جب رضیہ پیداہوئی موت بھی پھولوں کی گاہک ہوئی اور اس کی ماں کو اپنے گلدستے میں سجا کرلے گئی۔ رضیہ کی پرورش خالہ نے کی کیونکہ بیوی کے مرتے ہی اس کے باپ کو دوسری شادی کا شوق چرایا۔ بیٹی کو سالی کے حوالے کرکے خود دوسری شادی کرلی۔ وہ اسے تبھی واپس گھر لایا جب رضیہ دوسال کی ہوچکی تھی۔
دوسری شادی پر کس کو اعتراض تھا کہ گھر بسانا تو ہر کسی کا حق ہوتا ہے مگر یہ بدنصیب شخص شادی کے چھ سال بعد چل بسا اور رضیہ معصوم سوتیلی ماں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی۔
جب سولہ سال کی تھی ۔ اس عورت نے رضیہ کی شادی اپنے بھتیجے سے کردی ۔ اور خود تیسری شادی کرکے چلتی بنی۔ شادی کےبعد بے چاری رضیہ کا گھر نہیں بدلا… وہی بان کی دوتین چارپائیاں اور چند برتن…ایک سلائی مشین بھی سوتیلی ماں اس کے لئے چھوڑ گئی تھی۔ جو بعد میں اس کی زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کا وسیلہ بنی۔
شوہر نکھٹو تھا۔ رضیہ نے سلائی کاکام سنبھال لیا اور پائی پائی جوڑ کر گزارہ کرنے لگی۔
اللہ نے اس خالی گھر میں ننھے منے بچوں کی ریل پیل کردی اب وہ شوہر سے کہتی۔ کچھ کام کرو۔ اتنے سارے بچے ہوگئے ہیں، میں ان کو پالوں یا دن بھر مشین پر لوگوں کے کپڑے سیوں۔ اتنا کام مجھ سے نہیں ہوتا۔ وہ بے حس آدمی یہی جواب دیتا ۔مجھ سے محنت مزدوری ہوتی نہیں اور کیا کام کروں۔ پڑھا لکھا نہیں ہوں کہ نوکری ملے… جب کام ملے گا کرلوں گا ۔
وہ بےچاری مجبوراً سر جھکا کر مشین پر جت جاتی ، شوہر نے کما کر نہ دیا اور چھ بچوں کا بوجھ اکیلی کو گھسیٹنا پڑا۔
رضیہ اکثر ادھار مانگنے اماں کے پاس آیا کرتی تھی ۔میری ماں کبھی آٹا چاول اور کبھی گھی چینی سے مدد کردیا کرتی تھیں اور جب بھی روپیہ دیا واپس نہ لیا۔ وہ کہتی تھی۔منی کا باپ بھی ایک عذاب ہے ۔نہ گھر سے جاتا ہے اور نہ کما کر لاتا ہے بس روٹی مانگتا ہے ، نشہ کرتا ہے اور سوجاتا ہے۔
بچے تو باپ کی صورت سے ڈرتے تھے۔ جب وہ گھر آتا رضیہ کے بچے اکثر ہمارے گھر آجاتے… جب تک کھانا کھا کر سو نہ جاتا یہ جانے کانام نہ لیتے ۔ محنت مشقت نے رضیہ کو وقت سے پہلے عمر رسیدہ کردیا تھا۔ اسے کسی نے بیکار بیٹھے نہ دیکھا تھا ۔تمام دن کام کرتی رہتی تھی۔ پڑوس کی عورتیں میلے کپڑوں کے ڈھیر گٹھری میں باندھ کررکھ دیا کرتیں۔ وہ یہ گٹھریاں سر پر لاد کر گھر لے جاتی اور انہیں دھوکر کپڑے تہہ کرکے لادیتی ۔
سردی ہو یا گرمی وہ ڈھیروں میلے کپڑے شام سے رات تک دھوتی تھی۔ ان کی کچھ نہ کچھ دھلائی اسے مل جاتی تھی ۔
ہماری اماں سمیت ساری پڑوسنیں اس کی راشن میں امداد بھی کرتی تھیں۔ جس سے وہ اپنے چھ بچوں کے ساتھ ساتھ شوہر کی توند کو بھی شکم سیر کراتی تھی ۔
اس روز بھی بےچاری نے سارا دن کام کیا تھا۔ وہ تھک کر چور چور تھی ۔ رات ہوئی تو کپڑے دھونے کو پانی کا بڑا سا پتیلا چولہے پررکھ دیا ۔ جس کے نیچے لکڑیوں کی آگ جل رہی تھی۔ اس کی بڑی بیٹی اب سولہ سترہ برس کی ہوچکی تھی، وہ بھی دھلائی میں ماں کی مدد کرنے لگی،تبھی کمرے سے بیٹے کی رونے کی آواز سنائی دی ،جس کی عمر سات آٹھ برس تھی۔رضیہ کپڑے دھوتے دھوتے اٹھی کہ دیکھے بچہ کیوںرویا ہے۔اندر گئی تو شوہر کو چارپائی پر لیٹے پایا ۔ وہ لڑکے سے ٹانگیں دبوارہاتھا اوربچے کو نیند آرہی تھی ۔
ٹانگیں دباتے دباتے اس کے ننھے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑگئی تو باپ نے اس کے مکا رسید کردیا۔ ٹھیک سے دبا۔ کیا تیرے ہاتھوں میں جان نہیں ہے حرام خور۔ تبھی لڑکا رونے لگا تو رضیہ شوہر سے الجھ پڑی۔
ظالم سارا دن چارپائی توڑتا ہے۔ تیری ٹانگوں کو کیا ہوا ہے جو اتنی رات گئے بچے سے دبوارہا ہے۔ اسے سونے دے۔ یہ کہہ کر اس نے لڑکے کا بازو پکڑا اور اسے سلانے کو بستر کی طرف لے جانے لگی ۔ شوہر بھڑک اٹھا۔ بیٹے کو تو کچھ نہ کہا، مگر بیوی کو بالوں سے پکڑ لیا۔ وہ چیخنے چلانے لگی۔ ہم تو آئے دن اس کا چیخنا چلانا یونہی سنتے تھے۔ یہ معمول کی بات تھی۔ اماں نے کہا ۔ کان مت لگاؤ اس طرف اور سوجاؤ… صبح رضیہ آئے گی تو آپ ہی اپنی داستان سنادے گی۔ہم بہنیں لحاف میں دبک گئیں ۔دل کو مگر اس کی درد بھری آواز سن کر تکلیف ضرور ہوئی تھی ۔
کوئی کیا کرسکتا تھا یہ میاں بیوی کا معاملہ تھا ۔پڑوسی بھی مداخلت نہیں کرتے تھے۔غربت زدہ گھروں میں تو آئے دن مارکٹائی رہتی ہی ہے ۔ صبح اس کی بیٹی فری روتی ہوئی آئی اور بتایا کہ اس کی ماں رات جل گئی تھی ۔باپ اسے اسپتال بھی نہیں لے کر گیا ۔وہ کہیں چلاگیا تھا صبح سے ماںبےہوش ہے۔
میری والدہ رضیہ کے گھرگئیں ۔وہ واقعی بری طرح جلی ہوئی تھی ۔سارے بدن پر آبلے پڑے تھے ۔انہوں نے ہی اس کو اسپتال پہنچایا۔ اس نے میرے والداور والدہ کے سامنے یہی بیان دیا کہ رات جب کپڑے دھونے کو پانی کا گرم پتیلا باورچی خانے سے صحن میں نلکے کی طرف لے جانے کو اٹھایا تو پیر مڑگیا، گرگئی اور گرم گرم کھولتا پانی اوپر گر گیا۔
یہ ایک حادثہ تھا۔ شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ گھر پر نہ تھا کہیں گیا ہوا تھا۔ صبح تک نہ آیا تو پڑوسی اسپتال لے آئے۔ چار دن وہ اسپتال میں رہی اور پانچویں دن زندگی کی بازی ہار گئی۔ اس کی موت کو ایک حادثہ قرار دے کر دفنا دیا گیا ۔ جس وقت اس کی تدفین کو محلے والے جمع ہوئے تو شوہر بھی آگیا۔ وہ انجان سا بنا ہر ایک سے پوچھ رہاتھا ۔کیا ہوا ہے؟ میری بیوی کو کیا ہوا ہے۔ بڑی بیٹی اور نوسالہ لڑکا چپ رہے جیسے ان کے لب کسی نے سی دیئے ہوں ۔ایک لفظ بھی کسی کو کچھ نہ بتایا۔ باقی بچوں کا بیان تھا کہ وہ سوگئے تھے جب ماں جلی تھی ۔ دراصل وہ اپنے باپ سے اس قدر خوف کھاتے تھے کہ اس کے خلاف بول ہی نہ سکتے تھے۔
رضیہ کی وفات کو پندرہ برس گزر گئے تھے اس دوران اس کے باپ نے اپنے رشتے داروں میں دونوں لڑکیاں بیاہ دیں۔ بیٹے بھی رل پھر کربڑے ہوگئے ۔ کوئی مزدوری کرنے لگا تو کسی نے ورکشاپ پر کام پکڑ لیا۔ چھوٹالڑکا کچھ عرصے زندہ رہا۔ ماں کے بغیر نہ جی پایا وفات پاگیا ۔ ایک لڑکا آوارہ لڑکوں کے چنگل میں پھنسا اور پھر ایک دن غائب ہوگیا ۔
میرے والد صاحب نے بھی وہ پرانا مکان جو رضیہ کے پڑوس میں تھا فروخت کردیا اور نئے محلے میں نئے گھر ہم لوگ شفٹ ہوگئے ۔
ایک دن محلے داروں سے پتامعلوم کرتی رضیہ کی بڑی لڑکی فریدہ ہمارے گھر پہنچ گئی اور ہم سے ملی ۔مدت بعد کی ملاقات سے ہم بھی خوش ہوئے۔ میں نے شکوہ کیا۔ فری تم تو بڑی بے مروت نکلیں ،کبھی پلٹ کرخبر نہ لی۔ بولی ۔کیا کرتی آسیہ آپا تمہارے نئے گھر کا پتا ہی نہ تھا۔ کئی بار ملنا چاہا مگر پتا کوئی نہ بتا سکا۔ اس بار جب ابا کے گھر گئی تو گلی میں آمنہ خالہ مل گئیں، انہوں نے پتا بتادیا۔ دیکھو آہی گئی نا! ۔
پرانےدنوں کی باتیں ہونے لگیں ۔گزری یادیں دوہرائی جانے لگیں۔ باتوں باتوں میں اماں نے جب اس کی ماں کا ذکر کیا تو رضیہ کی بیٹی آبدیدہ ہوگئی ۔ بولی۔ خالہ جی، ان کی موت حادثے سے نہیں ہوئی تھی ۔
توکیسے ہوئی؟ اتنی مدت گزر گئی ہے اب تو بتادو۔کہنے لگی۔ مرنے سے پہلے اماں نے ہاتھ جوڑ کرمنت کی تھی کہ فری کسی کو اصل بات نہ بتانا مگر دل پر بوجھ رہتا ہے۔ آج بتائے دیتی ہوں کہ اماں کی موت کیسے ہوئی تھی۔ دراصل اماں جان چکی تھیں کہ وہ تو مرجائیں گی پیچھے باپ ہی بچوں کا وارث ہے۔ جب ابا نے ان کے بال پکڑے وہ خود کو چھڑانے لگیں اور یوں الٹے قدموں چلتی باورچی خانے میں آگئیں ۔ابا نے نہ چھوڑا… بال تو چھوڑ دیئے مگر مارنے لگے اور پھر چولہے سے جلتی لکڑی کھینچ کر اس سے مارنے کو ہوئے تھے اماں نے خود کو بچاناچاہا اور پتیلے
پر جاگریں اور گرم گرم پانی کا بھرا ہوا پتیلا ان پر الٹ گیا۔ ابلتا پانی اماں کے سارے بدن پر برس گیا۔ ابا نے پھر بھی ترس نہ کھایا اور جلتی لکڑی سے مارنے لگے ۔تبھی میں چیخنے چلانے لگی۔ مجھے صحن کی جانب دوڑتا دیکھا تو گھر سے باہر چلے گئے کہ کہیں پڑوسیوں کو پتا نہ چل جائے۔میں دوبارہ دوڑ کر اماں کے پاس گئی۔ وہ زمین پر پڑی تھیں۔ ان کو اٹھایا اور ٹھنڈا پانی ان کے جلتے بدن پر انڈیل دیا۔ جس سے بڑے بڑے آبلے بن گئے ۔ صبح آپ لوگ اماں کو اسپتال لے گئے۔ آگے آپ کو پتا ہے جو ہوا۔
یہ کہہ کروہ رونے لگی۔ ہمیں بہت دکھ ہوا کہ بےچاری رضیہ بھی کیسی قسمت لے کر پیدا ہوئی تھی۔سبھی نےاسے گزری کہانی جان کر بھلا دیا مگر اب بھی جب اس واقعہ کی یاد آتی ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اب نہ رضیہ رہی اور نہ اماں رہیں۔ ابا بھی وفات پاچکے ہیں ۔ میری شادی ہوگئی تو میں امریکہ آ بسی، لیکن جب کبھی پاکستان میں اس قسم کے حادثے کا کہیں احوال سنتی یا پڑھتی ہوں رضیہ یاد آجاتی ہے کہ آج بھی ہمارے وطن میں عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا ہے، یقین نہیں آتا۔
( ش۔ ب…امریکہ