Thursday, October 10, 2024

Weran Dil

بقا سے میری شادی ہو رہی تھی، قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ نخوت بھری تو پہلے ہی تھی ، اچھی قسمت نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اب قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے کہ جسے چاہا وہی میرا شریک زندگی ہو گیا، یہ خوبی تقدیر تھی مگر میں سمجھتی تھی کہ دُنیا میرے دم قدم سے ہے۔ گردن میں تنائو امیر باپ کی وجہ سے تھا۔ ہر کسی سے اکڑ کر بات کرنا، نوکروں کو جھڑک دینا، نجانے لوگ اس رویہ پر مجھے کیا کہتے ہوں گے ؟ میں نے لیکن کبھی ان کے احساسات کی پروانہ کی۔ میرے سامنے میری خوشیوں کے انبار تھے۔ مجھے لوگوں کے ساتھ راہ و رسم رکھنے یا ان کی پر وا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ گھر میں دولت کی کمی نہ تھی، میں ایک کشادہ بنگلے میں رہتی تھی۔ کار میں گھومتی، اچھے سے اچھا کھاتی، اچھے سے اچھا پہنتی، مگر چند دنوں سے طبیعت اُداس رہنے لگی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میری طبیعت خود بخود اداس ہو گئی تھی۔ بقا میرا منہ تکتے اور حیران ہوتے کہ میری زندگی میں کیا کمی ہے جو لبوں پر خاموشی کی مہر لگی ہے اور چہرہ مرجھایا رہتا ہے۔ قسمیں دے کر پوچھتے کہ کیا ان کی طرف سے کوتاہی ہوئی ہے؟ مجھے خود خبر نہ تھی کیوں اُداسی نے گھیر لیا ہے ان کو کیا بتاتی۔ وہ اب میرے لئے خصوصی وقت نکالنے لگے، گھماتے پھراتے، سیریں کراتے ، نیا زیور بنوا کر دیا شاپنگ کرانے لے جاتے بالآخر وہ تھک گئے ، مگر میرے چہرے پر خوشی کے گلاب نہ کھل سکے۔ وہ میرے لئے بے حد فکر مند رہنے لگے تھے۔ بولے تم کو کسی ماہر نفسیات کے پاس لئے چلتا ہوں۔ اس پرمیں برا امان گئی ، ان سے کہا۔ آپ مجھے ذہنی مریض سمجھتے ہیں ؟ میں دماغی طور پر بیمار نہیں ہوں، ایسے موڑ انسانوں پر آتے ہی رہتے ہیں۔ اس کی وجہ ضروری تو نہیں کہ دماغ کا خلل ہو ، بعض دفعہ انسان کی چھٹی حس آنے والے دنوں میں کسی مشکل یا مصیبت کی پیش گوئی ثابت ہوتی تبھی پہلے سے انسان افسردہ رہنے لگتا ہے۔ میری باتوں پر وہ ہنس پڑے۔ کہنے لگے۔ بڑی فلاسفر ہو گئی ہو، صوفی تو نہیں بن گئیں یا تمہاری روح مستقبل میں بھی سفر کرنے لگی ہے ؟ خدا کی بندی یہ سب تمہارے ذہن کی اختراع ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اچھا ایسا کرتے ہیں، اس موڈ کو بھگانے کی کچھ تدبیر کرتے ہیں، پھر ان کو خوشی کا ماحول بنانے کی ایک نئی ترکیب سوجھی۔ بولے۔ اس بار ہم شادی کی سالگرہ اتنی دھوم دھام سے مناتے ہیں کہ لوگوں کو لگے کہ ہماری شادی ہو رہی ہے۔ ہماری شادی کی سالگرہ قریب تھی۔ پس انہوں نے واقعی ایسا اہتمام کیا کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سارے گھر میں قمقمے لگوائے اور رت جگا ہوا، رقص کی محفل سجائی ، وہ ویسی ہی تھی جیسی شادی پر کی گئی تھی۔ اس دن بقا کی فرمائش پر میں دُلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ عزیز ، دوست، رشتہ دار سبھی مدعو تھے اور پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ خاص بات رقص و موسیقی کی محفل تھی۔ بالکل یو نہی لگ رہا تھا جیسے شادی ہو رہی ہو۔ رات کے کھانے کے بعد گانے کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ گائیکا درمیان میں بیٹھی ہوئی تھی اور ہال میں مہمان چاروں طرف صوفوں اور کرسیوں پر براجمان تھے۔ کچھ شوقین مزاج قالین پر ہی جم کر بیٹھ گئے اور سبھی ہمہ تن گوش ہو گئے۔ ہارمونیم اور دیگر آلات موسیقی کے ساتھ اپنا فن پیش کرنے والی ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی اور دولڑ کیاں تھیں جو اس عورت کو آپا کہہ رہی تھیں۔ لڑکیاں کافی خوبصورت تھیں۔ ایک کی عمر انیس اور دوسری کی سترہ برس ہو گی۔ ان کو گانا تو برائے نام آتا تھا مگر رقص میں ماہر تھیں۔ پہلے بڑی لڑکی نے گانا سنایا پھر چھوٹی نے غزل گائی۔ اس کے بعد کچھ مہمانوں کی طرف سے رقص کی فرمائش ہونے لگی۔ گوری گوری حسین دوشیزائیں اوپر سے زرق برق لباس، یہ کلاسیکی رقص اور لوک ناچ کی ماہر تھیں۔ جب بڑی رقص کرتے پسینہ پسینہ ہو گئی تو اس کی جگہ چھوٹی نے سنبھال لی۔ وہ محفل سے نکل کر درمیانی شیشے کے سلائیڈنگ ڈور کو تھوڑا سا کھول کر اس طرف آگئی، جدھر خواتین بیٹھی ہوئی تھیں اور شیشے کی دیوار سے ادھر رقص دیکھ سکتی تھیں۔ میں نے اُسے آتے دیکھا تو مہمان خواتین کے درمیان سے اٹھ کر دروازے پر پہنچی اور پوچھا۔ تمہیں کیا چاہئے۔ پانی، منگوا دیجئے مگر ٹھنڈا نہ ہو۔ وہاں خدمت گار ٹھنڈا پانی دے رہے ہیں اور میں ٹھنڈا نہیں لیتی۔ میرا گلا فورآ خراب ہو جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، تم یہاں ٹھہرو میں منگواتی ہوں۔ میں نے خادمہ کو اشارہ کیا۔ سادہ پانی لے آئو اور ان کو دو۔ وہ کچن کی طرف چلی گئی۔ لڑکی خواتین والے کمرے میں آنے کی بجائے کوریڈور میں ٹھہر گئی۔ میں وہاں ہی رکی تھی تا کہ خادمہ آجائے تو میں واپس خواتین کی طرف جائوں۔ اس دوران لڑکی نے سوال کیا۔ کیا آپ صاحب خانہ کی بیگم ہیں ؟ ہاں،اس کے علاوہ کوئی اور تو نظر نہیں آرہی ہوں؟ وہ جھینپ گئی مگر فطرت سے باتونی تھی، جھٹ دوسرا سوال پوچھ لیا۔ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں؟ مجھے غصہ آگیا۔ تمہیں اس سے کیا۔ تم بس اپنے کام سے کام رکھو۔ میں نے تو بس یونہی پوچھ لیا۔ آپ بُرا مان گئیں۔ اتنے میں خادمہ پانی لے آئی۔ وہ غٹاغٹ پی گئی، اس کے باوجود اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا تھا۔ اس کو توقع نہ تھی کہ گھر کی مالکہ اتنی بدمزاج ہو گی۔ وہ جھنجھلاتی ہوئی چلی گئی۔ میں سمجھ گئی کہ میرے پرغرور لہجے سے اُس کے دل کو ٹھیس لگی ہے۔ اس کے بعد میں نے گلاس کی دیوار سے دیکھا کہ تمام وقت اس کی نگاہیں، صاحب خانہ پر ہی رہیں اور اس پر نوٹوں کی برسات ہوتی رہی لیکن وہ خاص التفات میرے بقا حاصل سے ہی برت رہی تھی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں نجانے کون سے برقی پیغامات ہو رہے تھے کہ بقا کا چہرہ بھی اس کی نگاہوں کے التفات سے گلنار ہوا جاتا تھا۔ سوچا، بھری محفل میں ایک رقاصہ کے التفات سے ان کے چہرے پر ایسا ردعمل ہو رہا ہے اور اس ناچنے والی نے تو صاحب خانہ کو التفات بھری نظروں سے تاکنا ہی ہے کیونکہ ان سے ڈھیر سارے پیسے جو بٹورنے ہیں۔ گمان بھی نہ تھا کہ مجھ کو خوش کرنے کے لئے اتنے اہتمام سے سجائی گئی محفل اس رات میں میری زندگی کی بازی بھی پلٹ سکتی ہے۔ رات ختم ہوئی محفل بھی ختم ہو گئی، بات مگر ختم نہ ہوئی۔

بقا اب اکثر دیر سے گھر آنے لگے۔ میں پوچھتی تو کہتے کاروباری مصروفیت کی وجہ سے دیر ہو جاتی ہے، فائلیں دیکھنی ہوتی ہیں، تبھی دیر تک آفس میں رکنا پڑتا ہے ، تم ہر وقت مت پوچھا کرو۔ الجھن ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کاروباری مصروفیت ہو ہی جاتی ہے نا؟ لیکن وہ بیوی جو اپنے شوہر کی اس قدر چہیتی ہو ، کیوں نہ پوچھے ؟ جبکہ شوہر کی توجہ اور التفات میں بھی کمی آنے لگے اور وہ اکثر راتوں کو دیر سے گھرآنا شروع کر دے۔ اب ان کی غیر حاضریاں بڑھنے لگیں اور میرا دل مٹھی میں رہنے لگا۔ اب تو یہ رات رات بھر نہ آتے ، میں پریشان ہوتی کہ آخر ایسا کون سا کاروبار ہے جو انہیں میری طرف دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ مجھے خوش کرنے چلے تھے اور خود اپنی خفیہ خوشیوں کے تعاقب میں لگ گئے۔ بیوی کی چھٹی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ ان کے قرائن بتا رہے تھے کہ یہ صحیح راہ نہیں جارہے ہیں۔ اکثررات کو لڑکھڑاتے ہوئے آتے حالانکہ پہلے بھی ایسی پارٹیوں میں شرکت کرتے تھے کہ جہاں پیگ چلتے تھے مگر یہ میرے منع کرنے پر ان لوازمات سے پرہیز کر لیتے تھے۔ آخر بات کھل گئی۔ ان کے دوست کی بیوی نے بتایا کہ تمہارے میاں ایک گائیکا پر فریفتہ ہو گئے ہیں اور یہ وہی گل نایاب ہے جس کو اپنی شادی کی سالگرہ میں خوشی دوبالا کرنے کو بلوایا تھا۔ رات کو اسی کے پاس جاتے ہیں۔ یہ رپورٹ اس خاتون کو اس کے میاں نے دی تھی، جو میرے میاں کے سب رازوں سے واقف تھے۔ اس نے یہ بھی کہا۔ اپنے میاں کو تھامو ، یہ وہاں خوب دولت لٹاتے ہیں۔ میں نے بقا سے پوچھا، وہ آنا کانی کرنے لگے۔ ان پر تو پورا بھروسہ تھا کہ میرے سوا کسی کو نہیں چاہ سکتے مگر فکر دو باتوں کی تھی۔ ایک تو ان کی راتوں کی غیر حاضری مجھے بے چین کرتی تھی اور دوسرے دولت لٹانے والی بات۔ اگر واقعی وہ گانا ہی سننے جاتے ہیں تو پھر یہ بڑے خسارے والی بات تھی کہ اپنی دولت ایک رقاصہ پر لٹائیں۔ میں نے پہلے ہلکا اور پھر تگڑا احتجاج کیا۔ وہ مان کر نہ دیئے۔ کہتے تھے کہ تم کو غلط فہمی ہے کہ میں گانا سننے یا رقص دیکھنے جاتا ہوں۔ میں کاروباری مصروفیت میں کھپ رہا ہوں، بزنس کو گھاٹے سے بچانا چاہتا ہوں، تم کیوں نہیں سمجھتیں۔ میں لاکھ بھولی سہی مگر اتنا تو جان گئی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ راتوں کو دیر سے آنا اور کبھی غائب ہو جانا یہ چیز اب میری برداشت سے باہر تھی۔ ابھی پہلے دو راتیں غائب تھے۔ بہانہ کہ بزنس کے سلسلے میں سفر پر تھا اور اب پھر ایک رات غائب۔ گھر آئے تو میں خوب لڑی کہ کہاں سے آرہے ہو ؟ کپڑوں سے موتیا کی مہک اور ہونٹ پان کی لالی سے سجے ہوئے تھے۔ پہلے تو کبھی پان نہ کھاتے تھے۔ بولے۔ کہیں سے بھی آیا ہوں، تم کون ہوتی ہو روز روز حساب لینے والی ؟ تم نے میری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ انہوں نے پہلے کبھی اس طرح مخاطب نہ کیا تھا۔ میں نے سخت توہین محسوس کی اور بپھر گئی۔ رونا اور چلانا شروع کر دیا۔ وہ بھی چلانے لگے کہ چُپ ہو جائو۔ جس بات کا علم نہیں اس پر شک بند کر دو اور اب جا کر سو جائو ۔ مجھے بھی سونے دو۔ کوئی عورت کسی مرد کے پیچھے نہیں بھاگ سکتی ، خواہ وہ بیوی کیوں نہ ہو۔ تم کب تک مجھ پر جال ڈالو گی، ایسا نہ ہو ہمارا رشتہ ٹوٹ جائے۔ میں آخری بار کہتا ہوں کہ مجھ کو کچھ مت کہو۔ میں تمہارا ہوں، تو مجھے بس اپنا ہی رہنے دو۔ مجھ کو ان کی باتوں سے اور غصہ آیا، نفرت محسوس ہونے لگی۔ میں نے کہا۔ ہرگز نہیں، میں تمہاری بیوی ہوں اور تمہاری یہ حرکتیں قطعی برداشت نہیں کر سکتی۔ تم کو یا تو راہ پر آنا ہو گا یا پھر مجھ کو چھوڑنا ہوگا۔ وہ بولے۔ اتنی رات گئے جھگڑا مت بڑھائو ، یہ تمہارے حق میں بہتر نہ ہو گا۔ اب سو جائو اور مجھے بھی سونے دو، صبح بات کریں گے۔ مجھ کو مگر آرام کہاں! میرا تورواں رواں توہین کے احساس سے جل رہا تھا۔ میں نے کہا۔ آخر وہ ہے کون چڑیل، جس نے تم کو اپنا دیوانہ بنارکھا ہے اور میری محبت تمہارے دل سے چھین لی ہے۔ آج تو میں پوچھ کر رہوں گی۔ بقا نے بہت منت کی کہ بس اب ضد مت کرو، کل بات کر لیں گے مگر میں آڑی رہی اور قسم اٹھانے پر مسلسل اصرار کرتی رہی تو وہ زچ آ کر بولے۔ جھوٹی قسم اٹھانے سے تو بہتر ہے کہ تم کو سچ بتادوں میں گل نایاب کا گانا سُنے جاتا ہوں۔ گل نایاب کا نام سُن کر میں سُن ہو گئی کہ یہ تو وہی ہے جو ہمارے گھر شادی کی سالگرہ میں آئی تھی اور جس سے میں نے سیدھے منہ بات نہ کی تھی۔ اس کا حسین مکھڑا اور زہریلی آنکھیں میری نگاہوں میں پھر گئیں۔ میرے ایک ہی جملے نے اس کے دل پر کاری زخم لگایا تھا۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے یہ عہد کیا ہو گا کہ اس عورت کی نسوانیت کو اپنے حسن اور نوخیز جوانی کے جادو سے شکست دینی ہے۔ اور اس نے بقا کا دل اپنی رعنا ادائوں اور دلربائیوں سے جیت لیا۔ میں تمام رات روتی اور آنسو بہاتی رہی اور بقا گہری نیند سوتے رہے۔ صبح ہوئی، وہ ابھی سورہے تھے کہ میں میکے چلی آئی۔ میرا خیال تھا کہ جب بیدار ہوں گے تو بے حد پریشان ہوں گے، پچھتائیں گے اور میرے پیچھے چلے آئیں گے۔ یقین تھا کہ میرے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پشیمان ہو کر میرے والدین کے پاس پہنچیں گے اور مجھ کو منا کر لے جائیں گے ۔ مجھے ایک بالا خانے کی حسینہ کے حُسن کی طاقت کا اندازہ نہ تھا۔ میں تو ان کے واپس لوٹنے کا انتظار کر رہی تھی اور وہ مجھ سے دور بہت دُور ہوتے جارہے تھے۔ میرے آنے کے بعد وہ پوری طرح اس رقاصہ کے سحر میں ڈوب گئے۔ گل نایاب کی ماں کو بہت سی دولت اور کوٹھی دے کر نایاب کو خرید لیا اور ایک بکائو لڑکی کو میری خواب گاہ کی مالک بنادیا۔ میں میکے میں روٹھی بیٹھی، اس کے منانے اور لوٹ آنے کا انتظار ہی کرتی رہ گئی۔ کتنے برس بیت گئے ، عمر دبے پائوں نکل گئی اور میں اپنے بقا کو حاصل کرنے کا خواب آنکھوں میں سجا کر میکے کی دہلیز پر منجمد تھی۔ کاش عورت کو کوئی بالا خانے کی زینت نہ بنائے، کوئی اسے خود کو فروخت کرنے پر مجبور نہ کرے،رقص و موسیقی فن ہے تو فن ہی رہے ، یہ بھی بکائو مال کی طرح کوٹھوں پر نہ بکے ، ورنہ میری طرح جانے کتنی سہاگنیں اپنے شوہروں اور کتنے ہی بچے اپنے باپوں کے چہرے دیکھنے کو ترستے رہ جائیں گے۔ ہم عورتیں مرد پر کتنا اعتبار کر لیتی ہیں جب اعتبار ٹوٹتا ہے ایسی تکلیف ہوتی ہے کہ عورت کا گھر ہی نہیں دل بھی ویران ہو جاتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS