Thursday, October 10, 2024

Yaad Taza Hai

یہ اُس وقت کی بات ہے، جب بہت سے لوگ بچھڑے تھے اور بہت سے گھر اجڑے تھے ہم ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی رہا کرتے تھے۔ میرے تین بھائی اور تین ہی بہنیں تھیں۔ اُن دنوں میری شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہمارے عزیزوں میں ایک لڑکا ولید پڑھا لکھا اور سرکاری محکمے میں ملازم تھا۔ وہ میرے والد کے پھوپھی زاد بھائی کا بیٹا تھا۔ ولید سے میری شادی جلدی میں طے کر دی گئی۔ دراصل میرے سسرال والے جلد شادی کرنا چاہتے تھے لیکن والد صاحب مہلت مانگ رہے تھے۔ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی کا بیاہ دھوم دھام سے ہو۔ جب آزادی کی تحریک نے زور پکڑا تو والد صاحب پر ولید کے والد نے دبائو ڈالا کہ تم ایسے حالات میں تاخیر سے کام مت لو بلکہ بیٹی کی رخصتی جلد از جلد کر کے اس فرض سے سبکدوش ہو جائو حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ہمارے محلے میں اور لوگ بھی جو مسلمان تھے، ان فرائض سے سبکدوش ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق رشتے ناتے طے ہو رہے تھے ۔ ان حالات میں میری شادی کی تاریخ بھی طے کر دی گئی اور پھر بغیر باجے گاجے اور دھوم دھڑکے کے مجهے ایک شام سادگی سے دلہن بنا دیا گیا۔ دولہا والے چند قریبی عزیز لے کر آگئے۔ نکاح ہوا اور پھر اسی وقت خاموشی سے رخصتی کر دی گئی۔ والدہ کو بہت ارمان تھا کہ میری بیٹی کی شادی پر سکھیاں گیت گائیں، ڈھولک بجے، مگرجو قدرت کو منظور تھا، وہی ہوا، یعنی میں سادگی کے ساتھ بیاہ کر قریبی گائوں سے امرتسر چلی گئی۔ ہمارا گھر جس علاقے میں تھا، وہاں سکھ زیادہ تھے اور مسلمانوں کے گھر کم تھے۔ میں سولہ برس کی کم سن لڑکی تھی۔ مجھ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ سسرال میں بہت پیار ملا۔ ہر شخص مجھ سے پیار کرتا تھا۔ میں شادی سے بہت خوش تھی لیکن میرے سسر اور جیٹھ صاحب کے چہرے اداس رہتے تھے کہ اب ہمیں گائوں چھوڑنا ہو گا کیونکہ اردگرد کے حالات پرسکون نہیں رہے تھے۔ میرا سسرالی گائوں بھی امرتسر کے قریب ہی تھا۔ اس غیر یقینی کیفیت میں ایک سال بیت گیا کہ یہیں رہنا ہے یا نقل مکانی کرنی ہے۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا ، تاہم گھر کے مرد جب باہر سے گھر آتے تھے تو برصغیر کی آزادی اور نئے ملک کی باتیں کرتے تھے ۔ یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔

ان ہی دنوں میری بیٹی فریدہ نے جنم لیا ۔ ساس نندوں کو ایک کھلونا مل گیا۔ فریدہ سبھی کی جان تھی۔ میں اپنی بچی کے لئے اتنے محبت کرنے والے دیکھتی تو اپنی قسمت پر رشک کرتی تھی۔ انہیں دنوں فسادات کی خبریں آنے لگیں۔ مشرقی پنجاب میں ان خبروں کی بازگشت زیادہ سنائی دے رہی تھی اور ہمارے گھر والے گائوں چھوڑنے کی باتیں کر رہے تھے۔ ہمارے علاقے میں بهى بالآخر نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔ بلوائیوں نے کبھی اس بستی کو کبھی اس بستی کو لوٹنا شروع کر دیا۔ یہ خبریں بہت روح فرسا تھیں۔ ایک دن بائو جی گھبرائے ہوئے آئے اور کہنے لگے۔ جلدی کرو ، صرف ضرورت کی چند اشیاء لے لو، ہمیں کسی بھی وقت یہاں سے کوچ کرنا پڑے گا۔ میری نندیں اور ساس بھی سن رہی تھیں۔ ان کا رنگ یہ بات سن کر پیلا پڑ گیا۔ میری ساس کو اپنی گائے بھینسوں اور مال مویشی سے بہت پیار تھا۔ ان کو گھر بار کی اشیاء سے زیادہ اپنے ان جانوروں کو چھوڑ جانے کا صدمہ تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے ہمیں کوچ کا حکم مل چکا تھا۔ ہماری ساس اماں مختصر سامان باندھتے ہوئے بار بار اپنے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھ رہی تھیں اور نندیں بھی رو رہی تھیں۔ میرا دھیان اپنے میکے کی طرف تھا، جو فیروز پور کے قریب گائوں میں رہتے تھے۔ خدا جانے ادھر کا کیا عالم تھا؟ کوئی آجا نہیں رہا تھا شاید وہاں بھی ایسے ہی حالات تھے ۔ مجھے اپنی والدہ اور بہنیں یاد آرہی تھیں۔ والد صاحب اور بھائیوں کی فکر کھائے جاتی تھی۔

کوچ کی گھڑی آگئی – سسر صاحب نے ہم کو ایک گاڑی میں سوار کروا دیا۔ شہرمیں سسر صاحب نے ہمیں اپنے ایک دوست کے گھر پہنچایا ۔ ان کے گھر ہم نے کچھ دن پناہ لینی تھی کیونکہ راستے میں سبھی کی جان کو خطرہ تها- سسر صاحب ہم کو چھوڑ کر واپس اپنے گائوں جانے لگے تو میں نے ان سے منت کی کہ بائو جی آپ مجھے ساتھ لے چلیے اور کسی صورت میرے والدین سے ملوا دیجیے۔ وہ بولے بیٹی ادھر سے فیروز پور جانا خطرے سے خالی نہیں۔ ہر طرف خطرہ ہی خطرہ ہے۔ ہدایت کی گئی ہے کہ جوجہاں ہے، وہاں ہی رہے۔ اس وقت ہم ایک بااثر خاندان کی پناہ میں ہیں۔ اگر یہاں سے نکلے تو پھر جانے کوئی ہمیں یہ وقتی پناہ بھی دے یا نہ دے۔ چچا کی بات ایک حقیقت تھی لیکن میرے سر پر تو اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی محبت سوار تھی۔ اس ابتلا کی گھڑی میں ، میں ان کا حال جاننا چاہتی تھی اور جلد از جلد ان سے ملنا چاہتی تھی۔ میں نے زور شور سے رونا شروع کر دیا کہ جو ہو مجھے ان کے پاس جانا ہے یا پھر ان کو یہاں لے کر آئیے۔ میری حالت دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گئے۔ انہوں نے وعدہ کیا، بیٹی تم تحمل سے کام لو، میں ان کی خیریت معلوم کرکے ہی لوٹوں گا۔ جونہی کوئی سبیل نظر آئی کہ تم ان تک یا وہ تم تک پہنچ سکیں تو کوشش کروں گا کہ اچھا ہو جائے۔ جن لوگوں نے ہم کو پناہ دی تھی، ان کے بزرگ گرچہ ہمارے ہم مذہب نہیں تھے، لیکن خدا ترس انسان تھے۔ انہوں نے بھی سمجھایا کہ بچی صبر سے کام لو۔ یہ بڑا کٹھن وقت ہے۔ میں بھی دھیان رکھوں گا کہ جب بھی کوئی گاڑی فیروزپور جانے والی ہوئی میں تم کو بہ حفاظت وہاں چھوڑ آئوں گا۔ ان سب کی باتوں سے مجھے صبر نہیں آیا بلکہ مزید رونے لگی۔ دو تین دن اسی الجھن اور پریشانی میں گزر گئے۔ آخر کار صاحب خانہ نے مجھے خوش خبری دی کہ ان کی گاڑی فیروز پور جا رہی ہے۔ اگر والدین کی طرف جانا ہے تو تیار ہو جائو۔ وہ خود بھی ہمارے ساتھ جا رہے تھے۔ میں اور میری بچی فریده، جو ان دنوں چھ سات ماہ کی تھی اور میرے سسر صاحب ،ہم تینوں بزرگ کے ہمراہ ان کی گاڑی میں روانہ ہو گئے۔ مجھے انہوں نے اپنی بیٹی کے کپڑے پہنا دیئے اور میرے سسر نے ویسی ہی پگڑی باندھ لی جیسی سکھ مذہب کے بزرگ باندھتے ہیں۔

راستے میں حالات بڑے مخدوش تھے، لیکن جو بزرگ سردار ہمارے ساتھ جا رہے تھے وہ اس علاقے کے جانے مانے اور بااثر آدمی تھے، اس لئے بلوائی ان کو دیکھ کر ایک طرف ہو جاتے تھے۔ کوئی بھی ان کی گاڑی کو نہیں روکتا تھا۔ میری دلی کیفیت اور دکھ کو محسوس کرتے ہوئے چچا مجھے لے آئے تھے۔ جب ہم والد کے گائوں پہنچے تو میں یہ دیکھ کر خوش ہو گئی کہ وہاں سب خیریت سے تھے۔ میکے والے ہم کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ ہم ایک روز ان کے پاس ٹھہرے۔ اگلے دن ہمارے میزبان کو واپس جانا تھا ۔انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ لوگوں نے واپس جانا ہے تو ابھی نکل چلیے۔ کل تک کا کچھ پتا نہیں کہ حالات کیا سے کیا ہو جائیں۔ ہم یہاں پھنس جائیں گے ۔ میرا دل نہ چاہتا تھا کہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر جائوں مگر چچا صاحب کی وجہ سے مجبور تھی کہ واپسی کے وعدے پر یہاں لائے تھے۔ جب ہم واپس جانے لگے تومیرے میکے کا ہر فرد رو رہا تھا ۔ امی جان فریده کو کلیجے سے لگائے ہوئے تھیں۔ جب میں اسے لینے کو ہاتھ بڑھاتی ،وه اسے بھینچ کر رونے لگتی تھیں۔ ایسی صورت میں مجھے ماں پر رحم آیا۔ سوچا جو خدا کو منظور ہو گا، وہ ہوگا۔ کیوں نہ میں فریدہ کو امی جان کے حوالے کر جائوں۔ کیونکہ رستے میں ایسے نظارے دیکھے تھے کہ واپسی میں بھی جی ڈر رہا تھا۔ میں نے اپنی بچی کو آخری بوسا دیا اور امی کو دے کر کہا۔ اب یہ آپ کے پاس ہی رہے گی اور جلدی سے باہر نکل کر بزرگ میزبان کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ سفر تمام ہوا اور ہم جس طرح گئے تھے دوباره صاحب خانہ کے گھر بہ خیریت لوٹ کر آگئے۔ ہم کو خیریت سے دیکھ کر سب کے چہروں پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ جس روز ہم لوٹے تھے اس کے دوسرے دن ہی زبردست فسادات شروع ہوگئے اور اس قدر ہولناک خبریں آنے لگیں کہ دل دہل رہے تھے ہمیں میزبان نے گھر کے تہہ خانے میں کئی دن تک چھپا کر رکھا۔ وہ ہمیں کھانا بھی تہہ خانے میں پہنچاتے رہے۔ سچ ہے کہ ہر مذہب میں اچھے برے ہوتے ہیں۔ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جب فسادات کی آگ ذرا دھیمی ہوئی تو فوج نے مہاجروں کی حفاظت کا ذمہ لیا تو ہم بھی نکلے۔ اب ہمیں فیروز پور جانا تھا، جہاں اپنے میکے والوں کا پتا کرنا تھا۔ اس کے بعد ہی آگے جا سکتے تھے۔

ہمارے ساتھ آرمی کی ایک گاڑی تھی۔ ان میں گورکھوں کے علاوہ غیر ملکی فوجی بھی تھے۔ جب ہم گھر کے دروازے پر پہنچے تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ پاس پڑوس کے لوگوں سے پوچھا ۔ انہوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا، تب چچا جان اور ولید دیوار پھلانگ کر اندر گئے تاکہ حالات کا جائزہ لیں۔ تمام گهریلو سامان جوں کا توں موجود تھا۔ بلوے کے کوئی آثار بھی نہ تھے یعنی کوئی خون وغیرہ نہ تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ عارضی طور پر گھر والے کہیں چلے گئے ہیں۔ سامنے میری بچی کے فراک کھلونے اور جوتے رکھے تھے۔ جاتے ہوئے وہ ان ضروری چیزوں کو بھی چھوڑ گئے تھے۔ میں نے فریدہ کے کپڑوں کو اٹھا کر آنکھوں سے لگایا اور رونے لگی ۔ دلبرداشتہ ہو کر پھر وہاں سے نکلے- اس کے بعد بھی کافی جدوجہد کی مگر میرے میکے والوں کا سراغ نہ مل سکا کہ کہاں گئے۔، پچھتانے لگی کہ جبجب امی سے ملنے گئی تھی، اپنی جگر گوشہ کو تو ان کے حوالے نہ کرتی۔ یوں میرے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ میری بیٹی بھی کھو گئی۔ مایوس ہو کر ہم نے بھارت کی سرحد عبور کی اور لاہور آگئے۔ یہاں بہ حفاظت پہنچ کر سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ہر کیمپ میں میرے میکے والوں کو تلاش کیا گیا، نہ ملے۔ کافی عرصے کی تلاش. بعد تھک کر ہم لاہور سے گوجرانوالا آگئے ، جہاں ہم کو مکان اور زمین کلیم میں الاٹ ہوئی۔ کچھ عرصہ کی مشکلات کے بعد ہم یہاں آباد ہو گئے۔ اس واقعے کو کافی عرصہ بیت گیا۔ ایک جوان نسل بوڑھی ہوگئی۔ بہت سی یادیں باقی ہیں ، کچھ مٹ چکی ہیں لیکن فریدہ کی یاد آج بھی روز اول کی طرح تازہ ہے۔ وہ دن آج بھی نگاہوں کے سامنے پھرتا ہے۔اس عرصے میں کتنی خوشیاں دیکھی ہیں۔ خوشحال بھی ہو گئے مگر فریدہ کے بغیر کوئی بهی خوشی میرے دل کو خوشی نہیں دیتی۔ نہ تو میکے والے ملے اور نہ ہی میری بیٹی مل سکی۔ امن ہوا تب میرے شوہر تلاش میں بھارت بھی گئے تھے۔ میرے والدین کے گھر میں اور لوگ رہتے ہیں۔ انہوں نے بھی سابقہ مکینوں کے بارے لاعلمی کا اظہار کیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے پیارے کدھر چلے گئے۔ آج ہمارے پاس اپنا وطن ہے مگر یہ آزادی بہت کچھ قربان کر کے ملی ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے۔ میرے چار بچے پاک سر زمین میں پیدا ہوئے ہیں ۔ وہ پاکستانی ہیں مگر ان کو خبر نہیں کہ ان کی ایک بہن بھی تھی جو کس طرح ہم سے بچھڑ گئی۔

Latest Posts

Related POSTS