ابا جان معمولی ملازم تھے، تبھی ہمارے گھر مالی پریشانی رہتی تھی۔ ماں باپ کے پریشان رہنے سے ہم بچے بھی متاثرہوتے۔ آج آٹا نہیں تو کل گھی نہیں ہے- تنخواہ تو بچوں کی فیسوں اور بلوں میں ختم ہوگئی، اب اگلے بیس دن کیا پکائیں گے کیا کھائیں گے۔ میرے بہن بھائیوں کو اسکول کی فیسیں وقت پرادا نہ ہوتیں تو ڈانٹ پڑتی۔ والدین کو ہمہ وقت فقر وفاقہ کا خوف گھیرے رہتا۔ کھانے پینے کے علاوہ پانچ بچوں کے تعلیمی اخراجات نے ابا جان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
ان دنوں ہم شیخوپورہ میں رہا کرتے تھے۔ ایک روز چچا ملنے آئے ۔ انہوں نے ہماری خستہ حالی دیکھی۔ میرے بہن بھائیوں کے یونیفارم پرانے اور چہرے مرجھائے ہوئے دیکھ کر والد صاحب سے پوچھا۔ بچوں کی چھٹیاں کب ہو رہی ہیں؟ تین دن بعد ابا کی بجائے باجی نے جواب دیا۔ تم سب لوگ میرے ساتھ چلنے کی تیاری کرو۔ اس بار چھٹیاں ہمارے گھر منانا ، میں تم کو کوہ مری کی سیر کراؤں گا، آزاد کشمیر لے جاؤں گا۔ یاد رہے کہ ان دنوں گرمیوں کی چھٹیاں ڈھائی ماہ کی ہوا کرتی تھیں۔ میرے بہن بھائیوں نے خوشی خوشی تیاری کرلی اور کپڑوں کے ساتھ بستے بھی سامان میں رکھ لئے کہ چچا کے ہاں جا کر گرمیوں کی چھٹیوں کا کام بھی کر لیں گے۔ میں ساڑھے تین سال کی، ابھی نادان تھی۔ گھریلواور مالی حالات بارے اتنا پتا نہیں تھا، مگر میرے باقی بہن بھائی سیانے تھے۔ جب جہلم پہنچے تو چچا کا بڑا سا افسر شاہی گھر اور ٹھاٹ باٹ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یہاں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ روز مزیدار قسم قسم کے کھانے پکتے ۔ نوکر چاکر، گاڑیاں ، غرض دولت کی ریل پیل تھی۔ ایسے ٹھاٹ باٹ میرے بہن بھائیوں نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ چچا ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے گھر خوشحالی کا دور دورہ تھا لیکن اتنا کچھ ہونے کے باوجود خود کو تہی دامن سمجھتے تھے اور چچی ناخوش رہتی تھیں کیونکہ ان کا دامن مراد اولاد کی خوشیوں سے خالی تھا۔ جب ہم چچی کی عالی شان کوٹھی پہنچے تو انہوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کی سونی کوٹھی ہم بچوں کی چہکاروں سے گونج اٹھی، تو مدت بعد ان کے گھر کا سکوت ٹوٹا۔
چچا چچی ، دونوں بہت خوش تھے۔ میں سب سے چھوٹی تھی ۔ وہ مجھ کو زیادہ پیار کرتے، کہتے۔ نوشی تو ہماری بیٹی ہے۔ دو ماہ پلک جھپکتے گزر گئے۔ تبھی والدہ نے ابا جان کو خط بھیجا۔ بچوں کے اسکول کھلنے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں، آکر ہمیں لے جائیے ۔ جب ہم چاچی کے گھر سے رخصت ہونے لگے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں ان کی گود سے اترتی نہ تھی۔ بتاتی چلوں کہ چچی میری والدہ کی خالہ زاد تھیں اور دونوں کا بچپن سے پیار تھا، تبھی میری قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ میرے والدین نے اس دن مجھے چاچی کو سونپ دیا، یوں میں ان کی لے پالک بیٹی بنی۔ چاچی کی تو مراد بر آئی تھی۔ انہوں نے خود کو میری ذات میں گم کر لیا۔ ہروقت میرے ناز اٹھاتے اور میری فرمائشیں پوری کرتے۔ اب اولاد سے محرومی کا احساس ان کو نہیں ستاتا تھا۔ جب میں پانچ برس کی ہوگئی تو ایک اچھے اسکول میں داخل کروا دیا۔ امی ابو کہیں سال بعد ملنے آتے اور میں یہاں آرام اور سکون سے رہتی رہی کہ گود لینے والوں نے مجھے اپنے پیار سے حقیقی والدین کی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی جبکہ میں نے ماں باپ کو بھلا دیا۔ امی ابا اس بات سے نہال تھے کہ میں ایک بڑے اور مہنگے اسکول میں پڑھتی ہوں، قیمتی لباس پہنتی ہوں ۔ بھلا اتنی آسائشیں مجھے میرے کلرک باپ کے گھر میں کب مل سکتی تھیں۔ میں تو چچا چچی کو اپنے والدین سجھتی تھی لیکن تین سال بعد جبکہ میں چھ برس کی تھی، اللہ تعالی نے ان کو حقیقی اولاد کی خوشی سے آشنا کیا اور ایک بیٹا عطا کیا۔ میں پھولے نہیں سمائی تھی کہ ایک ننھا منا کھلونا گھر میں آگیا تھا۔ چچا چچی مجھ کو اپنے لئے خوش قسمتی کی علامت سمجھتے تھے۔ شروع میں حالات معمول پر رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ بدلاؤ آنے لگا۔ چچا کے پیار میں تو کوئی فرق نہ آیا مگر چچی کا رویہ بدلنے لگا۔ سگی ماں بھی جب نیا بچہ گود میں آجائے تو اس کی طرف زیادہ توجہ دینے لگتی ہے ، تبھی بڑے بچے کو ماں کے پیار میں تشنگی محسوس ہوتی ہے، میں نے تو پھر ان کی کوکھ سے جنم نہیں لیا تھا۔ میں اس بات کو نہیں سمجھتی تھی اور نہ مجھے گود لینے والی اس امر کو جانتی تھی ۔ اب مجھے وہ بات بات پر ٹوکنے لگیں، ڈانٹ پڑنے لگی۔ ان کی تمام تر توجہ کا مرکز ان کا اپنا بچہ تھا۔ مجھ کو اس بچے سے حسد رہنے لگا۔ اس کے آجانے سے ماں کا پیار مجھ سے چھن گیا تھا۔
پھر یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ بلال کے بعد، شجیح اور پھر بازغہ۔ اتنے بچوں میں گھر کر چچی نے مجھے یکسر فراموش کر دیا۔ میں جو اپنے ماں باپ کو بھلا چکی تھی ، ان کی نظر میں اب ایک فالتو شے تھی، البتہ چچا پہلے کی طرح پیار کرتے ، بیوی کو احساس دلاتے کہ تم اس بچی کو نظر انداز کرتی ہو۔ وہ اور مجھ سے چڑنے لگیں ۔ مجھ پر اب واپسی کے راستے بند تھے کہ میرا معصوم ذہن تو انہی کے پیار میں گندھا ہوا تھا۔ یہی سمجھتی تھی کہ یہ ہی میرے ماں اور باپ ہیں۔ شاید میرے والدین کا یہ خیال ہوگا کہ انہوں نے بیٹی بنالیا ہے، تو اب نوشی کو وہاں ہی رہنے دیں۔ ایک دولت مند گھر کی بیٹی بن جانے کے بعد اب یہ ہمارے گھر مفلسی میں آکر خوش نہ رہ سکے گی۔ رفتہ رفتہ میرے ذہن نے حالات کے بدلاؤ سے سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا اور میں پڑھائی پر دھیان دینے لگی۔ یہاں تک کہ کالج کی تعلیم مکمل کرلی ۔ کالج کی سالانہ تقریب کے دوران مجھ کو ایک امیر زادے مراد نے دیکھا اور پسند کر لیا۔ چند دنوں بعد ہی ان کے والدین ہمارے گھر رشتہ مانگنے آگئے ۔ چچی چاہتی تھیں کہ جلد از جلد میرا رشتہ طے کر دیں۔ ان کو یہ رشتہ پسند آگیا کہ لڑکا خوبصورت تعلیم یافتہ اور لوگ شریف و دولت مند تھے۔ اس سے بڑھ کر بیٹی والوں کو اور کیا چاہئے۔ ان کا بڑا بزنس تھا۔ دو بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔ مراد دونوں بہنوں سے چھوٹا اور اکلوتا تھا۔ اس کی ماں اور بہنوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ وہ لوگ جلد شادی کرنا چاہتے تھے، جبکہ چچا ابھی سوچنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں نے بے حد اصرار کیا کہ بے شک چھان بین کر لینا- مگر بات ابھی طے کر دیں۔ یوں میری منگنی ہوگئی منگنی پر جب میرے والدین آئے تو حقیقی والد ، مراد کو دیکھ کر چونک گئے۔ انہوں نے اس نوجوان کو کسی ایسی محفل میں دیکھا تھا، جہاں اچھے لوگ نہیں جاتے ۔ یہ منگنی کا دن تھا ، خوب دھوم دھام مچی ہوئی تھی ۔ مراد اور اس کی بہنیں خوش تھیں ، چچا چچی بھی خوش تھے مگر میرے حقیقی والدین کو کسی کروٹ چین نہیں تھا۔ منگنی کے بعد بھی ابا جان آرام سے نہ بیٹھے اور چھان بین میں مصروف رہے۔ ایک ماہ بعد بالآخر انکشاف ہوا کہ مراد منشیات کا عادی ہے۔ ابا جان نے چچا کو فون کر کے یہ بات بتائی مگر چچی کسی صورت یہ بات ماننے پر تیار نہ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اتنا اچھا رشتہ ہے، کسی حاسد نے مراد کے بارے یہ غلط رپورٹ دی ہے۔ لوگ عموماً ایسے معاملات میں، رنگ میں بھنگ ڈال دیتے ہیں۔ چچا نے رشتہ ختم کر دینے کی بات کی تو ان کی بیگم جھگڑ پڑیں کہ اب میں یہ رشتہ نہ توڑ نے دوں گی۔ بھلا شریفوں میں کہیں یہ ہوتا ہے کہ ایک بار بیٹی کسی شخص سے منسوب کر دو، پھر منگنی توڑ کر رشتہ کسی اور شخص سے جوڑ لو۔ ادھر مراد اور اس کی بہنوں کا آنا جانا بڑھتا گیا۔ وہ جلد از جلد شادی کی تاریخ لینا چاہتے تھے۔ میرے ابا جان اس رشتے پر ناخوش تھے۔ جب آتے متفکر اور بجھے بجھے سے ہوتے جبکہ اور سب مجھ سے لاتعلق سے تھے۔ میں دل دل میں خوفزدہ تھی، جیسے کچھ ہونے والا ہے۔
شادی میں ہفتہ باقی تھا کہ ابا جان، چچا کے پاس آئے کہا۔ مراد واقعی نشے کا عادی ہے اور آج کل، اسپتال میں داخل ہے۔ چچی تب بھی یہی بولیں کہ کسی بدخواہ نے غلط کہا ہوگا ۔ ہفتہ بعد تو اس کی شادی ہے اور وہ اسپتال میں داخل ہے۔ ابا اور چچا کہنے لگے۔ چلو، چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ یہ مذاق تو نہیں ساری زندگی کا معاملہ ہے۔ میں دعا کر رہی تھی کہ خدا کرے یہ خبر غلط ہو لیکن جب ابا اور چچا آئے تو ان کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ ان کے چہروں پر پریشانی دیکھ کر سمجھ گئی کہ خبر غلط نہیں ہے۔ ابا جان نے ڈاکٹر سے بات کی تھی ، مراد جس کے زیر علاج تھا۔ اس نے بتادیا کہ یہ نوجوان نشے کا عادی ہے۔ فی الحال آپ شادی ملتوی کر دیں تو بہتر ہوگا۔ منشیات کے مسلسل استعمال نے اس کی صحت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ میری والدہ اور چچی جب اس کو دیکھنے اسپتال گئیں تو اس کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ بے ہوش تھا۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں شادی کیسے ہو سکتی تھی۔ بہر حال منگنی توڑنے کا اعلان ہم لڑکی والوں کی جانب سے ہوا۔ جہاں میرے سب گھر والوں کو صدمہ تھا وہاں مجھے ملال ہوا۔ مراد مہینہ بھر اسپتال میں رہا۔ جب وہ اسپتال سے گھر آیا تو اس کو منگنی ٹوٹنے کا علم ہوا۔ وہ آپے سے باہر ہو گیا ۔ چچا چی کے پاس آیا ، مسلسل اصرار کرتا رہا کہ وہ منشیات ترک کر دے گا۔ اس لئیے تو علاج کروا رہا ہے، مگر چچا کسی صورت راضی نہ ہوئے، تبھی مراد مشتعل ہو کر دھمکیاں دیتا ہمارے گھر سے چلا گیا کہ میں بھی دیکھوں گا تمہاری بیٹی کیسے کسی اور کا گھر بساتی ہے۔ چچا پر کسی بات کا اثر نہ ہوا کہ نشہ باز لوگ ایسے ہی گیدڑ بھپکیاں دیتے ہیں، البتہ میرا دل ڈرتا تھا کہ غصے میں جانے وہ کیا کر بیٹھے۔ کچھ عرصے بعد ہی ایک شریف گھرانے سے میرے لئے رشتہ آگیا۔ یہ سیدھے سادے لوگ تھے، زمیندار تھے۔ ابو نے چھان بین کا معاملہ ابا جان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ واقعی یہ لوگ اپنے علاقے کے عزت دار اور شریف ہیں۔ لڑکے میں بھی کوئی ایسی خامی کسی نے نہ بتائی جس کا ہمیں تجربہ ہو چکا تھا۔ شادی کی تیاریاں تیزی سے ہو رہی تھیں۔ میں اپنی سہیلیوں میں گھری بیٹھی تھی تبھی
میری کزن نے آکر بتایا۔ نوشی تیرا فون آیا ہے۔ یہ مراد تھا۔ اس نے کہا۔ اب بھی وقت ہے، انکار کر دو، ورنہ بعد کے حالات کی تم ذمہ دار ہوگی ۔ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ خوف سے میرا لہو خشک ہو گیا۔ ظاہر ہے میں کیا کرسکتی تھی ۔ میں تو خود ایک مجبور لڑکی تھی۔ اس خوف میں شادی کا دن آپہنچا۔ میں اندر ہی اندر خوفزدہ تھی۔ والدین سے خوف کا اظہار کرتی تو وہ بھی پریشان ہو جاتے۔ شادی تو کسی صورت نہیں رک سکتی تھی ، ورنہ دنیا والوں کو ہم کیا منہ دکھاتے۔ یہی سوچ کر دل کو تسلی دے لی کہ سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ وہ جو کرے گا وہی بہتر کرے گا۔
محسن بہت اچھے تھے۔ ان کے تحفظ کو پاتے ہی ہر خوف میرے دل سے جدا ہو گیا۔ میرے رفیق حیات نے مجھے بے حد محبت دی۔ اتنی چاہت اور عزت کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ساس سسر مجھ کو بے حد چاہتے تھے۔ دیور نندیں، جیٹھ، جیٹھانیاں بہت بڑا کنبہ تھا کہ میں اتنے بہت سے لوگوں میں کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کرتی تھی۔ سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ وہ ایک ماہ کی تھی کہ محسن ایک روز اپنی زمینوں پر گئے۔ انہیں گئے ہوئے دو روز گزرے تھے کہ اطلاع آئی، ان پر کسی نے گولی چلا دی ہے ۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے ۔ یہ خبر ہمارے لئے صدمہ جانکاہ تھی ۔ جب ان کا خون میں ڈوبا ہوا بے جان جسم گھر لایا گیا تو کہرام مچ گیا۔ مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا حتی کہ ان کا چالیسواں بھی ہو گیا مگر مجھ کو یقین نہ آیا کہ وہ اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ محسن کے قاتل کو جلد گرفتار کر لیا گیا کیونکہ میرے سر کا سیاسی اثر و رسوخ تھا۔ پولیس نے مکمل تعاون کیا۔ گھر والوں نے آکر بتایا کہ گولی چلانے والے کا نام مراد ہے اور باپ کا نام بھی بتا دیا تبھی میرے کانوں میں اس کی دھمکیاں گونجنے لگیں۔ بدبخت انسان نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ مجھ کو اجاڑ کر، میری بچی کو باپ کے سایہ شفقت سے محروم کر کے نجانے اسے کیا مل گیا۔ ابا جان اور چچا جان چاہتے تھے کہ میکے لوٹ آؤں مگر میں اپنی بیٹی سے اس کا پیار کرنے والا ددھیال اور اس کے باپ کا گھر نہیں چھینا چاہتی تھی ۔ یہ گھر مجھے بہت عزیز تھا، جہاں مجھے عزت اور میری بچی کو دادا، دادی ، پھپو اور چچا کا پیار ملا تھا۔ اس گھر کے ہر گوشے سے میری یادیں وابستہ تھیں، جو پیار بھری اور خوشگوار تھیں۔ وہ خوبصورت دن میرے دل و ذہن پر نقش تھے جو محسن کے ساتھ یہاں گزارے تھے۔ امی، ابا جان، چچا، چچی مجھے لے جانے کے لئے آتے تو ساس سسر، دیور، دیورانی کا پیار پاؤں کی زنجیر بن جاتا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ جب تک گھر کے مکین مجھ کو نہیں نکالیں گے، میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔
یوں میں نے بیوگی کے تیس برس اس گھر میں گزار دیئے، پھر میری بیٹی کی شادی میرے دیور کے بیٹے سے ہوگئی، تو میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے لگی۔ اس طرح میں نے ساری زندگی اس گھر میں گزار دی اور مرحوم شوہر کے مکان کی دہلیز سے قدم باہر نہیں نکالا ، جہاں دلہن بن کر آئی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ اس عورت پر تو وہی مثال صادق آتی ہے کہ جب پرانے وقتوں کے لوگ بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ بیٹی جس گھر دلہن بن کر جا رہی ہو، وہاں سے تمہارا جنازہ ہی آئے ، یعنی مرکر ہی اپنے گھر کو خیر باد کہنا۔ میں تو بیوہ ہوگئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس گھرانے کی ایسی محبت بھر دی کہ نہ میں نے ان کو چھوڑا اور نہ انہوں نے مجھے۔ ہمیشہ پہلے دن کی طرح عزت دی۔ آج لوگ میری مثال دیتے ہیں کہ میں نے کس طرح حو صلے اور صبر سے پہاڑ جیسی زندگی سسرال میں گزار دی لیکن کوئی کیا جانے ایسی تنہا زندگی گزارنا کتنے حوصلے کا کام ہے۔