Friday, March 29, 2024

Woh Hassas Larki | Complete Story

وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔ بلندو بالاپہاڑوں کو حیرت سے تکنے والی، پھولوں سے محبت کرنے اور جگنوؤں اور تتلیوں کے پیچھے بھاگنے والی…! لیکن اس نے کبھی کسی پہاڑ کو تسخیر کرنے کا نہیں سوچا تھا، کسی تتلی کے پر نوچ کر کتابوں میں قید نہیں کئے تھے، کبھی کسی پھول کو بیدردی سے نہیں توڑا تھا ۔وہ تو بس کائنات کے سحر میں گم تھی ۔بارش ، بادل ،تارے اسے سب اپنے اپنے لگتے تھے، کسی ننھےبچے کی مسکراہٹ سے ہی وہ سرشار ہوجایا کرتی تھی ۔وہ بے حد ڈر پوک تھی، نازک سے احساسات کی مالک…!اسے اندھیرا پسندنہیں تھا ،نہ سوتے وقت ،نہ زندگی میں …!وہ روشن خیال تھی،اسے روشنی پسند تھی۔
اسے حیرت ہوتی تھی کہ لوگ غروب آفتاب کا منظر کسی دلچسپی سے دیکھتے ہیں، اسے یہ منظر دنیا میں سب سے برا لگتا تھا، اسےتو طلوع آفتاب کا منظر پسند تھا، کیسے غروراور فخر سے آفتاب اٹھتا کہ اپنی ننھی سی کرن سے اندھیرےکو کھا جاتا ،ساری دنیا روشن ہوجاتی تھی ،اسے مایوس جملے ،گم صم لوگ پسند نہیں تھے۔
وہ باتیںکرنا چاہتی تھی،اسے بولنا پسند تھا، لوگ پرندو ں کی چہچہاہٹ کوشور کہتے ہیں ،اسے یہ شور بے حد پسند تھا۔ جب ساری چڑیاں مل کر چوں چوں کر تیں تو اسے لگتا، جیسے سب بتارہی ہوں کہ ہم بھی تمہارے جیسے ہیں، کتنی پیاری دنیا ہے ، آؤ خوش رہیں ۔اسے اداس غزلیں، نظمیں اور گیت بالکل اچھے نہ لگتے، وہ خوش مزاج اور شوخ گیت سنا کرتی، اداس گیت بلا وجہ مایوس کردیتے ہیں۔کچھ ایسے، جیسے کچھ پالینے کا ،کچھ کر گزرنے کا جذبہ کہیں کھو گیا ہو۔اسے دکھوں سے بیر تھا،ہر پل گزارنے کا اس کا اپنا الگ فلسفہ تھا اور اسے لگتا تھا کہ ساری دنیا اسی سادہ سے انداز سے زندگی کو دیکھنے کی عادی ہے۔
لیکن خوش گمانی سے خوش فہمی تک کے تمام راستے میں وہ تنہا ہی رہی،دنیا بھلا کہاں اس کے نظرئیے سے دیکھتی تھی، وہ محبت کا کشکول لئے در در بھٹکی ،خوبصورت استعاروں کی خوش بیانی سے یہ بتانے کی کوشش کی، یہ سمجھانا چاہا کہ دنیا اور زندگی صرف محبت کا نام ہے،دکھ ہار سکتے ہیں اگر ہم سب ساتھ ہوں لیکن کسی دروازے پر حسدکی کنڈی چڑھی تھی تو کہیں جھوٹ کے تالے پڑے تھے۔ کہیں دروازے کھلے دیکھ کر اس نے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کی کہ تھکن بہت تھی لیکن مکرو فریب دیکھ کر اس کے قدم رک گئے۔ اتنی منافقت، اتنی سفاکی…!دل اور نظر کا اتنا میلا پن کہاں سیکھا تھا اس نے …!یہ ساری مکرہ صورتحال اس کے لئے بے حد تکلیف دہ تھی ،اس نے زندگی کتنی آسان ، سادہ ، اور سہل سمجھی تھی ،سو اسے اس سادگی کی سزا تو ملنی تھی۔وہ خوش مزاج ، خوش بیان سادہ سی لڑکی اب ہوش و خردسے بیگانہ ہوچکی ہے، بولنا کب کا بھول چکی ہے ، اسے تمام خوبصورت استعاروں سے نفرت ہے، شدید نفرت…!
میں جب کبھی اس لڑکی کو دیکھتی ہوں تو شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ معصوم مر جاتی لیکن اسے اتنی کڑی سزا نہ ملتی کہ جب کسی کی آس ٹوٹتی ہے تو پھر انسان ٹوٹ جاتا ہے، جب کسی کے سوچ کے دھارے اپنا رخ تبدیل کرلیں تو انسان بکھر جاتاہے۔
(خالدہ سمیع… نارتھ کراچی)

Latest Posts

Related POSTS