چچا کی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے عید پر چوڑیاں لینے گئے تھے۔ دو تین گھنٹے گزر گئے، مگر چچا نہیں لوٹے ۔ تب ہماری دادی کو گھبراہٹ محسوس ہوئی ، کیونکہ بازار تو سامنے ہی تھا۔ صرف سڑک کرنا پڑتی تھی ، پھر ان کے بیٹے نے کیوں اتنی دیر لگادی؟ شام ہو رہی تھی اور ماں کا دل دھڑک رہا تھا۔ دادی بہت وہمی تھیں کیونکہ ایک بار جب دادا ان کے لیے چوڑیاں خریدنے گئے تھے تو سڑک پار کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کو ایک گاڑی نے ٹکر مار دی تھی۔ چوڑیاں سڑک پر ٹوٹ کر بکھر گئیں مردہ دادا کے خون میں بھی رنگ گئی تھیں، کیونکہ وہ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ بیوی کی خوشیاں خریدنے والا واپس گھر نہ لوٹا، بلکہ اسپتال سے جسد خاکی گھر آیا۔
اس دن سے دادی کو چوڑیوں سے خدا واسطے کا بیر ہو گیا۔ وہ اپنی لڑکیوں کو بھی چوڑیاں پہننے سے منع کرتیں کہ یہ منحوس چیز ہے، یوں لگتا تھا کہ ہولناک حادثے کی یاد چوڑیوں کے ساتھ ان کے ذہن سے چپک گئی تھی ۔ حادثے تو ہر جگہ ہوتے ہیں اور کئی لوگ اتفاقا یا کہ بدقسمتی سے ان کی بھینٹ بھی چڑھ جاتے ہیں، دنیا میں یہ سب ہوتا رہتا ہے مگر ہماری دادی کوکون سمجھاتا ؟ انہوں نے پھر کبھی چوڑیاں نہ پہنیں، مگر ہمارا کیا قصور تھا۔ دادی کی سب ہی باتیں اچھی تھیں مگر بس یہی ایک بات مجھ کو ناگوار گزرتی تھی کہ وہ مجھے چوڑیاں پہنے سے منع کرتیں، پہن لیتی تو ٹوکتیں کہ یہ منحوس چیز پھر تو نے کلائیوں میں چڑھالی ہے۔ ان کے ٹوکنے سے میں اس قدر چڑ جاتی کہ چوڑیاں اتار کر پرے پھینک دیتی تھی۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے مگر ان پر ہمارے آنسوؤں کا کوئی اثر نہ ہوتا ، بلکہ اطمینان کا سانس لیتیں کہ چوڑیوں کی چھن چھن جو ان کے کانوں میں زہر گھول رہی تھی ، وہ اب بند ہوگئی تھی۔ دنیا میں ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ایسے ہوتے ہیں جو تو ہمات کا شکار رہتے ہیں۔ پس جب میری شادی ہوئی اور سسرال سے کانچ کی چوڑیاں آئیں تو امی نے انہیں دادی سے چھپا لیا کہ پھر ان کا دل اندیشوں میں ڈوب جائے گا۔ دادا کا سانحہ انہیں یاد آ جائے گا اور یہ اول فول بکنے لگیں گی۔ ظاہر ہے کہ دیگر زیور زیادہ قیمتی ہوتے ہیں، لیکن کانچ کی چوڑیاں جو سہاگ کی نشانی ہوتی ہیں، ان کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ میری شادی کو سال گزرا تھا کہ عید آگئی۔ مجھے چوڑیاں پسند تھیں ، خاص طور پر عید کے موقع پر اگر کوئی چوڑیوں کا تحفہ دیتا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ یہ عید سے تین دن پہلے کی بات ہے۔ اس روز موسم بھی بھیگا بھیگاتھا۔ صبح سے آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی ہلکا سا چھینٹا پڑتا اور بند ہو جاتا۔ دو پہر سے یوں ہی ہو رہا تھا۔ سڑکیں گیلی ہو چکی تھیں اور کہیں کہیں تھوڑا تھوڑا پانی بھی جمع ہو گیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں اور بادلوں کو اپنے دوش پر لیے ادھر ادھر اٹھائے پھر رہی تھیں ۔ دنیا کے تفکرات میں گھرے اور معاشی بندھنوں میں جکڑے ہوئے لوگ بھی قدرت کے اس رنگین و دلفریب موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن میرے لیے موسم کی یہ دلفریبی بے معنی تھی۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے اس وقت نہ تو یہ برکھا کی کالی کالی گھٹائیں بھلی معلوم ہو رہی تھیں اور نہ ہی ان ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا کوئی اثر ہورہا تھا۔ میں نہ جانے کیوں دادی جیسے وہم کا شکار ہورہی تھی۔ دل خود بخود بہت زیادہ اداس اور پریشان تھا۔ میرے شوہر کو گھر سے گئے کافی وقت گزر چکا تھا۔ تب ہی طرح طرح کے پریشان کن خیالات اور وسوسے دل میں امنڈ تے چلے آ رہے تھے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر اچھے خیالوں کی جگہ برے خیالات وہم اور وسوسے حملے کر دیتے ہیں۔ ناشگوار خیالوں کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کرو تو اتنی ہی قوت سے یلغار کر دیتے ہیں۔ جب بے چینی حد سے بڑھنے لگی تو میں بے قراری سے اٹھ کر ٹہلنے لگی۔ بار بار بالکونی کی ریلنگ کے پاس جا کھڑی ہوئی ، دور تک سڑک کو تکتی اور پھر پر شوق نگاہیں شہباز کو نہ پا کر مایوس لوٹ آتیں۔ آج بار بار یہی خیال ذہن میں اجاگر ہو رہا تھا کہ دادی کہتی تھیں، اس خاندان کو کانچ کی چوڑیاں راس نہیں ۔ یہ وہم وسو سے کفر ہوتے ہیں لیکن انسان کا ان پر شدت سے یقین کبھی کبھی ان کو سچ بنا دیتا ہے۔ میں بھی اس لئے سوچوں کے گھن چکر میں پھنسی تھی کہ شہباز میرے لیے چوڑیاں لینے گئے ہوئے تھے۔ اب تک تو ان کو آ جانا چاہیے تھا۔ نہ جانے کیوں ابھی تک نہ لوٹے تھے۔
مجھے یاد ہے جب امی نے مجھ سجی ہوئی دلہن کے لیے چوڑیوں کا بنڈل میری سہیلیوں کے ہاتھوں میں دیا تو دادی نے دیکھ لیا۔ وہ بولیں ۔ یہ بنڈل مجھے دے دو، میں اپنی پوتی کی کلائیوں میں نہ ڈالنے دوں گی ۔ مگر یہ تو سباگ چوڑیاں ہیں دادی اماں! آپ ہم کو پہنانے سے نہ روکیے۔ سہیلیوں نے یک زبان ہو کر کہا تو دادی رونے لگیں۔ اس وقت مجھے بھی ان چوڑیوں سے نفرت محسوس ہونے لگئی کہ جن کی وجہ سے میری پیار کرنے والی دادی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ میں دادی کی خاطر ان کو نہیں پہن رہی تھی کیونکہ یہ اب مجھے اپنی کلائی میں ڈسنے والی ناگنوں جیسی لگ رہی تھیں، گو یا دادی نے میرے دل میں بھی وہم بٹھا دیا۔ تب ہی سہیلیوں نے سمجھایا۔ اری پگلی ! یہ تو رواج ہے۔ ایسا برسوں سے ہوتا آیا ہے اور آگے بھی یوں ہی ہوتا رہے گا۔ کسی کی شادی ہو اور سرخ گلابوں کی طرح دمکتی ہوئی چوڑیاں نہ ہوں ! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا۔ مجھ کو تو بچپن سے چوڑیاں اچھی لگتی ہیں، مگر ان کو دیکھ کر دادی کا دکھ جاگ جاتا ہے، وہ مجھ سے پیار کرتی ہیں۔ میں ان کو دکھی نہیں دیکھ سکتی جب ہی ان کو پہننے کو منع کر رہی ہوں ۔ انہوں نے میری بات نہ مانی اور سہاگ کی نشانی پہنا کر رسم ورواج کو پورا کیا۔ سرخ سرخ انگاروں کی طرح دیہکتی چوڑیاں میری نرم و نازک کلائیوں میں سجادی گئیں اور دادی دور کھڑی بے بس پنچھی کی طرح اپنے خیالوں میں برے شگن کو اداس نظروں سے دیکھتی رہ گئیں۔ جب شہباز نے میرا گھونگھٹ اٹھایا تو اس سے پہلے ان کی نظر میری کلائیوں پر گئی اور انہوں نے سرخ دمکتی چوڑیوں کو چوم لیا۔ بولے۔ کتنی خوب صورت لگتی ہیں یہ کانچ کی چوڑیاں، تمہارے گورے گورے ہاتھوں میں ۔ ان کو ہمیشہ پہنے رکھنا، کبھی نہ اتارنا۔ اپنے دولہا کے منہ سے پہلی تعریف سن کر میں پھولی نہ سمائی اور خود مجھے اپنی چوڑیوں بھری کلائی پر پیار آگیا۔ میں دادی کے تو ہمات کو یکسر بھلا بیٹھی ، جیسے ان کے یہ وہم میرے لاشعور کی پرتوں تلے دب کر مر گئے ہوں ۔ اب میں اپنی خوشیوں کی پیاری سی دنیا میں مگن تھی۔ مجھے شہباز کے پیار کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔ میں ایک چھوٹے سے خوب صورت گھر کی مالک تھی، جس میں میرے لیے زندگی کی آسائش و آرام کی ہر چیز مہیا تھی ۔ سب سے بڑھ کر خوشی کی یہ بات تھی کہ مجھے ایک وفاشعار اور دل کی گہرائیوں سے چاہنے والا شوہر مل گیا تھا، جو ہمہ وقت اپنی محبت کے خوشنما پھول میرے قدم میں بکھیرتا رہتا تھا، ہر لحہ مجھ پر وہ جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ہماری شادی کو ابھی دن ہی کتنے گزرے تھے کہ عید آگئی۔ شہباز نے کہا۔ عید پر کیا تحفہ لاؤں تمہارے لیے؟ سب ہی کچھ تو ہے میرے پاس۔ پھر بھی، یہ ہماری پہلی عید ہے، تحفہ تو میں لاؤں گا۔ جو آپ کو پسند ہو، وہی لے آئیں ۔ مجھے تو تمہاری کلائی میں کانچ کی سرخ چوڑیاں بہت بھلی لگتی ہیں ۔ یہ سن کر جانے کیوں مدت بعد میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ میں بولی ۔ چوڑیاں ہی کیوں؟ اور کچھ لے آئیں۔ چوڑیاں تو میرے پاس بہت ہیں۔ وہ بولے۔ مگر سرخ رنگ کی نئی نہیں ہیں، وہی جو تم نے سہاگ رات کو پہنی ہوئی تھیں۔ تب ہی میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھنے لگی ، یہ اچانک ان کو کانچ کی سرخ چوڑیاں کیوں یاد آ گئیں۔ سہاگ کی نشانی جس سے دادی کو خوف آتا تھا۔ مدت بعد پہلی بار مجھے بھی خوف آیا اور اپنا وہم سمجھ کر میں نے خوف پر قابو پالیا۔ یا اللہ میرے سہاگ کو سلامت رکھنا۔ ان کو کچھ ہونے سے پہلے ، مجھے کچھ ہو جائے ۔ میں نے دل ہی دل میں دعا مانگی۔ مجھے تو آپ کے لائے سارے ہی تحفے قیمتی لگتے ہیں۔ شہباز میری بات سن کر مسکرائے اور یہ کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئے تھے کہ میں ابھی آیا۔ اس بار تو اپنی پسند ہی کا تحفہ لاؤں گا تمہارے لیے۔
میں کہنا چاہتی تھی کہ یہ چوڑیاں نہ لائیں، مگر وہ تو کچھ سنے بغیر ہی چلے گئے اور میں الماری میں سے سرخ چوڑیوں کا ڈبا نکال کر دیکھنے لگی۔ بالکل صحیح سلامت ہیں یہ، ان ہی کو پہن لیتی ہوں ، آج انہیں سرپرائز دوں گی۔ تب ہی میں نے ساری چوڑیاں پہن لیں اور سونے کے کڑے جو پہلے سے پہنے ہوئے تھے، اتار کر رکھ دیے۔ ان کی چمک دمک میں ذرا بھی تو فرق نہیں پڑا تھا۔ بچپن میں جب ابو سے چوڑیاں لانے کی ضد کرتی تو وہ اسی وقت بازار جا کر چوڑیاں لے کر واپس صحیح سلامت آجاتے تھے، مگر اف اللہ ! دادی کو مگر کتنا وہم تھا۔ میرے دل کو اس سوچ سے طاقت ملی اور میں مسکرا دی ۔ کتنا پیار ہے شہباز کو اے مجھ سے ، بالکل میرے ابو کی طرح ہی میرا خیال کرتے ہیں۔ بارش اب تیز ہونے لگی ، کب سے بالکونی میں کھڑی سڑک پر آتے جاتے ٹریفک کو دیکھ رہی تھی۔ کچھ لوگ پیدل جا رہے تھے، قریب سے گزرتی کاریں ان کے کپڑوں پر چھینٹے اڑاتی گزر رہی تھیں۔ مجھے یہ نظارہ بے معنی سالگ رہا تھا۔ موسم کا سہانا پن بھی نہ لبھا رہا تھا۔ انتظار تھا تو بس شہباز کے آجانے کا۔ میں نے ان کی پسند کا کھانا بنایا تھا اور وہ کھانا کھائے بغیر نکل گئے تھے کہ واپس آ کر کھا لوں گا۔ ان کو گئے تین گھنٹے گزرے تھے۔ مجھے ایک ایک پل بھاری پڑ رہا تھا۔ میں کھڑکی میں جا کر کھڑی ہو گئی اور اس کی سلاخوں سے سر ٹکا لیا۔ تب ہی سڑک پر تیزی سے آتی گاڑی کو اچانک بریک لگی اور اس کے پہیوں سے چیخیں نکل گئیں۔ شاید کوئی راہ گیر نیچے آ گیا ہے۔ بدن نے جھر جھری لی اور میں نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ اے میرے معبود ! میرا شہباز تیری امان میں ہے۔ اس کو اپنی عافیت کے سایے میں رکھنا۔ میں دل ہی دل میں دعائیں مانگنے لگی ۔ جی بیٹھنے لگا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ گاڑی کے ارد گرد لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ ایک ہجوم دیکھ رہا تھا۔ یقینا سڑک پر کوئی حادثہ ہوا تھا۔ ایک برے خیال نے میرا کلیجہ جکڑ لیا۔ اشک موتیوں کی صورت گرتے اور میری آستین کو تر کرتے رہے۔ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میں کب تک روتی رہی تھی۔ تب ہی موٹر سائیکل کی مخصوص آواز سن کر میں چونک پڑی۔ میرا شہباز آ گیا تھا۔ دیوانوں کی طرح نیچے بھاگی۔ شہباز نے مجھے تیزی سے زینہ پھلانگتے دیکھ لیا تھا ، وہ ہاتھ ہلاتے جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے کو میری طرف لپکے، مگر بارش میں تر سیڑھیوں پر میں خود کو سنبھال نہ سکی، پیر پھیسلا اور میں لڑکھڑاتی ہوئی اوپر سے نیچے رول ہوئی اور صحن کے فرش پر جا گری۔ تب ہی شہباز مجھ تک آن پہنچے۔ میں چوٹ لگنے سے حواس کھو چکی تھی اور میری کلائی میں پڑی شادی کی چوڑیوں کا پورا دستہ ٹوٹ کر چورا چورا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد مجھے نہیں پتا کب، کیسے وہ مجھے اٹھا کر اسپتال لے گئے۔ میں بے ہوش ہو چکی تھی۔ میری کلائی اور بازو کے گوشت میں پیوست ہونے والے کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکالے گئے ۔ مرہم پٹی ہوئی، دو دن اسپتال میں رہی۔ جب ہوش آیا ، شہباز ، اپنی روح کو سامنے زندہ سلامت پایا۔ پہلے تو حیرت سے انہیں دیکھا، پھر دل کو سکون آگیا۔ حالت سنبھلنے کے بعد اسپتال سے چھٹی ملی۔ جس دن ہم گھر آئے اس روز عید کا تیسرا دن تھا مگر میرے لیے تو آج کا دن ہی عید تھا کہ میرے شوہر چوڑیاں خرید کر زندہ سلامت آگئے تھے۔ جس حادثے کی آواز سنی تھی وہ کسی اور بد نصیب کے ساتھ پیش آیا تھا۔ خدا نے اس وقت میرے دل سے نکلی دعاسنی اور میرے شوہر زندہ سلامت آگئے ، ورنہ میں تو وہم میں ڈوبی کب سے اس سڑک کو تک رہی تھی۔ ان کی راہ تکتے تکتے جب وہاں حادثہ دیکھا، تب ہی جان نکل گئی تھی میری۔ سچ ہے وہم سے بڑی اور کوئی شے نہیں کہ کوئی واقعہ نہ ہونے والا بھی ہو جاتا ہے مگر میرا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ دل سے نکلی دعا کو ضرور سنتا ہے۔گرچہ میں گھبراہٹ میں اپنی غلطی سے گر گئی لیکن میں پھر بھی یہی سمجھتی ہوں کہ جو بلا اس وہمی خیال کی وجہ سے آئی تھی، وہ مجھ پر آگئی، کیونکہ جب انہوں نے آخری زینہ سے مجھے اٹھایا تو میرا سر پھٹ گیا تھا اور گیلے فرش پر بہت سا گاڑھا گاڑھا خون پھیل گیا تھا۔ اس خون میں میری چوڑیاں ٹوٹ کر رنگ برنگی کانچ کے ٹکڑوں کی صورت بکھری ہوئی تھیں۔ اب تو میں ہر کسی کو کہتی ہوں کہ کبھی وہم نہ کرنا۔ یہ حادثے محض اتفاق سے ہوتے ہیں۔
وہم ایسا ظالم دشمن ہے جو انسان کی خوشیاں نگل جاتا ہے، یہ شرک ہے بلکہ بدعت ہے۔ بندے کو اپنا سب کچھ اپنے خالق پر چھوڑ دینا چاہیے ، جس نے اپنے رب پر بھروسہ کیا ، اس نے عافیت پالی۔ جب میری کلائی کے زخم ٹھیک ہو گئے شہباز نے میری کلائی میں اپنی لائی ہوئی کانچ کی سرخ چوڑیاں پھر سے پہنا دیں۔ اس وقت ہم دونوں کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑک رہے تھے اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے، وہ ایک یادگار دن تھا، اس دن کو میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔