شادی کسی بھی لڑکی کے لیے اس کی زندگی کا سب سے اہم موقع ہوتا ہے۔ ہر لڑکی کے دل میں نئی زندگی کے حوالے سے نت نئے ارمان اور سہانے سپنے سجے ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب ایک ڈر بھی ہوتا ہے کہ نہ جانے اس کے نصیب میں کیا لکھا ہے۔
جن دنوں گھر میں میری شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں، میں بھی کچھ ایسے ہی متضاد جذبات کا شکار تھی۔ مجھے اپنے ہونے والے شوہر سے دلی وابستگی تھی لیکن اپنی غربت کے خیال سے پریشان تھی۔
والدین مجھے جہیز نہیں دے سکتے تھے۔ اس پر تایا ابو نے کہا کہ اوّل تو جہیز کی ضرورت نہیں ہے اور کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو ہم خود بنا دیں گے، بس آپ شادی کی تیاریاں کریں۔ بتاتی چلوں کہ میری منگنی تایا زاد فہد سے ان دنوں ہوگئی تھی جب میں ابھی نو برس کی تھی۔
تایا ابو شہر سے گائوں شفٹ ہوگئے تھے اور عرصے تک میں اپنے منگیتر سے نہ مل سکی۔ اکثر سوچا کرتی تھی کہ نجانے اب فہد کیسے ہوں گے۔ شکل و صورت کیسی نکالی ہوگی، قد بھی اونچا لمبا ہوگیا ہوگا، مدت بعد دیکھوں گی تو حجاب آئے گا، دل کی دھڑکن تیز ہوجائے گی، شاید کہ بات بھی نہ کر پائوں گی…! بس ایسے ہی تصورات میں گم رہتی تھی۔
جب میں نے کالج میں داخلہ لیا، وہ مجھے بیاہنے آگئے۔ والدہ چاہتی تھیں تعلیم مکمل کرلوں تب رخصتی ہو مگر ابو نے کہا کہ جب اس نے بیاہ کر گائوں ہی جانا ہے تو میٹرک کرے یا بی اے پاس کرلے، کیا فرق پڑتا ہے۔ وہاں کون سی اسے نوکری کرنی ہے، ہانڈی چولہا ہی تو سنبھالنا ہے۔
گائوں میں تایا کو چند ایکڑ زمین الاٹ ہوگئی تھی۔ وہ محنتی تھے، خود کاشت کاری کرتے تھے لہٰذا تھوڑی سی زمین سے بھی خوشحال ہوگئے جبکہ شہر میں رہ کر میرے والدین آسودہ حال نہ ہوپائے۔ یہاں پر مکان کرائے کا تھا اور مہنگائی زیادہ تھی جبکہ والد صاحب کی تنخواہ کم تھی۔ ہمارا شمار غرباء میں ہوتا تھا۔
قصہ مختصر تایا نے میرا جہیز بنا دیا اور یوں میٹرک پاس کرتے ہی میری شادی ہوگئی… تو شروع میں مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی تھی۔ میں یہاں کے ماحول کی عادی نہ تھی، رفتہ رفتہ احساس ہونے لگا کہ گائوں میں کچھ نعمتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے شہری لوگ محروم رہتے ہیں، مثلاً تازہ ہوا، صاف ستھری فضا اور خالص غذا…! اس لئے تایا، تائی کی محبت نے میرا دل جیت لیا۔ فہد بھی پیار بھرا سلوک کرتے اور بہت خیال رکھتے تھے۔ یوں میرا دل گائوں میں لگ گیا۔
شادی کے بعد شروع کے دن خوشیوں کے تھے لیکن سال بھر بعد جب تایا ابو کا انتقال ہوگیا تو تائی کے رویئے میں فرق آگیا۔ تایا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور گھر بھر پر اُن کا رعب تھا، اس لیے تائی مجھ سے اچھا سلوک رکھنے پر مجبور تھیں۔ لیکن اب انہوں نے مجھ سے وہ کام لینے شروع کئے جو میں نے پہلے کبھی نہیں کئے تھے۔
بھینسوں کو چارہ ڈالتی، فرش سے ان کا گوبر صاف کرتی، باڑے کو روز دھوتی۔
دیہات میں گھر بڑے ہوتے ہیں، ہمارا آنگن بھی پکا نہیں تھا، بڑے سے گھر میں جھاڑو لگاتی تو بال اور کپڑے دھول مٹی سے اَٹ جاتے۔ غرض گھر کے تمام کام مجھے ہی کرنے پڑتے۔ پہلے ایک خادمہ تھی۔ جب وہ کسی وجہ سے ہمارے گھر کا کام چھوڑ گئی تو تائی نے مجھے خادمہ بنا دیا۔
سارے دن کے کام سے تھک کر چور ہوجاتی تو کبھی کبھی حرف شکایت زبان پر آہی جاتا، تب میں فہد سے شکوہ کرتی کہ آپ کی ماں مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں کھاتیں، کام کا اتنا سارا بوجھ ڈال دیا ہے کہ رات کو بدن کے درد سے سو نہیں پاتی ہوں۔ تب وہ جواب دیتے کہ گائوں میں یہاں ہر عورت کو اتنا ہی کام کرنا پڑتا ہے، تم کوئی انوکھی نہیں ہو، میں تمہارے لئے مددگار کہاں سے لائوں جو کام میں تمہارا ہاتھ بٹائے۔ کہو تو اور شادی کرکے تمہاری سوکن لے آئوں، وہ ہی تمہاری مدد کرسکتی ہے۔
سوکن کا نام سن کر میں سہم جاتی تھی اور خدا سے دعا کرتی کہ بے شک مشقت کرتی رہوں گی مگر مجھ پر کبھی سوکن نہ آئے۔
شادی کے سال بعد اللہ تعالیٰ نے صاحب اولاد کیا اور چاند سا بیٹا دیا تو میں سب شکوے بھلا کر اس کی پرورش میں کھو گئی۔ اب تو فہد اور تائی بھی مجھ سے خوش رہنے لگے، شاید قدرت کو میری یہ خوشی منظور نہ تھی کہ مسرت عارضی ثابت ہوئی۔
ایک دن کا ذکر ہے میں گندم پھٹک رہی تھی کہ میرا ننھا منا قمر گھٹنوں گھٹنوں چلتا ڈیوڑھی سے باہر نکل گیا۔ گھر کے سامنے چھوٹی سی ندی تھی جو اپنی زمین کی آب پاشی کے لیے سسر نے کھدوائی تھی اور اس میں ٹیوب ویل کا پانی آتا تھا۔ اس روز یہ ندی لبالب بھری ہوئی تھی کیونکہ پچھلی رات بھر ٹیوب ویل چلا تھا۔
ننھا قمر رینگتا ہوا ندی کے اندر جا پڑا۔ اس وقت بدقسمتی سے وہاں کوئی نہ تھا۔ بچہ سیکنڈوں میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔ یہ حادثہ ایسا تھا کہ مجھ پر قیامت گزر گئی لیکن اس سے بھی بڑی قیامت یہ ہوئی کہ ساس اور شوہر نے مجھ کو موردِ الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یہ حادثہ تمہاری غفلت کے باعث ہوا ہے۔
اس دن کے بعد سے میری تقدیر کا ستارہ غروب ہوگیا۔ تین سال تک گود ہری نہ ہوسکی، تب ساس کے کہنے پر شوہر نے دوسری شادی کا فیصلہ کرلیا۔
میرے والدین کو پتا چلا تو فہد کو دوسری شادی سے منع کیا۔ فہد نے ان کو یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ میں آپ کی بیٹی کے حقوق پورے کروں گا اور اس کے پیار میں کوئی کمی نہ آنے دوں گا۔
پھر فہد نے ایسا ہی کیا جس طرح نئی دلہن کے زیور اور کپڑے بنوائے، اسی طرح میرے لئے بھی دوبارہ اسی طرح بنوائے۔ میری سوکن نیاز بی بی میری پھوپی زاد تھی۔ ہم دونوں میں شروع سے بہت پیار تھا۔ وہ میری سوکن بن کر گھر میں آگئی تو میں نے اس سے کوئی جھگڑا نہ کیا چونکہ شوہر ہم دونوں سے ایک سا سلوک رکھتا تھا، تبھی میں نے اسے قبول کرلیا اور ہم بہنوں کی طرح رہنے لگیں۔
نیاز بی بی شروع سے ہی دبلی پتلی اور نازک اندام تھی۔ جب اس پر میری طرح گھر کا بوجھ پڑا تو وہ بیمار رہنے لگی۔ جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ وہ ٹی۔ بی کے مرض میں مبتلا ہے۔ اسے مسلسل بخار رہنے لگا تھا۔ دوادارو بھی لائے مگر نیاز بی بی دوائیاں باقاعدگی سے نہیں کھاتی تھی، تبھی علاج مؤثر نہ ہوا اور وہ چند ہفتوں کے اندر چل بسی۔
فہد کو اپنی دوسری بیوی کی موت کا بے حد صدمہ تھا۔ ہر وقت غم زدہ رہنے لگے، کھانا پینا کم کردیا، یہاں تک کہ شب بیداری کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ ہر وقت ایک ہی بات سوچنے لگے کہ نیازو کیسے مر گئی، پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا، بہکی بہکی باتیں کرنے لگے اور مجھ پر جھوٹا الزام لگا دیا کہ تم نے نیازو کو زہر دے کر مار دیا ہے۔ روتی تھی اور قسمیں کھاتی تھی کہ میں نے اسے زہر نہیں دیا مگر وہ میری قسموں کا بھی یقین نہیں کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ انہوں نے رشتہ داروں اور گائوں کے لوگوں سے بھی یہ کہنا شروع کردیا کہ میری پہلی بیوی نے میری دوسری بیوی کو زہر دے کر مار دیا ہے۔ اکثر لوگ اس جھوٹ پر یقین کرنے لگے اور ہر کوئی مجھ سے نفرت کرنے لگا۔
لوگوں کا نفرت آمیز اور شک و شبے سے بھرا ہوا یہ رویہ میرے لئے بہت اذیت ناک بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ یہ ایک ایسی سزا تھی جس کو جھیلنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس پر ساس کی نفرت اور فہد کی بدسلوکی نے زندہ درگور کردیا۔
اب میرے لئے جینے کی کوئی آس باقی نہ رہی، آئندہ بھی مسرت کی کونپل پھوٹنے والی نہ تھی۔ جی چاہتا تھا خودکشی کرلوں۔ بتا نہیں سکتی کہ یہ چند سال شک و شبہات کی بھٹی میں کیسے گزارے لیکن میں مجبور تھی کہ میرا جینا مرنا اسی گھر سے وابستہ تھا۔
ہر لمحہ، ہر آن فہد اور اس کی ماں یہ کہہ کر مجھے سولی پر رکھتے تھے کہ تم قاتلہ ہو۔ جیسے نیازو کو زہر دیا ہے، ہمیں بھی ایک دن زہر دے کر مار دو گی۔
ایک دن یوں ہی سوچوں میں غم زدہ بیٹھی تھی کہ میرا بھائی آگیا۔ وہ مجھے لینے آیا تھا۔ اس نے کہا۔ میرے ساتھ شہر چلو کیونکہ ماں سخت بیمار ہے۔ میرے بھائی کو تائی اور فہد انکار نہ کرسکے لیکن انہوں نے کوئی چیز مجھے لے جانے نہ دی اور میں خاموشی سے تین کپڑوں میں اپنے بھائی کے ساتھ میکے آگئی۔
میکے آنے کے دس دن بعد والدہ وفات پا گئیں۔ والد صاحب تو ایک سال پہلے ہی چل بسے تھے۔ اس بھری دنیا میں بس واحد سہارا بھائی کا رہ گیا تھا۔ جی نہ چاہتا تھا کہ لوٹ کے شوہر کے گھر جائوں۔ ان لوگوں کے سلوک سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔
حالات جو بھی ہوں، شادی شدہ عورت کب تک میکے میں رہ سکتی ہے۔ رشتے دار باتیں بناتے ہیں، لوگ جینے نہیں دیتے۔ بھائی کو بھی آس پاس والے جتلاتے تھے کہ تم نے کیوں بیاہتا بہن کو روک رکھا ہے، یہ گھرہستی والی ہے، اسے شوہر کے گھر جانے دو۔
بھائی کسی کو کیا بتاتا کہ کیوں یہ اپنے گھر نہیں جاتی۔ میں نے سرسری اسے حال بتا دیا تھا۔ زیادہ کچھ کہتی تو وہ غمزدہ ہوجاتا۔
ایک روز خالہ آئیں جو میرے سسر کے گائوں رہتی تھیں۔ بتایا کہ تمہاری تائی بہت بیمار ہے، اب تم گھر جائو، ان لوگوں کو تمہاری بہت ضرورت ہے۔
خالہ کے کہنے سے میں نے ان کے ساتھ گائوں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ جب ہم وہاں پہنچے، میں نے خالہ سے کہا۔ پہلے آپ میرے سسرال جاکر اطلاع کریں کہ میں یہاں آگئی ہوں تاکہ فہد آکر مجھے گھر لے جائیں، میں ان لوگوں کے رویئے دیکھنا چاہتی ہوں۔
خالہ نے فہد کو بتایا کہ تمہاری بیوی میرے ساتھ آگئی ہے، میرے گھر سے آکر اسے لے جائو۔ اس نے جواب دیا۔ ہرگز نہیں! میں اسے اب نہ رکھوں گا، مجھے پروین پر اب اعتبار ہی نہیں رہا، اس نے نیازو کو زہر دیا تھا، مجھے اور میری ماں کو بھی زہر دے گی۔ ہرگز میں اسے اپنے پاس نہ رکھوں گا اور تیسری شادی کروں گا۔
خالہ نے آکر بتایا کہ بیٹی اب تیری بھلائی اسی میں ہے کہ تو ان کے پاس نہ رہے، تیرے شوہر کا دماغ چل گیا ہے، اسے وہم کی بیماری ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ نیاز بی بی کی محبت اس کے دل میں بہت گہری تھی اور اب اس کی جدائی کے صدمے نے اس کے حواس مختل کررکھے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے کوئی نقصان پہنچا دے۔
میں تو پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی جس کا ادراک اب خالہ نے کیا تھا۔ دراصل میں کسی کو اپنا مسئلہ سمجھا سکتی تھی اور نہ اپنے حق میں قائل کرسکتی تھی۔ اب کیا راستہ رہ گیا تھا، یہ کہ یا تو فہد خود مجھے طلاق دے دے یا پھر میں عدالت سے طلاق لے لیتی جس کو خلع کہا جاتا ہے اور گائوں میں یہ دونوں باتیں ہی معیوب سمجھی جاتی تھیں۔
خالہ نے مجھے اپنے گھر رکھ لیا۔ بولیں جب تک کوئی حل نہیں نکلتا، تم میرے پاس رہو۔ میں ان کے گھر رہنے لگی۔
فہد نے گائوں کی ایک عورت سے نکاح کرلیا کیونکہ ماں کی تیمارداری اور گھر میں کام کاج اور کھانا وغیرہ پکانے کی ان لوگوں کو پریشانی تھی۔
نکاح کے فوراً بعد فہد نے مجھے طلاق دے دی تو خالہ کے دیور نے ان پر دبائو ڈالا کہ پروین کو طلاق ہوگئی ہے لہٰذا اب اس کا نکاح میرے ساتھ کردیں۔ وہ اجڈ، گنوار سا شخص تھا۔ لگ کر کوئی کام بھی نہیں کرتا تھا، اسی لیے اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ سننے میں آیا تھا کہ وہ بیوی کو مارتا پیٹتا بھی تھا۔ میں نے انکار کردیا تو خالو نے مجھے اپنے گھر مزید رکھنے سے انکار کردیا، تبھی خالہ نے میرے بھائی کو بلوایا کہ آکر اپنی بہن کو لے جائو۔ میرا بھائی حسیب لینے آیا تو میں اس کے ہمراہ چلی گئی لیکن بھابی نے مجھے بوجھ جانا۔ وہ روز میرے بھائی سے الجھتی کہ اس کو کیوں لے آئے ہو، کیا اب عمر بھر یہ ہمارے گلے پڑی رہے گی۔ بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ بھابی نے برملا شوہر سے کہہ دیا کہ اس گھر میں تمہاری بہن رہے گی یا میں رہوں گی۔
یااللہ! اب میں کہاں جائوں۔ سوچ سوچ کر نیم جان ہوگئی۔ آخرکار بھائی نے یہی حل نکالا کہ کسی شریف آدمی سے میرا نکاح کردیا جائے۔
حسیب کا ایک دوست عرصہ سے تنہائی کی زندگی بسر کررہا تھا۔ بیوی ایک بچی چھوڑ کر فوت ہوگئی تھی۔ حسیب نے مجھے اس کے ساتھ نکاح پر قائل کرلیا۔ میں نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے بھائی کی بات مان لی۔ یوں میرا نکاح کاشف سے ہوگیا اور میں اس کے گھر آگئی۔
کاشف کی معصوم بچی سات برس سے ماں کے پیار کو ترس رہی تھی، اسے ماں کا پیار دیا تو کاشف کے دل میں میری قدر و منزلت بڑھ گئی۔ وہ واقعی ایک شریف انسان تھا۔ اس نے خوش رکھنے کی ہر طرح کوشش کی اور زندگی میں پہلی بار میں نے سکھ کا سانس لیا۔
ادھر فہد کی تیسری بیوی بتول کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ یہ شخص وہم کی بیماری کا شکار ہے اور نارمل آدمی نہیں ہے۔ تائی کے سہارے اس عورت نے بمشکل چار ماہ نکالے اور پھر میکے چلی گئی۔ اس نے طلاق کا مطالبہ کردیا کیونکہ فہد کی عجیب وغریب باتوں سے وہ حددرجہ دہشت زدہ ہوگئی تھی۔
برادری کے دبائو سے بالآخر اسے بتول کو طلاق دینی پڑی۔ اکیلے پن سے اور زیادہ فہد کی حالت دگرگوں ہونے لگی۔ اب وہ مجھے یاد کرکے روتا تھا اور میرے بھائی کے پاس آکر کہتا تھا کہ تم نے میری بیوی کو کہاں غائب کیا ہے، اسے واپس لائو، ضرور تم نے اسے زہر دے دیا ہوگا۔
ان دنوں گائوں میں تو ذہنی امراض کے بارے میں جانکاری نہ تھی اور نہ ہی وہم کے مریض کو لوگ ’’مریض‘‘ سمجھتے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہم کی یہ بیماری بڑھتے بڑھتے فہد کو پاگل پن کی حدوں تک لے جائے گی۔
تنہائی تو یوں بھی ایسے لوگوں کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے۔ جب تائی نہ رہی اور بتول بھی چلی گئی تو سنسنان گھر فہد کو کھانے اور ڈرانے لگا۔ وہ دہشت زدہ ہوتے ہوئے راتوں کو اٹھ کر گھر سے نکل جاتے تھے اور اِدھر اُدھر مارے پھرتے۔ نہ کپڑوں کا ہوش رہا تھا نہ حلیے کا … اور نہ ہی کھانے پینے کا !
گائوں کے لوگ جب کبھی شہر آتے، وہ بھائی کو اس کے حالات سے آگاہ کرتے تب ہم لوگوں کو افسوس ہوتا تھا۔ بے شک فہد سے سماجی رشتہ ٹوٹ چکا تھا لیکن خون کا رشتہ تو باقی تھا، وہ ہمارے تایازاد بھی تو تھے۔
سچ ہے پاگل کا غم خود اسے نہیں ہوتا مگر دوسرے ضرور اس کا غم کھاتے ہیں۔ میں کاشف کے سامنے فہد کا نام نہیں لیتی تھی لیکن جب بھائی تنہا ہوتا، ضرور اسے کہتی تھی کہ میرے برادر! تم ہی جاکر فہد کی خبر لو آخر تو وہ ہمارا عم زاد ہے اور کوئی دوسرا اس کی خبرگیری کرنے والا نہیں ہے۔
میرے اصرار پر ایک دن بھائی گائوں گیا اور فہد کو تلاش کیا۔ وہ نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اس حال میں کہ اسے دیکھ کر بھائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اس کے کپڑے میلے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ سر کے بال بھی میل سے پتلی پتلی رسیوں جیسے ہوگئے تھے۔ وہ دبلا ، زرد اور نحیف و ناتواں ہورہا تھا۔ اس نے گلے میں میرا دوپٹہ لپیٹ رکھا تھا۔
جونہی بھائی کو دیکھا، فہد نے خوف زدہ ہوکر کہا۔ حسیب! تم نے میری پروین کو غائب کردیا، اسے زہر دے کر مار دیا ہے اور اب مجھے مارنے آئے ہو، زہر دینے آئے ہو لیکن یاد رکھنا تم مجھے پکڑ نہ سکو گے، میں تمہارے ہاتھ نہ آئوں گا۔ دور رہو، مجھ سے دور رہو۔ پھر یہ کہتے ہوئے آناًفاناً نہر میں چھلانگ لگا دی۔
میرا بھائی حسیب تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور چشم زدن میں یہ واقعہ رونما ہوگیا۔ نہر بڑی گہری اور کناروں تک پانی سے لبریز تھی۔ ایک ہی پل میں فہد کا جسم نظروں سے اوجھل ہوگیا اور حسیب کچھ بھی نہ کرپایا۔
جب شہر آکر حسیب نے مجھے یہ خبر سنائی تو میں سناٹے میں رہ گئی۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ خود کو مجرم سمجھنے لگی کہ کاش میں ان کی ذہنی بیماری اور روحانی تکلیف کو سمجھ سکتی تو کبھی تنہا چھوڑ کر نہ آتی۔ جانتی نہ تھی کہ تنہائی ان کا ایسا انجام کردے گی لیکن جب تک انسان کو طوفان کی سمجھ آتی ہے، کنارا دور ہوچکا ہوتا ہے۔ میں بھی خود کو بیچ منجھدار میں سمجھتی رہی جبکہ دراصل بیچ منجھدار میں تو فہد تھے جن کو بالآخر سوچوں کے گرداب نے نگل لیا۔ اس وقت اُنہیں کسی ہمدرد اور غم گسار کی ضرورت تھی لیکن جب تک مجھے اس بات کا ادراک ہوا، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
آج بھی گائوں کے لوگوں کو ذہنی بیماریوں کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ ایسے مریضوں کو وہ پیروں، فقیروں کے پاس یا درباروں پر لے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان پر جنوں، بھوتوں کا سایہ ہوگیا ہے۔
اے کاش! کوئی ان کو یہ پہچان کرائے کہ ایسے لوگ نفرت کے نہیں، ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں۔ کاش ہمارے دیہاتوں اور گائوں میں بھی ایسے شفا خانے کھولے جائیں جہاں ذہنی امراض کے ماہر موجود ہوں کیونکہ دیہاتوں میں اس قسم کے لوگ خاص طور پر عورتیں زیادہ ذہنی امراض کا شکار ہوتی ہیں جن پر جعلی پیر جن نکالنے کے چکر میں اس قدر تشدد کرتے ہیں کہ بعض اوقات ان کی جان بھی چلی جاتی ہے۔
(خ۔ الف … لاہور)