ہے۔ (ف… کراچی)