ان دنوں ہم لیہ کے قریب ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے تھے جس میں کل بیس پچیس گھر آباد تھے۔ ابا علاقے کے زمیندار کے کھیتوں کی رکھوالی کرتے تھے۔ کھیتوں کے دیگر کاموں میں ہم بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
ہماری اماں صبح تڑکے اٹھ جاتیں، ہم سب ابھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے اور وہ گائے کے دودھ کی لسی بلو کر مکھن نکالتی، تنور پر گرم گرم روٹیاں پکالیتی… جونہی ہم بیدار ہوتے نلکے پر منہ دھونے چلے جاتے۔ صحن میں ہی پمپ لگا ہوا تھا، ایک پمپ چلاتا تو دوسرا منہ دھولیتا۔
منہ ہاتھ دھو کر واپس کمرے میں آتے تو چارپارئیوں پر ہمارے نصیب کا رزق تیار ملتا۔ ناشتا کرتے کہ ابا ایک لمبی ہانک لگاتے۔ چلو بچو کام کو دیر ہورہی ہے، ہم یوں دوڑے دوڑے ان سے پہلے ہی کھیتوں میں پہنچ جاتے جہاں موسم کی فصلوں کو ہمیں دیکھنا ہوتا تھا۔
گنے کے موسم میں کماد توڑنا، ہرے چنے اور خربوزوں کے موسم میں خربوزے توڑ توڑ کر ڈھیریاں لگانا ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔
مکان خواہ کتنا چھوٹا ہو گھر تو گھر ہوتا ہے اور اپنا یہ سائبان کسی جنت سے کم نہیں ہوتا۔ گارے مٹی کی کچی دیواروں اور لکڑی کے شہتیروں سے بنا ہوا یہ گھر جو ماں کی محبت اور باپ کے سائے کی وجہ سے رشکِ جنت تھا، ہم کو اس میں ہر طرح کا سکھ میسر تھا۔
ہمارا یہ گھروندا… ایک ہال کمرے اور اس سے متصل چھوٹی سی کوٹھری پر مشتمل تھا جس کے آگے برآمدہ اور پھر صحن تھا۔
ہم چاروں بچے سردیوں میں اماں کے ساتھ ہال کمرے میں سوتے تھے جہاں چارپائیاں برابر بچھی ہوئی تھیں جبکہ ابا کوٹھری میں ہوتے تھے۔
کبھی کبھار اماں رات کو ہمیں سوتا چھوڑ کر ابا کی طرف چلی جاتیں، تب میری آنکھ کھل جاتی۔ ماں کو ان کی چارپائی پر موجود نہ پاکر خوفزدہ ہوجاتی مگر ابا کے ڈر سے آواز دے کر ان کو نہیں بلاتی تھی۔
محبوب احمد دراصل ہمارے سوتیلے والد تھے، ہمارے حقیقی والد تو ان دنوں وفات پاگئے تھے جب میں اور میرا بھائی ابھی کم سن تھے۔
والد کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی ماموں اور نانا نے امی کی دوسری شادی محبوب احمد سے اس شرط پر کرادی کہ وہ دونوں بچوں کی کفالت کے علاوہ باپ کا پیار بھی دیں گے۔ شروع میں تو اس شخص نے واقعی باپ کے جیسا پیار دیا لیکن پھر ان کے رویے میں بدلائو آنے لگا۔ یوں کہ کسی چھوٹی سی بات پر وہ اماں سے لڑپڑتے تب اپنا غصہ ہم پر نکالتے اور ہمیں مارنے لگتے، اماں چھڑانے لگتیں تو ان کو بھی مار پڑجاتی۔
ان دنوں میرا بھائی تنویر نو سال کا تھا، والد کا رویہ اس کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ایک سال میں ہی وہ گھر سے بھاگ گیا۔ نانی ہم سے بہت پیار کرتی تھیں، نانا کا مکان ہمارے علاقے سے کافی فاصلے پر تھا۔ ایک ہفتہ بعد تنویر بے چارا برے حالوں بالآخر نانی کے پاس پہنچ گیا۔
تنویر کی حالت دیکھ کر نانا اور نانی بہت روئے، انہوں نے اسے پھر کبھی ابا کے گھر نہ آنے دیا بلکہ مستقل اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ کبھی سال چھ ماہ بعد عید وغیرہ پر امی سے ملنے آتا تھا، ماں کے سوا اس کا کسی سے واسطہ نہ تھا۔
اب والد کسی نہ کسی بہانے مجھ کو ذلیل کرتے چھوٹی سی غلطی پر خوب ڈانٹتے اور اکثر مارنے سے بھی نہ چوکتے۔ دراصل وہ کسی دوسرے شخص کی اولاد کو اپنے گھر کی چھت تلے برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے۔ میں تو لڑکی ذات تھی، خوفزدہ سی اور دب کر رہتی تھی۔ وہ معاشرے کے خوف سے مجھے گھر سے نہیں نکالتے تھے کہ پھر لوگ ان کو لعن طعن کرتے کہ ایک یتیم بچی کو بھی نہیں رکھ سکتا۔
میری والدہ کے بطن سے محبوب احمد کی دو اولادیں ہوگئیں، انہی کے باعث وہ اب اس شخص سے نباہنے پر مجبور تھیں اور گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتی تھیں کہ ان بچوں کی کون کفالت کرے گا۔
شوہر کی بدسلوکی سے بچانے کی خاطر اماں نے مجھ کو بیاہنے کا فیصلہ کرلیا حالانکہ میری عمر ان دنوں صرف پندرہ برس تھی۔ ابا تو یہی چاہتے تھے کہ کسی طور مجھ سے نجات حاصل کرلیں تاکہ چار روٹیاں صبح شام اور سالن کی ایک کٹوری جو میں پیٹ کے دوزخ میں اتارتی ہوں ان کی بچت ہوجائے۔
والدہ نے اس عندیہ کا اظہار کیا، کیا اگلے روز ہی ابا میرے لیے ایک رشتہ لے آئے۔ یہ زمیندار کا بیلی یعنی خاندانی نوکر تھا اور بغیر تنخواہ صرف روٹی کپڑے اور ضروریات زندگی کی چند اشیاء کے عوض مالک کی خدمت گزاری پر معمور تھا، دوسرے لفظوں میں اسے مالک کا غلام ہی کہنا چاہیے۔
غلام کی بھلا کیا اوقات… ماں کو رنج ہوا کہ میری بیٹی کے لیے یہ شخص ایسا رشتہ لایا ہے حالانکہ میں اچھی صورت والی تھی، میرے لیے کسی اچھے گھرانے کا رشتہ بھی جڑجاتا۔ مگر ابا کو تو مجھے نکالنے کی جلدی پڑگئی تھی۔
ابا ہم سے بہت کام لیتے، میں اور میری بہن مل کر کھیتوں سے سبزیاں جمع کرتیں۔ سارا دن کھیت میں بیت جاتا، شام کو وہ سبزیوں کی ٹوکریاں اٹھا کر منڈی لے جاتے اور دام کھرے کرلیتے۔
جلد ہی زمیندار کو خبر ہوگئی کہ رکھوالا چوری سے سبزیاں منڈی میں فروخت کر آتا ہے، اس نے ابا کو نکال دیا۔ لیکن ہمارے باپ نے اس دوران کافی پیسے جمع کرلیے تھے جس سے گائوں میں دکان کرلی۔ دوسری اشیاء کے علاوہ وہ نان خطائیاں بھی بناتے تھے انہیں یہ مٹھائی بنانی عمدہ آتی تھی ہم کو بھی اس کا طریقہ سکھایا۔ اب سارا دن ہم نان خطائیاں گھر میں بناتے اور ابا دکان پر فروخت کرتے، جس سے کافی منافع ہوتا اور اچھا گزارا ہورہا تھا۔
میری شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی پھر وہ مجھے بارات لے کر بیاہنے آگئے اور میں اپنے گھر کی ہوگئی۔ اب نعیمہ اور چھوٹا بھائی رہ گئے، چنّی تو چھوٹی تھی زیادہ کام نہیں کرسکتی تھی سارے کام کا بوجھ اماں پر پڑا۔
میری شادی ہوچکی تھی میں اپنے گھر کی ہوگئی تو نعیمہ کو میری قدر آئی۔ دن کے علاوہ رات کو بھی ابا کے ساتھ مل کر وہ آدھی رات تک مٹھائی بناتی تھی۔
دن بھر دوسرے کام اور رات کو نان خطائیاں بنانے سے وہ بیمار پڑگئی، نیند پوری نہ ہوتی تھی، مٹھائی بناتے رات کے دو بج جاتے۔ نیند سے برا حال ہوجاتا اگر دیوار سے ٹیک لگا کر سوجاتی تو ابا جگا کر کہتے کہ یہ سارا مال بنانا ہے ورنہ صبح تک خراب ہوجائے گا۔
ماں ہر وقت ابا سے جتلاتی کہ میری بیٹی کو تو ایک غلام سے بیاہ دیا محض اپنی دو وقت کی روٹی بچانے کے لیے حالانکہ سلیمہ کام بھی دو بندوں جتنا کرتی تھی اب اپنی بیٹی کے بیاہ کی کچھ فکر کرو، نعیمہ بھی تو جوان ہوگئی ہے۔
ابا کہتے اس کو بیاہ دیا تو نان خطائیاںکون تیار کرکے دے گا… تُو تو رات بھر جاگ نہیں سکتی، کہتی ہے دن بھر کام کرکے تھک جاتی ہوں رات کو کیسے جاگوں۔
پتا ہے ہماری دکان کی نان کی خطائیاں سارے گائوں میں ہی نہیں پرلے گائوں تک مشہور ہیں، وہاں سے لوگ خاص ہماری ہی مٹھائی خریدنے آتے ہیں، شادی بیاہ میں وہ بانٹتے ہیں۔ ان کی اتنی کھپت ہے کہ شام سے پہلے ختم ہوجاتی ہیں، اکثر گاہک خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں۔
کوئی نوکر رکھ لے نا دکان پر… مال بنوایا کرنا اس سے کیا ساری رات جاگ جاگ کر مال بنانے کو میری یہ ننھی سی معصوم جان رہ گئی ہے۔
بیٹی ذات ہے آگے جانے کیا قسمت ہو… بیٹیوں کو یوں نازک نہیں بناتے، ان کو کچھ نہ کچھ ہنر آنا چاہیے۔ اس نے مٹھائی بنانا سیکھ لیا ہے اب گھر بیٹھ کر بھی نان خطائیاں بیچ لے گی تو کچھ کمالے گی محلے بھر کے بچے لینے آتے ہیں یہ ایسی مٹھائی ہے۔
باپ کی باتیں سن کر نعیمہ کو جھرجھری آجاتی یہ ابھی سے میری قسمت کو کھوٹا جان کر ایسی باتیں سوچتے ہیں، بڑا ڈر آتا کہ جانے کس کے ساتھ قسمت پھوڑنے والے ہیں۔ ہم تو کیا محلے بھر کے بچے ان سے ڈرتے تھے ایسی کرخت شکل تھی، ان کی۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ چچا کا لڑکا کسی لڑکی کو بھگا کر لے آیا، پولیس نے ان کو پکڑ لیا چچی روتی ہوئی ابا کے پاس آئی کہ کسی طرح میرے بیٹے کو چھڑادو۔
ابا نے کہا ایک شرط پر بیٹے کو رہائی دلواسکتا ہوں کہ تم مکان کا وہ حصہ جو تمہارے نام ہے مجھے لکھ دو… وہ بولی ہاں شرط منظور ہے اگر تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے بیٹے سے کرادو۔
چچا فوت ہوئے تھے اپنے حصہ کا مکان انہوں نے فوتگی سے پہلے اپنی بیوی کے نام کردیا تھا۔ ابا کو اس بات کا بڑا رنج تھا کہ باپ دادا کا مکان آدھا ان کا اور آدھا بھاوج کا ہوگیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے بھائی کے جنازے میں بھی شامل نہ ہوئے۔ آج موقع تھا اپنی آرزو پوری کرنے کا اور دل کی حسرت مٹانے کا۔ چچی بھی جانتی تھیں کہ بغیر مکان کا حصہ لیے یہ ماننے والے نہیں ہیں۔ بیٹے سے نعیمہ کا نکاح کرانے کی شرط یوں رکھی کہ گھرسے بالکل ہی بے دخل نہ ہونا چاہتی تھیں۔
چچا کے ان صاحب زادے کا نام نیاز احمد تھا۔ نیاز میں ساری بری لتیں تھیں وہ شراب پیتا تھا، جوا بھی کھیلتا تھا پھر بھی ابا نے بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کردیا محض مکان کے لالچ میں۔
رخصتی دو سال بعد ہونا تھی۔ اماں اس نکاح پر خوش نہ تھیں وہ روٹھ کر میکے چلی گئیں۔ افسردہ ہونے کی بجائے ابا کی بن آئی، مرغ پکاتے دوستوں کو بلا کر گھر میں دعوت کرتے… اتنے لوگوں کا کھانا پکواتے اور کہتے نعیمہ خبردار ماں کو بتایا تو اسی چھری سے تجھے بھی ذبح کردوں گا جس چھری سے مرغیاں ذبح کی ہیں۔ اکیلی اتنا کام کرکے کرکے تھک جاتی تو دعا کرتی اے خدا اس باپ سے جان چھڑادے۔ پھر سوچتی کہ نیاز احمد کونسا اچھا آدمی ہے وہ تو میرے باپ جیسا ہی ہوگا۔
چچا کی بیٹی کا نام ساحرہ تھا وہ بھائی سے نعیمہ کے نکاح کے بعد اکثر ہمارے گھر آنے لگی۔ اپنے بھائی کے سندیسے لاتی تو یہ بات اچھی نہ لگتی۔ بار بار کہتی… ان سندیسوں کا جواب دو۔ تبھی نعیمہ چپ سادھ لیتی، پر تنگ آکر اس سے دور دور رہنے لگی اس سے اور اس کے لائے ہوئے سندیسوں سے وحشت سی ہونے لگی تھی اسے۔
بے رخی نے ساحرہ کو برافروختہ کردیا وہ حسد کرنے لگی۔ ایک روز بولی نجانے تمہیں کس بات کا غرور ہے ایک دن تو آخر تم کو ہمارے گھر آنا ہی ہے تب دیکھنا میرا بھائی تیرا دماغ ٹھیک کردے گا۔ نعیمہ کو بہت غصہ آیا… اس نے کہا ایسا کبھی نہ ہوگا جب آئوں گی تب نا؟ اور میں تمہارے گھر آئوں گی ہی نہیں تو تمہارا بھائی کیسے میرا دماغ ٹھیک کرے گا۔ اگر نیاز بارات لے کر آیا تو اس روز زہر کھالوں گی۔ ساحرہ نے یہ تمام باتیں جاکر اپنی ماں اور بھائی سے کہہ دیں۔
چچا کا مکان ہمارے مکان سے جڑا ہوا تھا لہٰذا چھتیں بھی ملی ہوئی تھیں۔ یہ سردیوں کے دن تھے، اماں سبزی بنانے کو چھت پر دھوپ سینکنے جابیٹھیں پھر وہ کچھ دیر بعد نیچے چلی آئیں لیکن چھری وہاں پڑی رہ گئی۔
شام کو نعیمہ چھت پر چڑھی تو دیکھا کہ نیاز بھی ہماری چھت پر موجود ہے۔ اس نے جھپٹ کر بازو پکڑلیا اور کہنے لگا تیرے ابا نے ہمارا مکان اپنے نام لکھوالیا ہے اور بدلے میں تم کو ہمیں دے دیا ہے… اب تم جب تک میں نہ چاہوں نیچے نہیں جاسکتیں۔
اس نے تنک کر کہا چھوڑو مجھے…خبردار جو ہاتھ لگایا۔ وہ ہنسنے لگا۔ واہ … کیا نخرے والی ہو… حالانکہ تم ایک خریدی ہوئی چیز ہو اور خریدی ہوئی چیز کا کوئی مان اور غرور نہیں ہوتا… اس کے ساتھ جو چاہے خریدنے والا سلوک کرے۔
چھوڑو مجھے سیدھے سبھائو اور کون ہوتے ہو تم ایسا کہنے والے… جب میری بہن نے غصہ دکھایا، تب اس نے بھی تنک کر جواب دیا۔ جانتی نہیں کہ میں کون ہوتا ہوں تیرا؟ میں مالک ہوں تیرا… اس نے بازو پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنا شروع کردیا تو نعیمہ خوفزدہ ہوگئی۔
کچھ بن نہ پڑا اپنی عزت بچانے کو قریب پڑی چارپائی پر سے سبزی کاٹنے والی چھری اٹھالی اور پوری طاقت سے اسے ماری تو اس کی چیخ نکل گئی۔ چھری سے بچائو کے لیے اس نے ترنت جب اپنا چہرہ موڑا تو چھری اس کے کان کی لو کو کاٹتی ہوئی نکل گئی اور ڈھیر سا خون اس کے گال پر بہنے لگا۔ اس نے تڑپ کر دوسرا وار اپنے ہاتھ پر روکا اور چھری نعیمہ سے چھین لی۔
اوپر چھت پر جانے سے ایسا کچھ ہوجائے گا یہ تو میری بہن نے تصور بھی نہ کیا تھا، نیاز کے چہرے پر خون دیکھ کر دہشت زدہ ہوگئی تھی۔ فوراً زینے کی طرف لپکی اور جلدی جلدی زینہ پھلانگنے لگی، آخری چار پانچ سیڑھیاں نظر نہ آئیں اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی برآمدے کے فرش پر آگری، شدید چوٹ آئی، گھٹنا بھی زخمی ہوگیا۔ اماں برآمدے میں بیٹھی تھیں یوں زینے پر سے قلابازیاں کھاتے دیکھ کر بولیں۔
ارے کیا ہوا ہے تجھے کوئی بلا تیرے پیچھے لگ گئی ہے جو یوں بولاگئی ہے یا اندھی ہوگئی ہے۔ جب کافی دیر تک نہ اٹھی تو اماں نے آکر اٹھایا۔ نعیمہ سے تو چلا نہیں چارہا تھا… انہوں چارپائی پر ڈالا… تبھی چچی دھڑ سے بیرونی دروازے کو دھکیل کر صحن میں آئیں اور چلانے لگیں…
ہے ہے لڑکی ہے کہ ڈائن… میرے بیٹے پر چھری سے حملہ کردیا ، اس کی جان کے درپہ ہے… توبہ توبہ، ایسی لڑکی کو میں بہو بنائوں گی تو کیا ہوگا۔ یہ تو ہم سب کو چھریاں ہی مارے گی۔
چچی نے اسی پر بس نہیں کیا سارے محلے میں ہر گھر جاکر ایسے ہی بین کیے۔ یہاں تک کہ یہ باتیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ سبھی نعیمہ کو ڈائن اور خونی کہنے لگے… گائوں والوں نے اس پر تھو تھو کی… گائوں کے معزز لوگ جمع ہوئے کیونکہ چچی نے واویلا کیا کہ میں تھانے جاتی ہوں۔ تب لوگوں نے بیچ میں پڑ کر معاملے کو دبایا اور چچی کو ٹھنڈا کیا مگر کسی کو میری بہن اصل بات نہ بتاسکی۔
ان دنوں تو وہ واقعی عجب کیفیت سے دوچار تھی۔ کانوں میں شائیں شائیں کی آوازیں آتی تھیں اور لگتا تھا کہ جیسے اس کے چاروں طرف بھوت رقصاں ہوں۔ کبھی یوں محسوس ہوتا جیسے کہ آندھی میں اڑتی جارہی ہے۔ زندگی جاگتے میں بھی ایک ڈرائونا خواب محسوس ہوتی تھی۔ نعیمہ کے لیے وہ رات تو قیامت کی تھی چارپائی پر ایسے کروٹیں بدل رہی تھی جیسے کسی نے بستر پر چنگاریاں بکھیردی ہوں۔ ساری رات سو نہ سکی محلے والے بھی نیازکے ہمراہ شہر کے ہسپتال چلے گئے تھے اور عزیز رشتہ دار چچی کے گھر بیٹھے ان کو سمجھاتے رہے تھے کہ کہیں وہ طیش میں آکر تھانے نہ چلی جائے۔
سب سے زیادہ وہ خوفزدہ وہ اپنے باپ سے تھی یقین تھا کہ وہ چھری سے ہلاک ہی کردے گا مگر ماں نے ابا کو یہ کہہ کر قابو کیا کہ تمہارا آوارہ بھتیجا تمہاری بیٹی کی عزت کا دامن تار تار کرنے آیا تھا وہ اپنی عزت بچانے کو اورکیا کرتی۔
حیرت ہے کہ سارے گائوں والے نیاز کے ساتھ ہوگئے، گائوں کی سبھی عورتیں چچی کے گھر جمع ہوئیں مگر کوئی عورت ہمارا حال دریافت کرنے نہ آئی۔ کچھ دن تو ہمارے گھر کا ماحول ایسا رہا جیسے کوئی مرگیا ہو اور اس کا سوگ منایا جارہا ہو۔
ابا نے نعیمہ سے ترک تعلق کرلیا یہاں تک کہ چھوٹا بھائی بھی اسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیرلیتا تھا۔ ایک دن اس نے بھائی کا بازو ہلا کر… ندیم تجھے کیا ہے، تو کیوں مجھ سے بات نہیں کرتا۔ وہ کہنے لگا اس لیے کہ جب میں باہر نکلتا ہوں تو مجھے دیکھ کر گائوں والے کہتے ہیں اس کی بہن نے اپنے شوہر پر حملہ کیا ہے، وہ اسے قتل کرنا چاہتی تھی۔ حالانکہ نکاح بھی ہوچکا ہے جانے کیوں وہ نیاز کی جان لینا چاہتی تھی۔ شاید کہ اس کے تعلقات کسی دوسرے آدمی سے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم نیاز لوگوں سے کیا کہتا تھا مگر نعیمہ سے تو نہ کسی نے کوئی سوال کیا اور نہ کوئی جواب سنا… جسے وہ ’’دیوار گریہ‘‘ تھی کہ جس کے سامنے لوگ آکر روتے تھے اور چلے جاتے تھے۔
کبھی کبھی نیند میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی تھی لگتا تھا کہ جیسے نیاز قتل کرنے آرہا ہے۔ ابا بھی ناحق غصہ کرتے، کبھی کہتے تھے کہ چھت پر کیوں جاتی تھی، کسی دن اس کے ٹکڑے کرکے بھٹی میںضرور ڈالوں گا، دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔
ان باتوں سے وہ بائولی ہوجاتی تھی ہر لمحہ دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ انہی سوچوں اور خوف کی کیفیت میں نعیمہ بیمار پڑگئی۔ سارا دن کوٹھری میں پڑی رہتی۔ تپ سے بدن لاغر، کھانا پینا چھوڑدیا تھا۔ جب مجھے موقعہ ملتا میں ماں کے گھر جا کر اس کی دلجوئی کرتی۔ انہی دنوں پھوپھو امی سے ملنے آئیں، نعیمہ کی حالت دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئیں کہنے لگیں۔
توبہ توبہ… کیسی حالت کردی ہے اس بے چاری کی ایسا سلوک تو کوئی جانوروں سے نہیں کرتا۔ ابو بولے، لڑکیاں بھی تو ایسی قماش کی نہیں ہوتیں کہ ہونے والے شوہر پر چھری سے حملہ کریں۔ آسیہ پھوپھو نے امی ابو پر زور دیا کہ اس کو کچھ دن کے لیے اپنے ساتھ لے جاتی ہوں وہاں شہر میں اس کا علاج کرائوں گی۔ ابا نے کہا لے جائو… ہم کونسا اس کے بغیر مرے جاتے ہیں۔
آسیہ پھوپھو کے دو بیٹے تھے۔ علیم بھائی شادی شدہ تھے جبکہ اکرم دبئی میں ملازمت کررہے تھے۔ ان کی کوئی بیٹی نہ تھی، بڑا سا گھر تھا۔ بہو بہت نک چڑھی اور نکمی تھی۔ وہ گھر کا کام نہیں کرتی تھی سارا دن اپنے کمرے میں لیٹی ٹی وی دیکھتی رہتی تھی۔
گھر کا تمام کام پھوپھو کو اکیلے ہی کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے میری بہن کا علاج کرایا، وہ ٹھیک ہوگئی تو نعیمہ نے ان کا گھر سنبھال لیا۔ اب تمام کام نعیمہ کرتی ان کی بہو کا بھی سارا کام خوشی خوشی کرتی تھی۔ یہاں تک کہ رات کو ان کی ٹانگیں بھی دباتی تب وہ خوش رہنے لگیں۔ نعیمہ ان کو بھابی کہتی تھی جبکہ ان کا نام ممتاز تھا۔
ممتاز بھابی امیر گھرانے سے تھی اور تعلیم یافتہ تھی۔ میری بہن کی خدمت کا یہ صلہ دیا کہ وہ اسے روز گھنٹہ دو گھنٹہ پڑھانے لگی، نعیمہ بھی دل لگا کر پڑھ رہی تھی۔
چھ ماہ بعد امی ابو لینے آئے جب بیٹی کی اچھی صحت دیکھی اور پتا چلا کہ پڑھ رہی ہے تو انہوں نے ساتھ لے جانے پر اصرار نہ کیا۔ پھوپھو نے بھی کہا کہ میری بیٹی نہیں ہے ابھی اس کو نہ لے جائو میرے پاس رہنے دو۔
آسیہ پھوپھو حالانکہ میری سگی پھوپھی تھیں، والد کی بہن نہ تھیں۔وہ نعیمہ کی پھوپی نہ تھیں پھر بھی اسے سگی پھوپی جیسا پیار کرتی تھیں۔
انہی دنوں اکرم دبئی سے آیا۔ ماں نے بیٹے سے تعارف کرایا وہ خوش دلی سے ملا، نعیمہ کو بھی اکرم اچھا لگا۔
پھوپھو نے اس کے بارے میں تمام باتیں بتا کر کہا کہ لڑکی بہت اچھی اسی لیے میں نعیمہ کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں۔
پہلے نیاز سے طلاق تو ہوجائے پھرسوچیں گے، اکرم نے جواب دیا۔
پھوپھو کے گھر میری اس سے ملاقات ہوجاتی تھی، اکرم کی کوششوں سے آخر کار نیاز سے طلاق مل گئی اب وہ آزاد تھی اور اکرم سے شادی ہوسکتی تھی۔
بدقسمتی سے جن دنوں نعیمہ اور اکرم کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں آسیہ پھوپھو بیمار ہو گئیں اور شادی کے ایک ہفتہ بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ نعیمہ اور اکرم کی شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی، والدین نے ایک جوڑے میں رخصت کیا اور کوئی جہیز وغیرہ بھی نہ دیا۔ پھوپھو کے فوت ہونے کے بعد ان کی بڑی بہو نے آنکھیں پھیرلیں اور حقارت بھرا برتائو کرنے لگی۔ اس کا کہنا تھا کہ کنگال والدین کی بیٹی ہے، جہیز سے بہو کی عزت بنتی ہے یہ جہیز نہیں لائی اس لیے سسرال میں اسے عزت نہیں ملے گی۔
والدین نے بھی روکھا پن دکھایا اور بیٹی سے ملنے نہیں آتے تھے، تبھی سسرالی کہتے یہ تو لاوارث ہے وہ میری بہن سے لاوارثوں جیسا سلوک کرنے لگے۔ اس کے شوہر سے بھی کہتے تھے کہ یہ لاوارث ہے۔
اس لاوارث سے تم نے شادی کرلی ہم تمہاری شادی کسی امیر گھرانے میں کرتے، اب بہتر یہ ہے کہ اس کو دارالامان چھوڑ آئو۔ اکرم سے وہ ایسی باتیں کرتے تو وہ افسردہ ہوجاتا۔
اکرم اپنے بھائی اور بھابی کی باتیں سنتے اور چپ رہتے۔ نعیمہ نے شوہر کو اپنے سارے دکھ بتادیے تھے جس کے جواب میں وہ کہتے تھے کچھ دن صبر سے گزارا کرلو میں سب حالات صحیح کرلوں گا۔
وہ دوبارہ دبئی چلے گئے اپنے بھائی بھاوج سے کہا کہ میری بیوی جہیز نہیں لائی ہے تو میں خود اس کا جہیز بناکر آپ لوگوں کے حوالے کروں گا لیکن اسے خدارا میری غیر موجودگی میں کچھ مت کہنا… جہیز جو میں بنا کر لادوں گا بے شک آپ اپنی بیٹی کی شادی میں دے دینا۔
جس روز اکرم دبئی روانہ ہورہے تھے آنسو نہ تھمتے تھے، نعیمہ بہت رو رہی تھی، جانے وہ کس کے آسرے پر چھوڑے جاتے تھے، لگتا تھا یہ زندگی کا آخری دن ہے۔
ان کے جانے کے بعد بھابی نے نعیمہ پر بدسلوکی کی حد کردی۔ چاہتی تھیں کہ میکے چلی جائے، میکے جانے سے انکار کیا تو انہوں اسے واقعی دارالامان پہنچادیا۔
جب اکرم کو پتہ چلا کہ بیوی دارلامان میں ہے انہیں بہت صدمہ ہوا۔ وہ فوراً وطن آگئے، اتنا کمایا تھا کہ جہیز بنادیا لیکن پھر غصے میں انہوں نے یہ سارا سامان اپنے بھائی اور بھابی کے حوالے نہ کیا۔ انہوں نے احتجاج کیا کہ جب میں پردیس میں محنت کرکے آپ لوگوں کا مطالبہ پورا کرنے کی جدوجہد کررہا تھا تو آپ نے میری بیوی کو کیوں دارلامان بھجوادیا۔
اس دن سے اکرم نے علیم بھائی اور ان کی بیوی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا اور کرایہ پر مکان لے کر نعیمہ کو وہاں لے آئے۔ نئے سامان سے اپنا گھر سجایا اور نئی زندگی کی شروعات کی۔
وہ کچھ رقم ساتھ لائے تھے جس سے ایک دوست کے ساتھ شراکت کرلی اور چھوٹے سے بزنس سے ابتدا کی۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اس بزنس میں برکت ڈال دی اور رفتہ رفتہ یہ خوشحال زندگی بسر کرنے کے قابل ہوگئے، ان کو پھر سے پردیس جانے کی ضرورت نہ پڑی۔
میرے شوہر نے بھی ایک دن اپنے مالک کی غلامی سے نجات پالی۔ مالک کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں نے بیرون ملک جابسنے کا عزم کرلیا اور بیلی کو چھٹی دیدی۔ نعیمہ بے شک میری سوتیلی بہن تھی، وہ دوسرے باپ سے تھی مگر ہماری ماں ایک تھی اس وجہ سے ہم چاروں بہن بھائی آپس میں پیار کرتے تھے۔ ماں نے اپنی اولادوں کے بیچ محبت کا بیج بویا تھا… میں اکثر نعیمہ کے گھر جاتی تھی کہ وہ میری سگی پھوپھو کی بہو تھی اور میرے دونوں بھائی بھی اس کے پاس آتے جاتے تھے۔ صرف محبوب احمد ہی ہم بیٹیوں سے خار کھاتا تھا کیونکہ وہ عجیب شخص تھا تبھی اپنے دامادوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
امی جب تک زندہ رہیں کبھی کبھار ملنے آجاتی تھیں۔ ان کے بعد ہم بہنوں کا ہی آپس میں رشتہ باقی رہ گیا۔ دونوں بھائی بھی نعیمہ کے گھر کو ہی ماں کا گھر سمجھ کر آتے تھے۔ عید پر ہم سب اس کے پاس اکٹھے ہو کر عید مناتے… میرے شوہر کو ایک روز اکرم بھائی نے اپنے کاروبار میں شامل ہونے کی پیشکش کی تو انہوں نے ہامی بھرلی۔ ان کا بھی کوئی بھائی تھا اور نہ بہن یوں ہم لوگ اور بھی نزدیک ہوگئے اور ایک خاندان بن گئے۔ کہتے ہیں کہ جہاں اتفاق ہو وہاں برکت بھی ہوتی ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے آج جبکہ میرے دونوں بھائی میرے شوہر اور اکرم بھائی سب مل کرکاروبار کررہے ہیں تو ہم شہر کے امیر گھرانوں میں شامل ہوچکے ہیں… ابا کو اکیلا رہنا پسند تھا وہ اکیلے ہی رہ گئے اور میری ماں کو اللہ تعالیٰ جنت نصیب کرے، ان کی روح ہم کو خوشحال دیکھ کر یقینا خوش ہوگی۔
(س… گوجرانوالہ)