Monday, April 21, 2025

Warisha Ki Eidi

مجال ہے یہ لڑکی ایک لمحے کو بھی موبائل چھوڑ دے۔ آج آئے اس کا باپ اس کے سامنے ہی توڑوں گی۔ زیب النسا کچن میں سنک کے آگے کھڑی برتنوں کا ڈھیر دھو رہی تھیں۔ ابھی کئی کام ان کے منتظر تھے۔ روزے کی حالت میں اکیلے کام کرنا خاصا دشوار تھا۔ وریشہ کام چور کو بھی ماں کی حالت پر ترس نہ آیا بلکہ جب بھی وہ کام کرنے کو کہتیں وہ پڑھائی کا بہانا کر دیتی۔

اب زیب النسا کو لگتا تھا کہ بچوں کو بچپن سے ہی ایک دائرے میں رکھنا چاہیے۔ ورنہ بڑے ہو کر وہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ کچھ دیر  کے بعد وریشہ کمرے سے نکل کر ماں کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔ زیب النسا نے نظر انداز کرتے ہوئے سر جھٹکا۔ جانتی تھیں کوئی غرض ہی لائی ہو گی ماں کے پاس۔ پتا ہے آپ کو ، ابرش کے سسرال سے کتنی اچھی عیدی آتی ہے اس کی –  انہیں اس کا ندیدہ پن سخت برا لگتا تھا یہ دیکھیں، اس نے اسٹیٹس لگایا ہے۔ کیا بتاؤں امی، برانڈڈ کپڑے جوتے ، جیولری، چوڑیاں، مہندی ، مٹھائیاں ، پھل ، میک اپ کا سامان اور نہ  جانے کیا کیا ۔ وہ ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے عیدی ابرش کی نہیں اس ہو۔ جاؤ جاؤ  میرا سر نہ کھاؤ، وہ تلملا گئیں۔ ایسی بے شرم اولاد ہے اتنا نہیں ہے کہ ماں کا ہاتھ بٹا دے, لگی مجھے قصے کہانیاں سنانے۔  مگر وریشہ انتہائی ڈھیٹ بنی اپنے سلکی بالوں سے کھیلتی، وہیں کھڑی مسلسل دانت نکال رہی تھی۔ جس کا مطلب تھا اس کے ذہن میں کوئی بات چل رہی تھی۔میں بھی عمر سے پوچھتی ہوں، وہ لوگ کب میری عیدی لا رہے ہیں۔ اوہ، تو ابرش کی عیدی کا قصہ بلاوجہ نہیں سنایا جا رہا تھا۔ خبردار تم نے عمر سے ایسی کوئی فضول بات کی۔

انہوں نے سختی سے تنبیہ کی۔ ارے امی ! آج انیسواں روزہ ہو گیا ہے، ان لوگوں کی طرف سے کوئی خیر خبر نہیں ۔ اس نے منہ بتایا۔ ان کے ہاں عیدی کا رواج نہیں ۔ زیب النسا نے نہایت سکون سے کہہ کر وریشہ کا سارا سکون غارت کر دیا – لک کیا؟ یہ کس نے کہا آپ سے؟ وہ گرتے گرتے بچی۔ کس نے کہنا ہے مجھے اللہ نے عقل دی ہے۔ اس کو استعمال کر کے نتیجہ اخذ کیا ہے میں نے۔  ایسے کیسے نتیجہ اخذ کر لیا آپ نے۔ وہ ماں کے مقابل کھڑی ہوئی۔ دیکھو وریشہ ! عمر کے ابا کی چھوٹی سی دکان ہے اور عمر کو کام پر جاتے دن نہیں ہوئے ، گھر کا دال دلیہ پورا ہونا دشوار ہو گیا ہے آج کل ، اوپر کے خرچوں کی گنجائش نہیں ان کے پاس۔ تو کیوں اتنے غریب گھر میں رشتہ کیا تھا میرا ۔ وہ روہانسی ہوگئی۔ غریب گھر کا رشتہ ہو نہہ، اس کے لیے کسی سیشن جج کے گھر سے رشتہ آنا چاہیے تھا۔ وہ سر جھٹکتی باہر نکل گئیں -لیکن میں عمر سے بات کروں گی ۔ وہ پیر پٹختی پیچھے آئی۔ زیب النسا نے اسے سخت گھوری سے نوازا۔ میری دوستوں میں میری کیا عزت رہے گی امی ! – تمہیں بات سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی ۔ اگر انہوں نے عیدی لانی ہو گی تو لے آئیں گے ورنہ ہم انہیں خود سے کیوں کہیں گے۔ اس لیے اب اپنی زبان کو لگام دو اور چلو میرے ساتھ یہ کپڑے دھلواؤ۔
☆☆☆

وریشہ نے ماں کی نہ مانی، اپنی من مانی کی اور عمر کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ عیدی لے کر آئے۔ اس نے دو گھروں کو مصیبت میں ڈال دیا تھا، عمر کو چیزوں کی ایک طویل فہرست بھیجی تھی۔ اسے اس کی عیدی مانگنے والی بات سخت بری لگی تھی لیکن یہ تو اس کی ماں کا سبھاؤ تھا کہ انہوں نے ، وریشہ کی بچگانہ حرکت سمجھ کر کوئی اعتراض نہ اٹھایا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ وریشہ کی امی کی دور پرے کیا رشتہ دار  تھیں ورنہ وریشہ کو اس کا منہ کھول کر مانگنا مہنگا بھی پڑسکتا تھا۔ لیکن اب مہنگا تو زیب النسا کو پڑ گیا تھا محدود آمدنی، جہاں کئی ضرورتوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا تھا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے اچھا خاصا خرچا کروا دیا تھا۔ ان کی نالائق اولاد نے۔ انہوں نے کتنا سمجھایا تھا کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں ۔ مگر وریشہ نے اپنی من مانی کرتے ہوئے طویل فہرست باپ کو تھما دی تھی اور اب دونوں ماں بیٹی کچن میں جتی ہوئی تھیں۔ افطاری سے کچھ پہلے ہی وہ لوگ پہنچے تھے۔ وریشہ کے تو مانو سر پر لگی تلوں پر بھجی ۔ چند عام سے تھیلے جن کے اندر کچھ سامان تھا وہ یقینا عام سے سستے بازار سے خریدا گیا تھا۔ زیب النسا نے اسے جلدی جلدی دسترخوان لگانے کو کہا – زیب بہن، اتنا تکلف کیوں کیا آپ نے,عمر کی امی دستر خوان پر نت نئی چیزیں دیکھ کر پریشان ہوئیں ۔ انہیں خوب اندازہ تھا کہ اس سب کے پیچھے کتنا خرچا آیا ہوگا۔ آنٹی ، میں نے وریشہ کو صاف منع کیا تھا کہ ہم افطاری کے وقت نہیں آئیں گے۔ مگر اس نے بہت مجبور کیا مجھے اور پھر میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ یہ کوئی تکلف نہیں کرے گی ۔ زیب النسا نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا جو شاید اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ کوئی بات نہیں۔ یہ سب تو کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے محبت سے کہا۔نہیں زیب بہن، یہ سب کیوں کرنا پڑتا ہے۔

اگر اپنوں نے ایک دوسرے کو نہیں سمجھنا تو پھر اپنے پین کا کیا فائدہ ۔ عم کی امی واقعی افسردہ تھیں دیکھو وریشہ ! جو رشتے دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جائیں وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے محبت سے اسے  سمجھایا۔ وریشہ کی عیدی میں سستا سا لان کا سوٹ ، چوڑیاں، مہندی، سوٹ اور مٹھائی کا ڈبہ تھا۔ وہ اسٹیٹس لگانے کی خواہش ، سہیلیوں میں گردن اکڑا کر چلنے کا خواب ، ابرش کو نیچا دکھانے کی آرزو خاک میں مل گئی۔ ابرش اس کی کلاس فیلو تھی ، جو پوری کلاس میں اپنی امارت کا رعب جھاڑتی تھی ۔ کہاں وہ اور کہاں میں۔ اس کی عیدی اس کے بیڈ پر پڑی ا س کا منہ چڑا رہی تھی اور وہ دکھ و اذیت کی کیفیت میں تھی۔ تب ہی موبائل پر میسج کی بیپ سے اس نے مرے دل سے اپنا فون اٹھایا۔ اس کی سہیلی عریشہ کا واٹس ایپ پیغام تھا۔ عریشہ بڑے جذباتی انداز میں بتا رہی تھی۔

 کچھ سنا ! ابرش کی منگنی ٹوٹ گئی۔ بقر عید پر اس کی شادی ہوئی تھی یار! بڑے ہی کوئی گھٹیا قسم کے لوگ تھے پہلے تو جہیز کی لمبی لسٹ پکڑا دی اور پھر گاڑی کی فرمائش میں تو کہتی ہوں کہ عریشہ ہولے جارہی تھی اور وریشہ کی آنکھیں جھلمل کر رہی تھی۔ جو رشتے دکھاوے کی بھینٹ چڑھ جائیں وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ عمر کی امی کی بات بازگشت بن کر گونج رہی تھی ۔ اس نے لپک کر اپنی عیدی کا جوڑا اٹھایا اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا۔ میری عیدی تو سب سے بیسٹ ہے۔ وہ مسکرا دی تھی۔

Latest Posts

Related POSTS