یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر تقر یباسات برس تھی۔ میں ایک اچھے خو شحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ والد صاحب خاصے تعلیم یافتہ اور دوسرے شہر میں ایک اعلی عہدے پر فائز تھے ، جہاں رہائش کے لئے ان کے پاس ایک بہت بڑا بنگلہ تھا۔ ابو وہاں اکیلے رہتے تھے۔ وہ چھٹی کے روز ہم سے ملنے آتے تھے۔ان کے ساتھ رہنے میں ہمیں کوئی مسئلہ بظاہر در پیش نہیں تھالیکن یہاں اماں نوکری کرتی تھیں۔ امی بی اے ،بی ایڈ تھیں۔ایک قر میں ہائی اسکول میں کام کرتی تھیں۔اس لئے وہ اس سہولت کے پیش نظر نوکری چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں ، حالانکہ ابو کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی لیکن امی اپنی آزادی کسی قیمت پر دائو پر نہیں لگاسکتی تھیں۔
ایک تعلیم یافتہ گھر ہونے کے باعث ہمارے محلے میں کافی عزت تھی۔اس لئے امی کی آزادی پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا تھا۔ چپن میں انسانی ذہن ایک صاف کاغذ کی مانند ہوتا ہے۔ اس پر اگر وقت کا قلم کچھ لکھ دے تو و دانمٹ ہو جاتا ہے ۔ یہ واقعہ بھی میری تمام زندگی پر ایک گہرے سائے کی طرح حاوی ہے۔اس حادثے کے علاوہ میری زندگی میں اور کوئی ناخوشگوار یاد نہیں ہے لیکن اس کا اثر اتنا شدید ہے کہ میر اطر ز زندگی اس نے بدل دیا ہے۔ بابا د ین محمد روز ہمارے ہاں دودھ دینے آیا کر تا تھا۔ وہ اپنے وقت کا بہت پابند تھا لیکن کچھ دنوں سے وہ دیر سے آرہا تھا۔ ایک دن امی نے پوچھا۔ کیا معاملہ ہے ؟ تو کہنے لگا۔ بی بی جی ! بڑھاپے نے فرائض سے بھی غافل کر دیا ہے۔ بیماری بھی کسی دشمن کی طرح تاک میں بیٹھی تھی۔ ذراسا اعضاء کو کمزور پایا حملہ آور ہو گئی۔اس نے یہ بھی کہا کہ آئند ہ دودھ دینے میرا بیٹا آیا کرے گا۔ پھر روزانہ وہ اپنے بیٹے کو دودھ دینے بھیج دیتا تھا۔ اس کا بیٹا فیضان یہی کوئی بتیس چونیتس برس کا ہو گا۔ با باد بین محمد تھا تو غریب لیکن ہر حال میں بیٹے کو تعلیم دلوانا چاہتا تھا، اسی لئے بڑھاپے میں اس وقت تک مشقت کر تار ہا جب تک جسم میں طاقت رہی۔ اس غربت کے عالم میں بھی اس نے اپنے بیٹے کو بی اے تک تعلیم دلائی۔ امتحان پاس کرنے کے بعد اس نے دودھ تقسیم کرنے کا کام فیضان کے سپر د کر دیا تھا۔
میں اسے فیضان بھائی کہہ کر پکارتی تھی۔ شروع شروع میں تو وہ گھر کے گیٹ پر ہی دودھ دے کر چلا جاتا تھالیکن بعد میں میری والد واسے اندر بلا کر بھی دودھ لینے لگیں اور پھر روز کا یہی معمول بن گیا۔ فیضان ایک بظاہر سلجھا ہوا، تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ وہ بے ضرر سا انسان معلوم ہوتا تھا۔ وہ باتیں کرنے کا بہت شوقین تھا۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اپنے کالج کے زمانے میں بھی بحث مباحثوں میں حصہ لیتارہا تھا اس لئے جب بھی میری والدہ سے اندر بلا کر دودھ لیتیں ، وہ کسی نہ کسی موضوع پر ضرور تبادلہ خیال کر تا تھا۔ ادھر میری والدہ بھی کچھ کم نہ تھیں۔ وہ بھی گفتگو کرنے کی اچھی خاصی ماہر تھیں۔ جب کسی بات پر ان کی بحث چھٹر جاتی تو کافی دیر تک جاری رہتی۔ گفتگو کا یہ سلسلہ روز بروز دراز ہونے لگا۔ والدہ، فیضان کی ذہانت سے بہت متاثر تھیں۔ وہ اس کی بہت تعریفیں کرتی تھیں۔ ہر روز فیضان صبح سات بجے ہی ہمارے گھر آ جاتا اور باورچی خانے میں جہاں میری والدہ ناشتہ تیار کر رہی ہو تیں ، بیٹھ جاتا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتے ۔ امی کے اسکول جانے تک وہ وہاں بیٹھارہتا، پھر گھر چلا جاتا ۔
ان دونوں کے درمیان ہر روز ایک نئے موضوع پر بحث ہوتی تھی۔ میں اکثر ان دونوں کے پاس بیٹھ کر ناشتہ کرتی تھی لیکن میری ننھی سی عقل ان کی فلسفیانہ گفتگو سمجھنے سے قاصر رہتی تھی۔ میں یہ کہہ کر ہمیشہ ہر خیال کو جھٹک دیتی تھی کہ بڑوں کی باتوں میں میرا کیا عمل دخل۔ بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانیں ، لہذا میں چپ چاپ ناشتہ کرتی اور اسکول چلی جاتی۔ دو پہر کو جب اسکول سے واپس آتی تھی تو فیضان کی صورت ہی گھر میں سب سے پہلے دیکھنے کو ملتی تھی۔ دو پہر کا کھانافیضان اپنے گھر کھایا کرتا تھا۔ والدہ نے تو کئی بار کھانا کھانے کی پیشکش کی لیکن ہر بار اس پیشکش کو رد کر دیتا تھا۔ شاید وہ یہاں بس باتوں سے پیٹ بھر نے آتا تھا۔
صبح جب والدہ اسکول جاتیں تو وہ بھی گھر چلا جایا کرتا تھا۔ دو پہر کوامی آرام کرتی تھیں ، وہ اس لئے نہیں آتا تھا۔ شام ہوتے ہی وہ کسی بوتل کے جن کی طرح پھر حاضر ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ وہ ہمارے گھر کا ایک فرد لگنے لگا۔ اب والد ہ گھر سے باہر کے تمام کام بھی اسی سے ہی کروانے گئی تھیں ، مثلاً گوشت لا نا، بل و غیر ہ جمع کروانا یا سبزی لانا۔ سودا سلف لانے کے بعد جو پیسے بچ جاتے ، وہ اس سے کبھی واپس نہ لیتی تھیں۔ان تمام کاموں کے بدلے وہ سارا دن ہمارے گھر میں براجمان رہتا تھا۔ وہ صرف رات کو سونے کے لئے اپنے گھر جاتا تھا۔ جس دن والد صاحب نے آنا ہوتا تھا، اس دن وہ جلد گھر چلا جایا کرتا تھا۔ امی ،ابو جان کو اس کے متعلق بتا چکی تھیں۔ابو نے بھی اس کے آنے جانے پر کوئی اعتراض نہ کیا تھا۔ ویسے بھی وہ دقیانوسی خیال رکھنے والے نہیں تھے۔ وہ پڑھے لکھے اور کھلے دماغ کے آدمی تھے ۔ابوا کثر جمعرات کو آتے تھے ۔
جمعہ کو وہ سارے گھر کے کام نمٹانے کی کوشش کرتے لیکن چھٹی ہونے کے باعث بعض کام وہ نہ کروا سکتے تھے جیسے بجلی کا بل ، کوئی اور دفتری کام ۔ تو وہ جاتے ہوۓ اکثر یہ کام فیضان کے ذمے لگا جایا کرتے تھے۔۔۔ والد صاحب امی پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔اس لئے وہ فیضان پر بھی بھروسہ کرتے تھے۔ میری والد نے بھی فیضان کی محلے بھر میں تعریفیں کر دیں کہ بہت نیک لڑکا ہے جو اتنا کام آتا ہے ، ورنہ کون اس طرح دوسروں کی مدد کر تا ہے۔ محلے والے میری والد ہ اور والد کی بہت عزت کرتے تھے ۔اس لئے والد ہ جو کہتی تھیں ، وہ مان لیا کرتے تھے۔ ہم لوگ تو خیر عزت دار تھے ہی، ہمارے گھر آنے جانے کی وجہ سے فیضان کو بھی محلے میں اچھا سمجھا جانے لگا۔اس کی نیکیوں کے چرچے بھی زبان زد عام ہو گئے۔ میں عمر کے اس دور سے گزر رہی تھی کہ سب کچھ دیکھتی تھی ، سنتی تھی، کچھ باتیں دماغ پر نقش بھی ہوتی تھیں لیکن میں ابھی انہیں سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ میں سرسری سادیکھتی تھی اور پھر کھیل کود میں مصروف ہو جاتی۔
اماں چونکہ ابو سے مقابلہ کر کے ہم سب کو اپنے قریب رکھے ہوۓ تھیں ، اس لئے انہوں نے ہماری تربیت میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ پڑھی لکھی ماں ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہمیں ہر قسم کی احساس کمتری سے بچایا ہوا تھا۔ میں بھی ماں کی طرح بولنے کی اچھی خاصی صلاحیت رکھتی تھی۔ اتنی سی عمر میں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتی تھی اور انعامات حاصل کرتی تھی۔ کھیل کو د اور شرارتوں میں ، میں بھائیوں سے آگے تھی۔ میں ہر کسی سے اچھے طریقے سے ملتی تھی۔ سب میری ماں کی دی ہوئی تربیت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ہمیں اس سلیقے سے پالا تھا کہ ہم میں کوئی کمی نہ تھی ، لیکن انسان پھر انسان ہے جس کو خطا کا پتلا کہتے ہیں۔ امی سے فیضان کے معاملے میں کوتاہی ہو گئی۔ وقت یونہی گزر تارہا۔ اس بات کو اور سات سال بیت گئے ۔ وہ پہلے کی مانند آج بھی اسی طرح ہمارے گھر آتا جاتا تھا۔ اب شعور کارس قطرہ قطرہ امرت بن کر میرے دل و دماغ میں اترنے لگا تھا اور میں اس دور کی طرف تیزی سے قدم بڑھارہی تھی جو ماں ، باپ کی نیند میں اڑادیتا ہے ۔ جب لڑ کی جوان ہو جاتی ہے تو ماں ، باپ کے لئے بوجھ اور پر یشانی کا باعث بنتی ہے۔
میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی لیکن گھر کے ماحول اور دولت کی فراوانی نے میری معصومیت پر کسی قسم کی کوئی ضرب نہیں لگائی تھی۔ میں معصوم اور سادہ دل تھی۔ ویسے بھی لاابالی ! امی کو خود بھی اس بات کا احساس نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے مجھ میں یہ احساس اجا گر کرایا تھا کہ میں اب بچی نہیں رہی۔ اب اکثران کے کانوں میں یہ آواز میں پڑنے لگیں کہ تمہاری بیٹی جوان ہورہی ہے اس لئے تمہارے گھر میں کسی غیر مرد کا آنامناسب نہیں ہے لیکن والد ہ یہ بات ایک کان سے سنتیں اور دوسرے کان سے نکال دیتیں۔ وہ یہ کہہ دیتیں کہ میری بچی ابھی بہت چھوٹی ہے ،ابھی تو اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ میری عقل اتنی بڑی ہو گئی تھی کہ اب کسی کی نگاہیں میں اپنے وجود پر محسوس کر سکتی تھی۔اب گھر میں فیضان کا آنا ناگوار گزرنے لگا، کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ جب بھی اس کے سامنے جاتی ،اس کی نظر میں مجھے اپنے جسم کے آر پار ہوتی نظر آتیں۔ مجھے اس کاد دیکھنا برا لگتا۔ سبھی تو دل چاہتا کہ اس کی آنکھیں نوچ لوں۔ ایسا کیوں ہوتا تھا، اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ نہ مجھے اس کی سمجھ تھی ، اس لئے نہ تو میں اس بارے فیضان سے کوئی بات کرتی تھی اور نہ ہی گھر والوں کو اس کے متعلق کچھ بتایا تھا۔ بتاتی بھی تو کسے کیوں کہ امی جان مجھے ابھی تک بچی سمجتھی تھیں جبکے میری سوچ میں اب واضح اور نمایاں بڑا پن نمودار ہو رہا تھا۔ اب جسے میں اچھی طرح محسوس اور سمجھ سکتی تھی۔ اس ہی شعور نے مجھے آہستہ آہستہ یہ بھی سمجھادیا کہ فیضان کی نظر میں مجھے کیوں بری لگتی ہیں کیو نکہ ان میں پاکیزگی نہیں تھی۔
ایک دن والدہ کو خبر ملی کہ ان کی بہت ہی عزیز دوست کا انتقال ہو گیا ہے ۔ کل ان کا جنازہ ہے ۔ وہ دوسرے شہر میں رہتی تھی۔ امی کو جنازے کے لئے یقیناًدوسرے شہر جانا تھا اور انہیں رات بھی وہیں بسر کرنی تھی ،اس لئے فوری تار بھجواکر نانی جان کو بلوایا تا کہ وہ میرے پاس رہیں۔ نانی جان آگئیں توامی فوراجنازے میں شرکت کے لئے روانہ ہو گئیں۔ ہر پل مدد کو تیار فیضان نے انہیں بس میں سوار کروادیا۔ میری نانی بہت ضعیف عورت تھیں۔ ان کی بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ وہ کسی کی صورت دیکھ کر اسے پہچان نہیں سکتی تھیں۔ صرف آواز ہی سن سکتی تھیں اور آواز کے ذریعے لوگوں کو پہچاننے کی کوشش کرتی تھیں۔ شام کا وقت تھا۔ امی کو گئے ہوۓ کافی دیر ہو چکی تھی۔ میرے دونوں بھائی باہر کھیلنے گئے ہوۓ تھے۔ وہ تقر یبارات کو ہی لوٹتے تھے۔ میں اپنے کمرے میں پڑھائی میں مصروف تھی اور نانی جان برابر والے کمرے میں نماز پڑھ رہی تھیں۔ نانی کو سنائی بھی بہتر طریقے سے نہیں دیتا تھا۔ اتنے میں فیضان میرے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا کمرے میں آنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی کیو نکہ ہمارے گھر کا بڑا گیٹ اکثر کھلا رہتا تھا۔ گھر میں داخل ہونے والا کسی بھی کمرے کا رخ کر سکتا تھا۔
تعجب کالمحہ تو اس وقت آیا جب فیضان نے امی کے متعلق مجھ سے پوچھا۔ میں حیران رہ گئی ، کیونکہ امی کو وہ خود ہی گاڑی میں سوار کرا کے آیا تھا اور اب انجان بنا معصومیت سے امی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ میں سمجھی وہ مذاق کر رہا ہے۔ میں نے کہا۔ تعجب ہے انہیں آپ ہی تو صبح گاڑی پر سوار کر کے آۓ ہیں۔ کیا انہوں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ وہ کل واپس آئیں گی۔ یہ جواب سنتے ہی وہ کمرے میں چلا آیا اور اس چار پائی پر بیٹھ گیا جس پر میں بیٹھی کام کر رہی تھی۔ دو چار منٹ خاموش رہنے کے بعد اس نے پڑھائی کے متعلق مجھ سے سوالات کرنے شروع کر دیے۔ میں نے بڑا سمجھتے ہوۓ ٹھیک ٹھیک جواب دیئے۔ میں اسے تعلیم کی راہ میں پیش آنے والے مسائل اور مشکل سوالات کے متعلق بتانے لگی۔ وہ کتاب دیکھنے کی غرض سے میرے نزدیک آ گیا۔ معصوم سی سوچ رکھنے والی لڑکی یہ نہ جان سکی کہ اس کے دل میں کیا فتور چھپا ہوا ہے ۔اس بات کا اندازہ بھی مجھے نہیں تھا کہ مرد کی نیت بدلنے میں صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں۔ وہ چند لمحوں میں ہی بڑی محنت سے بنائی ہوئی ساری دیواروں کو عبور کر جاتا ہے ۔ میں نے اس کے عزائم سمجھنے میں بہت دیر لگادی تھی۔ وہ باتیں کرتے ہوۓ ایک دم اٹھا اور آہستہ آہستہ دروازے تک جا پہنچا۔ میں یہ سمجھی کہ وہ جانے والا ہے۔ میں اسی طرح اس کی باتوں کے جواب دیتی رہی، مجھے دھچکا اس وقت لگا جب اس نے دروازہ فور بند کر دیا۔ میں نے اس کے چہرے پر درندگی دیکھی توروح کانپ گئی۔
اپنا انجام بہت برا نظر آنے لگا۔ میری حالت پنجرے میں قید بلبل کی سی ہو رہی تھی۔ میں نے بھاگ کر اس قفس سے آزاد ہو نا چاہا، جہاں میری عزت کو در گور کیا جانے والا تھا۔ میری عزت کے ساتھ ساتھ میں بھی زند ودفن ہو جاتی۔ نانی کو اس کے آنے جانے کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ مجھے ڈھونڈتی میرے دروازے تک فرشہ بن کر آ گئیں وو ڈر گیا اور بھاگ گیا نانی اندر آئیں، میں بھاگ کر ان کے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔ وہ سمجھیں کہ میں امی کی بہت لاڈلی ہوں اس لئے ان کی غیر موجودگی نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔ وہ مجھے گلے سے لگا کر پیار کرنے لگیں لیکن اصل بات کو وہ نہ سمجھ سکیں۔ اپنی رسوائی کا چرچا کرنے کی مجھ میں بھی ہمت نہ تھی۔ پہلے تو سوچا کہ نانی کو سب کچھ بتادوں لیکن پھر میں نے یہ خیال بدل دیا۔ میں امی کو یہ سب کچھ بتانا چاہتی تھی تا کہ انہیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ آج تک آستین میں سانپ پالتی رہی ہیں۔ وہ تمام رات میں نے رو کر گزار دی۔
آنکھوں کے سوتے تھے خشک ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اگلے روز جب میری والدہ تشریف لائیں تو میں فور ان کے گلے لگ کے رونے لگی۔ روتے ہوۓ ساراواقعہ کہہ سنایا۔ مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ میری ماں میرے لئے ایک مضبوط پناہ گاہ ثابت ہو گی ۔ وہ مجھے اپنی محبت اور شفقت کے مضبوط حصار میں لے کر اس بھیٹر یے سے ضرور انتقام لے گی۔ سمجھتی تھی کہ وہ مجھ پر بری نظر ڈالنے والے کی آنکھیں نکال دیں گی اور ایسے شخص کو کبھی بھی اپنے گھر کی دہلیز پر قدم نہیں رکھنے دیں گی جس نے ان کی بیٹی کو برباد کیا لیکن میرے تمام اندازے غلط ثابت ہوۓ۔ میری ماں نے الٹا مجھ ہی کو سمجھاناشروع کر دیا کہ میں فیضان کے سامنے نہ آیا کروں، تھوڑی ہی دیر میں فیضان آ گیا۔ اسے دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ دونوں پہلے کی طرح پھر باتوں میں مصروف ہو گئے۔اس وقت میرے تمام اعتماد کے رشتے کر چیوں کی صورت بکھر گئے۔
ان کرچیوں کی چبھن ہمیشہ کے لئے دل میں اتر گئی۔ میں مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔ حال یہ تھا کہ جب بھی فیضان کو دیکھتی ، مجھے اپنی ماں سے نفرت ہونے لگی۔ سوچتی کیاد نیا میں کوئی ماں ایسی بھی دیکھی ہے جو محض چند کام کروانے کی خاطر اپنی اکلوتی بیٹی کو غیر محفوظ کر دے لیکن اس بات کی جیتی جاگتی مثال میری ماں کی شکل میں میرے سامنے تھی۔ میرے اندر ایک لاوا پک رہا تھا جس کی تپش میں ، میں خود ہی جل رہی تھی۔ نفسیاتی اور اعصابی اعتبار سے میں بہت کمزور ہو گئی۔ ذراذراسی بات میرے اعصاب اور مزاج میں کشید گی اور تنائو پیدا کرتی۔ ماں اور گھر سے کوئی دلچسپی نہ رہی، جینے کا سہارا اب صرف میرا باپ تھا۔ دن رات سلگتی رہی۔ آخر میں نے میٹرک کر لیا۔ بہت اچھی طالبہ تھی لیکن میر اسب کچھ فیضان کی نذر ہو گیا۔ اس نے مجھے اس قدر خوف زدہ کر دیا کہ اپنے اندر کی سر گوشیوں سے بھی خوف کھانے لگی، جس نے میری پڑھائی کو بھی متاثر کیا۔ میٹرک کرنے کے بعد بھی اچھے کالج میں داخلے کا مسئلہ آیا توامی کہنے لگیں کہ میں اپنے والد کے پاس چلی جائوں جبکہ والد صاحب کا خیال تھا کہ ہم سب کو ہی ان کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہو نا چاہئے ۔ امی کے ہزار روکنے اور نہ چاہنے کے باوجود ابو نے تبادلہ دوسرے شہر میں کروا لیا۔ جس دن ہم لوگ جار ہے تھے ، میں بہت خوش تھی کیونکہ ایک منحوس صورت ہمیشہ کے لئے میری نظروں سے دور ہور ہی تھی۔ میں اپنے والد کے تحفظ کے مضبوط قلعے میں جارہی تھی۔
ہم نے وہ گھر چھوڑ دیالیکن ہزار کوشش کے باوجود اس تلخ یاد کو اسی گھر میں دفن نہ کر سکی جو میری روح کا ناسور بن گئی۔اب میں سوچتی ہوں کہ شاید جب تک میری ماں میرے سامنے ہے ،اس واقعے کو نہیں بھول سکتی، جس نے مجھے وقت کے تپتے ہوئے ریگزار میں ننگے پائوں جلنے کے لئے چھوڑ دیا اور میں آج تک آبلہ پاسی دشت میں بھٹک رہی ہوں