مہوش خان اور جہان خان آپس میں چچازاد بھائی تھے۔ ان کے درمیان زمین کی تقسیم پر تنازع ہوا۔ بات کچھ بھی نہ تھی، معمولی سامسئلہ تھا۔ کھیتوں کے بیچ حد بندی کی جو لکیر تھی، مہوش کا خیال تھا یہ صحیح جگہ پر نہیں ہے جبکہ جہان خان اور اُس کے بھائی کہتے تھے ، یہ درست جگہ پر ہے۔ ایک رات مہوش خان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس حد بندی کو تبدیل کر دیا۔ اس پر جہان خان کے چھوٹے بھائی منصب خان نے مشتعل ہو کر ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ بس پھر کیا تھا سبھی گھروں سے بندوقیں نکل آئیں۔ یہ ایک ہی قبیلے کے فرزند تھے لیکن دلوں میں دوریاں اور رشتوں میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ بات حد بندی کی تبدیلی نہ تھی، اس کے پیچھے کوئی اور معاملہ تھا اور یہ معاملہ سبھی کو معلوم تھا۔ دراصل کچھ عرصہ قبل، مہوش خان کے بھائی خویش خان نے منصب کی سالی درجہاں کو زبردستی اٹھالیا تھا اور کسی خفیہ مقام پر چھپا دیا تھا۔ دوماہ بعد وہ عورت وہاں سے بھاگ آنے میں کامیاب ہو گئی، جس کو اس کے خاوند نے قتل کر دیا لیکن خویش خان ہاتھ نہ آسکا۔ اس کا پتا مہوش خان کو معلوم تھا مگر وہ کسی کو نہیں بتاتا تھا۔ اس بات کا منصب خان کو رنج تھا۔ اب جب کوئی بہانہ ہاتھ آتا، یہ بندوقیں تان لیتے۔ اس بار جھگڑا شروع ہوا تو بزرگ درمیان میں آگئے اور اپنی نپی تلی باتوں سے ان نوجوانوں کے گرم خون کو ٹھنڈا کر دیا۔ انہوں نے بندوقوں کی اٹھی ہوئی نالیں ، ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کر دیں۔ تاہم وہ روز روز کے تنازع سے تنگ آچکے تھے، تبھی جرگہ بٹھانے کا فیصلہ ہو گیا۔ ہم نے آج فریقین کے درمیان آخری تصفیہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا۔ یہ آئے دن کا جھگڑا فساد اب ختم ہو نا چاہئے۔ تم لوگ ایک ہی پگڑی کے تانے بانے ہو کر جھگڑتے ہو ، یہ احسن بات نہیں ہے۔ جرگہ کے سربراہ نے سرزنش کی۔ ابھی وہ یہ بات کر رہے تھے کہ منصب خان کی بندوق نجانے کیسے چل گئی اور گولی مہوش خان کے منجھلے بھائی گورش خان کو جا لگی۔ وہ موقع پر ہلاک ہو گیا۔ اب باری ان لوگوں کی تھی جبکہ منصب کی ماں، اس سے لپٹ کر بین کر رہی تھی۔ وہ فریق مخالف کی گولی، بیٹے پر نہ چلنے دیتی تھی۔ بزرگ سر پکڑ کر رو گئے۔ صلح کی جستجو میں ان کے سامنے ہی ایک چچازاد نے دوسرے کو قتل کر دیا تھا۔ اس خاندان کی سب عورتیں بھی آپس میں رشتہ دار تھیں۔ ان کے بین تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ بالآخر ، ایک عجیب فیصلہ ہو گیا۔ بزرگوں نے کہا۔ تم لوگ مقتول کا خون بہا لے لو۔ ہم ان کی لڑکی کا رشتہ آپ لوگوں کو لے دیتے ہیں، یہی خون بہا ہو گا۔ یہ ونی کی رسم تھی کہ مقتول کے ورثا قاتل کے گھر سے لڑکی لے جاتے تھے تو صلح ہو جاتی تھی۔ بزرگوں کا فیصلہ منظور کرنا ہی تھا، ورنہ جو خون خرابہ ہوتا وہ نسل در نسل چلتا اور دونوں اطراف سے بیش قیمت جانوں کا زیاں ہوتا رہتا۔ ان قبائل میں سردار کے فیصلے کی اہمیت اپنی زندگی سے بڑھ کر مقدم رکھی جاتی ہے لیکن مصلہ یہ تھا کہ جس لڑکی کو مقتول کے ونی میں مانگ رہے تھے ، اس کی عمر بمشکل آٹھ برس تھی اور یہ منصب خان کی بیٹی زرتاجہ تھی جس کی گولی سے گورش خان کی موت واقع ہوئی تھی۔ مہوش خان اُس کا کلیجہ نوچ کر اپنا دل ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ تاجی ایک معصوم گڑیا تھی۔ اس وقت اپنی ہمجولیوں کے ساتھ صحن میں گڑیوں سے کھیل رہی تھی۔ مہوش نے اسی کو ونی میں طلب کیا تو منصب تڑپ کر رہ گیا۔ بچی اتنی کم سن تھی کہ ابھی وہ شادی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ تھی لیکن وہ تو اسی وقت خون بہا کے طور پر وصول کرنا چاہتے تھے۔ مقتول کی لاش اٹھانے سے پہلے اور تدفین سے قبل سودا چکتا ہونا تھا۔ یہ ایک بڑا امتحان تھا خاندان کے سربراہ کے لئے، تبھی تاجی کے دادا نے کہا۔ میری بیٹی شادی کے لائق ہے ، میں اس کو ونی میں دیتا ہوں۔ مہوش نہیں مانا، بولا۔ جس نے میرے بھائی پر گولی داغی ہے اس کی لخت جگر کو ونی میں لیں گے ، ورنہ خون کا بدلہ خون اور سر کا بدلہ سر ہو گا۔ ایک سر کی بات ہوتی، کوئی مسئلہ نہ تھا، یہاں تو پھر قتل کے بدلے قتل کا ایک سلسلہ دراز چلنے والا تھا۔ گویا ایک خونی باب کھل جاتا بزرگوں نے ایک شرط رکھ کر بات ختم کر دی۔ ٹھیک ہے مہوش خان ! تم تاجی کا رشتہ لو، اس سے ابھی نکاح کر سکتے ہو ، ہم بچی کو دلہن بنا کر تمہارے ساتھ کر دیتے ہیں، لیکن ایک وعدہ کرنا ہو گا کہ جب تک اپنی شادی کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہو جاتی ، یہ تمہارے گھر میں ہماری امانت ہوگی۔ رسم عروسی کے اسباب سن بلوغت پر ہی ہوں گے۔ ایسا ہی ہو گا خانان ! جب تاجی باشعور ہو جائے گی تب ہی رسم حنا کریں گے۔ فی الحال ہمارے آنگن میں بھی گڑیوں کے ساتھ کھیلے گی۔ اس کی گڑیاں ساتھ کر دینا۔ مہوش کے باپ نے قول دے دیا۔ تاجی ان معاملات سے بے خبر اپنی ہم سن بچیوں کے ہمراہ کھیتوں میں ہرے چنے توڑتی پھرتی تھی۔ چچا نےاسے جا پکڑا اور ماں نے روتے روتے جلدی جلدی نہلا کر نئے کپڑے پہنا دیئے۔ چاندی کا زیور بھی پہنایا۔ بالوں کی مینڈھیاں بنائیں، سنگھار کر کے نھی منی دلہن کو آخری بار چوما اور گڑیوں کی پٹاری اس کے ہاتھ میں تھمادی۔ یہ بھی لے جا! تیری گڑیاں ہیں ان سے کھیلنا۔ ورثا نے اس کا نکاح مہوش خان سے کر دیا جو چالیس برس کا مرد تھا، پھر وہ لوگ گورش خان کی لاش اور تاجی کو ساتھ لے گئے۔ جب وہ تاجی کو لے جارہے تھے اس وقت ماں اور پھوپھیاں بین کر رہی تھیں جبکہ مرد شکرانہ ادا کر رہے تھے کہ ایک بچی کی قربانی دے کر کتنے جوانوں کو مقتول ہونے سے بچا لیا تھا۔ اس فیصلے پر سبھی آسودہ خاطر تھے، سوائے منصب خان کے ، جو اپنے حجرے میں افسردہ بیٹھا کسی ان دیکھی آگ میں جھلس رہا تھا۔ قبائلی عموماً قول کے سمجھے ہوتے ہیں۔ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ زبان دے کر نہیں پھرتے۔ تبھی روایات کے مطابق مہوش خان اور اس کے باپ کے قول پر بھروسہ کر لیا گیا۔ تاجی کے ورثا یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ مہوش خان کی نیت میں فتور ہو گا۔ محض بدلے کی خاطر گڑیا سی بچی سے نکاح کیا ہو گا ور نہ وہ بھی اس معصوم کو ان کے حوالے نہ کرتے۔ تمام عمر لڑتے رہنے کو ترجیح دیتے خواہ اس لڑائی میں خاندان کے سارے مرد کیوں نہ کام آجاتے۔ آه ! مگر منافق مهوش خان، اس نے اپنے وعدے کا پاس نہ رکھا، اس نے تو اپنے بھائی کے قاتل کا جگر پارہ پارہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔ وہ جب ننھی دلہن کو لے گیا تو اسے امانت نہ سمجھا۔ اس معصوم گڑیا کے تو کھیلنے کے دن تھے۔ وہ شب عروسی کے معنی کیا جانتی تھی؟ اچانک زندگی کا بھیانک روپ دیکھا تو مٹی کے کھلونے کی مانند ٹوٹ گئی اور اس کی گردن ایک جانب کو ڈھلک گئی۔ تاجی کی لاش کو اگلے روز ورثا لے گئے، یہ گویا ایک طمانچہ تھا، ایک چوٹ تھی منصب خان کے دل پر۔ ان کی جانب سے اعلانِ جنگ تھا۔ پھر تو ایسی جنگ شروع ہوئی کہ جو چالیس برس تک جاری رہی۔ خون کی یہ آندھی تھمنے کا نام نہ لیتی تھی، یہاں تک کہ کوہ سلیمان کے سیاہ پتھر بھی سُرخ ہو گئے۔ اس خونی جنگ میں سارے جوان کام آگئے ، بس ایک بوڑھا باقی بچ گیا۔ اور وہ بوڑھا خویش خان تھا جو اسی روز کہیں غائب ہو گیا تھا وہ اٹلی چلا گیا جہاں جعلی دستاویز پر سرحد عبور کرنے کی وجہ سے اس کو لمبی قید کاٹنی پڑی۔ وہ بوڑھا ہو کر وطن واپس لوٹا تو اس وقت تک اُس کو تلاش کرنے والے دوسرے جہان سدھار چکے تھے۔