اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کی خاطر دادا جان نے گائوں کو چھوڑا اور شہر کے ایک پرانے محلے میں گھر خرید لیا۔ جہاں عرصہ دراز سے پرانے مکین قیام پذیر تھے۔ مکانات بھی یہاں سبھی پرانے زمانے کے تعمیر شدہ تھے لیکن بہت کشادہ اور مضبوط تھے اسی وجہ سے اس عمارت میں شکست و ریخت کم ہی تھی۔ دادا کا خیال تھا کہ نئے علاقوں کی نسبت یہاں کے باشندے زیادہ قابل بھروسہ ہیں کہ نئی کالونیوں میں طرح طرح کے لوگ آکر آباد ہو جاتے ہیں جبکہ ان کے پس منظر کا پتا نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھا مکانات اور محلے بے شک پرانے ہوں، لیکن مکان کو شرف مکین سے ہوتا ہے۔
جو گھر دادا نے خریدا، وہ اچھی حالت میں تھا۔ انہوں نے معمولی شکست وریخت کو درست کرا لیا اور اپنے کنبے کے ساتھ اس میں شفٹ ہو گئے۔ اسی محلے میں قادر صاحب رہتے تھے۔ یہ دادا کے پرانے دوست تھے اور انہی نے مکان دلوایا تھا۔ محلے کی گلیاں چوڑی اور سامنے چوک تھا۔ مکانات پر لکڑی کے عمدہ چو بارے نہایت ہنر مندی سے بنائے گئے تھے جن پر پھول بوٹے ، نقش و نگار کندہ تھے۔ ان کی دیدہ زیبی نصف صدی بعد بھی قائم تھی، تبھی یہ گھر شاندار اور دلکش لگتے تھے۔ کمرے بڑے بڑے اور ہوادار جبکہ دالان پختہ سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے اس مہارت سے کہ کسی ایک اینٹ کا کونہ تک نہیں ٹوٹا تھا۔ رشتے دار آتے تو مکان کی تعریف کئے بغیر نہ جاتے تھے۔ اسی گھر کے ساتھ ہی ایک دوسر امکان برائے فروخت ہوا۔ عرصے سے خالی پڑا تھا جن کا تھا وہ اس میں چند دن رہ سکے اور فروخت کر دیا۔ نیا مالک آتے ہی بیمار ہوا اور فوت ہو گیا تبھی اس کی دلبرداشتہ بیوہ نے گھر بیچ دیا اور کسی دوسری جگہ مع بچوں کے شفٹ ہو گئی۔ یہ گھر تب سے خالی تھا۔ بد قسمتی سے تعمیر کرانے والے اور خریدنے والے کوئی بھی اس میں نہ رہ سکے تولوگ اس مکان سے خوف کھانے لگے۔ انسانوں کی طرح مکانات کی بھی ایک ایسی ہسٹری ہوتی ہے۔ ہمارے دادا نے جو گھر خریدا تھا، اس کے ساتھ والے مکان کی یہ ہسٹری قادر صاحب نے ہی ان کو بتائی تھی لیکن دادا توہمات کے قائل نہ تھے۔ یہ لوگ اسے بد قسمت مکان کہتے تھے۔ بد قسمت مکان بہر حال بہت توجہ سے بنوایا گیا تھا۔ ہر لحاظ سے عمدہ، ایک چھوٹاسا محل معلوم ہوتا تھا۔ محلے کی یہ سب سے خوبصورت عمارت تھی جس کو برسوں سے تالا لگا ہوا تھا۔ دادا جان کی گائوں میں کچھ آبائی زرعی اراضی تھی جس سے کچھ خاص آمدنی نہ آتی کیونکہ جو لوگ برسوں سے اس پر آباد تھے ، وہ تین حصے پیداوار خود رکھ لیتے اور ایک حصہ دادا کو دیا کرتے۔ان سے زمین واگزار کرانا کٹھن مرحلہ تھا، لہذا دادا نے سوچا کہ کیوں نہ اس اراضی کو فروخت کر دوں۔
انہوں نے انہی لوگوں کو آفر کی کہ اگر یہ زمین خریدنا چاہو تو میں جاری نرخ سے کچھ کم پر آپ کو فروخت کرنے پر تیار ہوں۔ وہ لوگ تو چاہتے یہی تھے ، فور اراضی ہو گئے۔ سودا طے پا گیا اور دادا جان نے وہ ملکیت فروخت کر کے ان سے رقم لے لی۔ ایک روز قادر صاحب نے بتایا کہ آپ کے برابر جو مکان خالی پڑا ہے ، اس کے مالک بیرون ملک سے آگئے ہیں اور کل مجھ سے ملنے آرہے ہیں۔ وہ اس گھر کو سستے داموں بیچ رہے ہیں کیونکہ خریدار کوئی نہ تھا۔ وہ بولے ،ان سے بات کرو۔ یہ مکان مضبوط اور خوبصورت ہے ، میرے گھر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر یہ سودا ہو جائے تو درمیانی دیوار گرادیں گے ، ہماری رہائش اور کشادہ ہو جائے گی بعد میں بچوں کے کام آئے گی۔ قادر صاحب نے مالکان سے بات کی اور سودا طے پا گیا۔ وہ تو اس جائداد کو ہر حال میں بیچنا چاہتے تھے۔ مکان چونکہ سستا مل رہا تھا، دادا ابو نے خرید لیا۔ ان دنوں ابھی میرے والد کی شادی نہ ہوئی تھی اور وہ دادا جان کے بڑے بیٹے تھے۔ جب ابو کی شادی ہو گئی، دادا نے ان کو اسی مکان میں شفٹ کر دیا۔ شروع میں امی اور ابو اس میں رہائش پذیر ہوئے لیکن میری والدہ کا جی گھبراتا تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ سے درخواست کی کہ انابی کو میرے پاس بھیج دیں، مجھ کو اکیلے میں ڈر لگتا ہے ۔ یہ ایک لاوارث خاتون تھیں۔ عرصے سے نانی کے پاس تھیں اور امی ان سے مانوس تھیں۔ انابی ہمارے گھر رہنے آگئیں۔ میری پیدائش کے بعد امی کو انابی کی ضرورت ہوئی، سو وہ مستقل ہمارے گھر قیام پذیر ہو گئیں۔ میں چھوٹی سی تھی، وہ مجھے لے کر پائیں باغ میں جا بیٹھتیں۔ خود چٹائی پر آنکھیں موندے لیٹ کر دھوپ سینکتیں اور قریب ہی میں کھلونوں سے کھیلتی رہتی۔ وہاں آم اور جامن کے درخت تھے۔ کھیلتے ہوئے ادھر کی طرف چلی جاتی۔ عموماً تین سال کے بچوں کو باتیں یاد نہیں رہتیں لیکن اس وقت کی باتیں اچھی طرح میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ درخت کے نیچے میری عمر کے اور بھی بچے مجھ کو کھیلتے نظر آتے۔ وہ گورے چٹے او گول مٹول سے ہوتے اور میں ان کے ساتھ کچھ ساتھ کھیلنے لگتی۔ انابی کی شاید آنکھ لگ جاتی تھی اور میں کھیل میں مگن ہو جاتی تب امی کی آواز سنائی دیتی ۔ انابی…! پینکی کو لے آئو ، اس کا کھانا تیار ہے، کھلا کر سلادو، تھک گئی ہو گی۔
امی کی پکار پر انابی کو ہوش آتا۔ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتیں اور مجھے بازوئوں سے پکڑ کر اٹھاتیں۔ وہ اندر چلنے کو کہتیں اور میں ساتھی بچوں کی طرف رہنا چاہتی، تب روتی اور ضد کرتی تو انا بی حیران ہو کر کہتیں ۔ ارے چلو پنکی … آخر تم کس لئے نہیں جارہی ہو۔ میں اشارہ کرتی تب کہتیں۔ یہاں کون ہے، یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ مجھے اپنی طرف کھینچتیں اور میں چلاتی ۔ انابی … وہ … وہ …! نجانے اسے اپنی معصوم آنکھوں سے کیا نظر آتا ہے۔ کیا ہے پنکی ! وہاں …؟ وہ تشویش بھرے لہجے میں پوچھتیں۔ میں درخت تلے بیٹھے بچوں کی طرف اشارہ کرتی۔ اپنے ساتھ کھیلنے والے بچوں کی موجودگی کا احساس دلاتی مگر ان کو کچھ بھی دکھائی نہ دیتا۔ بازوئوں سے پکڑتیں اور زبردستی اندر لے جاتیں۔ بی بی جان … ! دیکھو تو پنکی کو یہ روز ایسی کھیل میں مست ہوتی ہے کہ جب اندر آنے کا کہتی ہوں، ضد کرتی ہے۔ زبردستی لاتی ہوں تو رونے چلانے لگتی ہے۔ شروع میں امی نے دھیان نہ دیا۔ ایک روز وہ خود ادھر آگئیں۔ دیکھا کہ انابی مدہوش پڑی ہیں اور میں درخت کے سائے تلے کھیل میں مگن ہوں لیکن ایسے کہ جیسے کوئی بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے ۔ اس انداز سے میرا کھیلنا امی کو عجیب لگا۔ آگے بڑھ کر مجھے اٹھالیا تبھی رونے چلانے اور مچلنے لگی۔ اتنے میں جو بچے میرے ساتھ کھیل رہے تھے ، وہ اٹھ کر بھاگے اور غائب ہو گئے۔ یہ منظر صرف میری آنکھیں ہی دیکھ سکتی تھیں، کوئی اور نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن بچپن میں مجھے تو اس امر کا ادراک ہی نہ تھا کہ میں کیا دیکھ رہی ہوں جو انابی اور امی کو دکھائی نہیں دیتا۔ گرمیوں کا موسم آگیا۔ اب صبح سے دھوپ تیز ہو جاتی۔ درختوں کے سایوں نے رخ بدل لیا۔ انابی مجھے وہاں نہ بٹھاتیں جہاں میں پہلے بیٹھ کر کھیلا کرتی تھی لیکن وہی بچے دوسری سمت میرے پاس آکر دائرے میں بیٹھ جاتے اور کھیلتے۔ صرف مجھے ہی نظر آتے تھے ، انابی کو نہیں۔ تپش بڑھتی تو وہ مجھے وہاں سے اٹھا کر صحن میں لے جانے لگتیں۔ میں کہتی ۔ انابی! دیکھو وہ سامنے بیٹھے ہیں، مجھے انہی کے پاس جانے دو، ان کے ساتھ کھیلوں گی۔ اب میں خوب فراٹے سے بولنے لگی تھی اور اپنا مافی الضمیر سمجھا سکتی تھی۔ کون ہیں، کہاں ہیں ؟ انابی گھبرا جاتیں۔ دیکھو وہ رہے بچے۔ کونسے بچے بھئی؟ وہاں تو کوئی نہیں ہے۔ وہ مجھے بلا رہے ہیں، کیا آپ کو نظر نہیں آرہے ؟ نہیں تو … جانے کیا کہتی ہو ، چلو۔ میں مچل جاتی۔ ادھر کو بھاگتی، جدھر وہ ہوتے اور انابی حیران ہو جاتیں۔ ایک دن انابی نے والدہ کو بتایا۔ وہ مجھ کواس وقت دیکھنے آئیں جب میں پائیں باغ میں اپنی مخصوص جگہ پر کھلنے میں مصروف تھی۔ میرے کھلونے ایک طرف پڑے تھے اور میں ان بچوں کے آگے پیچھے بھاگ رہی تھی جو صرف مجھے نظر آتے تھے اور انابی کو دکھائی نہ دیتے۔ میری ماں دنگ رہ گئیں۔ انہوں نے عجب انداز سے کھیلتے پایا جیسے کہ میں کسی کے ساتھ کھیل رہی ہوں، بھاگ دوڑ کر رہی ہوں۔ وہ ڈر گئیں اور مجھے دادی کے پاس لے گئیں۔ ان کو احوال بتایا۔ وہ بولیں۔ بہو… ! یہ مکان عرصے سے بند پڑا تھا ممکن ہے کسی اور مخلوق نے بھی اس میں بسیرا کر لیا ہو۔ تم اس کو درختوں تلے مت کھیلنے دیا کرو بلکہ پائیں باغ کی طرف جانے والا دروازہ ہی بند کر دو۔ والدہ نے ایسا ہی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں چڑچڑی اور بیمار ہو گئی، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ تب دادی مجھے دم کرانے ایک مولوی صاحب کے پاس لے گئیں۔ اب وہ روز گھر آکر مجھ پر دم درود کرتے تب میں نے کھانا، پینا شروع کر دیا لیکن پائیں باغ کو جانے کی اب بھی ضد کرتی کیونکہ میرے ساتھی وہاں تھے جن کے ساتھ کھیل کر خوش ہوتی تھی۔
انہی دنوں میری بہن پیدا ہوئی۔ اب میں اکیلی نہ تھی۔ چھوٹی کے ساتھ خوش ہوتی تھی۔ انابی اسے لے کر صحن میں بیٹھتیں اور امی کھانا بناتیں۔ ایک روز وہ برآمدے میں جھولے میں لیٹی تھی اور انابی پاس بیٹھی تھیں۔ میں بھی پالنے سے لگی تھی کہ اچانک انابی نے جمائیاں لینی شروع کر دیں، پھر وہ فرش پر لیٹ کر سو گئیں، تبھی میں نے دیکھا کہ ایک عورت پالنے کے قریب آئی، اس نے ننھی کو بازوئوں میں اٹھا لیا اور درخت کی طرف چلی گئی۔ یہ منظر دیکھ کر میں رونے لگی تو انابی کی آنکھ کھل گئی۔ میں نے پالنے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ حیران ہو گئیں کہ ننھی کدھر گئی ہے تبھی میں نے روتے ہوئے درخت کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت میں بول نہ پارہی تھی جیسے زبان کسی نے پکڑ لی ہو۔ انابی گھبرا کر اندر کو دوڑیں اور امی کو پکارا۔ بی بی جان …! کہاں ہو ؟ ادھر آئو۔ کیا شگفتہ کو تم اٹھا کر لے گئی ہو ؟ وہ پالنے میں نہیں ہے۔ قبل ازیں امی آتیں، مجھ کو عورت دوبارہ برآمدے میں نظر آئی۔ اس نے میری ننھی منی بہن کو پھر سے پالنے میں لٹا دیا، خود درخت کی سمت چلی گئی اور غائب ہو گئی۔ امی نے دیکھا کہ ننھی تو پالنے میں لیٹی ہے۔ بولیں انابی… کیا ہو گیا ہے تم کو بچی تو یہ سورہی ہے اور تم واویلا مچارہی ہو ؟ انابی بیچاری لاجواب تھیں۔ میں بتانا چاہتی تھی سب کچھ مگر بتا نہ سکی، زبان نے ساتھ نہ دیا۔ وہ عورت بعد میں بھی کئی بار پائیں باغ میں اور نلکے پر مجھے دکھائی دی۔ کبھی بچے اس کے ساتھ ہوتے اور کبھی اکیلی ہوتی۔ وقت گزرتا رہا، سمجھ آتی جارہی تھی۔ اس گھر میں کسی کو کچھ نہ کچھ غیر معمولی ضرور محسوس ہوتا تھا لیکن ایک میں ہی تھی جو کبھی کچھ اور کبھی کچھ دیکھتی تھی اور کسی سے بیان بھی نہ کر سکتی تھی۔ ایک بار دیکھا کہ کچھ لڑکے اور لڑکیاں بیری کے درخت کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں اور دو عور تیں نلکے پر کپڑے دھو رہی ہیں۔ ایک بار جاڑے کے موسم میں دیکھا کہ درخت پر آم لگے ہیں۔ ضد کرتی ۔ انابی… آم توڑ کر دو۔ وہ کہتیں ۔اے ہے ، یہ کیسی بن موسم برسات ہے بھئی، کیا سخت جاڑے میں کبھی آم کا پھل آتا ہے ؟ کہاں ہیں آم ؟ وہ دیکھو وہ رہے۔ میں اصرار کرتی۔ لا دونا۔ ارے بھئی مجھے نہ ستائو ، وہاں کچھ نہیں ہے۔ چلواند … کبھی کھینچتی ہوئی کمرے میں لے آتیں۔ میں روتی رہ جاتی۔ جانے یہ کیسا کرشمہ تھا۔ گھر میں مجھے ہی کچھ نہ کچھ غیر معمولی نظر آتا تھا، کسی اور کو نہیں۔ خدا جانے ان دنوں میری آنکھوں میں کوئی ایسی قوت در آئی تھی جو ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتی تھی جن کو عام آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ سات سال کی عمر میں مجھے دور دراز فاصلے پر ہونے والی باتیں سنائی دینے لگیں۔ اگرامی نانی کے گھر بیٹھی ان کے ساتھ باتیں کر رہی ہوتیں تو میرے کان ان باتوں کو سن رہے ہوتے تھے، حالانکہ نانی کا گھر ہمارے گھر سے بیس کوس پر تھا اور یہ ایک ناممکن بات تھی۔
رات کو اپنے بستر پر لیٹی ہوتی اور ساتھ والے گھر میں ہونے والی دادا، دادی، چچا، چچی اور ان کے بچوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو میرے کان سن رہے ہوتے۔ صبح ان کو بتاتی کہ رات آپ لوگوں نے یہ باتیں کی تھیں، وہ حیرت سے منہ تکنے لگتے جیسے کہ میرے کانوں میں آوازیں کیچ کرنے والے ریڈیائی آلات لگے ہوں۔ میرے گھر والے سب پریشان تھے کیونکہ میری کہی باتیں صحیح پیش گوئیاں ثابت ہو رہی تھیں۔ کسی صبح کہتی۔ ابو آج گاڑی پر مت جائیے۔ آپ کی گاڑی کو ٹکر لگے گی اور ایسا ہو جاتا۔ یہ میں نہ کہتی تھی، کوئی میرے دل میں کہتا تھا۔ دادا کے انتقال کے بعد میرے ساتھ غیر معمولی واقعات زیادہ ہونے لگے ۔ میرا تو بچپن تھا، معصوم عمر تھی۔ جو دیکھتی، سنتی، بیان کر دیتی۔ کچھ عالموں سے پوچھا۔ انہوں نے ابا اور چچا کو مشورہ دیا کہ اس گھر کو چھوڑ دو، کسی اور جگہ سکونت اختیار کر لو۔ لگتا ہے گھر بھاری ہے اور آپ کی بچی پر اثر ہو رہا ہے۔ ابو اور چچا نے تگ و دو شروع کر دی بالآخر دونوں مکان فروخت ہو گئے۔ سامان جانے لگا۔ جس روز ہمارا وہاں آخری دن کا قیام تھا، رات کو میں نے اپنی کھڑکی سے دیکھا کہ کچھ لوگ صحن میں جھاڑو دے رہے ہیں اور عورتیں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں دیئے لئے تھے جن کی روشنی چاندنی جیسی تھی۔ وہ میری طرف افسردہ نگاہوں سے دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگے۔ یہ وہی بچے تھے جن کے ساتھ میں بچپن میں کھیلا کرتی تھی۔ اب میری عمر آٹھ سال تھی اور کافی شعور آچکا تھا۔ صبح ہم نے وہ گھر چھوڑا اور نئے گھر میں چلے گئے۔ بتاتی چلوں کہ میں بچپن میں بھی کسی شے سے خوف نہیں کھاتی تھی۔ بلیوں اور کتوں کو دیکھتی تو ان کے پیچھے دوڑنے لگتی۔ بچے خصوصاً چھوٹے ہوں تو ایسی چیزوں سے ڈر جاتے ہیں لیکن مجھ میں ڈر تھا ہی نہیں۔ بہر حال جوں جوں بچپن رخصت ہونے لگا، مجھے ڈر بھی محسوس ہونے لگا۔ اب میں اکیلے اندھیری جگہوں کی طرف جانے سے ڈرنے لگی اور کتے، بلیوں سے خوف کھانے لگی۔ نئے گھر میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ صد شکر کہ وہ غیر معمولی حالات اور چیزیں جو پرانے گھر میں دیکھی تھیں، وہ اب نہیں دیکھتی تھی۔ وہ سب کچھ بچپن کی باتیں ماضی کا قصہ بن چکی تھیں اور پرانے گھر میں ہی رہ گئی تھیں۔ نئے گھر میں والد صاحب نے آتے ہی خیرات کی اور گھر کا صدقہ دیا۔ بکرے کاٹ کر غریبوں میں کھانا تقسیم کیا اور چالیس دن تک تلاوت قرآن بھی نئے مکان میں کرواتے رہے کہ گزشتہ گھر میں جو غیر مرئی طاقتیں اگر تھیں تو وہ یہاں ہمارا پیچھا نہ کریں۔ یہ نیا گھر ہم کو راس آیا، مبارک ثابت ہوا۔ کسی وہم اور وسوسے نے بھی نہیں گھیرا۔ سبھی پرسکون اور مطمئن ہو گئے مگر میں آج تک مطمئن نہیں ہوں۔ ہمہ وقت یہی سوچتی رہتی ہوں کہ بچپن میں پرانے گھر کے اندر جاگتی آنکھوں سے جو دیکھا کرتی تھی، وہ سب آخر کیا تھا؟ بھلانا چاہوں بھی تو ان مناظر کو بھلا نہیں سکتی۔