میں میٹرک کے بعد گھر بٹھا دی گئی۔ والد صاحب کامل بھیا کو مزید تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ میرا بھائی خود بھی کالج پڑھنا چاہتا تھا۔ وہ شروع سے ہی ایک ہونہار طالب علم تھا۔ والدین کی بھی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا تعلیم حاصل کرلے اور بڑا آدمی بنے۔ ہم گاؤں میں رہتے تھے۔ اب یہ مسئلہ پریشان کن صورت اختیار کر چکا تھا کہ کامل کو شہر میں کس کے پاس چھوڑا جائے۔ کالج تو شہر میں تھا اور اباجان ہوسٹل میں رہنے کے حق میں نہ تھے۔ جب ہماری خالہ تک یہ باتیں پہنچیں ، جو لاہور میں رہتی تھیں ، انہوں نے کامل کو اپنے گھر میں رکھنے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یوں ہم سب کو ایک بہت بڑی الجھن سے نجات مل گئی اور کامل خالہ جان کے گھر چلا گیا۔ خالہ کے گھر ماحول پر سکون تھا اور یہ خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ کامل کو ان کا ماحول پسند آ گیا۔ گیارہ برس بعد وہ لاہور آیا تھا۔ سب کچھ بد لا بد لا لگ رہا تھا۔ شہر زیادہ پر رونق ہو گیا تھا، تاہم خالہ اور خالو نہیں بدلے تھے۔ بچے البتہ اب بڑے ۔ گئے تھے ندیم آٹھویں اور عالیہ میٹرک میں تھے۔ کامل نے جاتے ہی میں مصروف ہو گیا۔ وہ بہت کم گو تھا، کھیلوں سے بھی خاص دلچسپی نہ تھی بس پڑھائی سے شغف تھا۔ خالہ کی بیٹی عالیہ نے شروع میں اس کی طرف توجہ نہ دی۔ وہ پڑھائی میں کافی کمزور تھی ، اسے اپنی پڑی ہوئی تھی۔ کامل سے بہت کم بات کرتی۔ وہ بور ہوتا تو شام کو ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتا۔ جب عالیہ کے امتحان میں ایک ماہ رہ گیا تو وہ بہت گھبرائی گھبرائی رہنے لگی۔ انگریزی اور ریاضی کی تیاری اس سے ٹھیک طرح نہ ہو پارہی تھی۔ آدھی رات تک جاگ کر پڑھتی، کچھ پلے نہ پڑتا تو رونے بیٹھ جاتی۔ کامل نے اس کو دو چار بار روتے دیکھا تو خالہ سے پوچھا کہ عالیہ بہت پریشان لگتی ہے، کیا بات ہے؟ کیا امتحان کا کوئی مسئلہ ہے؟ یہ دو مضمون میں بہت کمزور ہے ، تیاری ٹھیک طرح سے نہیں کر پارہی ، تمہارے خالو ٹیوشن رکھنے نہیں دیتے۔ اسے ڈر ہے کہ میٹرک میں فیل ہو جائے گی۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے پڑھا دیا کروں ؟ کیوں نہیں بیٹا، میں خود تم سے یہی کہنے والی تھی۔ اگر وقت ہو تو پرچوں کی تیاری میں اس کی مدد کر دو۔ اسی دن سے کامل نے اس کو پڑھانا شروع کر دیا اور کافی محنت سے پڑھایا۔ بالآخر اس کی محنت رنگ لائی اور عالیہ میٹرک میں پاس ہو گئی۔ ا سے اس کے پاس ہونے پر خالہ اور خالو بہت خوش تھے۔ وہ خود بھی خوش تھی کہ فیل ہونے سے بچ گئی تھی۔ اس دن سے وہ کامل کا بہت زیادہ خیال رکھنے لگی، تب ہی کامل نے سمجھا کہ خالہ زاد اس سے محبت کرنے لگی ہے، گرچہ زبان سے اقرار نہیں کرتی۔
اس عمر میں بچے معصوم و نادان ہوتے ہیں۔ انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ یہ جذ بہ بھی ایک بڑا امتحان بھی بن جاتا ہے اور کبھی اس کی خاطر زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے۔ عالیہ کو جس کالج میں داخلہ ملا، وہ بوائز کالج کے راستے میں تھا۔ خالو خود بیٹی کو کالج پہنچانے جاتے تھے ، واپسی میں ندیم ، اسکول سے آتے ہوئے اس کو لیتا آتا تھا۔ ان ہی دنوں خالو کا تبادلہ ساہیوال ہو گیا۔ اب عالیہ کو کالج پہنچانے کا مسئلہ تھا کیونکہ ندیم کا اسکول جلدی لگتا تھا۔ خالہ نے کامل سے کہا۔ بیٹا کیا تم اپنے کالج جاتے ہوئے عالیہ کو کالج چھوڑ جایا کرو گے ؟ کیوں نہیں خالہ جان، عالیہ کا کالج تو میرے رستے میں پڑتا ہے۔ عالیہ ، کامل کا بہت احترام کرتی تھی، وہ اس کی رائے کے آگے سر جھکا لیتی تھی۔ اس کے کپڑے استری کرتی، اسے گرم کھانا دیتی۔ خالہ گھر کے دیگر کاموں میں الجھی ہو تیں۔ ان باتوں کا خیال عالیہ ہی کرتی تھی۔ کامل کی کوشش ہوتی کہ وہ عالیہ کو ٹھیک وقت پر کالج پہنچائے اور چھٹی کے وقت بھی لیٹ نہ ہو، تاکہ عالیہ کو پریشانی سے دوچار نہ ہو نا پڑے لیکن وہ واپسی میں اکثر کالج سے لیٹ نکلتا، خاص طور پر پریکٹیکل والے دنوں میں ، تب عالیہ کو اکیلے گھر آنا پڑتا تھا۔ ایسے دن اس کی زندگی میں الجھنوں بھرے ہوتے تھے۔ ایک دن جب وہ کالج سے تنہا لوٹ رہی تھی، راستے میں انیل مل گیا۔ یہ لڑکا ان کے پڑوس میں رہتا تھا۔ اس نے عالیہ کا رستہ روک کر پوچھا۔ آج وہ تمہارا گارڈ ساتھ نہیں ہے، بتاؤ، وہ تمہارا کیا لگتا ہے ؟ تمہیں کیا ، وہ کوئی بھی ہے۔ عالیہ نے تنک کر جواب دیا۔ ہٹو میرے راستے سے ، ورنہ تمہارا ابا سے شکایت کر دوں گی۔ انیل نے راستہ روکے رکھا، کہنے لگا۔ اچھی لڑکی ، آج تو میری موٹر سائیکل پر بیٹھ جائو۔ میں بھی گھر ہی جارہا ہوں ، تم کو ڈراپ کر دوں گا۔ عالیہ بچپن سے اس شرارتی لڑکے کو جانتی تھی۔ اسے نظر انداز کرتی وہ آگے چل دی اور یہ اس کے پیچھے پیچھے آنے لگا، یہاں تک کہ وہ پسینے میں شرابور غصے میں گھر تک پہنچی۔ گھر آتے ہی اپنے کمرے میں گئی۔ آج نہ تو اس نے کھانا کھایا اور نہ لباس تبدیل کیا۔ کامل آیا تو وہ منہ پھلائے بیٹھی تھی، کسی سے بھی کلام نہیں کر رہی تھی۔ کامل نے پوچھا۔ کیا بات ہے ؟ آج کالج میں کسی سے تمہاری لڑائی ہو گئی ہے کیا؟ کوئی بات نہیں ہے ، اس نے منہ پھلائے ہی جواب دیا مگر شرم کی وجہ سے اصل بات سے آگاہ نہیں کیا اور نہ پریشانی کی وجہ بتائی۔ اب انیل کا معمول بن چکا تھا کہ جس روز کامل اس کے ساتھ نہ ہوتا، کالج آتے جاتے ہوئے وہ اس کا رستہ روکتا، اس کو تنگ کرتا- ایک دن اس نے حد کر دی، ایک نیا موبائل فون اس کے منہ کے پاس لا کر کہنے لگا۔ میری طرف سے یہ تحفہ لے لو۔ کیا خبر کبھی مجھ سے بات کرنے کو دل کر جائے۔ بچپن میں تو ہم ساتھ کھیلتے تھے نا! عالیہ نے غصے میں آکر موبائل سڑک پر پیچ دیا، جس سے وہ ٹوٹ گیا۔ انیل کو اس کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا، دانت پیس کر بولا۔ تم کو ڈولی میں بٹھا کر نہ لے گیا، تو میرا نام بھی انیل نہیں۔ کیا یاد کرو گی۔ پھر اس نے کسی طرح اپنی ماں کو عالیہ کارشتہ مانگنے کے لیے راضی کر لیا، یوں اس کے والدین ایک دن رشتہ مانگنے چلے آئے۔ خالہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ابھی میری بیٹی زیر تعلیم ہے، جب تعلیم مکمل کرلے گی تب ہی اس کی شادی کے بارے میں سوچیں گے۔ جس گھر لڑکی ہو ، رشتے آتے ہی ہیں۔ ان ہی دنوں شیخو پورہ سے کچھ مہمان آئے۔ یہ عالیہ کے ابو کے رشتہ دار تھے ، انہیں میری خالہ زاد پسند آ گئی، انہوں نے خالہ سے رشتے کی بات کی۔ یہ بہت امیر اور صاحب حیثیت لوگ تھے۔ ایسے رشتے تو بیٹی والے ڈھونڈتے ہیں۔ انہوں نے بڑی منت سماجت کی تو خالہ اور خالو نے ہامی بھر لی۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری بیٹی دوسرے گھر جا کر راج کرے ، تب ہی یہ رشتہ نہایت خاموشی سے طے ہو گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، حتیٰ کہ عالیہ اور کامل تک کو علم نہ ہوا کہ گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ اب بھی اکثر علاقوں میں یہی رواج ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت لڑکے، لڑکی سے پوچھا تک نہیں جاتا۔ عالیہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس سے پوچھنا تو کجا کسی نے ذکر تک نہ کیا کہ تمہاری بات پکی ہونے جارہی ہے۔ اس کے سسرال والے چند دن تو خاموش رہے، پھر انہوں نے تقاضا شروع کر دیا کہ جلد شادی کر دیں کیونکہ ہمار ابیٹا امریکہ جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ شادی کر کے جائے ، تاکہ بعد میں اپنی بیوی کو بلوا سکے۔ خالہ خالوا اتنی جلد شادی پر راضی نہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ابھی شادی کر دی تو عالیہ بعد میں تعلیم مکمل نہ کر سکے گی۔
لڑکے والوں نے وعدہ کیا کہ اگر وہ امریکہ جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہے گی تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ ان دنوں کالج کی چھٹیاں تھیں، کامل گھر آیا ہوا تھا اور ادھر لاہور میں عالیہ کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں، تاریخ بھی مقرر ہو گئی۔ کامل کی ابھی چند چھٹیاں رہتی تھیں مگر اس کا دل گائوں میں نہ لگ رہا تھا۔ ایک روز بیٹھے بیٹھے وہ لاہور جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اس کا دل اداس ہو گیا تھا۔ لاہور پہنچا تو خالہ کے گھر کا نقشہ ہی اور تھا۔ عالیہ سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے والدین نے شادی کی تاریخ مقرر کر دی ہے اور یہ کام بڑی راز داری سے کیا ہے۔ مجھے بھی اب پتا چلا ہے کہ میری شادی ہو رہی ہے، تم فوراً امی سے بات کرو۔ وہ خود بات کرنے سے شرماتا تھا۔ بھاگا بھاگا گائوں گیا اور اماں کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ امی نے تمام احوال سن کر سمجھایا کہ بیٹا ! عالیہ کا خیال دل سے نکال دو۔ اس کی شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے تو اب بات کرنا مناسب نہیں ہے۔ تمہارے خالہ خالو نے جہاں اس کی شادی طے کی ہے ، وہ امیر لوگ ہیں اور ہم دیہاتی لوگ ہیں۔ میں اپنی بہن اور بہنوئی کی سوچ سے واقف ہوں۔ وہ ہمیں اپنی بیٹی کا ہاتھ اب نہ دیں گے۔ اماں کے سمجھانے سے کامل بہت رنجیدہ وافسردہ ہوا تو والدہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے لاہور کے لیے رخت سفر باندھ لیا کہ بیٹے کے دل میں یہ ملال نہ رہ جائے، میرے ماں باپ، خالہ سے رشتہ طلب کرنے نہ گئے تھے۔ امی ابولاہور پہنچے تو خالہ اور خالو نے ان کی آئو بھگت کی لیکن جب انہوں نے مدعا بیان کیا تو سوچ میں پڑ گئے۔ آخر انہوں نے صاف بات کر دی کہ اس مرحلے پر جبکہ شادی کی تاریخ طے کر دی ہے، کیسے رشتے سے منع کریں، صرف بات طے ہوتی تو منع کر بھی دیتے۔ آخر آپ لوگ پہلے کہاں تھے ، یہ تو گھر کی بات تھی۔ تب ہی ذکر کر دیا ہوتا، جب ہم گائوں آئے تھے ، کامل ہمیں بھی بیٹے جیسا پیارا ہے مگر اب دیر ہو چکی ہے۔ ان کا جواب سن کر کامل پر تو غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، اس کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا۔ وہ ان دنوں ایف ایس سی کے پیپر دے چکا تھا۔ اپنا سامان باندھا اور گھر چلا آیا۔ گھر آکر بھی وہ بہت پریشان اور اداس تھا۔ ہر وقت چپ رہتا تھا۔ گائوں آئے اسے تین، چار روز ہوئے تھے کہ عالیہ کا خط آ گیا۔ لکھا تھا، کامل میں ، فون نہیں کر سکتی ، اس لیے خط لکھ رہی ہوں۔ تمہاری یاد شدت سے آنے لگتی ہے تو سوچتی ہوں کہ کیسے نکل پائوں گی یادوں کے اس بھنور سے ، جو مجھ کو تم سے دور بہت دور لے جارہے ہیں۔ کیسے دامن بچا پائوں کی ماضی کی ان یادوں سے۔ کاش میرا حافظہ چھن جائے اور یاد ماضی عذاب نہ رہے۔ میں بالکل بے بس ہوں، بے قصور ہوں، کیسے تم کو یقین دلائوں اس بے بسی کا، آخری لمحے تک تمہاری منتظر رہوں گی۔
ادھر کامل بھی بے بس تھا، کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی مگر وہ اب شادی میں نہیں جا سکتا تھا۔ شادی میں صرف ایک دن باقی تھا۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ تو جیسے لٹ چکا تھا۔ میرے بھائی کے ارمان آنسوئوں کی شکل میں اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہو گئے مگر اس معاملے کو حل کرنا اس کے بس کا روگ نہ تھا۔ خالہ نے ہمیں بھی شادی میں مدعو کیا ہوا تھا مگر کامل کو اداس دیکھ کر گھر والے بھی شادی میں جانے پر آمادہ نہ تھے، لہٰذا اس کی خاطر سوائے میرے اور والد کے کوئی نہ گیا۔ ابو رشتہ نبھانے اور میں عالیہ کی خاطر گئی تھی۔ امی تو بیٹے اداسی سے دلگرفتہ تھیں، کیوں کر جاتیں۔ جس روز بارات تھی، میں اور ابا جان، خالہ کے گھر پہنچے۔ مکان کو قمقموں سے سجایا ہوا تھا اور بڑی دھوم دھام تھی، ظاہر ہے کہ امیر گھرانے میں شادی ہو رہی تھی۔ بارات آ گئی کا شور مچ گیا لیکن حق و مہر پر معاملہ الجھنے نے لگا۔ لڑکی والوں نے کہا کہ ہم جو حق مہر لکھوائیں گے ، لکھنا ہو گا۔ خالو نے کچھ زیادہ حق مہر کا مطالبہ نہیں کیا تھا جبکہ لڑکے والے معمولی رقم دے رہے تھے۔ معاملہ بگڑنے لگا، خالو بے چارے تو خاموش تھے ، مگر ان کے چھوٹے بھائی اونچا بول رہے تھے کہ ہم تو یہی رقم لکھوائیں گے ، تب لڑکے کے چچا بھی آگے بڑھے۔ کہا کہ پھر ہم بھی جہیز میں گاڑی لیں گے ، وہ بھی مرسیڈیز ۔ اس پر ہنگامہ بڑھا اور دونوں طرف کی عورتوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔ عورتوں کی زبانیں تو یوں بھی تیز ہوتی ہیں۔ غرض ایسا رن پڑا کہ کہرام مچ گیا۔ نوبت لڑائی تک آ گئی۔ ایک دو عورتوں نے زبان چلاتے چلاتے ایک دوسرے کے ہاتھ جڑ دیے۔ دلہا کی پھو پھی بھی اس پٹائی کی زد میں آگئی تو انہوں نے شور مچادیا کہ اس گھر رشتہ نہیں کرنا، بارات واپس لے چلو ، نہیں تو ہم عمر بھر کو ناتا توڑ لیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بارات بغیر دلہن لیے واپس چلی گئی۔ سب لوگ حیران و پریشان تھے۔ کھانے کا بھی بہت اچھا بند و بست کیا ہوا تھا۔ سارا انتظام دھیر کا دھرا رہ گیا۔ کسی کا کھانا کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ کھانے کی بات ایک طرف، یہاں تو عزت ہاتھ سے جا رہی تھی۔ عورتوں کی لڑائی اور ہاتھا پائی کی لوگ ویڈیو تک بنا چکے تھے۔ اب خالو کی عزت پر بنی تھی کہ بارات واپس چل دی تھی۔ اس وقت خالو کو ، ان کی بھابھی نے یاد دلایا کہ ہمارے پڑوسی بھی تو انیل کے لیے رشتہ مانگنے آئے تھے۔ وہ بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں اور انیل کے والد آپ کے دوست بھی ہیں تو کیوں نہ ان سے بات کریں۔ شاید وہی کوئی حل نکال دیں۔
خالو نے اسی وقت اپنے پڑوسی مکرم صاحب سے بات کی ، جو شامیانے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بولے۔ میں بیوی سے صلاح مشورہ کر کے آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔ پریشان نہ ہوں۔ پرانے پڑوسی ہونے کے ناتے ہمارا دکھ سکھ ے سانجا ہے۔ انہوں نے بیوی سے بات کی۔ اس نے کہا۔ ضرور ریاض بھائی کی مدد کرو کیونکہ انیل بھی عالیہ سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ ہم ان پر احسان کرتے ہیں اور اپنے بیٹے کی خوشی بھی پوری کر لیتے ہیں۔ اس پر اللہ راضی ہو گا۔ خالو کی جان میں جان آ گئی۔ انیل نے خوش خبری سنی تو باغ باغ ہو گیا اور جھٹ پٹ تیار ہونے چلا گیا۔ اب دلہا ، انیل تھا جبکہ قاضی اور مہمان وہی تھے ، کچھ دیر میں دلہا آ گیا۔ نکاح ہو گیا۔ مہمان کھانا کھاتے رہے۔ رخصتی کی رسومات نہیں ہوئیں اور دلہن، سسرال پہنچا دی گئی۔ ہم بس ہکا بکا بس تماشہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ یہ وہی منحوس دن تھا جب میرے بھائی کے خواب چکنا چور ہوئے، کاش آج وہ موجود ہوتا۔ ایسا دن کسی پر نہ آئے۔ مگر آج انیل کی مراد پوری ہو گئی تھی۔ اس نے دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا اور پہلے طعنے سے سواگت کیا کہآ خر د لہن خود اپنے پیروں پر چل کر ہمارے پاس آ گئی ہے۔ وہ جس نے ہمارا تحفہ ہمارے منہ پر مارا تھا، آج ہم اس کو منہ دکھائی میں کیا دیں ؟ اور وہ جو تم ایک باڈی گارڈ اپنے ساتھ رکھتی تھیں تو کہاں ہے وہ ؟ آج تو وہ تمہارے ساتھ نہیں ہے اور وہ دوسرا، جو دولہا بن کر آیا تھا، وہ بھی تو بارات لے کر واپس چلا گیا، آخر کام ہم ہی آئے اس برے وقت میں، تمہارا باپ خود تم کو سجا سنوار کر ہماری جھولی میں ڈال گیا ہے۔ یہ الفاظ پگھلا ہوا سیسہ تھے جن کو نہ جانے کس دل سے عالیہ نے سنا۔ اس دن تو انیل نے بس اسی قدر برا بھلا کہا تھا، شاید سماج یا معاشرے کے ڈر سے ، لیکن اس کے بعد جوں جوں دن گزرتے گئے اور وہ پرانی ہوتی گئی، ستا ستاکر عالیہ کو زندہ در گور ہی کر دیا۔
اس کی شادی کے بعد ہم دوبارہ خالہ کے گھر نہ گئے لیکن عالیہ کے ناخوش رہنے سے اس کے والدین بہت دکھی رہنے لگے تھے۔ یہ دکھ تو کوئی ان سے پوچھے جن کی بیٹیاں بلا کسی قصور کے اس طرح اجاڑ دی جاتی ہیں۔ شادی کیا تھی، خانہ بربادی تھی، لیکن عالیہ بھی کیا کرتی حالات ہی ایسے ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ ایک سوکھا ہوا پھول ہو گئی۔ ہر وقت مرجھائی رہتی۔ انیل کبھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تو کبھی اس کا پراناز خم سلگ اٹھتا ، تب اس کو طعنوں کے تیر مارتے مارتے نیم جان کر دیتا تھا۔ وہ پھر بھی سہتی رہی۔ اگر بارات دروازے سے واپس نہ جاتی تو شاید اس کی زندگی ایسی نہ ہوتی، جیسی اب تھی۔ اس کے بعد کے دن میرے بھائی کے لیے بھی قیامت سے کم نہ تھے۔ کوئی لمحہ ایسانہ تھا جب اسے عالیہ کی یاد نہ ستاتی ہو۔ وہ ہوائوں کو ، فضائوں کو پاگلوں کی طرح پیغام دیتا تھا اور تنہائی میں خود سے باتیں کرتا تھا۔ کہتا تھا آخری لمحے تک وہ میری منتظر رہی ہو گی ، اے کاش میں حوصلہ کرتا اور چلا جاتا۔ وہ صبح سویرے کھیتوں کو نکل جاتا تھا اور دیر تک وہاں گھومتار بتا یا گھر آکر قلم اور اپنی ڈائری لے کر بیٹھ جاتا اور دل کی کیفیات کو رقم کرتارہتا۔ ایک دن وہ ڈائری لکھ رہا تھا کہ اس پر دورہ پڑا اور بے سدھ ہو گیا۔ ابا جان فورا ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے دوا دی اور کہا کہ اس کو ہر طریقے سے خوش رکھا جائے۔ ان کے ذہن پر بہت بوجھ ہے۔ ان سے آپ لوگ باتیں کیا کریں۔ ہم کیا باتیں کرتے ، جب وہ کسی سے بات کرتا اور نہ کسی کی بات کا جواب دیتا تھا –