Saturday, April 20, 2024

Yaad Tu Ate Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میں آج سے پینتالیس برس قبل انگلستان آئی تھی اور اب یہاں کی باشندہ ہوچکی ہوں۔عرصہ گزرا، وطن واپس جانا نہ ہوسکا۔ لوگ پوچھتے ہیں کبھی وطن جانے کو جی نہیں چاہتا! خاموش ہوجاتی ہوں۔
کسی کو کیا بتائوں کہ وہاں اب اپنا کوئی نہیں ہے کس کی خاطر جائوں۔جو اپنے تھے وہ راہی ملک عدم ہوئے یا پھر ساتھ چھوڑ گئے۔ مرحوم والدین چلے گئے، رشتے داروں نے بھلادیا اور جیون ساتھی نے بے وفائی کا ایسا زخم لگایا کہ آج تک اس سے لہورستاہے۔ ان یادوں کو بھلاپائوں گی تو وطن جائوں گی۔ وطن کی محبت اپنی طرف کھینچتی ضرور ہے مگر بچیوں کی محبت پائوں پکڑ لیتی ہے۔ ڈرتی ہوں پھراگر چھوڑ کر گئی تو کہیں ان کو کھو نہ دوں۔ جو ایک بار اپنا سرمایہ گنوا چکا ہو اسے دوبارہ کھو جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہےکہ جب کسی اپنے سے اعتبار اٹھ جائے تو خوف لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے۔
مجھے بھی کچھ ایسے ہی خوف لاحق رہے جن کے سایوں میں ڈری سہمی زندگی گزارتی رہی۔ میری شخصیت حوادث زمانے سے ٹوٹ پھوٹ گئی حالانکہ شادی سے قبل میں بڑی نڈر تھی ایسی بالکل نہ تھی جیسی اب ہوں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سولہ برس کی تھی اور اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹے سے گائوں میں رہا کرتی تھی۔ گائوں میں سلیم کے آنے سے قبل میری دنیا اپنے گھر تک محدود تھی لیکن جب گائوں کے ایک امیر شخص کا یہ امیرزادہ برطانیہ سے یہاں آیا تو زندگی میں خوابوں کے ساتھ ساتھ عذابوں کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا۔
ہر روز شام کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ چشمے سے مشکیزہ بھرنے جایا کرتی تھی۔ وہاں پہلی بار سلیم نے مجھے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ دوسری بار اس نے اکیلے جاتے دیکھ کر مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے اس کو نظرانداز کردیا اور آگے بڑھ گئی۔
میں ایک غریب چرواہے کی بیٹی تھی۔ اپنی غربت کی وجہ سے اس کے ساتھ جان پہچان پیدا کرکے کسی مصیبت میں پھنسنا نہیں چاہتی تھی ۔ جانتی تھی کہ ہمارے گائوں کی دو لڑکیوں کا بڑے باغات کے مالک دو لڑکوں سے محبت کا چکر چل گیا تھا اور انجام کار وہ غائب ہوگئی تھیں۔ کہاں گئیں کوئی نہیں جانتا۔ پھر ان کے غریب ماں باپ گائوں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے،دنیا والوں کے طعنوں سے بچنے کے لئے۔ ان لڑکوں کا مگر بال بیکا نہ ہوا تھا۔
یہ زندہ مثالیں ہم گائوں کی غریب لڑکیوں کی عبرت کے لئے کافی تھیں۔ قصہ مختصرمیں سلیم کی طرف سے منہ پھیرلیتی ۔ اسے مجھ سے ایسی بے رخی کی توقع نہ تھی۔ وہ ایک دولت مند باپ کا خوبصورت لڑکا تھا۔ پڑھا لکھا اور لندن پلٹ تھا۔ ایک چرواہے کی بیٹی اس سے بے رخی اختیار کرسکتی ہے، ایسا وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔
میری بے نیازی اس کے لئے چیلنج بن گئی۔ تب اس نے اپنی ذات کو نظرانداز کرنے والی لڑکی کو حاصل کرنے کا تہیہ کرلیا۔
ایک روز بکریاں چرانے وادی میں اتری تو وہاں ایک بوڑھی عورت آگئی۔ جانتی نہ تھی کہ یہ سلیم کی خادمہ ہے۔ اسے بچپن میں پالا تھا۔ میرے قریب آکر بولی ۔بیٹی سلیم تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ ایک بار اس کی بات سن لو کیونکہ واپسی کے دن قریب آرہے ہیں اسے لوٹ کر انگلستان جانا ہے۔ اس نے میری منت کی ہے کہ تمہیں راضی کروں۔
میں نے اس عورت سے کہا۔ وہ امیر زادہ ہے۔ کئی ایکڑ باغات کا مالک ہے جبکہ میں ایک غریب چرواہے کی بیٹی ہوں۔ آخر مجھ غریب سے اس نے ایسی کیا بات کرنی ہے۔
بیٹی صاف بتانا چاہتی ہوں کہ وہ تم سے شای کرنا چاہتا ہے۔ کیا اسے سارے انگلستان میں شادی کے لئے کوئی اور لڑکی نہیں ملی۔ یہ دل کی بات ہے وہ یہاں شادی کرنے ہی آیا تھا ۔ انگریزوں کے ملک میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اتفاق سے تم پر نظر پڑگئی۔
بوڑھی عورت نے کچھ اس طرح بات کی کہ میں سوچ میں پڑگئی۔ میں نے کہا۔اچھا میں بات کرلیتی ہوں تاکہ اس کے دل میں خلش نہ رہے لیکن میری اس کے ساتھ شادی ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے گھر والے کسی غریب گھرانے سے رشتہ جوڑنا ہرگز پسند نہیں کریں گے۔
یہ بعد کی بات ہے لڑکی۔ وہ بولی ۔ لیکن بات کرنے سے اگر کسی کے دل کو سکون میسر آجائے تو اس میں ہرج کیا ہے؟ غرض عورت کی منت سماجت کی وجہ سے میں راضی ہوگئی۔
کہا۔ اماں اس سے کہو کہ بات کرلے مگر تم موجود رہنا۔
کہنے لگی ۔ ٹھیک ہے وہ نزدیک ہی ہے میرا انتظار کررہا ہے۔ میں ابھی اسے لے کر آتی ہوں۔ وہ چلی گئی اور میں ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ پندرہ منٹ بھی نہ گزرے تھےکہ وہ آگیا۔ اماں ایک طرف درخت کے نیچے کھڑی ہوگئی۔ سلیم نے کہا۔ میری بات غور سے سنو۔ وقت کم ہے، میں کسی کھیل تماشے کا قائل نہیں۔ جس ملک سے آیا ہوںوہاں سیدھی بات کو پسند کیا جاتا ہے۔
تو سیدھی بات کہہ دو۔ سن رہی ہوں۔ میں نے کہا۔
وہ بولا۔ والدین نے مجھے یہاں اس لئے بلایا تھا کہ رشتے داروں میں میری شادی کردیں۔ وہ چچا زاد سے شادی کرنا چاہتے تھے جس کے ساتھ بچپن میں نسبت طے ہوگئی تھی مگرجب سے تمہیں دیکھا ہے دل اس سے شادی پر آمادہ نہیں۔
پہلے اپنے والدین کوراضی کرلو ۔میں کل سوچ کر جواب دوں گی۔ میں نے کہا۔ دراصل میں جلد ازجلد اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔
سلیم نے میری گھبراہٹ کو محسوس کرلیا اورچلاگیا۔ اس کا انداز اتنا شریفانہ تھا کہ میں سوچنے پر مجبور ہوگئی۔اس کی باتوں سے سچائی جھلک رہی تھی۔ گھر پہنچتے ہی ہمت کرکے یہ بات میں نے بڑی بہن کو بتادی۔ ماں نے سنا تو بری طرح خوفزدہ ہوئی۔ کہا۔ بیٹی ان سے بچ کر رہو۔یہ بڑے لوگ ہیں اور اثرو رسوخ والے ہیں۔ ہم جیسوں کو وہ خدمت گار رکھنا بھی قبول نہیں کرتے۔
وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔جونہی سلیم نے اپنے والدین کو یہ عندیہ دیا کہ وہ ایک غریب چرواہے کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے والد چراغ پا ہوگئے۔اگلے روز انہوں نے میرے باپ کو بلوا کر کہا کہ اپنی لڑکی کو سمجھالو کہ وہ میرے بیٹے سے شادی کا خواب نہ دیکھے ورنہ تم لوگوں کو علاقہ بدر کردوں گا ۔ جب تک سلیم یہاں ہے اپنی لڑکی پر گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دو۔ آج کے بعد وہ باہر نظر آئی تومیں اسے اٹھا کر پھنکوادوں گا۔
جب اس کی بوڑھی خادمہ دوبارہ میرے پاس آئی تو میں نے اسے احوال بتا کر کہا۔ اماں اب دوبارہ آنے کی زحمت نہ کرنا۔ سلیم سے کہو اپنے والدین کو سمجھادے۔ ہم غریب لوگ دربدر ہو کر کہاں جائیں گے۔ کیوں ہم کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
سلیم تو لندن پلٹ لڑکا تھا۔ اس نے دنیا دیکھی تھی ، کسی سے ڈرنے والا نہ تھا۔ ا س نے خوب اپنے والدین سے معرکہ کیا اور صاف کہہ دیا کہ اس کی شادی اگر اس کی مرضی سے نہ کی گئی تو وہ باغات کو نذر آتش کر دے گا اور بر طانیہ چلا جائے گا پھر کبھی واپس نہ آئے گا۔
سلیم کے ماں باپ جانتے تھے کہ وہ برٹش نیشنل ہے اور بہت ضدی ہے۔ پس انہوں نے ہتھیار ڈالنا ہی مناسب سمجھا۔ اکلوتے بیٹے کو کسی طور کھونا نہیں چاہتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے شرط رکھی کہ ایک شادی ہم تمہاری مرضی سے کریں گے۔ دوسری شادی تمہیں ہماری مرضی سے کرنا ہو گی۔ بے شک دوسری بیوی کو ساتھ نہ لے جانا ۔وہ ہمارے پاس ہی رہے گی لیکن وہ تمہاری بچپن کی منگیتر ہے ۔کہیں اور اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے تمہیں راضی کیا، تمہیں بھی ہمیںراضی کرنا ہو گا۔
سلیم نے سوچا کہ کل کی کل دیکھی جائے گی ،فی الحال کسی طرح اپنی محبت کو حاصل کر لوں۔اس نے ماں باپ کی شرط تسلیم کر لی اور یوں بیٹے کے دبائو اور ضد کے آگے انہوں نے شادی کی اجازت دے دی۔
نکاح کے بعد ساس سسر نے مجھے قبول نہ کیا اور میں اپنے والدین کے گھر رہ گئی۔ سلیم برطانیہ لےجانے کے قانونی تقاضے پوری کرنے کے بعد
مجھے اپنے ساتھ لندن لے آیا۔ ہمارے لندن روانہ ہونے کے فوراً بعد میرے والدین بھی گائوں سے کوچ کر کے شہر آ بسے کیونکہ انہیں انتقامی کارروائی کا اندیشہ تھا۔
یہاں کی زندگی میں میرے لئے خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مجھے اتنی نعمتیں میسر آ جائیں گی۔ میں تو صرف چار جماعتیں پاس تھی۔ سلیم نے مجھے خود پڑھا کر اس قابل کیا کہ میں ضروری معاملات تھوڑا بہت سمجھ سکوں۔ قدرت کو میرا امتحان لینا مقصود تھا کہ پانچ سال میں تین بچیوں کی ماں بن گئی۔ سلیم کو اب بیٹے کی چاہ تھی ۔وہ مزید بیٹیوں کی پیدائش سے خوف زدہ تھا۔ انہی دنوں اطلاع ملی کہ اس کی والدہ شدید بیمار ہیں۔ ہمیں فوراً وطن واپس جانا پڑے گا۔
ہم پاکستان آئے تو سسرال والوں نے میرا سواگت اچھے طریقے سے نہیں کیا۔ وہ سبھی نخوت کے مارے مجھ سے اکھڑے اکھڑے تھے تاہم ان کے دلوں کو میری بچیوں کی پیاری پیاری باتوں نے موہ لیا ۔سب ان سے پیار کرنے لگے۔خاص طور پر دادا دادی تو پیار کرتے نہ تھکتے تھے۔
چند دنوں بعد میں نے سلیم سے کہا کہ والدین سے بچھڑے مجھے کئی سال بیت گئے ہیں۔ ان سے ملنے کے لئے جانا چاہتی ہوں۔ انہوں نے ہمارے ایک رشتہ دار سے پتا لیا اور خود قریبی شہر میرے والدین کے پاس ملانے لے آئے۔ بچیوں کو دادا دادی نے نہ آنے دیا ۔کہا۔ تم لوگ دوچار دن رہ کر آ جانا ۔یہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔
میکے میں والدین نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا میں مدت بعد جو ملی تھی۔ والدہ کہنے لگیں۔ اے کاش چند دن ہمارے پاس رہ جاتیں ۔ سلیم بولے۔ تم بے شک ایک آدھ ہفتہ والدین کے ساتھ گزار لو۔ جب کہو گی آ کر لے جائوں گا ،پھر جانے کب ملنا ہو۔ میرا بھی جی چاہتا تھا کہ بوڑھے ماں باپ کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار لوں سو میں نے سلیم سے کہا کہ ایک ہفتے بعدآ کر لے جانا۔ بچیوں کا خیال رکھنا ۔
ہفتہ پلک جھپکتے گزر گیا پھر پندرہ دن ۔یونہی دو ماہ بیت گئے۔ وہ لینے نہ آئے۔ میں نے کسی طور رابطہ کیا تو کہا گیا کہ والدہ سخت بیمار ہیں، ابھی نہیں آ سکتے۔ چند دن صبر کرو۔
صبر کرنا ہی تھا، صبر سے دن گنتی رہی، یہاں تک کہ گائوں سے ایک رشتے دار آیا اور بتایا کہ سلیم کی والدہ بستر مرگ پر تھیں۔ انہوں نے سلیم کی شادی اس کی منگیتر سے کروا دی ہے۔ جو وعدہ ان لوگوں نے بیٹے سے لیا تھا اسے پورا کرایا۔ بیمار ماں کا حکم بیٹا نہ ٹال سکا تھا۔ جس لڑکی سے شادی ہوئی وہ بھی امیر باپ کی بیٹی تھی۔
میں کسی طور گائوں پہنچی تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔ میں نے سلیم سے فریاد کی کہ یہ کیا ستم کیا۔اپنی بچیوں کا خیال بھی نہ کیا۔ بیٹیوں کا واسطہ دے کر کہا کہ دوسری بیوی کو یہیں چھوڑدو اور مجھے بیٹیوں کےہمراہ لے کر برطانیہ واپس چلو۔
وہ بولے اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ وہ بچیاں لے کر واپس انگلینڈ لوٹ گئے۔ میں روتی ہوئی والد کے پاس آگئی۔شکر ہے کہ میرا پاسپورٹ میرے پاس تھا۔ کچھ زیور بھی میری دسترس میں تھا۔ زیور فروخت کر کے وکیل کیا کیونکہ میں اپنی بیٹیوں کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ ان کی یاد جگر چھلنی کئے دیتی تھی۔
وکیل صاحب انسان نہیں فرشتہ تھے۔ انہوں نے میرا دکھ سن کر سہارا دیا ۔مجھے بہن کہا اور ایک بھائی کی طرح میری سرپرستی اور مدد کی۔ لندن میں ان کے بڑے بھائی وکالت کرتے تھے ۔مجھے ان کے پاس بھیجا ۔وہ بہت قابل انسان تھے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ان کی سماجی خدمات قابل قدر تھیں۔ خاص طور پر اپنے ہم وطنوں کے مسائل بہت اخلاص سے حل کراتے تھے۔
میں حق پر تھی ،مجھے انصاف چاہئے تھا ۔مجھے اپنی بچیوں سے ملنا تھا۔ ناحق سلیم نے دربدر کر دیا تھا ۔والدین کے دبائو میں آ کر طلاق کا طوق بھی گلے میں ڈال دیا تھا۔یہ دبائو اس وقت قبول کیا جب میں ان کی تین بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ وہ اتنے پڑھے لکھے اور انسانیت نواز تھے، نجانے انہیں کیا ہو گیا کہ مجھے ظلم کی آگ میں دھکیل دیا۔
انگلینڈ میں کیس چلا۔عدالت نے بچے بھی دلوا دیئے۔بچیاں بھی کم سن تھیں۔ یہی نہیں سلیم کو ان کی پرورش کا خرچہ ادا کرنے کا بھی پابند کر دیا گیا ۔
اب سلیم کو احساس ہوا کہ اس نے غلط کیا ہے۔ بہت پچھتایا۔ مجھ سے معافی مانگی لیکن میرے دل سے اس کی محبت رخصت ہو چکی تھی۔ اتنی تکلیف اٹھائی تھی کہ محبت واپس نہیں آ سکتی تھی۔ وہ بیٹیوں کے بغیر اداس تھا۔ میں وکیل صاحب کی مرہون منت تھی ،جنہوں نے رہنے کیلئے اپنی رہائش گاہ کا ایک حصہ مجھے دے دیا۔
یہ عمر رسیدہ شخص تھے۔بہت سمجھایا کہ دوسری شادی کر لو، تمہارے لئے یہی بہتر ہو گا۔ اپنی بیٹیوں کی خاطر قدم نہ اٹھانا چاہتی تھی۔ایک مخلص ساتھی اور گھر میری انتہائی ضرورت تھے۔ وکیل صاحب نے اپنے بیٹے سے میرا نکاح کرا دیا اور میں ان کی بہو بن کر ان کے گھر میں رہنے لگی ۔
وہ میری بچیوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ان کی کفالت میں کمی نہ کی۔ اچھے اسکول میں داخل کرایا ۔مجھے ڈرائیونگ سکھائی تو میں خود اپنی لڑکیوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے جانے لگی۔ وہاں کئی بار سلیم آیا۔ مجھ سے صلح کے لئے منت کی۔ دوبارہ شادی کی استدعا کی لیکن اب میرے لئے یہ ممکن نہ رہا تھا۔ اس کی ایک بیوی موجود تھی۔ ا س کو وہ خاندانی ہونے کی وجہ سے طلاق نہ دے سکتا تھا اور میں دوسری بار طلاق کا کلنک سجانے پر راضی نہ ہوئی۔ اسی وجہ سے پاکستان لوٹ کر نہ گئی اگرچہ والدین کی جدائی تڑپاتی تھی۔
آخر کار میرے منتظر والدین ایک ایک کر کے دنیا سے رحلت کر گئے اور میرے لئے وطن میں ان کے گھر کے دروازے بھی بند ہو گئے۔
بیٹیاں عدالتی حکم کے تحت مقررہ دنوں میں اپنے والد سے ملاقات کر سکتی تھیں۔ ہر بار جب سلیم ان سے مل کر جاتا اس کی اداسی اور بڑھ جاتی ۔تب میں سوچتی تھی اگر اس امیر زادے کے بس میں اپنی روایات کا بندھن ممکن نہ تھا تو مجھ غریب لڑکی سے کیوں شادی کی۔اگر بیٹیوں کے جنم پر ناخوش اور بیٹے کی چاہ میں دوسری شادی کی تھی تو اب بیٹیوں کے لئے کیوں اداس رہتا تھا۔ ان سے جدا ہو کر تڑپتا تھا۔ دوسری شادی کی اور اس بیوی سے بھی محبت نہ کر سکا۔ اسے چند ماہ اپنے پاس رکھ کر گائوں بھجوا دیا ۔
نجانے یہ کیسا ڈرامہ تھا جواس نے مجھ سے اور میری بچیوں اور اپنی دوسری شریک حیات سے رچایا ۔ انسان دیکھنے میں کچھ نظر آتا ہے لیکن یہ عجیب پیچیدہ مخلوق ہے کہ ہر پل ایک نیا روپ دھارتا ہے۔ کوئی ایسے انسان کو نہیں سمجھ سکتا جیسا کہ سلیم تھا ۔نجانے کتنے روپ تھے اس شخص کے ۔۔۔ دوسرے شوہر کی وفات کے بعد بھی میں انہی کی رہائش گاہ میں قیام پذیر رہی۔ میرے دیور نے میری بچیوں کی شادیاں اپنے بیٹوں سے کرا دیں آج بڑھاپے میں انہی کے ساتھ زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔
یہی میرا گھر ہے اور یہی میرے اپنے ہیں۔ وطن جانے کی خواہش ضرور ہے مگر جا کر کیا کروں گی۔
(و۔لندن)

Latest Posts

Related POSTS