Sunday, October 6, 2024

Yaad Ati Hai

جن دنوں میرے شوہر ایک ادارے میں ٹیکنیکل ڈپلومہ کر رہے تھے، ان کی ملاقات ایک نوجوان رشید سے ہوئی ۔ وہ بھی ایف اے کے بعد یہاں ڈپلوما کے لئے دو سال کا کورس کرنے آیا تھا- دونوں نے ایک ساتھ کورس مکمل کیا اور ڈپلومہ ملنے کے بعد ملازمت کی کوششیں کیں ۔ ساتھ ہی انہیں کراچی کی ایک مل میں ملازمت مل گئی۔ ایک سال ملازمت پوری کرنے کے بعد میرے منگیتر شمشاد نے چھٹی لی اور سرگودھا آگئے ۔ میری ان سے شادی ہوگئی۔ چھٹی گزارنے کے بعد یہ مجھے ساتھ لے کر کراچی آگئے ۔ شمشاد نے جو مکان شادی سے قبل کراچی میں حاصل کیا وہ سائٹ ایریا میں تھا۔ ان کو مل آنے جانے کی سہولت ہوگئی تھی۔ مکان دو بیڈ روم اور ایک ہال پر مشتمل تھا۔ جس کو بطور ڈرائنگ روم استعمال کیا جا سکتا تھا۔ آگے صحن تھا۔ دیہاتی طرز کا بنا ہوا یہ مکان میرے خاوند کو اس لئے پسند آیا کہ ایک تو یہ قدرے کشادہ تھا پھر اس میں مہمانوں کو ٹھہرانے کی گنجائش تھی چونکہ گراؤنڈ فلور پرہی بنا ہوا تھا اس لئے مکان کی چھت بھی ہمارے تصرف میں تھی۔ یہ مکان ہماری ضروریات سے زیادہ تھا۔ تا ہم کھلی ہوا اور دھوپ گھر میں آتی تھی اسی وجہ سے انہوں نے تھوڑا سا کرایہ زیادہ ہونے کے باوجود اسے لے لیا تھا۔ کرایہ کی مد میں کچھ پیسے سسر صاحب ہم کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ہم نئے دلہا دلہن تھے۔ ایک پل بھی جدا رہنا نہ چاہتے تھے۔ میں یہاں آکر خوش تھی۔ تاہم جب یہ مل چلے جاتے مجھ کو دن بھر کی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ گھر کی صفائی ستھرائی دیگر گھریلو کاموں میں خود کو مصروف کر لیتی ۔ آس پاس کوئی مکان اتنا قریب نہ تھا کہ کسی کے ہاں آنا جانا ہوتا۔ مکانات کچھ فاصلے پر بنے ہوئے تھے اور ہمارے گھر کے اردگرد پلاٹ خالی تھے۔ یہ مکان دیگر آبادی سے کٹا ہوا لگتا تھا۔ دن کی تنہائی کو خوشی سے برداشت کر رہی تھی چونکہ اپنے خاوند سے محبت کرتی تھی۔ ان کی خدمت میں مسرت محسوس کرتی تھی۔

ایک روز شمشاد گھر آئے تو بولے۔ میرے دوست رشید کی شادی ہوگئی ہے۔ بیوی کو ساتھ رکھنا چاہتا ہے لیکن یہاں اس کے پاس رہائش کا بندوست نہیں ہے، فی الحال اپنے ایک دفتر کے ساتھی کے پاس ٹھہرا ہوا ہے جو ایک کمرے میں گزارا کرتا ہے۔ اگر تمہاری صلاح ہو تو میں اسے آدھا مکان رہائش کے لئے آفر کر دوں ، اس طرح کرایہ بھی آدھا آدھا کر لیں گے اور تم تنہائی سے بھی نجات پالوگی ۔ میں نے بخوشی یہ بات مان لی۔ چاہتی تھی کہ کوئی اور فیملی ہمارے ساتھ رہے۔ بے شک ان دنوں کراچی امن کا گہوارہ تھا، تاہم ہر جگہ ہی خواہ امن بھی ہواکیلے گھر میں رہنے سے عورت کو ڈر تو لگتا ہی ہے۔ کچھ دنوں بعد رشید بھائی اپنے گاؤں چلے گئے اور بیوی کو لے آئے جس کا نام سکینہ تھا۔ یہ نئی نویلی دلہن تھی، ہاتھوں میں سہاگ مہندی ابھی تک لگی تھی ۔ بہت خوبصورت نو عمر لڑکی تھی ۔ ہنس مکھ، ملنسار اور کام کاج میں پھرتیلی ۔ میری اس کے ساتھ پہلے ہی روز بن گئی۔ صبح ہمارے مرد کام پر چلے جاتے اور سکینہ میرے پاس آجاتی ۔ ہم باتیں کرتے کرتے مل جل کر منٹوں میں کام کر لیا کرتے تھے۔ میرا وقت اچھا گزر جاتا وہ بھی خوش تھی کہ آدھا گھر رہنے کومل گیا ہے۔ صحن ایک ہی تھا لیکن کمرہ اور ایک غسل خانہ ان کے تصرف میں تھا۔ کچن ہم دونوں مشترکہ استعمال کرتے تھے۔ ایک غسل خانہ صحن میں دوسرا چھت پر تھا یوں دو فیملیز کا بآسانی گزارا ہورہا تھا۔ وہ اچھی عادات کی مالک تھی۔ سادہ فطرت تھی ، میرا ادب کرتی ، مجھے اس نے کبھی شکایت کا موقع نہ دیا بلکہ میرے کاموں میں ہاتھ بٹا دیتی تھی۔ ہمارا رشتہ بہنوں جیسا بن گیا۔ اس پر ہمارے خاوند بھی خوش تھے۔ وہ تو عرصہ پہلے سے دوست تھے طالب علمی کے زمانے سے، اور اب ہم سہیلیاں بن گئی تھیں ۔ ایک فیملی کی مانند ہو گئے تھے۔ پردیس میں جو تنہائی کا احساس ہوتا ہے وہ جاتا رہا۔ سیر کو بھی جاتے تو اکٹھے ورنہ مزہ نہ آتا۔ کراچی آئے تین ماہ گزرے تھے کہ سکینہ کو احساس ہو گیا وہ امید سے ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا اور کام کرنے سے چکر آتے ہیں۔ میں اسے قریبی کلینک لے گئی۔ ڈاکٹر نے بتادیا کہ یہ امید سے ہیں ۔ کچھ طاقت کی دوائیں بھی لکھ دیں۔ یہ خوشخبری سن کر رشید بھائی بہت خوش ہوئے ۔ چار ماہ اور گزر گئے ایک دن انہوں نے چھٹی لی اور بیوی کو گاؤں اس کی والدہ کے پاس چھوڑ نے چلے گئے۔ کیونکہ زچگی کے دن قریب تھے۔ اب سکینہ کو خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ دن گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ وہ دن بھی آگیا جب سکینہ کے گھر والوں کی طرف سے رشید کو ایک ننھی بچی کی پیدائش کی نوید ملی ۔ وہ بہت خوش ہوئے اور فورا چھٹی کی درخواست دے کر تیاری باندھ لی۔

گاؤں میں تین دن رہ کر یہ واپس آگئے ۔ کیونکہ سکینہ ابھی ساتھ آنے کی حالت میں نہ تھی۔ مجھے بتایا کہ میری بچی بہت پیاری ہے ننھی منی پری ہے۔ ایک ماہ گزر جائے تو بیوی اور بچی کو لے آؤں گا۔ اب اس شخص کا دل بیوی اور بچی کے بغیر نہیں لگتا تھا، جلد از جلد ان کو لانا چاہتا تھا۔ میں شام کو کھانا بناتی ۔ جب دونوں آفس سے لوٹتے۔ میرے شوہر ان کو بھی ساتھ کھانے پر بٹھا لیتے ، ناشتہ بھی ساتھ کر کے جاتے مگر اپنے گھر کا سکھ مرد ایک بار دیکھ لے تو بیوی کے بغیر اس کا دل نہیں لگتا۔ ایک دن ان کے سالے کا خط آیا کہ آکر اپنی بیوی اور بچی کو لے جاؤ ۔ رشید نے چھٹی لی اور گاؤں چلا گیا۔ اتفاق کہ وہاں پنچایت کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کو بیٹھی تو جھگڑے میں رشید کے بڑے سالے کو بھی ملوث کیا گیا۔ وہ اس اکٹھ میں گیا ہوا تھا۔ ساس نے رشید بھائی سے کہا کہ جا کر پنچایت میں دیکھو کیا ہو رہا ہے۔ وہ وہاں گیا تو کچھ لوگ اس کے سالے رب نواز کو جھگڑے کا سرغنہ قرار دے رہے تھے کہ اس شخص کے اُکسانے پر فساد بڑھا اور ہاتھا پائی میں فریقین زخمی ہو گئے ۔ اگر یہ وہاں نہ ہوتا تو امن پسند ان میں صلاح صفائی کرانے میں کامیاب ہو جاتے۔ جب دیگر لوگوں نے بھی گواہی دی کہ رب نواز فساد کو ہوا دینے کا ذمہ دار ہے تو گاؤں کے سردار نے رشید کو مخاطب کر کے کہا کہ بھئی تم تو پڑھے لکھے آدمی ہو تم ہی بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے۔ رشید کافی لوگوں کے دلائل اور گواہی سن کر اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ اس کے سالے کا بھی قصور ہے، اس نے کہا کہ میری یہ صلاح ہے کہ رب نواز بھائی متاثرین سے معافی مانگ لیں۔ مجھے یقین ہے وہ ان کو معاف کر دیں گے۔ اگر وہ معافی قبول نہ کریں تو پھر بے شک آپ لوگ جو بھی فیصلہ کریں ۔ اس وقت رشید کے سالے کو بہنوئی کی یہ بات بہت بری لگی اور اس نے یہی جانا کہ رشید نے صاف گوئی سے کام لے کر اس کی کھلم کھلا مخالفت کی ہے۔ بیوی کے بڑے بھائی نے بغض دل میں پال لیا۔ رشید بیوی کے میکے اس کو لینے گیا تو کسی نے اسے منہ نہ لگایا ، بیوی نے بھی کہا کہ بڑے بھائی اجازت دیں گے تو آپ کے ساتھ جا سکتی ہوں وگرنہ نہیں۔ یہ اپنا سا منہ لے کر آگئے۔

چند دن کی چھٹیاں تھیں ۔ رشید کی پریشانی قابل دید تھی۔ اسے واپس بھی جانا تھا۔ وہ تو خاص طور پر آیا ہی گاؤں اپنی بیوی اور بچوں کو لینے کے لئے تھا۔ اسی سوچ میں اپنی والدہ کے گھر متفکر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور سکینہ اندر آگئی۔ شوہر اور ساس خوش ہو گئے وہ سمجھے کہ بڑا بھائی آنے نہ دے رہا تھا تو خود ہی آگئی ہے۔ ابھی کوئی بات کرنا چاہی کہ اس نے از خود کہا۔ میرے بڑے بھائی سے معافی مانگو ورنہ یہ لو اپنی بچی خود سنبھالو۔ یہ کہہ کر بچی کو چار پائی پر ڈال کر واپس چلی گئی۔ رشید کی چھٹی ختم ہونے والی تھی ۔ ایک دو دن میں یہ معاملہ نہ سلجھ سکا تو وہ کراچی آگیا اور بچی کو دادی نے اپنی گود میں بھر لیا۔ اس کے بعد وہ کئی بار گاؤں گیا کہ شاید بیوی یا سالے کو عقل آجائے اور وہ سکینہ کوگھر لانے میں کامیاب ہو جائے لیکن ہر بار انہوں نے دروازے سے ہی دھتکار دیا۔ ادھر زیادہ چھٹیاں لینے سے چارج شیٹ مل گئی۔ ادھر سے پریشان کہ ملازمت نہ چلی جائے ۔ دوسری طرف بیوی اور بچی سے جدائی رشید بھائی بالکل نڈھال تھے۔ میں اور میرا خاوند حوصلہ بڑھاتے تھے۔ بالآخر اس کے والد کو نوٹس مل گیا کہ دودھ پیتی بچی کو ماں سے چھین کر لے گئے ہیں۔ انہوں نے بیٹے کو فون کیا۔ رشید تعلیم یافتہ تھے بات کو بڑھانے کی بجائے گاؤں جا کر بچی کو اس کے ماما، نانی کے حوالے کر دیا۔ کچھ دن گزرے کہ رب نواز دوبارہ بچی کو لے کر رشید کی والدہ کے پاس آیا اور کہا بچی کا خرچہ ہم کیوں اٹھا ئیں، پکڑو اپنی نسل کو اور خود پالو۔ سکینہ کی ساس بہت پریشان تھی۔ بیٹے کو بار بار کراچی فون کراتی ۔ ادھر رشید بھائی کو چھٹی نہ ملتی تھی۔ بالآخر یونہی دو سال گزر گئے ۔ آخر میرے خاوند ساتھ گئے سکینہ کے بھائی اور والدہ سے بات کی تب انہوں نے کہا کہ ہماری لڑکی کو یہ آزاد کر دے، ہم بچی آپ کوسونپتے ہیں اور کبھی اس کو لینے نہیں آئیں گے۔ میرے شوہر نے ان سے اسٹامپ پیپر پر تحریر لکھوالی اور رشید نے سکینہ کو آزاد کر دیا۔ کہنے کو بچی لے کر طلاق تو دے دی مگر بیوی سے محبت بہت تھی۔ وہ نڈھال اور صدمہ میں تھے۔ ہم نے سہارا دیا سمجھایا کہ جب ان لوگوں کا منشا ہی لڑکی کو بسانا نہیں ہے تو تم کیسے زبردستی بسا پاؤ گے۔ اگر بیوی کو تمہارا خیال ہوتا تو بچی کو دادی کے سپرد کرنے کی بجائے خود تمہارے پاس آجاتی ۔ تم میں کچھ کمی نہیں کسی اور گھرانے میں اچھی لڑکی مل جائے گی ، دوسری شادی تو تمہارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ بیٹی تمہاری اپنی والدہ کی گود میں پل رہی ہے۔

رشید کی والدہ نے بہت چاہا کہ وہ دوبارہ شادی کر لے لیکن اس کا دل اب گاؤں والوں سے کھٹا ہو چکا تھا۔ اس نے گاؤں میں شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک دن اس کی والدہ کا فون آیا کہ تمہاری سابقہ بیوی کی دوبارہ شادی ہو رہی ہے اور بارات دور سے آئے گی، وہ شہر میں بیاہ کر جا رہی ہے۔ یہ خبر بھی افسوس کا باعث تھی لیکن افسوس کے سوا کیا چارہ تھا کہ اس کی بچی کی ماں نے خود طلاق کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ وہ تو کئی بار منانے جا چکا تھا۔ سکینہ یہی کہتی تھی بڑے بھائی نہیں مانتے میں کیا کروں؟ ان کی اجازت کے بغیر تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی ۔ طلاق بھی اس کے بھائیوں نے ہی طلب کی تھی جبکہ وہ اس امر پر آمادہ نہ تھے۔ ان کو تو سکینہ سے والہانہ محبت تھی۔ شاید کہ سکینہ کو نہیں تھی جبکہ اپنی ننھی بچی کی بھی قربانی بھائیوں کی خاطر دے دی تھی۔ سکینہ کی بارات دھوم دھام سے آگئی۔ گاؤں کے ہر شخص کو تعجب یوں تھا کہ گاؤں میں عورت کا دوسری بار نکاح تو ریت ہے کہ سادگی سے ہوتا ہے۔ پھر یہ دھوم دھام کیسی ؟ سکینہ کنواری لڑکی کی طرح بیاہی جا رہی تھی۔ بہر حال گاؤں کے چند بدخواہوں نے دولہا والوں کے کانوں میں یہ پھونک دیا کہ اتنی دھوم دھام نہ کرو سکینہ مطلقہ ہے اور ایک بچی کی ماں ہے، اس کی سابقہ سسرال کا گھر بھی نزدیک ہی ہے۔ ان لوگوں کا لحاظ کرنا چاہئے۔ گاؤں کے اپنے ریت رواج ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا لحاظ بھی رکھتے ہیں اور رواجوں کی روگردانی سے برہم بھی ہو جاتے ہیں۔ بارات لانے والوں نے ڈھول ڈھمکا تو روک دیا لیکن وہ سکتے میں آگئے کیونکہ ان کا لڑکا کنوارہ تھا اور لڑکی کے بھائیوں نے بھی ان کو یہی باور کرایا تھا کہ سکینہ ایک بن بیاہی لڑکی ہے۔ بارات لوٹ جانے سے قبل معاملہ سنجیدہ دیکھ کر کچھ صلح جو شریف طینت بزرگ آگے بڑھے۔ انہوں نے لڑکے والوں کو سمجھا بجھا کر معاملے کو سنبھال لیا اور عزت سے سکینہ کی رخصتی کا ماحول بنا دیا۔ وہ تو رخصت ہو گئی مگر گاؤں کے لوگوں کو رب نواز اور اس کے بھائیوں کے جھوٹ پر غصہ تھا۔ یہ اس کے مخالف لوگ تھے۔ ہر حال میں ان کے جھوٹ کا پول کھولنا چاہتے تھے۔ ان کے پیٹ میں مروڑیں اٹھ رہی تھیں کہ مطلقہ سکینہ کو کنواری بتا کر اس کے میکے والوں نے بیاہ لے جانے والوں کی آنکھوں میں دھول کیوں جھونکی ہے؟ سکینہ کی سسرال دور شہر میں تھی …. ورنہ شاید ان لوگوں کا وار چل جاتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ بات ٹھنڈی پڑ گئی اور پھر لوگ اس امر کو بھول بھال گئے ۔ دو ماہ تک اس کے بھائی بہن کو لینے نہ گئے تا کہ مخالف گاؤں والوں کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔ دو ماہ بعد وہ پہلی بار بہن کو لینے گئے ۔ جب وہ پندرہ دن بعد میکے میں رہ کر سسرال جانے لگی تو اس کے بدفطرت بڑے بھائی رب نواز نے کہا۔ بہن دور کا معاملہ ہے ہم ہر وقت تو تمہاری خبر نہیں رکھ سکتے اور یہ غیر لوگ ہیں ، بہتر ہے اپنا زیور جو پہن کر آئی ہو یہیں رکھ جاؤ تمہاری امانت ہے۔ ان لوگوں میں رچ بس جاؤ۔ ایک دو بچے ہو جائیں تو زیور بے شک لے جانا۔ بہن بے چاری نے تو بڑے بھائیوں کی ذہنی غلامی میں پرورش پائی تھی۔ اس نے زیور اتار کر بھائی کے حوالے کر دیئے۔ سسرال میں ایک روز کسی رشتہ دار کی شادی میں جانا تھا۔ ساس نے کہا سکینہ وہ تمہارا زیور کدھر ہے۔ اس دن کے لئے زیور بنواتے ہیں کہ شادی بیاہ اور خوشیوں کی تقریبات میں پہنا جائے تم سہاگن ہو چوڑیاں، لاکٹ ، لونگ ، بندے ہر شے ہی اتار کر رکھ دی ہے۔ آج سارا زیور پہن کر شادی میں جانا ہوگا۔ تب سکینہ کو بتانا پڑا کہ وہ تو بڑے بھائی کے پاس امانت رکھا ہوا ہے۔ ساس نے اپنے شوہر اور بیٹوں کو مطلع کیا اور سب نے کہا کہ اب کے جانا تو میکے سے اپنا تمام زیور لے آنا ۔ یہ کیا تک بنتی ہے کہ زیور میکے میں رکھوا دیا ہے۔ بہرحال انہوں نے بہو پر زیادہ سختی نہیں کی بس ایک موقع دیا کہ اس بار جائے گی تو لے آئے گی ۔ سکینہ نے بھی یقین دلایا کہ ہاں لے آؤں گی ۔ ساس نے اس کو اپنا زیور پہنا دیا اور شادی میں لے گئی۔ وہ میکے آئی، بھائی اور بھاوج سے زیورات کا تقاضا کیا۔ تب رب نواز نے جواب دیا کہ ہم تیرا زیور کھا نہیں جائیں گے بس ذرا ان لوگوں کو دبکانے کو رکھا ہے کہ تم سے بدسلوکی کرتے وقت کچھ سوچیں اور دبے رہیں۔ وہ بولی۔ بھائی ابھی تک تو انہوں نے مجھ سے بدسلوکی نہیں کی ، وہ ٹھیک لوگ ہیں۔ اب کیوں کرنے لگے۔ یہ تو تم ایسا ہی کہہ رہی ہو، میں جانتا ہوں تا کہ میں تم کو زیور حوالے کردوں ۔ اگر نہیں کرتے بدسلوکی تو آئندہ کی کیا ضمانت ہے کہ نہیں کریں گے، ذرا سا اور مجھے ان کو دیکھ کر پرکھ لینے دو۔ یہ عجیب بات تھی۔ ادھروہ بھائی کونہ سمجھ سکتی تھی، ادھر سرال والوں کو کیونکر سمجھاتی ۔ وہ بہت پریشان تھی۔ جب واپس سسرال گئی ساس نے سوال کیا۔ کیا زیور لے آئی ہو؟ وہ بولی۔ بھائی نے کہا ہے کہ دوسری بار آؤ گی تب دے دوں گا۔

یہ کیا بات ہوئی تمہارا بھائی مجھے تو بدنیت آدمی لگتا ہے ورنہ اس طرح اسے بہن کے زیور رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس بات کی کوئی تک نہیں بنتی ، زیور تو ہم نے شادی پر تم کو پہنائے تھے تمہارے میکے کے نہیں تھے، جو وہ دبائے بیٹھا ہے۔ اس دفعہ حوصلے سے کام لیا ہے آئندہ زیور نہ لائیں تو یاد رکھنا کہ تمہاری اس گھر میں جگہ نہ ہوگی۔ سال بھر تک وہ میکے نہ گئی کہ جاؤں گی تو بھائی کوئی تنازع کھڑا کر دے گا۔ پھر واپس کس منہ سے سسرال آ پاؤں گی۔ پہلے ہی ایک گھر اجڑا تھا، بچی جدا ہو گئی۔ بھائی نے جھوٹ بول غیر شادی شدہ بتا کر دوبارہ شادی کرائی ۔ ان لوگوں کو یہ بھی علم نہیں کہ ایک بچی بھی ہے۔ اس ڈر سے اپنے جگر کے ٹکڑے سے نہ ملتی کہ پھر سسرال والوں کو کان ہو جائیں گے اور وہ ان کی نظروں میں ذلیل ہو جائے گی۔ بے چاری سکینہ کے دوسرے شوہر سے اولا د بھی نہ ہوئی تھی۔ وہ بیٹی کو یاد کر کے اندر اندر کڑھتی تھی ، اوپر سے رب نواز نے زیور چھین کر گویا اسے بے موت ہی مار ڈالا۔ ماں بہت بیمار ہوگئی ، اس نے فون کرایا کہ آکر منہ دیکھ جاؤ۔ اس کی ساس سے بھی کہا کہ سکینہ کوبھیج دیں میں قریب المرگ ہوں۔ اس نے ترس کھا کر بہو کو میکے جانے کا انتظام کرا دیا لیکن تاکید کی کہ اس بار زیور لے کر آنا۔ ماں کی وفات ہوگئی ، وہ ایک ماہ میکے رہی ، بھائی سے منتیں کرتی تھی کہ زیور دے دو۔ یہ میری سسرال کے ہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کہنے لگا کہ تم جاؤ۔ میں چند دن بعد آ کر خود تمہاری ساس کے ہاتھ میں دوں گا تاکہ سند رہے کہ زیور دے دیئے ہیں۔ ایسے تو تم سے زیور لے کر بہتان بازی بھی کر سکتے ہیں کہ تم نے زیور نہیں دیئے۔ دوبارہ مطالبہ کر دیا تو ہم کہاں سے بھریں گے۔

سچ ہے کہ بدنیت آدمی بد نیت ہی ہوتا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی وہ بات نہ تھی جو کہ رب نواز کے اندیشوں میں تھی. وہ جان بوجھ کر بدنیت ہو گیا تھا کیونکہ بدفطرت تھا۔ سکینہ ایک ایسے امتحان میں آگئی کہ جیتے بنتی تھی اور نہ مرتے۔ میکے کب تک بیٹھی رہتی ۔ دیور لینے آگیا، وہ جانے کو تیار ہوگئی لیکن یہی خوف دامن گیر تھا کہ گھر پہنچ کر ساس کو کیا جواب دے گی جو اس کے ساتھ حسن سلوک سے رہتی ہے۔ خاوند سے بھی کوئی تکلیف نہ تھی۔ ناحق ہی بھائی نے اس کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ وہ عورتوں کے ڈبے میں ریل کی کھڑکی کے پاس سوچوں میں غرق بیٹھی تھی اور دیور مردانہ ڈبے میں سوار تھا۔ سفر گزر چکا تھا اور جوں جوں اسٹیشن قریب آرہا تھا اس کا دل عجب سے وسوسوں میں ڈوبتا جاتا تھا۔ ایک اسٹیشن رہ گیا تھا۔ گاڑی رکی تو وہ کچھ دیر تک سوچوں میں غرق رہی، دیور نے کھڑکی کے پاس آکر پوچھا بھابی کچھ کھانے پینے کو چاہئے۔ اس نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ وہ واپس اپنے ڈبے میں چلا گیا تو سکینہ سیٹ سے اٹھ کر دروازے تک آگئی اور پھر ریل سے اتر گئی۔ تبھی ریل گاڑی نے سیٹی دی۔ تیزی سے سکینہ پٹڑی کی طرف بھاگی اور ریل چلنے سے دو تین سیکنڈ پہلے وہ پٹڑی پر دوڑنے لگی ، اتنے میں رینگتی ہوئی ریل نے رفتار پکڑ لی تھی اور سکینہ اس کے پہیوں میں گھسٹتی ہوئی لہولہان ہو گئی۔ ذرا آگے جا کر ڈرائیور نے رفتار دھیمی کی ، گاڑی رک گئی۔ پہیوں نے سکینہ کو کب ثابت و سالم رہنے دیا تھا، لہو سے بھرے ٹکڑے پٹڑی کے دونوں اطراف پڑے تھے۔ دیور جب ٹھہری ہوئی ٹرین کی کھڑکی کے پاس آیا، سکینہ کے قریب بیٹھی عورت نے اسے بتادیا کہ تمہاری بھابی میرے سامنے ہی اتری تھی ، پھر ریل کی پٹڑی کی طرف بھاگنے لگی ۔ شور مچ گیا۔ دیور نے جا کر بھابی کے مسخ شدہ چہرے سے اسے پہچان لیا۔ یوں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح چار سو پھیل گئی کہ ایک عورت نے چلتی ریل کے نیچے آکر خود کشی کر لی ۔ شاید کہ اس کا ذہنی توازن خراب تھا۔ سسرال والوں نے آدھی ادھوری لاش وصول کی اور سکینہ کے میکے فون کر کے حال بتا دیا ۔ گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ رشید کی والدہ اس کی میت پر گئیں۔ بچی بھی انگلی پکڑے ساتھ تھی مگر اس معصوم کو کیا خبر کہ چارپائی پر جو عورت چادر اوڑھے لیٹی ہے وہی اس کی ماں ہے۔ رشید کی والدہ نے جب یہ احوال فون پر بیٹے کو بتایا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ آج ہم کو پتہ چلا کہ بھائی رشید اپنی سابقہ بیوی سے کسی قدر محبت کرتے تھے۔ وہ حال دل کسی پر ظاہر نہ کرتے تھے لیکن دل وہ مسکن ہے ایک بار کوئی اگر اس پر قبضہ کرلے تو پھر کبھی وہ اس سے دستبردار نہیں ہوتا۔ سکینہ نے بھی رشید کے دل پر ایسا قبضہ کیا تھا کہ وہ تو اس دنیا سے بھی چلی گئی مگر اس کی یاد آج بھی ان کو بے چین کر دیتی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS