Woh Zakham Jo Khabi Bhartey Nahi | Teen Auratien Teen Kahaniyan
جب تقسیم برصغیر ہوئی اور نیا ملک پاکستان وجود میں آیا، ان دنوں میں نے جنم لیا تھا ۔ میرے والدین کو بھی دیگر بہت سے خاندانوں کی طرح ہجرت کرکے نئے وطن کی جانب روانہ ہوئے۔ وہ ایک قافلے کے ساتھ آرہے تھے کہ راستے میں ابو کو شہید کردیا گیا اور ماں لاوارث عورتوں میں شامل ہوکر یہاں پہنچی۔
امی جیل روڈ لاہور کیمپ میں تھیں اور میں اس وقت تین ماہ کی ان کی گود میں تھی ۔ سنا ہے کہ عالم یہ تھا کہ ہجرت کرکے آنے والی عورتیں بھوک وافلاس کے خوف سے اپنے معصوم بچوں کو دوسروں کے حوالے کررہی تھیں اور کیمپ کے ناظمین ہر طرح سے تسلی کرنے کے بعد ان بچوں کو خوشحال خاندانوں کے سپرد کررہے تھے ۔
والد کی شہادت سے امی کے ذہن پر شدید اثر ہوا ۔ وہ میری ذات سے بیگانہ روتی رہتی تھیں مجھے اپنا دودھ تک نہ پلاتی تھیں … تبھی ایک نہایت رحمدل اور شریف النفس شہری جو بے اولاد تھے کیمپ میں آئے اور میری والدہ کی حالت دیکھی تو مجھے گود لینے کی ہامی بھرلی ۔
کیمپ والوں نے میری ماں سے پوچھا … وہ تو صدمے سے بے حس اور نیم پاگل ہورہی تھیں انہوں نے فوراً مجھے اشرف صاحب کے حوالے کردیا ۔ یوں اولاد کا بوجھ افلاس کے خوف نے ہلکا کردیا۔
ابھی میں صرف تین سال کی تھی کہ میرے منہ بولے والد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔ منہ بولی ماں کا کوئی ایسا رشتہ دار نہ تھا جو ہم ماں بیٹی کا بوجھ اٹھاتا ۔ اشرف صاحب کی کمائی جو جمع پونجی کی صورت میں تھی مہینوں میں ختم ہوگئی یوں ہم ماں بیٹی کے گزر بسر کا کوئی آسرا نہ رہا ۔
میری نئی ماں جن کو میں اماں کہتی تھی انہوں نے لوگوں کے گھروں میں کام کیا، لوگوں کے جھوٹے برتن دھوئے میلے کپڑے دھوئے۔ محنت مزدوری سے بیمار پڑ جاتی تھیں مگر عزم کی پکی نے میرا دامن نہ چھوڑا اور نہ مجھے کسی اور کے حوالے کیا ۔ میری پرورش غربت وافلاس میں ہوتی رہی، ابو زندہ تھے تو ہم سرکاری مکان میں رہتے تھے ۔ ان کی وفات کے بعد ریلوے کا یہ کوارٹر بھی خالی کرنا پڑا اور اب ہمارا اپنا کوئی گھر نہ تھا ۔
جس کوٹھی میں سرونٹ کوارٹر ہوتا امی وہاں کام سنبھال لیتں تاکہ سرچھپانے کا ڈھکانہ مل جائے ۔ یوں لوگوں کے گھروں میں سرچھپاتے چھپاتے تیرہ سال کی ہوگئی ۔
تیرہ سال کی لڑکی کے ساتھ غیروں کی چھت تلے رہنا معنی رکھتا ہے ۔ پھر اچھی شکل وصورت بھی تھی ۔ اماں کو میری فکر نے گھلانا شروع کردیا ۔ جوان لڑکی کا ساتھ ہو اور بیوہ بے آسرا ہو تو یہ دنیا ایک منہ کھولے اژدہے کی طرح نظر آتی ہے ۔
امی نے ایک بیگم کے توسط سے کسی شریف گھرانے میں میرا رشتہ طے کردیا لیکن جب ان لوگوں کو ہماری غربت کا اندازہ ہوا انہوں نے ٹکا سا جواب دے کر منگنی توڑ دی ۔
اس روز میری ماں خوب ہی روئیں جن کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو جہیز کہاں سے دے سکتے تھے ۔ ان کم عقلوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ مجھ میں کیا کیا خوبیاں ہیں، بس یہ تو زمانے کا چلن ہے کہ لوگ اچھی چیز کو نہیں اچھی دکان کو پہلے دیکھتے ہیں پھر میں تو گدڑی کا لال تھی ۔
انہی تفکرات سے امی بیمار رہنے لگی تھیں۔ ایک بار بخار کی دوا لینے قریبی کلینک گئیں، میں ساتھ تھی وہاں ڈاکٹر صاحب کے کمپائونڈر نے باتوں باتوں میں حال دریافت کیا تو امی نے اسکو اپنے تفکرات سے آگاہ کیا ۔ وہ ایک ہمدرد نوجوان تھا ماں کے آنسوؤں نے اسکا دل گداز کردیا۔
اس نے امی جان سے میرا رشتہ مانگ لیا ۔ امی نے کہا سوچ کرجواب دوں گی ۔ پھر ڈاکٹر صاحب سے وحید کے بارے دریافت کیا انہوں نے اسکی بہت تعریف کی تو والدہ کی ہمت بندھ گئی یوں میرا رشتہ وحید سے ہوگیا ۔
ہم جس بیگم کے سرونٹ کوارٹر میں رہتے تھے وہ بھی ہمدرد تھیں انہوں نے میری شادی میں تعاون کیا۔ ان کے گھر میرے ہاتھوں میں مہندی لگی لیکن مہندی والے دن نہ کوئی سہیلی تھی اور نہ رشتہ دار تھے بس بیگم کی لڑکیاں تھیں جنہوں نے شادی کے گیت ٹیپ ریکارڈ پر ہلکی آواز میں لگا دیئے کہ بیگم کے سسر موسیقی کو برداشت نہ کرتے تھے ۔
میں نے کئی لڑکیوں کی شادیاں دیکھی تھیں جن کے گرد سہیلیوں کا جمگھٹا رہتا تھا اور وہ گیت گاتی تھیں مگر میری شادی تو ایسی تھی جیسے لاوارث لڑکیوں کی ہوتی ہوگی ۔ کون گیت گاتا اور کون مہندی لگاتا ۔
نکاح کے وقت جب بیگم نے آہستہ سے ماں کو کہا کہ نکاح نامے پر تو اسکے اصل باپ کا نام لکھوائو ورنہ نکاح جائز نہ ہوگا تب میرے کانوں نے پہلی بار یہ سنا کہ میرے والد اصل میں کوئی اور تھے … اس انکشاف پر آنسو بھل بھل آنکھوں سے بہنے لگے۔
دکھ ہوا کہ آج تک موجودہ ماں نے کبھی مجھے اصل حقیقت کیوں نہ بتائی۔
نکاح ہو گیا اور میں تقدیر کے اس فیصلے کے ساتھ وحید کے گھر چلی گئی ۔ ہر لڑکی کے ارمان ہوتے ہیں مگر اس وقت میرے دل وذہن پر یہ سوال چھایا ہوا تھا کہ میرے اصل ماں باپ کون ہیں اور کہاں ہیں ؟
دولہا نے کہا لڑکیاں وداع ہوتے وقت ضرور آنسو بہاتی ہیں مگر اس قدر نہیں تم نے تو آنکھوں سے آنسو نہیں دریا بہا دیا ہے… آخر اس قدر رونے کی کیا وجہ ہے ۔
میں ڈر گئی کہ کہیں ان کو کوئی غلط فہمی نہ گھیر لے تبھی اپنا درد بیان کردیا … تب انہوں نے کہا کہ میں بتاتا ہوں تمہارے ماں باپ کون تھے۔ رشتہ طے کرنے سے پہلے تماری موجودہ ماں نے مجھے تمہارے بارے ہر بات بتادی تھی تاکہ بعد میں اگر علم ہوجائے تو ہم ان کو دھوکہ باز نہ گردانیں۔
یوں وحید کی زبانی ہی مجھے اپنے ماضی کے بارے علم ہوا اور بچپن کے متعلق حقائق جان پائی۔ انہوں نے تسلی دی اور کہا کہ غم نہ کرو بلکہ شکر کروکہ رحمت بی بی ایسی خاتون کی گود اور پیار بھری بانہیں تم کو ملیں اگر غلط لوگوں نے گود لے لیا ہوتا جانے تمہارا کیا حال ہو جاتا ۔ جنگوں میں اور تقسیم ملک میں تو عورتیں اور لڑکیاں سب سے زیادہ اذیتیں سہتی ہیں ۔ بے شک تمہاری موجودہ ماں غریب ہیں مگر غلط خاتون تو نہیں ہیں ۔ انہوں نے اتنی محنت کرکے تمہیں پالا ہے کہ ان کی ہتھیلیوں میں کام کرتے کرتے گٹے بن گئے ہیں۔ ایسی عورت کے تم کو پیر چھونے اور ہاتھ چومنے چاہیں۔
ان کے سمجھانے سے میرے دل کی تکلیف کم ہوگئی اور راحت وسکون مل،ا میرے شوہر کے خلوص نے مجھے جینے کاڈھنگ سکھا دیا ۔
دوسال بعد اللہ تعالیٰ نے بیٹا پھر بیٹی دے کر میرے زخموں پر مرہم رکھ دیا ۔
جس دن ماں بنی مجھے اپنی ماں شدت سے یاد آئی کہ جس کو میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ سوچتی تھی نجانے کیوں انہوں نے مجھ ننھی سی جان کو چھوڑ کر ہمیشہ کی جدائی مول لے لی۔ اولاد تو اپنی پیاری ہوتی ہے کہ جانور بھی اپنے بچے نہیں چھوڑتے جب تک کہ وہ بڑے نہیں ہوجاتے ہر حال میں ساتھ رکھتے ہیں۔ کیا انسانوں کی مجبوریاں جانوروں سے بڑی ہوتی ہیں ؟ وحید نے کبھی دکھ نہ دیا شکر کرتی ہوں کہ اچھا شوہر ملا ۔ آج میں بوڑھی ہوچکی ہوں لیکن آج بھی جب یہ زخم رستا ہے تو رودیتی ہوں ۔
( ش۔ خ … لاہور)