میں ایک جرمن عورت ہوں۔ پہلے مجھے اُردو نہیں آتی تھی، لیکن اب بہت محنت سے اتنی سیکھ لی ہے کہ اچھی طرح سمجھ اور بول لیتی ہوں۔ یہی نہیں، ٹوٹی پھوٹی تحریر میں اپنا مدعا بھی بیان کر سکتی ہوں۔ یہ اب سے چالیس برس قبل کی بات ہے ، جب میں جرمنی کے شہر میونخ میں رہا کرتی تھی۔ اپنی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش میں تھی کہ ایک سہیلی نے رہنمائی کی اور میں ایک اسپتال سے وابستہ ہو گئی، جس کے ساتھ میڈیکل کالج بھی تھا۔ ہمارے اسپتال میں میڈیکل اسٹوڈنٹ پریکٹیکل ورک کے لئے آیا کرتے تھے ، انہی میں عظمت بھی تھا۔ ایک مرتبہ جس وارڈ میں میری ڈیوٹی لگی ، اتفاق سے عظمت کی بھی وہیں ڈیوٹی تھی۔ یوں ہم نے ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کر لی۔ عظمت نے مجھے بتایا تھا کہ اُسے جرمنی آئے قلیل عرصہ ہوا ہے۔ اُن کا پاکستان میں متمول خاندان اور ایک زمیندار گھرانہ تھا۔ چند ماہ بعد جب وہ یہاں کے ماحول میں رچ بس گیا تو اس کو چند غلط قسم کے لڑکوں سے دوستی میسر آ گئی، جن کا زیادہ وقت کلب، ہوٹل اور تھیٹروں میں دادِ عیش دیتے گزرتا تھا۔ ان دوستوں کو علم تھا کہ عظمت معاشی طور پر ایک مستحکم اسامی ہے۔ ہم دھیرے دھیرے ایک دوسرے کے قریب آگئے لیکن جب وہ غلط لڑکوں کا رسیا ہو گیا تو میں نے اس سے رفتہ رفتہ دوری اختیار کر لی۔ اب اگر وہ مجھ سے ملنے کے لیے فون کرتا تو میں اسے دو جملے ہیلو ہائے کہہ کر بائے بائے کر دیتی اور اکثر شدید مصروفیت کا بہانہ ظاہر کیا کرتی۔ ایک دن میری رات کی ڈیوٹی تھی۔ تقریباً سات بجے میں اپنے روم سے نکلی۔ تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے اسپتال کی جانب جارہی تھی کہ کسی کو لڑ کھڑاتے ہوئے دیکھا۔ مریض سمجھ کر میں اس کی مدد کو بڑھی ، وہ عظمت تھا۔ میں سہارا دے کر اسے کمرے تک لائی۔ جب اس کے حواس کچھ بحال ہوئے اور بات کرنے کے لائق ہوا تو اس سے سوال کیا۔ آپ یہاں کہاں؟ آپ یہاں اس حال میں یہاں کیسے پہنچے ؟ آپ باہر سردی میں پڑے تھے۔ اُس وقت وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔ خستہ حال اور بدن کپکپا رہا تھا۔ میں نے کافی بنا کر دی اور اصرار کیا کہ جو پریشانی ہے، مجھے بتائو۔ تب اُس نے بتایا۔ دوستوں نے سبز باغ دکھائے، میں نے پیسہ بے دریغ خرچ کیا اور دن رات ان کی عیاشیوں میں شامل رہنے لگا، حتی کہ اپنا مقصد زندگی بھلادیا کہ میں اس ملک میں پڑھنے کے لئے آیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ میں دونوں مرتبہ فیل ہو گیا۔ نجانے کیا افتاد آپڑی کہ گھر سے پیسے آنے بھی اچانک بند ہو گئے۔ امتحان ختم ہو گئے۔ دوماہ تو جوں توں گزر گئے مگر اب میں خالی جیب کدھر جاتا اور فیل ہو جانے کے بعد گھر والوں کی طرف سے رقم بھی بند ہے ، یوں تعلیمی اخراجات ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے مجھے ہاسٹل بھی چھوڑنا پڑ گیا ہے۔ ہاسٹل سے نکلا تو دوستوں کے پاس مدد کے لئے گیا، انہیں صورت حال سے آگاہ کیا تو سبھی نے آنکھیں پھیر لیں۔ اب نہ تو میرے پاس رقم ہے کہ وطن جا سکوں اور نہ کہیں رہائش کا بندوبست ہے۔
مجھے یہ سن کر دُکھ ہوا اور میں سوچ میں پڑ گئی کہ اس کے لئے کیا کر سکتی تھی۔ خود ایک غریب محنت کش لڑکی تھی۔ لے دے کر میرے پاس بس وہی تھوڑی سی رقم تھی، جو میں نے کسی برے وقت کے لئے پس انداز کی تھی۔ کم سرمایہ ہونے کے باوجود نہ جانے میرے دل میں کیوں اتنی ہمدردی بھر گئی تھی۔ دوسرے روز کافی کوشش کی کہ عظمت کو مزید دو سال کا ویزہ مل جائے کیونکہ ہفتے بعد اس کے ویزے کی میعاد ختم ہو رہی تھی، لیکن فیل ہونے کی وجہ سے اب ویزا ملنا مشکل تھا۔ اب تو صرف ایک ہی صورت باقی تھی کہ کسی طرح وہ جرمنی کی کسی عورت سے شادی کر لیں تاکہ ان کو یہاں رہنے کی اجازت مل جائے۔ میں نے کافی بھاگ دوڑ کی اپنی کئی سہیلیوں کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ وقتی طور پر عظمت سے شادی کر لیں تا کہ وہ ملک بدری سے بچ جائے مگر کوئی بھی وقتی بیوی بنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ آخر انتہائی مایوسی میں اس نے مجھے کہا۔ روتھ ! تم خود کیوں نہیں مجھ سے شادی کر لیتیں ؟ اس کی بات سن کر میں گنگ رہ گئی۔ میں نے کہا۔ تم جانتے ہو عظمت کہ میری منگنی ہونے والی ہے ، پھر ہمارے درمیان ملک ، زبان اور سب سے بڑھ کر مذہب کی دیواریں حائل ہیں۔ وہ بولا ۔ ان باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم عارضی طور پر میرا ساتھ دے رہی ہوتا کہ جس مقصد کے لئے آیا ہوں ، اس کو حاصل کر سکوں۔ تمہیں پتا ہے کہ مجھے اپنی غفلت کے باعث ٹھوکر لگی ہے اور میں سبق سیکھ چکا ہوں تو کیا تم ایک انسان کی زندگی سنوارنے کے لئے ذرا سی قربانی نہ دو گی ؟ یہ قربانی ذرا سی نہ تھی۔ جس سے میری منگنی ہونے والی تھی، وہ اس بات پر مجھ سے بد ظن ہو سکتا تھا، بلکہ ہمارا ناتا ہمیشہ کے لئے ٹوٹ سکتا تھا۔ یہ بہت بڑا رسک تھا۔ وہ اس مجبوری کو سمجھتے ہوئے بھی مجھ سے بددل ہو سکتا تھا۔ میری ایسی باتیں سن کر وہ بچارا رو پڑا، تبھی میرا دل نرم ہو گیا۔ میں نے اُس کی مدد کی ہامی بھر لی اور پھر نتائج کی پروا کئے بغیر اس آگ میں کود پڑی۔ اگلے دن ہم رجسٹرار کے پاس جا کر بحیثیت زن و شوہر کے رجسٹرڈ ہو گئے۔ پہلے پہل یہ تعلق عارضی رہا گویا ہم دونوں اپنا وعدہ نباہ رہے تھے۔ اچانک ایک دن جبکہ ہم دونوں تنہا تھے ، ایک دوسرے سے دور نہ رہ سکے۔ یہاں سے وعدوں کے پرخچے اڑ گئے کہ اب ہم سچ مچ کے میاں بیوی بن گئے تھے۔ اُس کے بعد میرے دل نے عظمت کے بغیر رہنے سے انکار کر دیا۔ اُس کی جدائی کے تصور سے دل بیٹھنے لگا۔ میں اب اپنے ہونے والے منگیتر کو بالکل بھلا بیٹھی۔ بس جہاں بیٹھتی تھی، اس گھر کے نقشے بنانے لگتی، جس میں مجھے اور عظمت کو رہنا تھا۔ شاید یہی کیفیت اس کی بھی تھی کہ ایک منٹ بھی مجھ سے دور رہنا نہ چاہتا تھا۔ عظمت کے وطن سے خط آگیا اور رقم بھی مگر اس نے مجھ کو کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ صرف اتنا کہا کہ گھر والوں کو کسی نے اس کی شادی کی خبر کر دی ہے اور انہوں نے مجھے جائیداد سے عاق کر دیا ہے۔ اب تم کہو، تمہاری کیا میرضی ہے ؟ یہ خبر سن کر میں سکتے میں رہ گئی۔ کہاں تو میں اُن کے منی آرڈر کے آنے کا انتظار کر رہی تھی، کہ میری رقم مجھ کو واپس کر دیں اور مجھ کو آزاد کر دیں، مگر یہ خبر سن کر تو گویا میں چکر آگئی، پھر سوچا تو وہ مجھ کو بے حد مظلوم نظر آئے۔ افسوس ایسے حال میں کسی انسان کو چھوڑ دینا کتنی بڑی گھٹیا حرکت تھی۔ تب میں نے کہا۔ عظمت ! اگر آپ کی رقم آ جاتی تو یقینا آپ سے علیحدگی اختیار کر لیتی مگر اب یہاں پردیس میں آپ کا دوسرا کوئی نہیں اور اب وطن واپس جا کر بھلا آپ کیا کریں گے۔ سو بہتر ہے کہ یہیں کے ہو رہیں اور میں بھی ہمیشہ کے لئے آپ کی ہو رہوں۔ غربت ہے تو کیا ہوا؟ ہم دونوں پڑھے لکھے ہیں۔ دونوں مل کر کمائیں گے تو غربت بھی دور ہو جائے گی۔
عظمت میری طرف دیکھ کر مسکرایا کہا۔ ایک قربانی اور دینی ہو گی ۔ کیا تم واقعی دل سے اسلام قبول کر سکتی ہو ؟ میں نے کہا۔ کیوں نہیں ، جب آپ کو سچے دل سے قبول کر لیا تو آپ کے مذہب کو بھی دل سے ہی قبول کروں گی۔ اس نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور میں مسلمان ہو گئی۔ مت پوچھئے وہ کتنا خوش ہوا تھا۔ کہنے لگا۔ نادان، میں تم کو آزما رہا تھا۔ اب سنو ! میرے والد کا اچانک انتقال ہو گیا تو وہاں جائیداد کا کچھ ایسا چکر چلا کہ گھر سے رقم نہ آسکی۔ والد کی وفات کی اطلاع مجھ کو یہاں فوراً اس لئے نہ بھیجی گئی کہ پردیس میں ہوں، شاید اتنا بڑا صدمہ نہ سہ سکوں ، مگر اب گھر والوں نے ساری حقیقت تفصیل سے لکھ بھیجی ہے اور تمام جائیداد کا میں تنہا وارث ہوں۔ ہماری جائیداد اور دولت اتنی ہے کہ ہماری سات پشتوں کو کافی ہو گی۔ میں نے سن رکھا تھا کہ مغرب کی عورت دولت کو اہمیت دیتی ہے لیکن ہر مغربی عورت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔ جو اچھی ہوتی ہیں، وہ ہر جگہ اور ہر ملک میں اچھی ہوتی ہیں۔ تم کو میں نے آزمایا ہے ، تو دل سے قبول کیا ہے۔ تبھی میں نے جواب دیا۔ آپ نے آزما لیا، اچھا کیا مگر فطرت جیسی ہو آدمی ویسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم دونوں باہم شیر و شکر ہو کر رہنے لگے۔ ہم نے اسلامی طریقے سے بھی نکاح پڑھوایا تھا، کس بات کا خوف تھا اب، عظمت میں جو خوبیاں تھیں کسی اور میں ، میں نے نہ دیکھی تھیں۔ میں اپنے فیصلے پر خوش اور مطمئن تھی۔ وہ جو بات کہتے ، اس پر قائم رہتے تھے اور وعدہ ایفا کرتے تھے۔ وہ میرے آرام و سکون کا خیال رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات کہ مجھے اُن سے محبت ہو گئی تھی اور اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی۔ وقت گزرتا گیا۔ عظمت نے پڑھائی مکمل کی، محنت کی ، ترقی کی اور وقت کے ساتھ ساتھ ہم چار بچوں کے ماں باپ بن گئے۔ عظمت نے میرے وطن کو اپنالیا۔ میرے بچے بھی جرمنی میں پیدا ہوئے، لیکن کبھی کبھی عظمت بیٹھے بیٹھے کھو سے جاتے تھے ، اُداس ہو جاتے تھے۔ – ۔ سبب پوچھتی تھی نہیں نہ بتاتے تھے۔ ایک دن میرے اصرار پر بالآخر زبان کھولی اور کہا کہ مجھے اپنا ملک، اپنے عزیز رشتے دار یاد آتے ہیں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ خط آتے ہیں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ خاص طور پر والدہ اور بہن۔ تو آپ وطن کیوں نہیں چلتے ؟ وہاں جانے میں کیا شے مانع ہے۔ مانع تو کچھ بھی نہیں ہے مگر سوچتا ہوں شاید تم میرے ملک میں رہنا اور وہاں جانا پسند نہ کرو۔ ایسا کیوں کر سوچ لیا آپ نے ؟ میں خود چاہتی ہوں کہ آپ اپنے وطن جائے۔ کہنا بھی چاہتی تھی جانے کیا سوچ کر خاموش ہو رہتی تھی۔ چلئے آج ہی تیاری کیجئے اور پھر ہم نے پاکستان کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ مجھے عظمت کا وطن دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ میں اپنے بچوں کو ان کے والد کے رشتے داروں سے بھی ملوانا چاہتی تھی۔ ہم پاکستان آگئے، عظمت کے عزیز رشتہ دار سب اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے بہت گرم جوشی سے ہمارا استقبال اور خوشی کا اظہار کیا۔ ان کا گھر بہت بڑا اور شاندار تھا، جہاں اُن کی والدہ، بہن اور ان کے بچے سب ساتھ رہتے تھے۔ ان کے چچازاد بھائیوں نے ڈھول کی تھاپ پر استقبال کیا۔ ایک جشن کا ساسماں تھا۔ یہ چیز میں نے پہلے کبھی کہیں نہیں دیکھی تھی۔ یہاں نوکر خدمت گزار، آیائیں اور خادمائیں دیکھ کر میں اُن کے طرز زندگی پر دنگ رہ گئی۔ مجھے اس میں بہت کشش محسوس ہوئی۔ یہ لوگ ایک دوسرے کی خوشی میں خوش ہوتے اور غمی میں شریک ہوتے تو غمزدہ ہو کر بھی غم بانٹتے۔ اُن کا سسٹم ایک دوسرے سے جڑے رہ کر آپس میں مسرتیں بانٹنا تھا اور یہ میرے لئے بڑی انوکھی بات تھی۔
پھر یہ ہوا کہ میں جو چند دن کے لیے سسرال آئی تھی یہیں کی ہو کر رہ گئی۔ مجھے کھیت کھلیان، یہاں کے موسم، فصلیں، بہار و خزاں سب اچھے لگنے لگے۔ میں نے پاکستانی کھانے پکانے سیکھ لئے اور اُن کا ذائقہ بھی میرے منہ کو ایسا لگا کہ کسی اور کھانے میں مزہ نہیں آتا تھا۔ میرے بچے لاہور کے ایک بڑے کالج میں پڑھنے لگے اور میرے مشورے سے عظمت نے اپنی زمینداری سنبھال لی۔ آج میں بڑھاپے کی جانب محو سفر ہوں۔ جب جی چاہتا ہے کچھ عرصے کے لئے جرمنی چلی جاتی ہوں پھر واپس اپنے گھر آجاتی ہوں کیونکہ مجھے اپنا گھر اور اپنے کھیت کھلیان پسند ہیں۔ یہاں مجھے بہت راحت ملتی ہے اور ہر طرح کا عیش و آرام میسر ہے۔ یہاں دُنیا کی ہر آسائش موجود ہے۔ یہ سر زمین بہت عمدہ ہے ، یہاں مجھے سونے کا چھپرکھٹ ہی نہیں ملا، عظمت جیسا شاندار انسان بطور شوہر ملا۔ ایسی زندگی کا تو میں نے اپنے ملک میں تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میں ایک معمولی نرس تھی اور دن رات محنت مشقت کرتی تھی، تب ضروریات زندگی حاصل ہو پاتی تھیں۔ لوگ یورپ کی طرف پرواز کرنا چاہتے ہیں اور اپنے وطن کی ترقی کی طرف دھیان نہیں دیتے جبکہ میں اپنے شوہر کے وطن کو اپنا وطن مان کر بہت خوش ہوں اور خود کو پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس کرتی ہوں۔