والد صاحب کی وفات کے بعد کوئی ذریعہ آمدنی نہ رہا تو بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھرنے کی بجائے کیوں نہ اپنا بزنس سنبھال لوں۔ جانتی تھی کہ بغیر سفارش نوکری ملے گی نہیں۔ مل بھی گئی تو قلیل تنخواہ میں گزارہ ممکن نہ ہوگا۔
تنگیٔ حالات سے مجبور ہوکر امی جان نے کہاتھا۔ بیٹی تمہارے ابا کی دکان بند پڑی ہے، کیوں نہ اسے فروخت کردیں۔
ماں، فروخت کرنے سے جو پیسہ آئے گا بالآخر خرچ ہوجائے گا۔ بعد میں کیا ہوگا… کیوں نہ دکان کو دوبارہ چلانے کی تدبیر کریں۔
کیونکر بیٹی؟ کیا تم چلا سکتی ہو… اکیلی لڑکی بازار میں بیٹھ کر دکان نہیں چلا سکتی ؟ بہتر ہے، ہم اسے فروخت کرکے رقم بینک میں ڈال دیں اور تم کہیں ٹیچر لگ جاؤ۔
ہماری دکان پر مصنوعی زیورات فروخت ہوتے تھے۔ والد صاحب کا یہ بہت اچھا چلتا کاروبار تھا جو ان کی وفات کے بعد جاری نہ رہ سکا۔ یہ کام چونکہ خواتین کے سنگھار وزیبائش سے متعلق تھا، اس لیے عورتوں کا دکان پر رش رہتا تھا۔ میں یہ شاپ چلا سکتی تھی لیکن والدہ کا کہنا تھا کہ تم اکیلی دکان پر نہیں بیٹھ سکتیں۔ ساتھ میں کسی قریبی عزیز کا ہونا لازمی ہے کیونکہ دکان بازار میں ہے۔
ہمارا کوئی بھائی نہ تھا اور ہم تین بہنیں تھیں، دل میں ٹیس سی اٹھی… اے کاش میں لڑکا ہوتی، امی اور بہنوں کا سہارا بنتی۔ ابا کا چلتا بزنس سنبھال لیتی۔ یہ سوچ کر افسردہ تھی کہ اتفاق سے میرا چچا زاد جمال دوسرے شہر سے نوکری چھوڑ کر آگیا۔ وہ ہمارے گھر امی سے ملنے آیا تو مجھے افسردہ دیکھ کرپوچھا۔ تمہیں کیا ہوا ہے شکل پر کیوں بارہ بج رہے ہیں۔
جمال بھائی… آج پہلی بار احساس ہوا ہے کہ لوگ بیٹے کی آرزو کیوں کرتے ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش پر کس لئے رنجیدہ ہوجاتے ہیں۔
یہ غلط سوچ ہے۔ بھائی ٹھیک تو ہے۔ بیٹے کی آرزو اسی دن کے لئے کرتے ہیں، میں اگر لڑکا ہوتی تو دکان بند نہ پڑی ہوتی ۔ جی چاہتا ہے آج ہی جاکر ابا کی شاپ کھول دوں لیکن اماں کے اندیشے مانع ہیں۔ کہتی ہیں یہ ناممکن ہے اکیلی لڑکیاں بزنس نہیں سنبھال سکتیں۔ ہمارا معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔
تم بھی کمال کرتی ہو… زویا، مجھے بھائی کہتی ہو اور خود کو اکیلا سمجھتی ہو ، ارے بھئی… میں کس مرض کی دوا ہوں،جانتی ہونا کہ نوکری نہیں رہی بیروزگار ہوں… پھر کیوں یہ ناممکن ہے۔ تم ہمت کرلوگی تو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ دکان پر تمہارے ساتھ بیٹھوں گا… تم خواتین کو ڈیل کرنا۔
اس کی بات میرے جی کو لگی… مرجھایا ہوا چہرہ کھل گیا، ابا نے دکان میں ایک طرف ’’ ٹرائی کارنر‘‘ بنا دیاتھا، یعنی عورتیں زیورات پہن کر وہاں آئینے میں دیکھتیں تو زیور کی خریداری میں دلچسپی مزید بڑھ جاتی تھی ۔
بچپن میں دکان پر جایا کرتی تھی، مجھے وہاں جانا اچھا لگتا، جمال نے حوصلہ دیا اور میں نے اماں کو منالیا…جمال دکان پر سامنے کاؤنٹر پر ہوتے اور میں شوکیسوں کی طرف جہاں خواتین جیولری دیکھتیں اور پسند کرتیں۔
ہماری دکان جمال بھائی کی توجہ سے چل پڑی تھی۔ میں ان کی بہت مشکور تھی۔ انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ شروع کے چھ ماہ وہ ہماری شاپ پر ملازم ہوںگے ہرماہ تنخواہ لیا کریں گے۔ کاروبار چل پڑا تو اپنا سرمایہ لگا کر کاروبار میں شراکت دار بن جائیں گے۔
ہم ماں بیٹی نے منظور کرلیا کہ گھر چلانا تھا اور وہ پھراپنے تھے، میں کسی غیر آدمی کے ساتھ اکیلی سارا دن نہ بیٹھ سکتی تھی۔
ایک روز صبح کے وقت ایک غریب عورت خیرات مانگنے آگئی۔ بیس بائیس کا سن تھا، خستہ حال اور میلے کپڑے مجھے اس کے حال پر ترس آیا۔ پرس سے دس کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا توجمال نے روک دیا… اور میرے قریب آکر سرگوشی میں گویا ہوا… اتنے کم پیسوں میں بچاری کا کیا بنے گا۔ دیکھ رہی ہونا، کتنی بدحال ہے۔ اس کو خیرات نہیں امداد کی ضرورت ہے چھوٹا بچہ اٹھا رکھا ہے، شاید اسی وجہ سے کام نہیں کرتی اور بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔
واقعی شکل سے وہ بھکارن نہ لگتی تھی۔ نین نقش دلکش تیکھے تھے، رنگت بھی گوری مگر سنولائی ہوئی تھی۔ جمال نے اپنی جیب سے سوکا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا، وہ ہچکچائی لیکن جب میں نے اشارہ کیا تواس نے ہاتھ بڑھا کر نوٹ لے
لیا۔
کیا نام ہے تمہارا۔ وہ بولی ’’بھاگ بھری‘‘ واہ… کیا بھلانام ہے خوب سوچ کررکھا ہے کسی نے۔ اچھا تمہارا خاوند کیا کرتا ہے؟ جمال نے ننھے بچے کی طرف دیکھ کر دوسرا سوال کیا۔ نشہ کرتا ہے۔ اس نے مختصر جواب دیا۔ کہاں رہتی ہو…؟ خیمے میں۔اچھا تم خانہ بدوش ہو۔ عورت نے اثبات میں سرہلایا اور چلنے کو ہوئی۔ سمجھ گئی کہ وہ کچھ اور بتانے سے گریزاں ہے۔ جمال نے قدرے چالاکی سے کام لیا، وہ بولا آج سردی بہت ہے۔ چائے والے، اس نے سامنے کی طرف منہ کرکے آواز لگائی ایک بارہ سال کا چھوکرا دوڑا ہوا آیا۔ کیا چائے پیو گی… میرے کزن نے اسے مزید روکنے کے لیے گویا رشوت پیش کی … جبکہ میں چاہتی تھی وہ چلی جائے وہ ٹھہرگئی، جی… صاحب… پیوں گی… سردی لگ رہی ہے۔ ادھر بیٹھ جاؤ۔ جمال نے اشارہ کیا۔ وہ دکان کے اندر آگئی اور اس کے پاس پڑے اسٹول پربیٹھ گئی ۔
ذرا دیر میں لڑکا ٹرے میں تین مگ چائے لے آیا۔ ایک کپ مجھے دے کر وہ پلٹا اور دوسرا بھاگ بھری کو تھمادیا۔اس نے بے صبری سے مگ ہاتھ میں لیا اور جلدی جلدی چائے حلق میں اتارنے لگی۔ ہاں توبھاگ بھری… کبھی کوئی کام کرنے کا نہیں سوچا؟ پراندے اور چوڑیاں بیچا کرتی تھی۔ جب سے مناہوا ہے یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس نے چائے ختم کرلی تو جانے کو ہوئی۔ اس طرف کا پھیرا کب لگتا ہے…؟ جمعرات کے دن، اس نے کہا۔ اتنا کہہ کر وہ چلی گئی … اور میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئی؟
جمال نے اس میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی تھی اور جب وہ جارہی تھی میرے کزن کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ میں اپنے کزن کے اس طرز عمل کے بارے میں سوچتی رہ گئی، کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ جمال گداگری کے خلاف تھا اور بھیک مانگنے والوں کو بھیک دینے سے گریز کرتا تھا، لیکن آج بھاگ بھری پر وہ اتنا مہربان کیوں ہوگیاتھا۔ شاید اس لیے کہ وہ بہت خوبصورت اور کم سن تھی… لیکن تھی تو کسی بدنصیب باپ کی بیٹی اور کسی بے حس شوہر کی بیوی اور اب وہ ایک بچے کی ماں بھی بن چکی تھی، جس کو خوراک فراہم کرنے کی خاطربھیک مانگ رہی تھی یاپھر معاملہ کچھ اور ہوگا کہ انجانے راستوں کی مسافر بن گئی تھی۔ سوچا… موقع ملا تواس عورت کی مدد ضرور کروں گی، لیکن اس کے حالات جاننے کے بعد، شام کوجب ہم دکان بند کرکے گھر کی طرف چلے تومیں نے جمال سے کہا۔ بھائی ذرا گاڑی باہر والے راستے سے نکالنا۔وہ میرا مطلب سمجھ گیا غالباً جمال خود بھی یہی چاہ رہا تھا، اس نے گاڑی بائی پاس والے راستے کی طرف موڑ لی جہاں اکثرخانہ بدوش اپنے خیمے ڈالا کرتے تھے… ذرا آگے گئے تھے کہ خانہ بدوشوں کے خیمے دکھائی دیئے …کٹے پھٹے پرانے خیمے جن کے قریب کھلے آسمان تلے مردوں نے آگ روشن کررکھی تھی، وہ غالباً کھانا پکا رہے تھے، وہاں عورتیں نہیں تھیں۔ میں سمجھ گئی کہ ان کی عورتیں خیموں میں نہیں ہیں۔ ورنہ وہ آگ کے قریب پڑی چارپائیوں پر نظر آجاتیں… گویا ابھی تک واپس نہ لوٹی تھیں۔ ہم نے گاڑی سے انہیں دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔
جمعرات کے دن بھاگ بھری صبح دس بجے آگئی، میرے کزن کی نگاہوں میں چمک آگئی، جیسے اسے اسی کا انتظار تھا… بھاگ بھری کو آتے دیکھ کر اس نے چائے کا آرڈر دے دیا۔ ہمارا ملازم چائے لینے سڑک پارچلا گیا۔ آج جمال نے چائے کے ساتھ کیک پیس لانے کو بھی کہہ دیاتھا۔ پانچ منٹ میں خادم ٹرے لے آیا… بھاگ بھری کی بانچھیں کھل گئیں، جونہی جمال نے ٹرے اس کی طرف بڑھائی، اس نے جلدی سے کیک پیس اٹھا کر بچے کوتھما دیئے اور خود جلدی جلدی چائے پینے لگی۔ وہ اسٹول پر بیٹھ گئی۔
اس بار میں نے اس کی جانب توجہ نہ دی لیکن کن انکھیوں سے جمال کو دیکھتی رہی، جس کی ساری توجہ بھاگ بھری، پر تھی۔
آج اس نے پہلے سے بہتر اور کچھ اجلا لباس پہنا ہوا تھا اور بال بھی سنورے ہوئے تھے۔ جیسے پوری نہیں تو آدھی تیاری سے آئی ہو۔ جب وہ چائے پی چکی تو جمال نے جیب سے نوٹ نکال کر اسے دیا۔ کتنے کا نوٹ تھا یہ میں نہ دیکھ سکی۔ بھاگ بھری کو نوٹ دیتے ہوئے اس نے سرگوشی میں کچھ کہا۔ میں وہ بھی نہ سن سکی۔ لیکن مجھے یہ اچھا نہ لگا۔
اس کے بعد وہ جلد جلد آنے لگی، جمال اسے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتا…اور وہ اس کے ساتھ دوچار باتیں کرکے چلی جاتی۔ میں جمال سے یہ پوچھتے ہوئے ہچکچاتی تھی کہ آپ اس سے کیا بات کرتے ہیں، تاہم یہ یقین تھا کہ
کی خاطر یہ عورت کوئی غلط کام کرنے والی نہیں ہے۔
ایک دن جمال دکان پر آتے ہی مال خریدنے کراچی چلا گیا اور کاؤنٹر پر میرے دوسرے کزن کو بٹھا گیا، یہ جمال کا چھوٹا بھائی احسان تھا اور ابھی فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا ۔ اچانک بھاگ بھری آگئی۔
موقع اچھا تھا میں نے اسے دکان کے اندر بلالیا جہاں میری نشست تھی… یہ پوچھنے کو کہ وہ خود کوگداگری کے پردے میں کن پستیوں میں دھکیل رہی ہے۔یہ بات کہنے کے لئے ویسی ہی عزت دینی لازم تھی، جیسی جمال بھائی اسے دیتے تھے، میں نے اسٹول اس کی جانب بڑھا دیا اور کہا بیٹھو… کیا آج چائے نہ پیو گی، آج تو سردی اور بھی زیادہ ہے… میرا بھائی موجود نہیں تو کیا ہوا میں تو موجود ہوں۔ یہ جنوری کی ایک دھندلی صبح تھی، دھند نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا… وہ بھی سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔ کوئی گرم کپڑا اس کے تن پر نہ تھا۔ ایک عام سی دردیدہ چادر کے سوا۔ آج سخت موسم کی وجہ سے چھوٹا بچہ بھی ساتھ نہ تھا۔ جب وہ چائے پی رہی تھی میں نے نرمی سے پوچھا… اتنے برُے موسم میں سارا دن ٹھنڈ میں بھٹکنے سے کیا اچھا نہ تھا آج گداگری کو نہ نکلتی… مزے سے خیمہ میں بیٹھ کر آگ تاپتی اور قہوہ پیتی۔
بولی…ایسے ہمارے نصیب کہاں بہن جی… مرد ہمارے تو گھر بیٹھنے نہیں دیتے، چاہے سخت سردی ہویا خراب موسم… ہم بھیک نہ مانگیں تو وہ کھائیں کہاں سے… بی بی مزے ہم نہیں کرسکتے، مزے تو ہمارے مردوں کے ہیں۔ اسے سردی سے کانپتے پاکر میں نے اپنی گرم شال اڑھا دی۔ بہت محبت سے اور کہا۔ دیکھو … آئندہ سردی میں ایسے مت نکلنا۔وہ لجا کر بولی۔ نہیں بہن جی … یہ آپ کی ہے آپ اوڑھے رہیں۔ ہمیں یونہی پھرنے کی عادت ہے۔
بہن جی کہتی ہو اور پھر ایسی بات کرتی ہو، اوڑھے رکھو اور کسی شے کی ضرورت ہے تو بتاؤ… اور کوئی ضرورت نہیں آپ کا شکریہ۔ جیسے شال اڑھاکر میں نے اس کے ساتھ کوئی ان دیکھا، ان جانا رشتہ استوار کرلیا ہو… اس کی عزت نفس جوسو گئی تھی حالات کی وجہ سے، وہ پھر سے جاگ گئی تھی۔ مجھے لگا کہ غربت اس کی مجبوری ضرور ہے لیکن وہ عزت کی آرزو بھی رکھتی ہے۔ گداگری سے اس کی حمیت مرنہیں گئی تھی، میرے حسن سلوک سے اس کی آنکھوں میں ممنونیت کے آنسو تیرنے لگے تھے ۔
بھاگ بھری… مجھے یقین ہے کہ تم خیمہ والوں کی باسی نہیں ہو… کہیں اور سے تعلق ہے تمہارا۔ سچ بتاؤ تم کہاں سے آئی ہو؟ اس نے کہا آپ ٹھیک سمجھی ہیں… میں خانہ بدوشوں کی لڑکی نہیں ہوں، میں چھوٹی سی تھی تواپنی امی کے ساتھ بازار گئی تھی تو رش میں گم ہوگئی، وہ مجھے بھیڑ میں ڈھونڈتی رہ گئیں اور میں ان کو تلاش کرتی رہی ۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے نہ مل سکے اور میں روتی ہوئی سڑک پر چلی گئی، ان خانہ بدوشوں کے خیموں کی طرف، تو انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ اس وقت میری عمر چار سال ہوگی، جس کو میں ملی، اس نے مجھے بیٹی بنالیا اور پھر… میں ان کی ملکیت ہوگئی۔ قسمت نے جس شخص کو میرا باپ بنایا اس نے اپنے بھتیجے سے میری شادی کردی، وہ نکما ہے، مٹھو نام ہے اس کا، کوئی کام نہیں کرتا، چرس اور بھنگ پیتا ہے… بھیک منگواتا ہے، بھیک کم ملے تو مارتا ہے۔ ابا اسے روکتا تو ہے مگر وہ کسی کی بات نہیں سنتا۔ ابا بان بنتا ہے اور کچھ روزی کما لیتا ہے… تم لوگ کتنے عرصہ یہاں رہو گے؟ کچھ پتا نہیں جب یہ موسم ختم ہوگا… اگلے پڑاؤ کی طرف کوچ کریں گے۔ راتوں رات ہم میلوں دور چلے جاتے ہیں۔ ابھی تو گنے کی فصل اتری ہے۔ خیمہ والوں کو فصل اٹھانے کے موسم میں مزدوری مل جاتی ہے۔ ہمارے کچھ مرد اور عورتیں مزدوری بھی کرلیتے ہیں،اگلے موسم کی فصل جہاں اچھی ہوگی وہاں پڑاؤ ڈال لیں گے۔
عورت امیرہویاغریب، شوہر کے پیار کی بھوکی ہوتی ہے۔ اب تو مجھے مٹھو سے نفرت ہوگئی ہے۔ جی چاہتا ہے اسے چھوڑ کر کہیں نکل جاؤں۔ میں نے کہا اچھا ہے کہ تم بھیک مانگنے کی بجائے مزدوری کرلو… کھیتوں میں چاولوں کی فصل اتری ہوئی ہے، کپاس چنو گی تو اجرت کے علاوہ کچھ کپاس بھی ملتی ہے، رضائیاں وغیرہ بناسکتی ہو… کہنے لگی یہ وہ کام ہیں جو میں چھوٹے بچے کے ساتھ نہیں کرسکتی… بھیک مانگتے وقت میں بچہ کندھے پر ڈال لیتی ہوں۔ پھر بولی۔ اچھا بتاؤ کوئی اور مزدوری ملے گی۔
ہاں… وہ سامنے گودام ہے وہاں دھاگے کی ریلیں ڈبوں میں بھری جاتی ہیں، مزدور عورتیں یہ کام
کرتی ہیں جمال بھائی سے کہہ کرتم کووہاں کام دلواسکتی ہوں۔
کتنے دن کروں گی پابندی والا کام… کوچ کرنے کا وقت آگیا تو مزدوری کی اجرت بھی رہ جائے گی۔
وہ ٹھیک کہہ رہی تھی، تبھی میں نے اسے پلو سے باندھنے کی بجائے اپنی نصیحت اپنے پلے باندھ لی۔ دوروز بعد جمال بھائی آگئے، ان کو بھاگ بھری کا احوال بتایا۔ بولے… ہم کیوں نہ پڑوسی کا گودام صاف کروالیں۔ میں اسے کہوں گا کہ یہ غریب عورت ہے، اسے ہزار روپیہ مزدوری دینا۔ جمال نے پڑوسی سے ذکر کیا۔ ملک مہران کو کئی دن سے صفائی کے لئے کسی مزدور کی تلاش تھی، اس نے کہا، اب وہ عورت آئے تو میری طرف بھیج دینا۔
اتفاق کہ اگلے دن وہ آگئی۔ میں نے جمال بھائی کو کہہ کر اسے مہران کی طرف بھیج دیا۔ ہم خوش تھے کہ ایک غریب عورت کے ساتھ نیکی کی ہے، ایک دن میں چند گھنٹے کام کرکے اسے ہزار روپے مل جائیں گے تو اگلے دن ہم اپنا گودام صاف کرالیں گے… بچاری بھاگ بھری چھوٹے بچے کو اپنی دیورانی کی چھ سالہ لڑکی کے سپرد کرکے آگئی تھی ۔
جھاڑو اٹھا اس نے مہران کا گودام صاف کردیا۔ چار پانچ گھنٹے صفائی میں لگے تھے اور اب وہ گودام سے نکلی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کپڑے میلے ہی نہیں ہوئے، پھٹ بھی گئے تھے۔ غریب کا لباس دردیدہ ہوجائے تو رہی سہی عزت بھی خراب ہوجاتی ہے… میں نے اسے سڑک پر جاتے دیکھا تو ملازم کو دوڑایا کہ اسے بلاکرلاؤ… کل اپنے گودام کی صفائی کروالوں گی، وہ تھکے ہارے قدموں سے چلتی ہوئی آگئی … منہ پر گرد اور بال بکھرے ہوئے، حلیہ بے ترتیب اور بجھی بجھی آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں کہ پیراہن ہی دردیدہ نہ تھا روح بھی زخمی ہوگئی تھی ۔
اجرت مل گئی کیا بھاگ بھری؟ ہاں… اس نے روہانسی ہوکر کہا ۔ اچھا کل آنا… دوسرا گودام بھی صاف کروانا ہے۔ اس نے خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور کردیکھا۔ اجرت زیادہ ملے گی، بھئی کیا مزدوری نہیں کروگی؟ جمال نے چہک کرکہا تو وہ غصے سے بولی۔ نہیں چاہئے زیادہ اجرت، نہیں کرنی تمہاری مزدوری۔ تو اپنی اجرت اپنے پاس رکھ۔ یہ کہہ کر وہ نفرت سے منہ موڑ کرچلی گئی۔ پھر وہ کئی دن تک نہ آئی تو ہم دونوں کو تجسس ہوا اور ہم خیموں کی طرف گئے۔ گاڑی سڑک کے کنارے روک کردیکھا تو وہاں کوئی خیمہ تھا اور نہ ان میں رہنے والے خانہ بدوش۔ وہ کوچ کرچکے تھے وہاں ان کے بجھے ہوئے چولہے تھے اور ان میں بکھری راکھ باقی رہ گئی تھی اور کچھ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں جن کو دیکھ کے بے اختیار جمال کے منہ سے نکل گیا۔ میں تو ملک مہران کواچھا آدمی سمجھتا تھا لیکن یہ تو بہت برانکلا اور میں سمجھ چکی تھی کہ اس دن وہ کیوں خفا ہوکر گئی تھی ہم سے۔ ملک مہران نے جو سلوک اس غریب کے ساتھ کیا تھا اس کی ہمیں بالکل توقع نہ تھی… ورنہ کبھی بھاگ بھری کواس کے پاس نہ بھیجتے۔ (ش… غازی گھاٹ)