ابو اور چچا میں اتنی محبت تھی کہ دادا جان کی وفات کے بعد بھی انہوں نےجائداد تقسیم کی اور نہ گھر علیحدہ کیا۔ ہم سب بدستور ایک ہی گھر میں رہتے رہے۔ ہماری دوستی چچا کے بچوں سے گہری ہوتی گئی۔ میں اور چچا زاد بہن شبانہ یک جان جبکہ میرا بھائی ناصر اور چچا زاد فیروز آپس میں گہرے دوست تھے۔ ہم چاروں ایک ہی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھے۔ والد صاحب کی گاڑی گھریلو استعمال میں رہتی تھی جبکہ چچا کی گاڑی ہم چاروں کو اسکول چھوڑنے اور لانے کے لئے وقف تھی۔
شبانہ مجھ سے ایک سال پیچھے تھی جبکہ ناصر اور فیروز میری ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ حالانکہ میں ان دونوں سے ڈیڑھ سال بڑی تھی۔ اسکول کا دور پلک جھپکتے میں گزر گیا۔ کالج کا مرحلہ آیا، تبھی اباجان نے ہم تینوں کو ایک ہی کالج میں داخلہ دلوایا۔ ان کے خیال میں بیٹیاں زیادہ ذمے داری محسوس کرتی ہیں۔ میں باادب بھی تھی۔ والد صاحب نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ تم ناصر اور فیروز کی نگران ہو۔ ان کی پل پل کی خبر رکھنی ہے کیونکہ یہ کافی لاپروا ہیں۔ ان دونوں کی پل پل کی خبر تو مجھے تھی لیکن والد صاحب کے گوش گزار کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ البتہ ازخود اپنے بڑے پن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ کرلیا کرتی جس پر یہ دانت نکال کر ہنستے اور میرے رعب دبدبے کو ہنسی میں اُڑا دیتے تھے۔ اسکول لائف میں پھر کنٹرول میں تھے۔ کالج آتے ہی پَر پرزے نکال لیے۔ میرے وجود کو اپنی بدقسمتی سمجھتے تھے کیونکہ کھل کر شرارتیں نہ کرسکتے تھے۔ بالآخر ان کی شوخی رنگ لے آئی۔
امتحان کے دوران ایک روز جب ریاضی کا پرچہ تھا۔ ایک لڑکے نے کچھ لکھ کر پیچھے کی طرف پھینکا۔ جس لڑکے کو اٹھانا تھا، اس کے اٹھانے سے پہلے ہی فیروز نے وہ پرچہ اٹھا لیا اور نگران کو بتا دیا کہ زاہد نے وسیم کی طرف یہ پرچہ پھینکا ہے۔ نگران نے نقل کرنے کے جرم میں دونوں کو کمرۂ امتحان سے نکال دیا۔ یہ لڑکے بہت غصے میں تھے۔ اپنے دوستوں کے ہمراہ کالج کے باہر انتظار میں کھڑے تھے۔ جونہی ناصر اور فیروز نکلے، انہوں نے فیروز کو پکڑ لیا۔ ناصر نے چھڑانے کی سعی کی تو اس کی بھی پٹائی کردی ۔
میں گاڑی میں بیٹھی اپنے بھائی اور کزن کو پٹتے دیکھ رہی تھی۔ لڑکی ہونے کے ناتے کیا کرسکتی تھی۔ اتنے میں ہمارے پروفیسر صاحب کالج کے گیٹ سے نکلے تو انہیں دیکھ کر سب اِدھر اُدھر ہوگئے اور یہ دونوں میری منت کرنے لگے والد صاحب کو مت بتانا کہ جھگڑا ہوا ہے۔ ہم نے تو نہ بتایا مگر ان کے چہروں پر چوٹ کے نشان دیکھ کر والد صاحب سمجھ گئے کہ ان کا کسی سے جھگڑا ہوا ہے۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے بتا دیا۔ انہوں نے دونوں کا کھانا بند کردیا۔ شام ہوگئی تو ناصر نے مجھ سے کہا۔ کیسی بہن ہو… ذرا بھی ہماری بھوک کا احساس نہیں ہے۔ کچھ کھانے کو دو۔ کیا بھوکا مارو گی۔
والد صاحب شام کو کہیں چلے گئے تھے۔ میں نے کھانا نکال کر ان کے کمرے میں پہنچا دیا۔ کھانا کھا کر دونوں میرے کمرے میں آئے شکریہ ادا کرنے۔ تب میں نے نصیحت کی کہ آئندہ محض اپنے کام سے کام رکھنا، کلاس میں اِدھر اُدھر توجہ دینے کے بجائے اپنے پرچے کو حل کرنے میں منہمک رہا کرو۔ کسی سے دشمنی مول نہیں لینی۔
امتحان ختم ہوگئے۔ رزلٹ اچھا آیا تو ہم تینوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔یہاں میری تمام تر توجہ پڑھائی پر تھی اور ان دونوں کو اس نئے جہان کی رنگینیاں اپنی جانب بلاتی تھیں۔ ایک روز یہ دونوں لائبریری میں میری طرف آرہے تھے کہ ایک لڑکی کو پریشان دیکھا۔ انہیں لگا کہ سامنے کھڑے لڑکے اسے تنگ کرنے کے چکر میں ہیں۔ فیروز ان سے اُلجھ پڑنے کو تھا کہ میں وہاں پہنچ گئی۔ ناصر اور فیروز کو الگ لے جا کر سمجھایا کہ ہرگز اس لڑکی کے چکر میں نہ پڑنا۔ میں اسے جانتی ہوں، بڑی تیز طرار ہے۔ یہ تمہیں پٹوانے کی خاطر ڈرامہ کر رہی ہے۔ بعد میں پتا چلا واقعی وہ لڑکے میرے بھائیوں سے کوئی خار نکالنا چاہتے تھے۔ اب یہ میری قدر کرنے لگے۔
ایک روز یونیورسٹی سے نکلے تو گاڑی نہیں آئی تھی۔ پیدل کسی سواری کی تلاش میں چل پڑے۔ تھوڑا آگے گئے تھے تو دیکھا ایک نوجوان موٹر بائیک پر چلا آرہا ہے۔ اس نے جان بوجھ کر ایک طالبہ کو اپنی بائیک سے ٹکر مار دی۔ وہ گرتے گرتے بچی۔ اس منچلے نے اس سے کہا۔ معاف کرنا چوٹ تو نہیں آئی۔ اگر آئی ہے تو میری موٹر بائیک پر بیٹھ جائیے، آپ کو اسپتال لیے چلتا ہوں۔ یہ لڑکا یونیورسٹی کا طالب علم نہ تھا۔ کوئی راہ گیر تھا۔ فیروز کی حمیت نے جوش مارا۔ وہ اس نوجوان کی طرف لپک کر گیا اور بولا۔ شرم نہیں آتی، کسی لڑکی کو چھیڑتے ہوئے۔ وہ نوجوان موٹر بائیک سے اتر آیا اور فیروز کا گریبان پکڑ لیا۔ وہ اکیلا نہ تھا۔ اس کے پیچھے ایک اور موٹر سائیکل تھی جس پر دو نوجوان سوار تھے۔ وہ بھی قریب آگئے اور تینوں نے مل کر فیروز کو دبوچ لیا۔ اُلٹا واویلا کرنے لگے کہ تم لڑکی کو چھیڑ رہے تھے۔ لڑکی نے جو انہیں گتھم گتھا ہوتے دیکھا تو وہ وہاں سے ترنت کھسک گئی۔ اتنے میں ہماری گاڑی بھی آگئی۔ ناصر نے کسی طرح معافی تلافی کرکے اپنے کزن کو ان بدمعاشوں کے چنگل سے نکالا اور یوں ہم گھر پہنچے۔
اس دن کے بعد سے فیروز اور ناصر کو نامعلوم کالز آنے لگیں۔ نہ جانے کون لوگ تھے جو دھمکیاں دیتے تھے کہ گھر سے نکلو گے تو جان سے مار دیں گے۔ بہتر ہے کہ چوڑیاں پہن لو اور گھر میں ہی رہو۔
تین چار دن دونوں یونیورسٹی نہ گئے ۔ مگر کب تک نہ جاتے، مستقبل کا سوال تھا۔ اب تو امی بھی مجھے یونیورسٹی بھیجنے سے گھبراتی تھیں۔ صد شکر مجھے کسی نے کچھ نہ کہا۔ ان کی دشمنی فیروز سے تھی اور یہ وہی دونوں لڑکے تھے جنہیں شکایت کی وجہ سے امتحان ہال سے نکال دیا تھا۔ چند دنوں بعد کالز آنی بند ہوگئیں۔ ہم سب پہلے کی طرح اپنی گاڑی پر یونیورسٹی جاتے تھے۔ یہ تعلیمی سال بہ خیروخوبی گزر گیا۔
رزلٹ ابھی نہیں آیا تھا۔ ہم نے پکنک کا پروگرام بنالیا۔ فیروز کی بہنیں اور ہم سب ساتھ نکلے۔ ہم مری جارہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ ایک گڑھے میں کار پھنسی نظر آئی۔ میرے دونوں بھائی اتر کر گئے۔ دیکھا تو ایک لڑکی بے بسی کی تصویر بنی گاڑی میں بیٹھی تھی۔ بارش کے پانی کے سبب اسے گڑھا نظر نہ آیا اور گاڑی کا ایک وہیل اس میں پھنس گیا۔ میرے بھائی اور کزن دونوں نے مل کر اس کی گاڑی کو گڑھے سے نکال دیا۔
لڑکی بہت مشکور ہوئی۔ وہ ایک بڑے بزنس مین باپ کی بیٹی تھی۔ شکریہ ادا کرنے کے بعد اس نے میرے بھائی کو اپنا کارڈ دیا۔ جس پر اس کا فون نمبر وغیرہ درج تھا۔ کہنے لگی۔ اگر آپ میں سے کسی کو کبھی ملازمت کی ضرورت ہو تو مجھے اس نمبر پر یاد کرلینا۔
دونوں کو ہی ملازمت کی ضرورت تھی۔ ایک روز فون کرنے کے بعد ناصر اور فیروز اس لڑکی کے بتائے ہوئے پتے پر چلے گئے۔ یہ پتا اس کے والد کی کمپنی کا تھا اور وہ لڑکی وہاں آفس میں بیٹھی تھی۔ اس کا نام ریحانہ تھا۔
ریحانہ نے دونوں کو اپنے باپ سے ملوایا جس نے ان کا انٹرویو لیا اور ناصر کو منتخب کرلیا جبکہ فیروز سے کہا۔ آپ کو بعد میں موقع دیں گے۔ بھائی کی ملازمت لگی تو ہماری ایک بڑی پریشانی ختم ہوگئی۔ دراصل ریحانہ کے والد کی جہاں دیدہ نگاہوں نے ناصر میں وہ خوبیاں دیکھ لی تھیں جس کی انہیں تلاش تھی اور جب اپنی لاڈلی بیٹی کی پسند معلوم کی تو اس نے ناصر کا نام لیا۔ یوں میرے بھائی کی گویا لاٹری نکل آئی۔
ریحانہ بہت اچھی فطرت کی لڑکی تھی۔ امیر باپ کی بیٹی ہونے کے باوجود اس میں غرور نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ ہم میں گھل مل گئی۔ ریحانہ اور ناصر خوش و خرم زندگی بسر کررہے تھے لیکن فیروز پریشان تھا۔ اسے ابھی تک نوکری ملی تھی اور نہ جیون ساتھی… بھائی نے بیوی سے ذکر کیا کہ میرے کزن کے لیے کچھ سوچو۔ ریحانہ کی چھوٹی بہن فرحانہ بھی خوش شکل اور تعلیم یافتہ تھی۔ بھابی نے اپنے والد کو منالیا۔ یوں دوسری بیٹی سے فیروز کی شادی ہوگئی ۔
ریحانہ بھابی کا کوئی بھائی نہ تھا۔ یہ دو ہی بہنیں تھیں اور باپ کی تمام وراثت، مال و دولت ان کو ملنی تھی۔ اسی وجہ سے ان کے والد نے ناصر اور فیروز کو داماد بنانا پسند کیا تھا کہ دونوں سیدھے سادے اور شریف خاندان سے تھے۔ ہم لوگوں میں لالچ بالکل نہ تھا۔ اس بات کو انکل رمیز نے جان لیا تھا۔ انہوں نے بیٹیوں کی بھلائی اسی میں سمجھی کہ نیک لڑکوں سے ان کی شادی ہو۔
بھائی کی شادی کے دو سال بعد میری بھی شادی ہوگئی اور میں بیاہ کر امریکہ چلی گئی۔ ناصر بھائی کو اللہ نے ایک بیٹے سے نوازا لیکن فیروز اور فرحانہ اولاد کی خوشی سے محروم رہے۔ جس پر وہ افسردہ رہتے تھے۔
ایک روز بھائی نے ریحانہ سے کہا کہ میں تم سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔ فیروز اور فرحانہ اولاد کے نہ ہونے سے بہت رنجیدہ ہیں، میں اپنا بیٹا ان کو دینا چاہتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو ہمارے ہاں اور اولاد ہوجائے گی۔ ریحانہ بھابی اپنے ننھے منے پھول کو نہیں دینا چاہتی تھیں لیکن اپنی سگی بہن کی افسردگی دیکھ کر ہامی بھرلی۔ یوں انہوں نے ایان کو فرحانہ کی گود میں ڈال دیا۔ خدا کی کرنی میرا اکلوتا بھائی ایک حادثے میں انہی دنوں شہید ہوگیا۔ اس کی کار کو کسی نے ٹکر مار دی تھی۔ ناصر کی وفات سے جہاں سارا خاندان سوگوار تھا وہاں ریحانہ بھابی بھی ازحد افسردہ تھیں۔ ان کا غم دیکھا نہ جاتا تھا۔ اس پر ستم یہ کہ ایان کو وہ بہن کو دے چکی تھیں جو ان کی زندگی کی اب وہ واحد امید تھا۔ ان کی دل گرفتگی کو دیکھتے ہوئے ابو اور انکل رمیز نے فیصلہ کیا کہ ریحانہ کا بیٹا فرحانہ سے لے کر ان کو دے دیا جائے۔ وہ خود بھی یہی چاہتی تھیں۔ لیکن فرحانہ کے لیے یہ امر محال ہوگیا تھا کہ جس بچے کو اس نے قدرت کا تحفہ سمجھ کر گود لیا تھا، وہ اسے دوبارہ اس کی سگی ماں کے سپرد کردے۔ وہ ایان کے بغیر ایک پل نہ رہتی تھی۔
بڑوں کا یہی فیصلہ تھا کہ ایان کو اس کی ماں کو واپس دے دیا جائے ورنہ بڑا ہو جانے کے بعد وہ اپنی سگی ماں کو قبول نہ کرے گا۔ بہت افسردگی سے روتے بلکتے بھابی فرحانہ، ایان کو واپس کرنے پر آمادہ ہوئیں اور وہ اپنی حقیقی ماں کے پاس پہنچا دیا گیا۔ چند دن بعد اس نے ریحانہ بھابی کی محبت کو قبول کرلیا مگر فرحانہ کو اپنی گود سونی ہوجانے سے بے قراری رہنے لگی تھی۔ دونوں بہنوں کے گھر چونکہ دوری پر تھے۔ فرحانہ جلد جلد ایان سے نہیں مل سکتی تھی۔ بڑوں نے بھی تلقین کی کہ طویل عرصے تک ایان سے مت ملنا تاکہ وہ تمہیں بھول جائے ورنہ بچہ بے چین رہے گا۔
وقت گزرتا رہا۔ ایان بڑا ہوگیا۔ فرحانہ اور فیروز اولاد کی خوشی کو ترستے رہے۔ جب مجھے علم ہوا، میں نے انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی۔ یہاں میرے شوہر کی ایک قابل ڈاکٹر سے دوستی تھی۔ میرے خاوند خود بھی ڈاکٹر تھے۔ فرحانہ اور فیروز دل میں امید کی کرن لے کر امریکہ آگئے۔ ڈاکٹر روتھ نے دونوں کا چیک اَپ کیا اور کہا کہ ناامید ہونے کی ضرورت نہیں، تھوڑے سے علاج سے فرحانہ کی گود ہری ہوسکتی ہے۔ علاج ہونے لگا۔ تین ماہ بعد اللہ نے ان کی امید پوری کردی اور فرحانہ کے امید سے ہونے کی خوشخبری مل گئی۔
ہم سبھی بے حد مسرور تھے۔ شادی کے دس برس بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی خالی جھولی میں مرادوں کے پھول بھر دیئے تھے۔ اس کے بعد چار بار یہ خوشی ملی۔ پہلا بیٹا عارف اور اس کے بعد چار بیٹیاں ہوئیں۔ وہ لگاتار بیٹیوں کی پیدائش پر بھی خوش تھیں کہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں۔ ان کے نصیب سے والدین کا رزق سوا ہوتا جاتا ہے۔ ریحانہ بھابی نے دوسری شادی نہ کی۔ وہ اپنے بیٹے ایان کو ہی زندگی کا سرمایہ سمجھتی تھیں۔ وہ ایک لائق بچہ تھا۔ اسے فوج میں جانے کا شوق تھا۔ جب بڑا ہوا تو اپنے شوق کو پورا کیا۔ ایف ایس سی کے بعد انٹرویو دینے گیا اور سلیکٹ ہوگیا۔ ہم سب خوش تھے۔ ریحانہ بھابی بھی خوش تھیں کہ ان کے بیٹے کی سب سے بڑی آرزو پوری ہوگئی تھی۔
میرے والدین کی وفات کے بعد بھابی پہلے اپنے والد کے پاس چلی گئیں۔ پھر جب ایان آفیسر ہوگیا تو اس کے پاس رہنے لگیں۔ تاہم زیادہ عرصہ بیٹے کے پاس رہنا ممکن نہ تھا کیونکہ اس کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔
وقت نے کروٹ لی۔ جن دنوں بھابی ایان کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں، ایک محاذ سے اس کی شہادت کی خبر آگئی۔ شادی کی خوشی غم میں بدل گئی۔ بھابی ریحانہ شہید کی ماں کہلائیں مگر اب جینے کا آخری سہارا بھی پاس نہ رہا۔ فرحانہ بھابی، بہن کو اپنے گھر لے آئیں کیونکہ ان کے لئے تنہا رہنا ممکن نہ تھا۔ وہ بیٹے کی تصویر دیکھتی تھیں تو آنسو آنکھوں سے بہہ نکلتے تھے۔ بھابی انہیں چھپا لیتی تھیں کہ شہید کی ماں تھیں، رونا زیب نہ دیتا تھا۔
ایک دن فرحانہ بھابی نے اپنی بہن کو اُداس دیکھا تو ان کو بھی ایان کی بےحد یاد آئی۔ انہوں نے جب اسے گود لیا تھا تو ممتا کو سکھ ملا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے عارف سے کہا کہ ایک وہ دن تھا جب میری گود سونی تھی، تمہاری خالہ اور خالو نے اپنا بیٹا میری گود میں ڈال دیا تھا، آج قرض اُتارنا چاہتی ہوں۔ تمہیں تمہاری خالہ کو سونپتی ہوں۔ آج سے تم میرے نہیں، ریحانہ کے بیٹے ہو، ان کے پاس رہنا اور انہیں بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دینا۔ یوں ریحانہ بھابی نے عارف کو گلے لگا لیا اور آج وہ اسی کے سہارے بڑھاپے کے دن پورے کر رہی ہیں۔ عارف کی بیوی کو بہو اور ان کے بچوں کو اپنے پوتے پوتیاں بتاتی ہیں۔
قسمت کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہے۔ کبھی بڑی بہن کی اولاد سے چھوٹی بہن کی پیاسی ممتا کو تسکین ملتی ہے تو کبھی چھوٹی بہن، بڑی بہن کے لیے قربانی دیتی ہے اور اپنا بیٹا اس کے حوالے کردیتی ہے۔ ان کی محبت دیکھ کر سوچتی ہوں، اللہ ان کو تادیر سلامت رکھے۔ میرے بھائی ناصر اور فیروز بھائی میں بھی ایسی ہی گہری محبت تھی۔ اب فیروز خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک بھائی تھا میرا، وہ بھی ظالموں نے چھین لیا۔ اے کاش اس دن میں ان لڑکوں کے نقل کرنے کی نگراں سے شکایت نہ کرتا تو وہ ہمارے دشمن نہ بنتے۔ اللہ جانے انہیں امتحان نہ دینے سے کتنا نقصان ہوا جو وہ بھائی کی جان لے کر ہی ٹلے۔ اس حادثے میں کسی دشمن کی کسی کارروائی کا ثبوت تو نہیں ملا مگر فیروز بھائی کو یہی وہم ہے کہ یہ حادثہ، حادثہ نہ تھا۔ ( ک… فیصل آباد)