یہ جولائی کی ایک صبح تھی، آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے کہ بارش شروع ہو گئی، اور پھر لگاتار موسلا دھار بارش نے طوفانی رخ اختیار کر لیا، یہاں تک کہ سیلاب آ گیا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ ہم نے پہلے سے کوئی حفاظتی تدبیر اختیار نہیں کی تھی۔ بابا جان آفس میں تھے، گھر میں امی اور چھوٹی بہن تھی۔ ہم چار گھنٹے تک سیلابی بارش میں بھیگتے رہے۔ آخر کار بارش تھم گئی، مگر اپنے پیچھے بہت سی تباہ کاری چھوڑ گئی۔ دیر تک بھیگے رہنے کے سبب امی کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ بگڑتی چلی گئی۔ وہ کمزور تھیں، معمولی بخار نے رفتہ رفتہ خطرناک روپ دھار لیا۔ ہم حیران و پریشان تھے کہ کیا کریں؟ پرائیویٹ ڈاکٹروں کو فیس کی مد میں کافی رقم دے چکے تھے۔ سب نے امی کو سرکاری اسپتال داخل کرانے کا مشورہ دیا، کہ یہی آسان راستہ دکھائی دے رہا تھا، مگر حالات سنورنے کی بجائے بکھرتے گئے۔ مجھے ڈاکٹر بننے کا بچپن سے شوق تھا۔ ڈاکٹرز میرے آئیڈیل تھے۔ وہ مجھے فرشتے نظر آتے تھے، مگر جب ان فرشتوں سے سابقہ پڑا، تو ڈاکٹر بننے کا خواب ٹوٹ گیا۔ جیسے سب لوگ خراب نہیں ہوتے، اسی طرح ہر پیشے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے، جن ڈاکٹروں سے ہمارا سابقہ پڑا، وہ فرشتوں کا روپ دھارے ہوئے قصائی تھے، اور قصائی تو جانوروں کو کاٹتے ہیں، مگر یہ تو زندہ انسانوں کی کھال اتار دیتے ہیں۔ امی ان کے سامنے ایک زندہ لاش تھیں، جن کو وہ جس طرح چاہیں توڑ مروڑ دیں۔ مجھے اس دن ڈاکٹری کے پیشے سے ہی نفرت ہو گئی، اور پھر کچھ نرسوں کا سلوک بھی بجلی بن کر گرا۔ ماں کی حالت دیکھ کر میرا دل بری طرح زخمی ہو چکا تھا۔ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں اور نرسوں کی بے اعتنائی اور لاپرواہی نے مجھے مزید مایوس کیا۔ جب امی کو افاقہ نہ ہوا تو ناچار ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کروا دیا۔ چھوٹی بہن پر ماں کی بیماری اور لوگوں کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے بہکی بہکی باتیں شروع کر دیں، مگر میں نے خود کو مضبوط رکھنے کی کوشش کی۔
ماں کو سب سے زیادہ انتظار بھی شاہد کا تھا۔ وہ اکلوتا بیٹا تھا، جسے انہوں نے بڑی منتوں مرادوں سے پایا تھا۔ جن دنوں میں تیسری جماعت میں تھی، شاہد پیدا ہوا تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھا۔ جو دیکھتا، دیکھتا رہ جاتا۔ ایک دن وہ اچانک بیمار ہو گیا اور بچنے کی امید نہ رہی۔ امی اور بابا کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ بڑے قابل ڈاکٹروں کو دکھایا۔ سب نے یہی کہا کہ اسے دعاؤں کی ضرورت ہے اور میرے والدین اس کی شفا یابی کی خاطر سجدے میں گر گئے۔ ان دنوں انہوں نے خوب خیرات بھی کی، مگر مرض سمجھ میں نہ آتا تھا۔ لوگ کہتے کہ بچے کو نظر لگ گئی ہے، اس پر پڑھائی کراؤ۔ غرض، جو جیسا کہتا، یہ پریشان ماں باپ ویسا کرنے لگتے تھے۔ آخر اللہ تعالی کو رحم آ گیا اور میرا بھائی ایک سال کی بیماری کے بعد ٹھیک ہو گیا۔ سب کہتے کہ یہ سوکھے کی بیماری ہے، یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا، مگر پیدا کرنے والی ذات بڑی عظمت اور طاقت والی ہے، اس کی مہربانی سے اسے نئی زندگی مل گئی۔ امی نے چار سال کی عمر میں اسے اسکول داخل کرادیا تھا۔ وہ بلا کاذہین تھا، ہمیشہ اول آتا۔ اس بات پر میرے والدین کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا۔ باجی کی شادی کے دوران اس نے پیپرز دیئے اور گریڈ میں پاس ہو گیا۔ بھائی کی کامیابی کی خوشی میں بابا جان نے سارے خاندان کی دعوت کی۔ ان دنوں باجی کی چھوٹی نند رشنا امریکہ سے آئی ہوئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ لڑکیاں تک اس پر سے نظر نہ ہٹا پارہی تھیں، مگر وہ میرے بھائی پر فدا ہو گئی، جبکہ شاہد نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ رشنا نے باجی سے کہا، بھائی! مجھے آپ کا بھائی بہت پسند آیا ہے۔ میں تعلیم مکمل کر لوں تو آپ مجھے بھائی بنا لیں گی۔ باجی بولیں، تم بھی مجھے بہت پسند ہو۔ جب تم تعلیم مکمل کر لو گی تو میں امی سے بات کروں گی، اور اس وقت تک شاہد بھی تعلیم مکمل کر لے گا۔ بے شک رشنا بھی میرے بھائی کو اچھی لگی تھی، لیکن بھائی کو تعلیم مکمل کرنی تھی۔ وہ واپس امریکہ چلی گئی تاکہ دونوں اپنی اپنی ڈگریاں لینے کے بعد نئی زندگی شروع کر سکیں۔ شاہد نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر لی تو اسے سعودی عرب میں جاب مل گئی، اور وہ وہاں چلا گیا۔ اس نے وہاں محنت سے کام کیا۔ اس میں کوئی بری عادت نہ تھی۔ حالانکہ تنخواہ اچھی ملتی تھی، پھر بھی وہ خود پر بہت کم پیسے خرچ کرتا اور زیادہ رقم گھر بھجوا دیا کرتا۔ امی شدید بیمار پڑیں تو ان کی خواہش تھی کہ بیٹا آ جائے۔ بھائی کو خط لکھ کر امی کی بیماری کا بتایا تو اس نے وطن واپس آنے کا ارادہ کر لیا۔ وہ بھی ہم سے ملنے کو بے چین تھا۔ اس نے ہمارے لیے بہت سی چیزیں خریدیں۔ ادھر امی اور ابو نے فیصلہ کر لیا کہ جب شاہد پاکستان آئے گا تو اس کی شادی رشنا سے کر دیں گے۔ انہی دنوں وہ بھی پاکستان آنے والی تھی۔ جس دن بھائی کے آنے کی اطلاع ملی، ہم بے حد خوش تھے۔ گھر کو صاف ستھرا کر کے سجایا۔ ہم بے حد خوشی اور شدت سے اس کے منتظر تھے، مگر کیا خبر تھی کہ وہ آئے گا تو زندہ نہیں۔ جب وہ شاپنگ کر کے واپس لوٹ رہا تھا، ایک کار نے اسے ٹکر مار دی اور وہیں دم توڑ دیا۔ یہ خبر باجی اور بہنوئی کو شاہد کے دوستوں نے دی۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا۔ دوست بہت رنجیدہ تھے اور سوچ رہے تھے کہ شاہد کے گھر والوں کو کیسے اطلاع کریں۔ شاہد نے انہی دوستوں کے ساتھ پاکستان آنا تھا۔ بہرحال، باجی اور بہنوئی صاحب نے امی کو اس حادثے کی اطلاع نہ دی۔ جس روز میت آنے والی تھی، گھر والے انتظار میں تھے کہ شاہد آرہا ہے، اور میری بہن اور بہنوئی اس سوچ میں تھے کہ ہم لوگوں کو کیسے بتائیں، کیا ہونے جا رہا ہے؟ امی بار بار سوال کرتیں، مجھے بتاؤ! میرا بیٹا کتنے بجے پہنچے گا؟ مگر جانے کیوں بہن اور بہنوئی نے ہمیں آخری وقت تک یہ نہ بتایا کہ وہ زندہ نہیں، بلکہ مردہ آرہا ہے۔
وہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ ہم دونوں بہنوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے، مگر باجی نے نئے کپڑے نہیں پہنے۔ ابو نے پھولوں کے سہرے خرید کر اپنے کمرے میں رکھ لیے کہ جب وہ گھر میں داخل ہو گا، تو اس کے گلے میں ڈال دیں گے۔ بہنوئی ایئر پورٹ گئے ہوئے تھے، تبھی دروازے پر گاڑی آ کر رکی، جسے میت گاڑی کہنا چاہیے۔ لوگ جمع ہو گئے۔ بابا جان لے کر باہر گئے۔ وہ ہاتھوں میں پھول لیے ہوئے تھے۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور ایک تابوت باہر نکالا گیا۔ والد اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور وہیں زمین پر بیٹھ گئے۔ تابوت گھر میں تخت پر رکھ دیا گیا تھا۔ ماں بھی بے ہوش ہو گئیں۔ محلے کی عورتیں ہمیں سنبھال رہی تھیں۔ بھائی شاہد بس چند لمحوں کو آیا تھا اور پھر واپس جا رہا تھا۔ ایسے منظر کو کون بھلا سکتا ہے۔ میت کے ساتھ اس کے دوست وہ سوٹ کیس بھی لائے تھے، جس میں ہمارے لیے تحفے تھے۔ ڈاکٹروں نے امی کو دو دن تک دواؤں دے کر سلاتے رہے۔ تین دن بعد وہ حواس میں لوٹیں، تب تک جس کا انتظار تھا، وہ جا چکا تھا۔ وہ ایک ہفتہ بھی زندگی کا بوجھ برداشت نہ کر سکیں اور ہمیں چھوڑ کر اپنے پیارے بیٹے کے پاس چلی گئیں۔ امی کی عادت تھی کہ وہ روز مجھے چائے بنانے کو کہتی تھیں۔ میں اب بھی روزانہ مقررہ وقت پر چائے بناتی، ایک کپ اپنے لیے اور دوسرا اپنی ماں کے لیے اور چائے کے ساتھ آنسو بھی پیتی تھی۔ میری چھوٹی بہن کا تو ماں اور بھائی کے غم میں دماغ ہی متوازن نہ رہا۔ بہنوئی بھی گم صم رہتے تھے۔ بابا جان تو ایسے نظر آتے جیسے ان کی یادداشت چلی گئی ہو۔ رشتہ دار ایک ایک کر کے چلے گئے، بس ہم اکیلے رہ گئے۔ کافی عرصہ میرے والد صاحب فراش رہے، پھر ہماری خاطر اپنی شخصیت کا تنکا تنکا اکٹھا کر کے خود کو دوبارہ مرتب کیا، مگر زخم دل نہ بھر سکا۔ آج اس واقعے کو تیس برس سے اوپر بیت گئے ہیں، مگر جب وہ منظر یاد آتا ہے، تو دماغ کو جھٹکا سا لگتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اندر سے سب کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو۔ کبھی دل ماں کو پکارتا ہے اور کبھی بھائی کو آواز دینے لگتا ہے۔ اگر کوئی کہتا کہ ان کی ماں مر گئی ہے، ان کا بھائی مر گیا ہے، تب دل کرتا ہے کہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لوں۔ ان لوگوں سے کیسے کہوں کہ ماں اور بھائی جتنا ہمارے قریب پہلے تھے، اب بھی ہیں۔ جن سے ہم سچا پیار کرتے ہوں، وہ جدا ہو کر بھی جدا نہیں ہوتے، ہمارے دل کے اندر رہتے بستے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مجھے میری ماں اور بھائی یاد نہ آتے ہوں، یا میرے خواب میں نہ آتے ہوں۔ میری دعا ہے کہ خدا ہر بھائی اور ہر ماں کو سلامت رکھے، خصوصاً غیر شادی شدہ لڑکیوں کو بے ماں نہ کرے۔ چھوٹی بہن پوری طرح صدمے کے دائرے سے نہ نکل سکی، اس لیے اس کا رشتہ کہیں نہ ہو سکا۔ پھر میں نے بھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، کیونکہ اگر میں گھر بسا لیتی تو میرے بوڑھے والد اور بے ہوش بہن کو کون سنبھالتا؟ بابا جان ہمیشہ یہی افسوس کیا کرتے تھے کہ رابی اگر تو گھر بسا لیتی تو بہت اچھا ہوتا۔ تب میں جواب دیتی، “بابا جان! شاہد تو چلا گیا، جو آپ کے بڑھاپے کا سہارا تھا۔ اب میں خود کو اس کی جگہ سمجھتی ہوں۔” جب تک وہ زندہ رہے، میں ان کی خدمت کرتی رہی۔ آخری دنوں میں بیمار پڑ گئے۔ میں ان کو ایک چھوٹے بچے کی طرح سنبھالتی تھی، اور چھوٹی بہن تو کبھی کبھی کھانا کھانا بھی بھول جاتی ہے۔ اس کو اپنے ہاتھوں سے کھلانا پڑتا ہے، اسے نہلانا، کپڑے بدلوانا—یہ سب میرے فرائض میں شامل ہے۔ اس کا علاج بھی کرایا، مگر وہ صحیح نہ ہوئی، اسی وجہ سے میں نے گھر نہیں بسایا۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں، اللہ تعالی نے جو کام میرے سپرد کیے، میں نے انہیں بخوبی نبھانے کی پوری سعی کی، تاکہ خدا مجھ سے راضی ہو۔ اب بہن کے ساتھ زندگی کے باقی دن بھی عزت سے گزر جائیں، یہی خدا سے دعا کرتی ہوں۔ آگے کیا تقدیر میں لکھا ہے؟ یہ تو اوپر والا ہی جانے، کہ وہی وسیلہ، وہی رحیم و کریم ہے، جس نے پیدا کیا ہے۔ اس نے اپنے بندوں پر رحم کرنے کا وعدہ کیا ہے، بشرطیکہ انسان اس کے احکامات سے روگردانی نہ کرے۔