جونہی نثار بھائی نے میٹرک پاس کیا، ماموں جان نے اُسے شہر بلوا کر الیکٹریشن کا ڈپلوما کروا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ جلداز جلد اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے اور ان کی ذمے داری ختم ہو۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ماموں ہی ہمارے کنبے کا واحد سہارا تھے، جس قدر بن پڑتا مالی مدد کرتے اس طرح ہمارے گھر کا چولہا جل رہا تھا۔
نثار بھائی آگے تعلیم جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن مالی حالات نے اجازت نہ دی اور ڈپلوما کرنے کے فوراً بعد وہ کام پر لگ گئے، جہاں ضرورت ہوتی وہاں کام کر آتے۔ جو اُجرت ملتی بخوشی قبول کرلیتے، شروع کے دن تھے رفتہ رفتہ اپنے ہنر میں طاق ہوگئے اوراچھا کمانے لگے۔
ایک روز خالہ آئیں امی سے کہا کہ ارشد بیروزگار ہے، کوئی کام نہیں مل رہا۔ نثار سے کہو کہ اُسے بھی بجلی کا کام سکھا دے اپنے ساتھ معاون کے طور پر رکھ لے۔ تو یہ بھی کچھ نہ کچھ کمانے لگے گا۔ مالی پریشانی کافی بڑھ گئی ہے۔
ارشد خالہ کا اکلوتا بیٹا تھا صرف آٹھویں تک پڑھ پایا تھا۔ اسی سبب کہیں نوکری نہیں ملتی تھی۔ والدہ نے نثار بھائی سے تذکرہ کیا تو وہ بولے۔ خالہ سے کہنا کل صبح آٹھ بجے بیٹے کو بھیج دیں، میں ساتھ لے جائوں گا۔ ان دنوں بھائی ایک ٹھیکیدار کے پاس کام کر رہے تھے، جہاں بجلی کا کام ہوتا وہ انہیں وہاں بھیج دیتا۔
ارشد باقاعدہ بھائی کے ہمراہ جانے لگا، رفتہ رفتہ اس نے بھی کچھ ہنر سیکھ لیا۔ کہتے ہیں ایک سے دو بھلے ارشد کے پاس موٹرسائیکل تھی، پہلے بھائی سائیکل پر شہر جاتا اب یہ دونوں موٹربائیک پر جانے لگے۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ دونوں رات گئے شہر سے لوٹ رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آ گیا۔
شہر سے گائوں آتے ہوئے راستے میں ایک ندی پڑتی تھی، جس پر پُل بنا ہوا تھا۔ جب یہ دونوں پُل کے نزدیک پہنچے تو انہیں گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سُنائی دی جس سے اندازہ ہوا کہ آگے تانگہ جا رہا ہے۔ رات گھپ اندھیری تھی۔ موٹربائیک کی تھوڑی سی لائٹ جب تانگے پر پڑی تو اس میں سوار لوگوں کو پتا چلا ان کے پیچھے کوئی سواری آ رہی ہے۔ جونہی موٹربائیک کی آواز تانگے تک گئی وہاں سے نسوانی آواز آئی۔ بھائیو بچائو، مجھے بچائو۔ فوراً ہی ایک ہلکی چیخ کے بعد یہ آواز بند ہوگئی جیسے کسی نے پکارنے والی کا منہ بند کر دیا ہو۔
دونوں کو فوراً خطرے کا احساس ہوگیا۔ نثار بھائی نے ارشد سے کہا۔ یار لگتا ہے لڑکی کو اغوا کر کے لے جا رہے ہیں یا پکارنے والی کو جان کا خطرہ ہے۔ کہیں وہ اسے قتل کرنے کے ارادے سے نہ لے جا رہے ہوں۔
یار چھوڑو پرائے معاملے میں ٹانگ نہ ہی اَڑائیں تو اچھا ہے۔ ہم خالی ہاتھ ہیں اور یہ بدمعاش ضرور اسلحہ بردار ہوں گے۔ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ ہم واپس پیچھے کو پلٹ جاتے ہیں۔ تانگے کو گزر جانے دو، پھر پُل پر چڑھیں گے۔
نسوانی چیخ اور پکار نے دِل دہلا دیا تھا۔ نثار بھائی کا ضمیر ملامت کرنے لگا کہ بزدل کسی مظلوم نے پکارا اور ہم منہ چھپا رہے ہیں۔ تبھی انہوں نے کہا۔ نہیں، ہمیں واپس لوٹنے کی بجائے مدد کرنی چاہئے۔ تم موٹرسائیکل کو قریب لے جانا اور میں تانگے پرکود جائوں گا۔ پھر دیکھا جائے گا کیا ہوتا ہے۔ بھائی کے اصرار پر ارشد نے ویسا ہی کیا جب بائیک بالکل تانگے کے قریب پہنچی، نثار بھائی نے تانگے کی اگلی نشست پر چھلانگ لگا دی۔ جہاں کوچوان بیٹھا تھا۔ انہوں نے کوچوان کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا اور چابک اُس کے ہاتھ سے چھین کر اس کی گردن میں ڈال دیا۔ لڑکی کو دو مرد پچھلی نشست پر جکڑے بیٹھے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان پر کوئی یوں حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اس دوران ارشد نے موٹربائیک کو روک کر پُل کی ریلنگ سے لگا دیا اور وہ بھی آناً فاناً دوڑ کر تانگے پر چڑھ گیا۔ اس وجہ سے گھبرا کر ایک شخص تو تانگے سے کود گیا اور دوسرے نے مزاحمت کی تو اس کی گرفت لڑکی پر ڈھیلی پڑ گئی۔ لڑکی نے ہمت سے کام لیا اور اپنا دوپٹہ اس مرد کے گلے میں ڈال دیا جو اُسے پکڑے ہوئے تھا۔ ارشد نے دوپٹے کے دونوں سروں کو پکڑ کر کھینچا حلقہ تنگ ہوا تو دوسرا بھی تانگے سے گر گیا۔ اِدھر نثار بھائی نے کوچوان کے گلے میں پڑے چابک کو پوری قوت سے کسا۔ گھوڑا رُک گیا اور کوچوان بے ہوش ہوگیا۔
انہوں نے لڑکی کو تانگے سے اُتارا۔ اس سے پہلے کہ گھوڑا بدک جائے۔ یہ بھی اُتر گئے اور موٹر بائیک پر اُسے بٹھا کر پُل سے اُتر آئے۔
اب یہ یہاں رُک کر خاموش کھڑے سوچ رہے تھے کیا کریں۔ اندھیرے میں ان لوگوں کی صورتیں بھی نہ دیکھ سکے تھے جو لڑکی اغوا کر کے لے جا رہے تھے اور نہ ہی انہوں نے ان کی صورتیں دیکھی تھیں۔ ایک بھاگ چکا تھا اور دو بے ہوش پڑے تھے۔ پولیس میں رپورٹ کرنے کا خیال انہوں نے ترک کیا اور لمبے چکر میں پڑنے کی بجائے یہ اُسے لے کر گھر آگئے۔
لڑکی بُری طرح ڈری ہوئی تھی۔ امی نے دلاسا دیا، پوچھا۔ کہاں کی ہو اور کون لوگ تمہیں لے جا رہے تھے۔ اس نے اپنا نام کوکب سلطانہ بتایا، بولی کہ بس دھوکے سے لے جا رہے تھے۔ ماں نے اُسے قریب بٹھا لیا، پانی پلایا پھر کھانے کا پوچھا۔ جب اس کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے بتایا۔ دراصل وہ ایک لڑکے کے ساتھ بھاگی تھی جو کسی دوسرے گائوں کا تھا۔ دونوں کی ملاقات میلے میں ہوئی تھی، یہ بیساکھی کا میلہ ہر سال ہمارے گائوں کے قریب ایک میدان میں لگتا تھا۔ وہ لڑکا جس کا نام ارشاد تھا۔ اس نے سلطانہ کو دھوکا دیا اور آگے لے جا کر ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو اسے تانگے میں لے جارہے تھے۔ یہ عشق کی ماری جو زیور نقدی گھر سے لائی تھی وہ بھی ارشاد لے گیا تھا۔
اماں نے کہا۔ اچھا فکر مت کرو، ہم تمہیں تمہارے گھر پہنچا دیں گے۔ جب انہوں نے یہ بات کی تو لڑکی رونے لگی۔ میری ماں کے پائوں پڑنے لگی اور نثار بھائی سے بنتی کرنے لگی کہ بھائی تم مجھے بچا لو۔ میرے والد اور بھائیوں کے حوالے مت کرنا ورنہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ تم لوگوں سے جان کی اَمان مانگتی ہوں۔ مجھے پناہ دے دو۔ میرا بھائی بہت رحم دل واقع ہوا تھا، اس نے لڑکی سے وعدہ کرلیا کہ وہ اُسے اس کے گھر والوں کے حوالے نہیں کرے گا بلکہ ایک بہن کی طرح وہ ہمارے گھر میں رہے گی۔ والدہ کو بھی سمجھا دیا کہ اماں جب تک اس کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کسی سے ذکر مت کرنا یہ کون ہے یہی کہنا کہ ہمارے دُور کے رشتے دار ہیں، ان کی بیٹی ہے کچھ دنوں کے لئے رہنے آئی ہے۔
لڑکی خود نہیں جانتی تھی کہ یہ کون لوگ تھے، نجانے اُسے کدھر لے جارہے تھے۔ ارشاد تو غائب ہوگیا تھا۔ بہرحال جس بات کا ڈر تھا وہ نہیں ہوا، کسی نے ہمارے خلاف کچھ نہیں کیا لیکن پرائی لڑکی ہمارے پاس تھی اور اب یہی فکر والدہ کو کھائے جا رہی تھی کہ اس کا کیا کریں؟ وہ گھر جانے کو راضی نہ تھی۔ زبردستی نہیں لے جا سکتے تھے۔ اگر اس کے والد اور بھائیوں کو اطلاع کرتے تو اُلٹی آنتیں گلے پڑ جاتیں۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ لوگ میرے بھائی کا ہی پرچہ کٹوا دیتے یا لڑکی کو لے جا کر مار دیتے۔
بڑی مشکل آ پڑی تھی۔ مسئلے کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ خالو، ارشد اور بھائی سب ہی پولیس کے تکلیف دہ چکر میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ لڑکی… نثار بھیا کو، میرے بھائی کہتی تھی اسے گھر سے نکالتے تو کہاں جاتی، عجب تذبذب کا عالم تھا۔
سوچتے سوچتے یونہی وقت گزرتا جا رہا تھا وہ میری ہم عمر تھی، اپنا دُکھ، دل کا حال احوال مجھ سے کہتی، جلد ہی ہم ایک دوسرے سے مانوس ہوگئیں۔
اس کو ہر دم دُکھی اور اُداس دیکھ کر میرا بھی دل نہ چاہتا تھا کہ وہ چلی جائے، ہم سہیلیاں بن چکی تھیں، اس کے بغیر جی نہ لگتا تھا، دُعا کرتی تھی اللہ کرے وہ ہمیشہ ہمارے گھر میں رہ جائے۔
ایسی باتیں زیادہ دنوں تک نہیں چھپتیں، والدہ سہمی سہمی رہتی تھیں کہ گائوں کے معاملات روایات کی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ کسی دن سلطانہ کے سبب ہم پر کوئی مصیبت نہ ٹوٹ پڑے، کہیں میرا بیٹا اور بھانجا ناحق کسی کیس میں نہ پھنسا لئے جائیں۔ ہونی ہو کر رہتی ہے مگر ہمارے معاملے میں عجب ہوا۔
ایک روز ایک بوڑھی عورت بھیک مانگتی گھر میں گھس آئی۔ والدہ نے دو چلو بھر گندم اُس کے جھولے میں ڈال دیئے۔ اس کے بعد وہ اکثر آنے لگی، لگتا تھا کہ خانہ بدوشوں میں سے ہے۔ ہم سمجھے یہیں کہیں کھیتوں کے پاس میدان میں جھونپڑیاں ڈال رکھی ہوں گی، اُدھر سے آ جاتی ہے۔
ایک روز میں نے دیکھا کہ سلطانہ نے اُسے خیرات دی۔ خیر یہ کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ گھر کا کوئی بھی فرد کسی بھکارن کو خیرات دے دیا کرتا تھا جو گھر کی دہلیز پار کرکے صحن تک آجاتی تھی۔ لیکن اچنبھے کی بات اس وقت ہوئی جب ایک روز میں نہا کر غسل خانے سے نکلی تو میں نے سلطانہ کو اس عورت کے ساتھ نہایت رازداری سے باتیں کرتے دیکھا۔ دُوری کے سبب باتیں نہ سُن سکی مگر شک ہوا کہ یہ عورت اس کے لئے باہر سے کسی کا سندیسہ لائی ہے جو وہ اس قدر انہماک سے بڑھیا کی بات سُن رہی تھی۔ اس روز وہم جان کر ذہن کو جھٹک دیا مگر اس کے بعد بھی دو تین بار اسی طرح اس بھکارن کو سلطانہ کے قریب دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنک گیا۔ لاکھ پوچھا سچ بتائو کوکب سلطانہ تم سے بڑھیا کیا کہتی ہے۔ وہ یہی جواب دیتی کہ کچھ نہیں، ایسے ہی اپنے خانہ بدوش ہونے کے بارے میں بتاتی ہے کہ آج کل میں کوچ کر جائیں گے وغیرہ۔
بڑھیا بھکارن نہ تھی، وہ واقعی سلطانہ کو سندیسے پہنچاتی تھی، اللہ جانے کون یہ سندیسے اس بڑھیا کے ذریعے بھجواتا تھا جو بھکارن کا رُوپ دھار کر ہمارے گھر آ جاتی تھی۔ یہ معاملہ اس وقت کھلا جب ایک دن اچانک سلطانہ غائب ہوگئی اور ہم سب دم بخود رہ گئے۔ سچ کہتے ہیں کہ پرائی لاج سنبھالنا مشکل کام ہوتا ہے۔ ہماری ماں کو گمان تھا کہ ارشاد نے کسی طرح اس کا کھوج لگا لیا تھا۔ سلطانہ ہمارے گھر ہے وہی سندیسے بھجواتا تھا۔ ایک روز وہ اسے دوبارہ لے جانے میں کامیاب ہوگیا اور ہمیں پتا بھی نہ چلا۔ بہرحال جس وقت سلطانہ گئی وہ ایسا وقت تھا جب میری شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی اور دُلہن بن کر میں سسرال سدھارنے والی تھی۔
بتا چکی ہوں کہ ہمارے گھر کے مالی حالات زیادہ سازگار نہ تھے، پھر بھی بھائی جو کما کر لاتے والدہ نے اس کمائی سے پائی پائی جوڑ کر میرا جہیز تیار کیا تھا اور اپنے زیور مدت سے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کروں گی تو اُس کو یہ زیور چڑھائوں گی۔
میری شادی کی تیاریاں جاری تھیں اور اماں کا پرانے وقتوں کا زیور پالش کرانے کے بعد میرے جہیز والے بکسے میں رکھا ہوا تھا۔ ماموں نے بڑی دقتوں سے ہمارا مکان گروی کروا کر بینک سے قرض دلوا دیا کہ عزت سے شادی ہو اور ہماری سسرال میں عزت بنی رہے۔ شام کو ماموں روپیہ نقدی کی صورت میں دے گئے، والدہ نے نوٹ گنے اور مجھے دے کر کہا۔ سنبھال کر انہیں جہیز والے بکسے میں رکھ دو۔ کل کسی بڑے کو ساتھ لے کر بازار جائیں گے اور جہیز کا سامان خریدیں گے۔ اماں نے روپے ملنے کے بعد اطمینان کا سانس لیا تھا کہ اللہ نے انتظام کر دیا تھا، ورنہ اس دور میں کون کسی کو اتنا قرض دیتا ہے۔
اگلے دن صبح سویرے اماں نے جب مجھے جگایا وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے یہ منحوس خبر مجھے دی کہ سلطانہ جسے ہم نے بیٹی بنا کر رکھا وہ گھر میں موجود نہیں ہے، اللہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ کیا ہوگیا ہے اماں آپ کو۔ ابھی سورج نکلا نہیں ہے کہاں جائے گی۔ دن میں بھی جس نے کبھی گھر سے قدم نہیں نکالا تھا۔ یہیں کہیں ہوگی۔ بولیں۔ نادان وہ کہیں نہیں ہے۔ صبح نماز پڑھنے کے بعد جب میں صحن کی طرف گئی تو بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا۔ مجھے لگا جیسے یہ رات سے کھلاہوا ہے۔ کیا آپ در بند کرنا بھول گئی تھیں؟
ارے نہیں… میں نے خود اس کو بند کیا تھا۔ آج چھٹی کا دن ہے۔ نثار بھی سو رہا ہے۔ اُسے گھر میں ہر جگہ دیکھ لیا ہے لڑکی غائب ہے۔ اس کی چارپائی خالی ہے۔
یااللہ… اماں یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ مجھے جھٹکا سا لگا، تبھی اماں کی چھٹی حِس نے انہیں اسٹور کی طرف دوڑایا جہاں وہ بڑا صندوق رکھا ہوا تھا جس میں میرا سارا جہیز جوڑے زیور اور نقدی موجود تھی۔ اس کا ڈھکن کھلا ہوا تھا، یعنی جاتے ہوئے سلطانہ زیور اور نقدی بھی لے گئی تھی۔
اُف میرے اللہ اماںنے سر پکڑ لیا۔ میں اور نثار بھائی نے اُسے بہن بنایا تھا اور ایک بہن دُوسری کی خوشیاں اُجاڑ کر چلی گئی تھی، جبکہ میری شادی کے دن قریب تھے۔ اماں اور بھائی کی پریشانی دیدنی تھی، ساری پونجی لٹ گئی تھی یہ ہم میں سے کسی نے بھی نہ سوچا تھا کہ ایسا ہوگا۔ ماموں کو بلوا کر اماں نے حقیقت سے آگاہ کیا وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اماںکے نام کا ایک پلاٹ کبھی کا پڑا ہوا تھا جو قسطیں ادا کر کر خریدا گیا تھا۔ بس یہی آخری پونجی بچی تھی، والدہ نے یہ پلاٹ بھائی کی شادی کی خاطر رکھا ہوا تھا۔ اسے بیچ کر میری شادی کر دی۔ بھائی نے کہا۔ میں اور کما لوں گا مگر شاہینہ کا بیاہ ہونا چاہئے، تاریخ رکھ دی گئی ہے، رُخصتی وقت پر نہ ہوئی تو سبکی ہوگی۔ میری شادی بخیریت ہوگئی لیکن اس کے بعد بھائی کے مالی حالات نہ سنبھل سکے۔ بینک کا قرضہ اُتارنے کے لئے انہیں سعودی عربیہ جانا پڑا۔ وہاں کی کمائی سے بالآخر قرضہ اُتارا۔ دن بھی پھر گئے لیکن آج تک نیکی کا صلہ یاد ہے جو کوکب سلطانہ نے دیا۔
اس واقعے کو چالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ وہ لڑکی کیسے گئی کس کے ساتھ گئی اور اب کس حال میں ہے۔ ہم لوگوں نے جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ اس قسم کی تلاش سے اگر اس کے گھر والوں کو علم ہو جاتا کہ ان کی لڑکی ہمارےپاس تھی تو وہ ہماری جان کو آ جاتے تب دامن چھڑانا دُشوار ہو جاتا، میری اب بھی یہی دُعا ہے کوکب تو جہاں بھی ہے خوش رہے۔ تو نے میرے ساتھ اچھا نہ کیا مگر اللہ کرے تیرے ساتھ مزید بُرا نہ ہوا ہو۔
(ک… قصور)