Sunday, March 16, 2025

Waqt Guzar Gaya

سولہ برس کی تھی۔ جی چاہتا ہر وقت آئینے کے سامنے کھڑی رہوں۔ خود کو دیکھوں اور شرمائوں ، اپنے ہی  عکس میں کھو جائوں یا پھر تصور کے چمن زار میں اڑتی اڑتی کائنات کے حسن میں کہیں دور نکل جائوں لیکن اس کے پیار نے میرے پر باندھ رکھے تھے۔ میں اس کے سوا کسی اور کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن ان دنوں میری جان مصیبت میں تھی۔ ریحان میرے ماموں کا بیٹا، جو مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت تھا، امی سے ملنے روز آتا لیکن کن اکھیوں سے میری طرف دیکھتا رہتا۔ سچ کہوں تو مجھے اس کا یوں دیکھنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ میر عالم بھی میرا کرن تھا۔ ریحان ننھیال سے تو عالم ددھیال ہے۔ وہ بھی ایسے ہی آکے امی کے پائوں دباتا لیکن نظریں اس کی میرا تعاقب کرتیں۔ میری جان مصیبت میں تھی۔ دونوں ہی اچھے تھے، دونوں مجھے چاہتے تھے اور مجھے سے شادی کے طلب گار تھے ۔ امی مگر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھیں کہ کس کو اپنا داماد منتخب کریں اور کس کو منع کر دیں۔ ریحان کے والدین زیادہ امیر نہ تھے لیکن ماں سے رشتہ تھا تبھی ماں چاہتی تھیں کہ اسے داماد بنالیں۔ میر عالم میرے والد کا بھتیجا تھا اور امیر باپ کا بیٹا تھا، ان کا وہ چہیتا بھی تھا۔ ان کے سگے بھائی کا نور چشم، حسن میں ریحان سے بڑھ کر، تعلیم میں بھی آگے ۔ ایسا رشتہ کون ٹھکراتا ہے۔ میں ، دونوں سے چھپتی رہتی ، زیادہ بات نہ کرتی۔ جب ان میں سے کوئی آتا، میں کچن میں گھس جاتی۔ امی بلا تیں تو بھی سامنے جانے سے کتراتی تھی۔ ایک دن دونوں کی مائیں رشتہ طلب کرنے آگئیں۔ ریحان کی والدہ صبح کو آئیں تو تائی جی شام کو ۔ ایسے موقعوں پر مائیں حواس باختہ ہو جاتی ہیں۔ میری ماں کا بھی کچھ ایسا ہی عالم ہوا۔ رات کو والد صاحب سے مشورہ لیا۔ وہ جھٹ سے بولے۔ ریحان کو انکار کر دو اور  میر عالم کو قبول کر لو۔ وہ میرا بھتیجا ہے، میں بڑے بھائی کو کیسے انکار کر سکتا ہوں۔ امی جان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور دکھ سے آنسو نکل آئے۔ مجھے البتہ کوئی دکھ نہ تھابلکہ والد کا فیصلہ اچھا لگا۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میں جانتی تھی میر عالم کو مجھ سے زیادہ میرے والدین سے محبت تھی۔ وہ ان کو ایسے ہی چاہتا تھا جیسے اپنے والدین کو چاہتا تھا۔ ہمارے ماموں ، تایا، چچا سب اسی شہر میں رہتے تھے۔ ماموں والے کم آتے لیکن تایا چاچو روز آتے ، اگر نہ آتے تو ہم چلے جاتے تھے۔ جس دن میری میر عالم سے ملاقات نہ ہوتی، لگتا سورج نکلا ہی نہیں۔ میری دوستی عالم کی بہن نیاز بی بی  سے تھی، ہم اس کو نازو بلاتے۔ اس کی اور تائی بھی کی خواہش تھی کہ میں ان کے گھر کی بہو بنوں۔ ایک دن نازو کی زبانی پتا چلا کہ میر عالم اپنی خالہ کے گھر کراچی جارہا ہے۔ یہ سُن میں رنجیدہ ہو گئی۔ سو طرح کے اندیشے دامن گیر تھے۔ اس کی خالہ کی بیٹیاں تھیں اور میں نے سنا تھا کہ خالہ اسے داماد بنانا چاہتی ہیں۔ میں نے بہت دُعا کی کہ وہ کراچی نہ جائے۔ زبان سے کہہ نہ سکتی تھی کہ اس کے ساتھ بے تکلفی نہ تھی ، اس لئے روک بھی نہ سکی۔ وہ چلا گیا اور میں سو اندیشے دل میں چھپائے سسکتی رہ گئی۔ اب تائی کا گھر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ میں نے ان کے گھر جانا چھوڑ دیا۔ نازو شکوہ کرتی کہ اب تم ہمارے گھر کیوں نہیں آتیں ؟ اسے کیا بتاتی کہ کیوں نہیں آتی۔ میر عالم ایک ماہ کے لئے گیا تھا اور تین ماہ لگادیئے۔ نازو بتاتی کہ بھائی وہاں بہت خوش ہے۔ اس کا دل لگ گیا ہے تبھی لوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ میں یہ باتیں سنتی تو دل بیٹھ جاتا۔ اب ممانی اور ریحان کا افسردہ چہرہ یاد آتا جن کو ہم نے میر عالم کی خاطر ٹھکرادیا تھا، شاید ہمیں ان کے خلوص کو ٹھکرانے کی سزا ملی تھی۔ ادھر عالم اور اس کی خالہ زاد نیلم کے بارے ایک ہو جانے کی چہ میگوئیاں تایا کے گھر میں شروع ہو گئی تھیں۔ ادھر ممانی جان آخری بار ریحان کے لئے ہمارے گھر منت سماجت کرنے آگئیں لیکن میرا دل نہیں مانا۔ میںسمجھ رہی تھی کہ میر عالم ضرور آئے گا، وہ نیلم سے شادی نہیں کرے گا۔ امی جان نے آخری بار مجھ سے پوچھا۔ بیٹی کیا خیال ہے ؟ تمہاری ممانی کو ہاں کر دوں تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا کیونکہ میرے دل کو یقین تھا عالم ضرور آئے گا اور مجھ کو اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ آخری بار انکار سُن کر ممانی پھر نہیں آئیں، بلکہ خفا ہو کر چلی گئیں اور اپنی بھانجی سے بیٹے کارشتہ پکا کر دیا۔ یوں ریحان اور ماہم ایک ہو گئے۔ اب ماموں ہماری طرف نہیں آتے تھے لہذا ہمیں علم نہ تھا کہ وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان دنوں مجھے ان لوگوں کی پروا بھی نہیں تھی، میرے دل کے دھاگے تو تایا کے گھر سے بندھے ہوئے تھے ۔ مجھے کو انتظار تھا تو اس کا جو کراچی جاکر وہاں کا ہو رہا تھا۔ اسے تو کسی کی یاد بھی نہیں آتی تھی۔ کراچی شہر نے اس کے پیر جکڑ لئے تھے۔ میرے ارمان میری سوچوں کے جال میں قید تھے ، عالم کے سوا کسی اور بارے سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اسے گئے کچھ ماہ ہو چکے تھے۔ ایک دن کراچی سے ہماری ایک رشتہ دار یا سمین آئی۔ اس نے بتایا کہ عالم نے کمپیوٹر کورس میں داخلہ لیا ہوا ہے اور وہاں بہت خوش ہے ، اس کی خالہ ہر صورت اس کو اپنا داماد دیکھنا چاہ رہی ہیں تبھی وہ اس کو پڑھارہے ہیں تا کہ بیرون ملک بھجوا سکیں۔ یہ سن کر میری امیدوں کے سارے چراغ بجھ گئے ، ہر آس دم توڑ گئی۔ بہت روئی، اس قدر د کھی ہو گئی کہ مر جانے کے سوا کوئی اور بات نہ سوجھتی تھی۔ نازو مجھے تسلی دیتی کہ خاطر جمع رکھو، میرا بھائی ضرور آئے گا، وہ شادی تم ہی سے کرے گا۔ میرے پاس نازو کی باتوں پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے خود تو کبھی میر عالم سے بات نہ کی تھی، ہم نے کبھی اقرار محبت نہ کیا تھا، تو اب میں نیاز بی بی کی باتوں پر اعتبار کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔ امی اور بابا جان اس انتظار میں تھے کہ تایا اور تائی آکر رشتے کی بات کچی کریں لیکن انہوں نے ایک بار بھی رشتے کے معاملے پر بات نہ کی شاید وہ بھی اس کا انتظار کر رہے تھے ۔ چھ ماہ بعد سُنا کہ میر عالم آگیا ہے۔ میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے چین تھی۔ لگتا تھا کہ وہ کراچی سے آتے ہی ہمارے گھر آئے گا،  مجھے پہلے کی طرح کن اکھیوں سے دیکھے گا اور کہے گا آج کسی نے ہمیں چائے کا بھی نہیں پو چھا۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ وہ ہمارے گھر آیا اور نہ ہی اس نے مجھے کن اکھیوں سے دیکھا۔ میں نے سنا وہ ہماری طرف آنے کا نام نہیں لے رہا۔ میں نے یہ بھی سنا کہ وہ کہتا ہے کراچی اچھا شہر ہے اور اب میں کراچی میں ہی رہوں گا۔ میں یہ باتیں سنتی تو دل بیٹھ جاتا۔ وہ نہ آیا اور میری امیدوں کا تاج محل ڈھے گیا۔ روز آنے والا جب یوں اپنے دیدار سے محروم کر دے تو چاہنے والے کے دل پر کیا گزرتی ہے، یہ توانتظار کی آگ میں جلنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ میں بہانے سے یاسمین کے گھر گئی۔ اس کا گھر نازو کے گھر سے ملا ہوا تھا۔ سوچا وہاں سے چھت پر جاکے دیکھوں، شاید وہ نظر آ جائے۔ یاسمین نے سمجھ لیا تھا میں کیوں آئی ہوں۔ وہ مجھے اپنی چھت پر لے گئی، تقدیر مہربان تھی یا حسن اتفاق کہ مجھے سامنے ہی وہ نظر آگیا۔ وہ بھی اپنی چھت پر کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ اچانک اس کی نظر میری جانب اٹھ گئی۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ مجھے اس میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی، سوائے اس کے کہ اس کی صحت قابل رشک حد تک اچھی ہو گئی تھی۔ مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ مطلب تھا کہ میں آج کل میں تمہارے گھر بھی آئوں گا، ابھی مصروف ہوں۔ خُدا کی شان جس کو ایک روز کاٹنا بھی محال لگتا تھا، وہ اب اتنا مصروف تھا کہ اپنے چچا کے گھر آنے کے لئے وقت نہیں نکال پار ہا تھا۔ میں اس کے اس طرز عمل کو کیا سمجھتی ؟ میں خوش تھی مگر نا خوش بھی تھی۔ بو جھل قدموں سے گھر آگئی، جو کام کرتی گم صم ہو جاتی۔ کام کرنا بھول جاتی تھی، سوچتی تھی یہ سب کیا ہے ؟ کیا وہ بدل گیا ہے ؟ اس کا طرز عمل عجیب ہو گیا تھا۔ اس بات کی تہہ میں کوئی بات تو     پو شیدہ تھی ۔ اگلے دن وہ ہمارے گھر آیا ۔ مجھے دیکھ کر اشارے سے سلام کیا ۔ میں نے مسکرا کر سر جھکا لیا تھا۔ وہ حسب معمول امی جان کے سامنے بیٹھ گیا۔ میں کچن میں اس کے لئے چائے بنانے چلی گئی۔ سوچنے لگی ہم مشرقی لڑکیاں بھی کیسی بھولی ہوتی ہیں۔ کسی سے کچھ کہہ سُن بھی نہیں سکتیں، جس کو دل کا مالک بنایا تھا ، کاش اس سے  ایک سوال کر لیتی کہ عالم سچ سچ بتادو کیا تم مجھ سے شادی کر رہے ہو ؟ امی سے باتیں کر وہ چلا گیا۔ اس نے مجھ سے کچھ کہا نہ سنا۔ میں بھی اس سے کچھ نہ جان سکی کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ چند دن رہ کر وہ کراچی لوٹ گیا کیونکہ اسے کورس مکمل کرنا تھا۔ جاتے ہوئے بھی وہ مجھے خدا حافظ کہہ کر نہ گیا۔ کیسے کہتا، ہمارے خاندان میں رواج ہی نہ تھا۔ اس بار تو ایسا گا جیسے وہ میر اسب کچھ ہی مجھ سے چھین کر لے گیا ہے۔ میرا دل خالی ہو گیا تھا۔ امی ابو کو بھی اندازہ ہو گیا کہ اس کے والدین نے رشتے کے لئے سرسری پو چھا تھا، کوئی واضح بات نہیں کی تھی۔ گویا ان کا خیال بدل گیا تھا ورنہ کوئی تسلی آمیز بات تو کرتے۔ یقینا وہ نیلم کو بہو بنانے بارے سوچ رہے تھے۔ نازو نے ایک دن بتایا کہ اس کے والدین کراچی جارہے ہیں۔ خالہ نے بلایا ہے وہ نیلم کارشتہ طے کرنا چاہتی ہیں۔ اگر میری ماں کو نیلم پسند آگئی تو وہ اس کا رشتہ میر عالم سے لے کر دیں گی۔ یہ خبر قیامت تھی جو مجھ پر گزر گئی۔ اس دن میں بالکل مایوس ہو گئی۔ اس بات کی بھنک امی جان کے کان میں پڑی تو وہ بھی  افسوس کرنے لگیں کہ یہ کیسی بھول ہم سے ہو گئی۔ اے کاش ! کہ میں ہما کارشتہ اپنے بھانجے ریحان کو دے دیتی تو آج اس طرح لینے کے دینے نہ پڑتے۔ اب تو وہ بھی ہاتھ سے گیا اور عالم بھی ہاتھ نہ آیا۔ امی بیمار پڑ گئیں۔ وہ پیلی زرد ہوتی گئیں جیسے یہ غم ان کا کلیجہ کھا لے گا۔ کبھی لوٹی ہوئی خوشی واپس مل جاتی ہے، اور وہ مراد بر آتی ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ ان ہی دنوں جب میر عالم کراچی چلا گیا اور امی مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں، اچانک امید کی کرن جاگی۔ کسی نے اطلاع دی کہ ریحان کا بیوی سے جھگڑا ہو گیا ہے اور وہ روٹھ کر میکے چلی گئی ہے۔ ساس سسر منانے گئے لیکن ان لوگوں نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ ان دنوں ریحان کی بیوی ایک بیٹے کی ماں بن چکی تھی۔ اس نے مجبور ہو کر بیوی کو طلاق دے دی۔ بیوی نے بیٹا بھی ریحان کو دے دیا اور ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ اب ریحان کو اپنے بچے کی پرورش کے لئے ایک ایسی عورت کی ضرورت تھی جو بچے کو ماں کا پیار دے سکے۔ ریحان کو مجھ پر اعتماد تھا کہ میں ہی وہ ہستی ہو سکتی تھی جو اس کے بچے کو ماں کا پیار دے سکتی تھی۔ ماموں اور ممانی کی بھی دیرینہ خواہش تھی مجھے بہو بنانے کی۔ وہ ایک بار پھر ہمارے دروازے پر سوالی بن کر آگئے۔ اس بار امی جان نے اپنے بھائی کو لوٹانا مناسب خیال نہ کیا اور  میری منگنی ریحان سے کر دی گئی۔ میں نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ ان دنوں میری حالت مردوں سے بد تر تھی ۔ جس کے لئے جی رہی تھی اس نے میری خبر تک نہ لی۔ اس بار امی کی بات کو نہ ٹھکرا سکی۔ امی نے رشتے کے معاملے کو بہت راز میں رکھا۔ کسی رشتے دار کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ ان دنوں نازو میری واحد غمگسار تھی۔ اس سے غم بانٹتی۔ وہ مجھے گلے لگاتی، میرے آنسو پونچھتی مگر وہ بے چاری کیا کر سکتی تھی۔ یاسمین بھی میری ہم راز تھی اور میرا دکھ سُن کر رودیتی تھی۔ سہیلیاں بڑی دولت ہوتی ہیں، خاص طور پر جب انسان کا دل دُکھا ہوا ہو تو دوستوں کا سہارا نعمت ہوتا ہے۔ والدین کے سامنے زبان کھولنا میرے بس میں نہیں تھا۔ صرف امی جان سے کہتی تھی، آپ نے میرا رشتہ اتنی جلد کیوں طے کر دیا۔ کچھ تو اور صبر کر لیا ہوتا۔ ہم تیرے بھلے کی سوچتے ہیں۔امی جواب دیتی تھیں۔ ریحان اچھا لڑ کا ہے، تم سے پیار کرتا ہے تم ماموں کی بہو بن کر سکھی رہو گی۔ ایک سال بعد میر عالم لوٹ آیا۔ آتے ہی وہ خوش خوش ہمارے گھر آیا۔ امی کے اسی طرح پائوں چھوئے اور مجھ سے چائے کی فرمائش کی لیکن یہاں تو ایک سال میں ایک صدی بدل چکی تھی۔ ماں نے اسے بتایا کہ میں نے ہما کی منگنی ریحان سے کر دی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی اس کا رنگ اڑ گیا اور حیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ گو یا الفاظ اس کے منہ سے نہیں نکل رہے تھے۔ وہ بغیر چائے پیئے اٹھ کر چلا گیا جیسے کسی نے اس کو اس کے بہت پیارے کی موت کی خبر دے دی ہو۔ اس کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ امی ایسی بات کہیں گی، اپنی دانست میں تو وہ مجھے اپنا سمجھ چکا تھا۔ اس کے والدین بھی آئے مگر امی نے کہا کہ آپ لوگوں نے بہت دیر کر دی۔ میں نے تو اب زبان دے دی ہے۔ میں اپنے بھائی اور بھابی کو کیا جواب دوں گی۔ میر عالم ان دنوں اجڑا اجڑا لگتا تھا۔ یہ وہی تھا جو ہمہ وقت ہنستا مسکر اتا رہا کرتا تھا۔ اب تو اپنی حالت مجنوں ایسی بنالی تھی۔ وہ اکثر بلا مقصد اپنی چھت پر ٹہلتارہتا۔ ایک روز میں چھت پر گئی تو وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا ہوا تھا۔ کس قدر بد حال اور اداس تھا۔ اس نے کئی دنوں سے لباس تبدیل نہ کیا تھا۔ جب نگاہ مجھ پر پڑی، اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور میری آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب رواں ہو گیا۔ میری منگنی کے بعد سے تایا اور تائی نے ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس رشتے سے خفا تھے ، اب تو میر عالم سے ملنا بھی محال تھا، ملنا تو کجا اس کی ایک جھلک دیکھنا بھی جرم تھا۔ ایک دن یا سمین آئی۔ منت سماجت سے مجھے اپنے گھر لے گئی اور تائی کے ہاں چلنے کو کہا۔ میں ڈرتے ڈرتے گئی۔ تائی نے گلے لگایا اور بہت روئیوں کہ ہم سے کوتاہی ہو گئی ، ہم تو سمجھتے تھے کہ تم ہماری ہو اور یہ رشتہ پکا ہے۔ جب ہم منہ سے کہیں گے تو انکار نہ ہو گا۔ ہمیں کیا خبر تمہاری ماں کو اتنی جلدی پڑ جائے گی۔ ہم کو خبر تک نہ لگنے دی اور نہ ہم پہلے ہی رشتہ پکا کر لیتے۔  تائی جی کی بات سن کر میں بھی اپنے دکھ کو قابو نہ کر سکی اور خوب روئی۔ تھوڑی دیر بعد میر عالم آ گیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا کہ کیا بات کروں ، میں تو بس روئے جارہی تھی۔ وہ بھی چپ تھا مگر اس کی آنکھیں بہہ رہی تھیں۔ اس نے کہا۔ ہما تم شادی سے انکار کر دو مگر اب میرے لئے ایسا ممکن نہ تھا۔ میں چاہتے ہوئے بھی اپنے والدین کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتی تھی اور نہ اب ان کو شرمندہ کر سکتی تھی۔ میں روتی ہوئی واپس گھر لوٹ آئی۔ اپنے والدین کی عزت کی خاطر … شادی کے دن جو میری حالت تھی، وہ میں ہی جانتی تھی۔ تایا والے میری شادی میں نہیں آئے ، میرے ننھیالی رشتہ دار زیادہ آئے۔ میں ریحان کی دلہن بن کر اس کے گھر چلی گئی اور وہ تمام خواب جو میں نے میر عالم کے ساتھ دیکھے تھے ، چکنا چور ہو گئے۔ پورے گھر میں ایسا ماحول تھا جیسے شادی نہیں، کسی کی موت ہو گئی ہو۔ ہر کوئی آنسو بہار ہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے میں زندگی کی آخری سانس لے رہی ہوں اور میر عالم جانے کس طرح میری جدائی کے غم کو برداشت کر رہا تھا۔ یوں دو محبت کرنے والے چپ چاپ اور کسی سے شکوہ کئے بغیر جدائی کی سولی پر چڑھ گئے۔ آج بھی اس کی یاد دل پر ثبت ہے۔ اگر چہ گھر میں شریفانہ زندگی گزار رہی ہوں لیکن میر عالم کی یاد آجاتی ہے تو دل بند ہونے لگتا ہے۔ خدا جانے والدین کیوں رشتے طے کرتے ہوئے غفلت سے کام لیتے ہیں اور معصوم دلوں کا خون ہو جاتا ہے۔ میر عالم دل برداشتہ ہو کر بیرون ملک چلا گیا اور واپس نہ لوٹا۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ واپس نہ آیا ورنہ میری گھر یلو زندگی ویران ہو سکتی تھی اور میں پریشانی کی لہروں میں بہتی بہتی معمولات زندگی کے دھاروں سے کہیں دور نکل جاتی تو کیا ہوتا؟ میرے بچوں کا جیون تو برباد ہو جاتا۔

Latest Posts

Related POSTS