سلطان محمود غزنوی کے محبوب وزیر ایاز نے اپنی پرانی پوستین اور جوتے ایک حجرے میں لڑکا رکھے تھے۔ وہ روزانہ اس حجرے میں اکیلا جاتا اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتا کہ ایاز ! قدر خود بشناس تو وہی ہے جس کے بدن پر کبھی یہ پوستین ہوتی تھی اور پاؤں میں یہ جوتے۔ اپنے موجودہ مرتبے پر نازاں ہو کر اپنی اصل کو نہ بھول جانا۔ حاسدوں نے بادشاہ سے جاکر کہا کہ ایاز نے ایک خاص حجرہ بنایا ہے۔ اس میں اس نے چاندی سونا چھپا کر رکھا ہے۔ وہ اس کا دروازہ ہمیشہ مقفل رکھتا ہے اور کسی دوسرے کو اس کے اندر جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ بادشاہ نے کہا: مجھے اس غلام پر حیرت ہے۔ بھلا ہم سے کیا بات پوشیدہ رہ سکتی ہے ؟ پھر اس نے ایک امیر کو حکم دیا کہ آج آدھی رات کو تم اس حجرے میں زبر دستی داخل ہو جاؤ اور جو چیز وہاں پاؤ اس کو لوٹ لو۔ پھر حقیقت حال کو سر در بار بیان کرو۔ مجھے یہ بات ہر گز پسند نہیں کہ میں ایاز پر اس قدر لطف و کرم کروں اور وہ مجھ سے سونا چاندی چھپا کر رکھے۔ ایسے گندم نما جو فروش کا پردہ ضرور چاک کرنا چاہیے۔
بادشاہ نے یہ حکم دے تو دیا لیکن دل میں وہ ایاز کی پاک بازی پر پورا یقین رکھتا تھا اور اس کو حیلہ بازیوں اور مکر و فریب سے پاک سمجھتا تھا۔ آدھی رات کے وقت وہ امیر دوسرے تمیں امیروں کو ہمراہ لے کر ایاز کے حجرے کے دروازے پر پہنچا اور اس کا قفل توڑ کر اندر گھس گیا۔ سب کے دل میں ایاز کی چھپائی ہوئی دولت لوٹنے کا خیال چٹکیاں لے رہا تھا۔ لیکن ان کی حیرت اور مایوسی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ حجرے میں ایک پرانی پوستین اور ٹوٹے ہوئے جوتوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اب انہوں نے سوچا کہ ہو نہ ہو سارا سونا چاندی ایاز نے زمین میں گاڑ رکھا ہو۔ چنانچہ وہ لوہے کی نوکدار سلاخیں لائے اور حجرے کا کونہ کونہ کھود مارا لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ پھر انہوں نے حجرے کی ایک ایک دیوار کھرچ ڈالی۔ لیکن وہاں سے بھی کچھ نہ ملا۔ اب تو وہ سخت شرمندہ ہوئے اور مایوسی میں اپنے ہاتھ اور ہونٹ کاٹنے لگے۔ ان کو اب اس بات کی فکر تھی کہ بادشاہ کو جاکر کیا بتائیں گے۔ جب کوئی بہانہ نہ سوجھا تو سروں پر دو ہتٹر مارتے ہوئے اور منہ لڑکائے ہوئے بادشاہ کی خدمت میں واپس آئے۔ بادشاہ نے پوچھا تم نے یہ کیا حال بنارکھا ہے اور وہ مال و دولت کہاں ہے جو تم ایاز کے حجرے
سے لوٹ کر لائے ہو ؟
ان بد بختوں کے پاس بھلا کیا جواب تھا۔ سب کے سب روتے ہوئے بادشاہ کے قدموں میں گر پڑے اور عرض کیا کہ اے شاہ جہاں! اگر ہمارے سر کاٹ لیں تو روا ہے۔ اگر بخش دیں تو آپ کا کمال احسان ہے۔ ہم فی الواقع خطا کار ہیں اور اب صرف آپ کی خطا پوشی پر تکیہ ہے۔ بادشاہ نے فرمایا تمہارا معاملہ ایاز کے سپرد ہے۔ کیونکہ تم نے اس پر ناحق تہمت لگائی اور اس کی عزت و آبرو بر باد کرنے کی کوشش کی۔ پھر بادشاہ نے ایاز سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے نیک بخت! تو اس امتحان میں سرخرو نکلا۔ اب تو ہی ان حاسدوں کے مقدمے کا فیصلہ کر۔ ایاز نے عرض کیا کہ اے بادشاہ! حکمرانی تھی کو زیبا ہے۔ آفتاب کے سامنے ستاروں کی کیا حقیقت ہے۔ زہرہ، عطارد شہاب ثاقب کی کیا مجال کہ آفتاب کے سامنے آئیں۔ بادشاہ نے فرمایا کہ اے ایاز ! یہ بتا کہ تجھ کو ان پرانے جوتوں اور پوستین سے اس قدر محبت کیوں ہے کہ تو نے ان کو حجرے میں لڑکا کر اس کا دروازہ پیچ در پیچ قفل سے بند کر دیا۔ آخر یہ پوستین کس یوسف کی قمیص ہے اور یہ جوتے کس آصف (حضرت سلیمان کے وزیر کا نام) کی یادگار ہیں۔ ان کا بھید سب کے سامنے کھول دے تاکہ تمہارے ان حاسدوں پر بھی اصل حقیقت منکشف ہو جائے۔
ایاز نے عرض کیا کہ اے شاہ ذی جاہ! میرا موجودہ مرتبہ آپ ہی کے لطف و کرم کا مرہونِ منت ہے ورنہ میں تو حقیقت میں ایک مسکین اور بے نوا آدمی ہوں اور یہی پوستین اور جوتے پہننے کے لائق ہوں۔ یہ میری غریبی کے دنوں کی یادگار ہیں۔ ان کی حفاظت کرنے سے میری غرض یہ ہے کہ اپنے بلند منصب اور شان پر مغرور ہو کر کہیں اپنی حقیقت کو نہ بھول جاؤں فی الحقیقت میں ان کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ اپنی اصلی ذات کی حفاظت کرتا ہوں۔