ان دنوں ابو کی پوسٹنگ اسلام آباد میں ہوگئی تھی۔ میں یہاں آکر خوش تھی۔ یہ خوبصورت اور صاف ستھرا، ہرا بھرا علاقہ تھا، جہاں ہم کو گھر ملا تھا۔ انہی دنوں میری سہیلی سفینہ کا خط آیا کہ گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور وہ سیر کو میرے پاس آنا چاہتی ہے۔ بتاتی چلوں کہ میری امی دور کے رشتے سے اس کی پھوپھی ہوتی تھیں مگر وہ میری دل پسند سہیلی تھی۔ پنڈی میں اس نے چار سال میرے ساتھ پڑھا تھا۔ اس دوران ہماری دوستی ہو گئی تھی اس کے آنے کی خوشی سے نہال ہو رہی تھی۔
یہ بہار کی آمد کے دن تھے۔ میں نے اپنی دو چار سہیلیوں کو بھی مدعو کر لیا کہ سفینہ کے ساتھ مری کی سیر کو جائیں گے تو مزہ آئے گا۔ بھی اس کے آنے کے ایک دن بعد مری کی سیر کا پروگرام بن گیا لیکن کس کے ساتھ جاتے ؟ ابو آفس جاتے تھے اور بھائی راولپنڈی میں ٹریننگ کر رہے تھے۔ تب مجھے تایا زاد وقاص کا خیال آ گیا۔ ان کا گھر قریب ہی تھا۔ میں نے سوچا کہ تایا سے کہوں کہ وقاص کو بھیج دیں تا کہ ہم ا س کے ساتھ مری جاسکیں۔ میں تایا کو فون کرنے ہی والی تھی کہ وقاص خود ہمارے گھر آ گیا ۔ میں نے اس سے کہا۔ ہمارا ڈرائیور چھٹی پر ہے اور ہم کو مری جانا ہے۔ میری سہیلی پنڈی سے آئی ہے، پلیز ہمیں مری لے چلو ۔ وہ بولا ۔ میرا دو دن بعد ٹیسٹ ہے، میں نہیں جاسکتا۔ تب میں منت کرنے لگی تو وہ مان گیا۔ سب لڑکیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ کیمرہ لینے گھر جانے لگا تو سفینہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے دیکھنے میں اتنی محو کہ اسے خبر بھی نہ ہوئی وہ کمرے باہر جا چکا ہے، بھی میں نے اس کا کندھا ہلا کر اسے جگایا تو وہ چونک پڑی – بنو جاگ جاؤ۔ وہ تو چلا گیا ہے ، اب کسے گھورے جاتی ہو؟ کیا کوئی برا خواب دیکھ لیا ہے؟ بہت اچھا خواب ہے۔ شیریں نے کہا۔ اچھا ہی نہیں بلکہ بہت سہانا ہے۔ رابعہ نے بھی گرہ لگائی ہم سن ہنسنے لگے ۔ سفینہ مگر ہنسی ہی نہیں، کیونکہ اس کی توجہ ہماری جملہ بازی پر تھی ہی نہیں۔ وہ تو اپنے خیالوں میں گم تھی۔ ہم کار میں بیٹھے گئیں۔ وقاص سارا راستہ گاڑی چلاتے ہوئے خاموش رہا۔ جبکہ سفینہ اس کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتی رہی، بہانے بہانے اس سے بات کرتی تھی لیکن وہ سنجیدہ لڑکا کسی کی طرف متوجہ ہونے والا نہیں تھا۔ جب ہم سیر سے واپس آئے تو میں نے سفینہ کو سمجھایا کہ وقاص عام لڑکوں جیسا نہیں ہے۔ اس کی توجہ اپنی پڑھائی پر رہتی ہے ۔ وہ اپنا مستقبل بنانا چاہتا ہے ۔ فضول باتوں کو پسند نہیں کرتا ، لہذا آئندہ تم اس کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش مت کرنا۔ وہ خفا ہو گیا تو برا ہوگا۔ وہ بولی ۔جو ہو، سو ہو، میں تو اسے متوجہ کر کے رہوں گی۔ میں نے سوچا کہ یہ پہلی بار میرے گھر آئی ہے۔ اب کیا اس کے ساتھ سر کھپاؤں۔ ایک دو دن میں خود ہی وقاص کے روکھے پھیکے رویے سے اس کے مزاج کو سمجھ جائے گی۔ انہی دنوں بھائی کی چھٹیاں ہو گئیں تو وقاص، سہیل سے ملنے ہمارے گھر آنے لگا۔ سفینہ اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتی اور میں ڈر جاتی کہیں بدمزگی نہ ہو جائے کیونکہ میں وقاص کی بے نیاز طبیعت سے واقف تھی۔
ایک دن ہم دونوں گھر کے سامنے سایہ دار درخت کے نیچے کھڑی تھیں کہ وقاص کا وہاں سے گزر ہوا۔ میں نے اس کو آواز دی ۔ بھائی تم عجیب آدمی ہو۔ اپنوں سے بھی نظریں نہیں ملاتے ہو۔ وہ تھوڑا سا مسکرا دیا ، تب میں نے اس سے سفینہ کا تعارف کرایا وہ بولی۔ میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔ کیا بات ہے؟ میرے کزن نے پوچھا۔ ایسی بات جو کسی لڑکی کے لبوں پر مشکل سے آتی ہے۔ وہ سمجھ گیا یہ لڑکی کیا کہنا چاہتی ہے، بولا ۔ دیکھو سفینہ بی بی! یہ انسان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی وقت ہوتا ہے، کوئی طالب علم چاہے و محنت سے مستقبل بنا لے، چاہے تو اس کو ضائع کر کے اپنی ساری زندگی ضائع کر دے۔ تم سمجھ لو کہ جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے ، عمر بھر پچھتاتے رہ جاتے ہیں۔ زندگی مگر اس قدر بے کیفی کے ساتھ جینے کی چیز بھی نہیں ۔ یہ نعمت تو انسان کو ایک بار ملتی ہے۔ سفینہ نے جواب دیا۔ تم صحیح کہہ رہی ہو۔ اس عمر میں لڑکیوں اور لڑکوں کو پیار و محبت کے معاملات بہت مرعوب کرتے ہیں اسی وجہ سے تعلیم پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور لڑکوں کا کیرئیر تباہ ہو جاتا ہے۔ وہ سنجیدگی سے یہ باتیں کر رہا تھا۔ سفینہ گم صم کھڑی تھی ، کچھ نہیں بول پا رہی تھی لیکن وقاص کی باتوں نے اس پر منفی اثر کیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے، میں تیرے کزن کو پا کر رہو گی۔ اچھا تو اپنا سر کھپاؤ، پاسکتی ہو تو پالینا۔ فی الحال تو تمہیں گھر جانا ہے۔ تمہاری امی کا فون آیا تھا، تمہارے امی ابو تم کو لینے آرہے ہیں۔ اس کے والدین آ گئے ۔ وہ چند گھنٹے ہمارے گھر ٹھہرے اور بیٹی کو لے کر پنڈی لوٹ گئے ۔ گھر جا کر اس نے مجھے فون کیا کہ وہ بہت بے چین ہے۔ اس نے التجا کی کہ میں اس کی بات وقاص سے کروا دوں۔ میں نے کہا کہ کیا تم کو اندازہ نہیں ہوا کہ وہ کس قسم کا انسان ہے۔ وہ میری بات نہیں مانے گا۔ تم اسے بھول جاؤ۔ ایک سال بعد وہ اپنے والدین کے ہمراہ دوبارہ آئی۔ میں اسے دیکھ کر خوش ہو گئی۔ ان دنوں سخت بور ہو رہی تھی اور وہ خزاں کے موسم میں بہار کا جھونکا بن کر آ گئی تھی ۔ موسم گرما میں یہاں کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہونے والے، خوش نصیب ہی ادھر آسکتے ہیں۔ میں اکیلی تو سیر کو نہیں جاتی تھی لیکن وہ جب آ جاتی تو نظارے گویا خود آواز دے کر مجھ کو اپنی جانب بلانے لگتے تھے ۔ ہم کھلے سبزہ زاروں میں گھومتی پھرتیں۔ میں خوش تھی ، مگر پڑھاکو لوگوں کا ایسے موسم میں بھی برا حال تھا۔ وہ پڑھائی میں غرق تھا۔ گرچہ چھٹیاں تھیں ، مگر چھٹیاں اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں ۔ جن کی نظر اپنے مقصد کے حصول پر ہو، ان کی فراغت کھلتی ہے اور ان کے سب دن ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ یہی حال میرے اس کزن کا تھا۔
سفینہ جان بوجھ کر مجھے اس کی جانب لے جاتی تو وہ اور تنگ ہو جاتا۔ مجھ سے کہتا کہ تم یہ کیا میرا وقت ضائع کرنے آجاتی ہو۔ میرا دھیان پڑھائی سے ہٹ جاتا ہے۔ میں پریشان ہو جاتا ہوں ۔ برائے مہربانی ! اپنی مہمان کو میرے سر پر مت مسلط کرو۔ میں سفینہ کو لاکھ کہتی کہ اسے بے جا تنگ نہیں کرنا چاہیے مگر وہ نہ مانتی ۔ لگتا تھا وہ میرے گھر آتی ہی وقاص کی خاطر ہے۔ میں اسے چپکے چپکے چاہتی ہوں، تبھی بس اک نظر دیکھنا چاہتی ہوں، اسے تنگ تو نہیں کرتی۔ یہ بات درست تھی۔ سفینہ اسے تنگ نہیں کرتی تھی۔ وقاص بھی مہمان نواز تھا لیکن میری سہیلی میں جانے کیا بات تھی کہ اس کو دیکھتے ہی وہ پریشان ہو جاتا تھا۔ شاید سفینہ کی نظر کرم اسے خائف کرتی تھی کیونکہ وہ ایک بے باک لڑکی تھی۔ کوئی بات کہنے سے ہچکچاتی نہیں تھی۔ انہی دنوں میری سالگرہ تھی۔ دعوت میں سفینہ نے وقاص سے کہا کہ تم تیار ہو کر کتنے اچھے لگ رہے ہو۔ یقیناً جب دلہا بنو گے تو بہت اچھے لگو گے۔ ہاں، کیوں نہیں ۔ میری منگنی ماموں زاد شہلا سے ہو چکی ہے اور ہماری عنقریب شادی ہونے والی ہے۔ میں جب دولہا بنوں گا تو تم دیکھ لینا کہ کتنا خوبصورت لگوں گا۔ یہ سنتے ہی سفینہ کا چہرہ مرجھا گیا اور وہ خجل خجل سی دکھنے لگی۔ بھری محفل میں اسے ایسی بات سننے کی توقع نہ تھی۔ تبھی میں اس کو ایک طرف لے گئی اور کہا۔ سن لیا ! اسی لئے تم کو سمجھاتی تھی کہ اس سے ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ وہ بولی ۔ کیا کروں اس دل کا ؟ اس کے خیال سے خود کو ہٹا نہیں سکتی۔ کوئی بات نہیں ، اسے کرنے دو شادی، مگر میں بھی اسے پا کر رہوں گی ۔ اگر تم کو ضرور اس کی دوسری بیوی بننا ہے تو بن جاؤ۔ میں نے جل بھن کر کہہ دیا۔ انہی دنوں سفینہ کے والد کی پوسٹنگ بھی اسلام آباد ہو گئی۔ میں خوش تھی کہ میری سہیلی ہمارے نزدیک آ گئی تھی مگر وقاص کو خوشی نہ ہوئی ۔ اس کو الجھن ہوتی تھی سفینہ کی موجودگی سے ۔ وہ اب ہمارے گھر اکثر آتی ، وقاص موجود ہوتا تو بس چپک کر بیٹھ جاتی اور گھر جانے کا نام نہ لیتی ، تب وہ ہی اٹھ کر چلا جاتا تھا۔ ایک دن سفینہ کے والد نے شادی کی بات چھیڑی تو میری سہیلی نے منہ پھاڑ کر کہہ دیا کہ میں شادی کروں گی تو صرف وقاص سے ، آپ لوگ میرے لئے اور کوئی رشتہ تلاش نہ کرنا۔ بیٹی کی اس دیدہ دلیری پر ماں باپ حیران رہ گئے۔ پھر اس کی خوشی کے لئے انہوں نے وقاص کے والد سے بات کرنے کی ٹھانی۔ بیٹی والے ہو کر بھی انہوں نے بار تکلف تایا سے کہہ دیا کہ ہم سفینہ کی شادی آپ کے بیٹے سے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ہماری بیٹی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ جہیز بھی پورا پورا دیں گے، آپ ہماری لخت جگر کو اپنی بہو بنا لیں۔ ضرور یہ ہماری خوش نصیبی ہوتی کہ سفینہ ہماری بہو بنتی مگر مجبوری یہ ہے کہ میں نے اپنی بہن کی بیٹی شہلا سے اس کی منگنی بچپن میں کر دی تھی۔ یوں انکل آنٹی ان کے گھر سے مایوس لوٹ آئے۔
کچھ دنوں بعد سفینہ ہمارے گھر آئی تو بھجی بھجی تھی۔ چہرہ بھی اترا ہوا تھا، پہلے جیسا اعتماد ، شوخی و شرارت بھی اس میں عنقا نظر آئی۔ میں نے کہا۔ آج اداس لگ رہی ہو ، چلو – کہیں گھومنے چلیں ۔ اس نے انکار کر دیا۔ وقاص کو کہتی ہوں۔ وہ کار ڈرائیور کر کے مری لے جائے ۔ اس کا نام مت لو میرے تے سامنے ۔ وہ خفگی سے بولی۔ میں دل ہی دل میں مسکرائی کہ بی بی اب آئی عقل ٹھکانے، مگر ایسے سر پھروں کی عقل ٹھکانے آتی کب ہے۔ ایک روز جب وہ ہمارے گھر بیٹھی ہوئی تھی، وقاص ملے آ گیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی غصے میں بولی۔ دیکھو مسٹر ! اگر تم نے ایک ماہ کے اندر اندر میرے حق میں فیصلہ نہیں کیا، تو پھر انجام سوچ لو۔ وہ بے چارہ یہ دھمکی سن کر حیران رہ گیا۔ سفینہ دیکھو! اس نے کہا۔ میں تم کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میری شادی ہونے والی ہے۔ ہمارا ساتھ ممکن نہیں ہے۔ تم اس خیال سے آزاد ہو جاؤ تو بہتر ہے۔ اس طرح تم پر سکون ہو جاؤں گی۔ یہ ناممکن ہے۔ میری شادی تم سے ہی ہوگی ، ورنہ میں بھی سکون نہ پاسکو گی۔ جب وہ یہ کہہ رہی تھی تو پھپھو آ گئیں اور انہوں نے سفینہ کی بات سن لی۔ وہ سمجھیں کہ سفینہ اور وقاص میں عشق چل رہا ہے اور وہ بزرگوں کے فیصلہ سے مجبور ہیں تبھی پھپو یعنی شہلا کی امی نے اپنے شوہر سے نجانے کیا کہا کہ انہوں نے وقاص کو بیٹی دینے سے انکار کر دیا۔ اس بات کا میرے تایا اور تائی کو بہت صدمہ ہوا۔ انہیں دکھ تھا کہ شہلا کے والدین نے ان کو صفائی کا موقعہ بھی نہیں دیا۔ دوسری طرف بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، سفینہ کے والدین بیٹی کی وقاص سے شادی کرنے کے لئے تیار تھے۔ وہ بزرگوں کے پاس گئے اور مسئلہ حل کرنے کے لئے منت سماجت کرنے لگے، یوں سفینہ کی بات بن گئی۔ وقاص کو اس غلط فہمی کی بنا پر منگیتر سے محروم ہونا پڑا۔ تایا تائی نے پھر سوچا کہ جس وجہ سے یہ سب ہوا ہے ، چلو وہی سہی۔ اس کے والدین تو خود ان کے گھر چل کر بیٹی کا رشتہ دینے آئے تھے وہ بھی رشتہ دار ہیں ، دور کے ہیں ، ان کی ہی عزت رکھ لیتے ہیں۔ وہ انکل اور آنٹی کے پاس گئے اور سفینہ کا رشتہ مانگ لیا۔ وہاں تو اسی مقصد کے لئے وظیفے پڑھے جارہے تھے۔ فورا ہاں ہو گئی ۔ سفینہ اور اس کے والدین بہت خوش تھے مگر وقاص بجھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو سمجھایا کہ یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں۔ بنی ہوئی بات بگڑ گئی ہے اور جلد بازی کا مظاہرہ تمہاری منگیتر کے والدین کی طرف سے ہوا ہے۔ معاملے کی تصدیق کئے بغیر وہ آگ بگولہ ہو گئے اور برسوں کا رشتہ پل بھر میں ختم کر ڈالا تحمل والے لوگ ایسا نہیں کیا کرتے۔ یہ لوگ آگے بھی تمہاری زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر پر ا بلم کریں گے۔ سوچ لو کہ یہ قدرت کی طرف سے ہوا ہے اور اچھا ہی ہوا ہے۔ سفینہ تم سے بہت محبت کرتی ہے۔ وہ ہر طرح سے تمہارا خیال بھی رکھے گی ۔ وہ بھی کم خوبصورت نہیں ہے۔ وہ تمہارے لئے اچھی شریک حیات ثابت ہوگی ۔
دوسری طرف سفینہ کا خوشی سے برا حال تھا ، جیسے اس کی لاٹری نکل آئی ہو۔ وہ ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ کہتی تھی ، جسے چاہا وہ مل گیا اب خدا سے کیا مانگوں ۔ بالآخر وہ دن آ گیا جب وقاص دلہا بنا اور سفینہ کو اس کی دلہن بنادیا گیا۔ میری سہیلی کو یقین نہ آتا تھا کہ وہ وقاص کی بیوی بن چکی ہے۔ وقاص ایک شریف طبع لڑکا تھا۔ وہ اس کے ساتھ خوش رہنے لگا۔ دونوں اچھی صفات کے مالک تھے لیکن میری دوست میں ایک خرابی تھی کہ وہ کبھی کبھی خود پر عجیب موڈ طاری کر لیتی تھی اور شوہر کی محبت کا امتحان لیتی تھی ۔ نت نئے سوالات سے وقاص کو بہت پریشان کر دیتی تھی۔ مثلاً یہ کہ آپ کو اپنی منگیتر کی یاد تو نہیں آتی ؟ کبھی کہتی کہ کیا آپ کسی لڑکی کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں؟ وقاص قسمیں کھا کر یقین دلاتا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جب وہ قسمیں کھا رہا ہوتا تو وہ بہت خوش ہوتی اور یہ باتیں اسے مطمئن کرتیں لیکن چند دنوں کے لئے ۔ کچھ روزبعد پھر اسی کیفیت میں مبتلا ہو کر پھر سے اسی قسم کے سوالات کرنا شروع کر دیتی۔ اس صورت حال سے وقاص بہت پریشان رہنے لگا۔ وہ جتنا پریشان ہوتا سفینہ اتنی ہی محظوظ ہوئی ۔ وقاص اپنی صفائی پیش کرتے کرتے چڑ چڑا ہو گیا۔ ایک روز جب سفینہ اس کو اوٹ پٹانگ سوالات سے پریشان کر رہی تھی، تو وہ چیخ اٹھا۔ بولا کہ خبردار اب اگر تم نے مجھ پر الزا م تراشی کی۔ میں ہمیشہ کے لیے تمہیں اور اس گھر کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ ان کی شادی کو ڈھائی سال ہو چکے تھے۔ اللہ نے ایک چاند سی بیٹی بھی دے دی تھی، مگر سفینہ اپنی عادت سے باز آنے والی کب تھی۔ ایک دن پھر اُسے دورہ پڑا۔ اس روز وقاص دفتر سے تھکا ہوا آیا تھا۔ اس نے گھر میں قدم رکھا ہی تھا کہ سفینہ نے پھر سے وہی باتیں شروع کردیں ۔ آج کیوں دیر سے آئے ہو؟ دیکھ رہی تھی کہ صبح خاص طور پر تیار ہو کر گئے تھے، پر فیوم بھی لگایا تھا۔ کس سے ملنے گئے تھے۔ کون ہے وہ ؟ مجھے بھی بتاؤ نا!
وقاص اس وقت کسی کاروباری پریشانی میں تھا۔ بیوی کے ان سوالات نے اسے برافروختہ کر دیا۔ اس نے چلا کر – کہا۔ ہاں ہاں، میری ہے کوئی محبوبہ۔ ملنے جاتا ہوں روز میں اُس سے کہو ، کیا کر لوگی ؟ جو بگاڑ سکتی ہو ، بگاڑ لو۔ میں اُس سے ملتا ہوں اور آئندہ بھی ملوں گا ۔ تم کو رہنا ہے رہو، نہیں تو اپنے میکے چلی جاؤ اور میری جان چھوڑو۔ ہمیشہ وہ قسمیں کھا کر پیار سے اس کے ساتھ محبت کا اقرار کرتا تھا ، مناتا تھا، مگر آج بات الٹی ہو گئی۔ وہ شوہر کے اس رویے پر ہکا بکا رہ گئی ۔ آج وقاص پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ وہ اس کا سامان اٹھا اُٹھا کر پھینک رہا تھا۔ پہلے تو وہ ایسا جھگڑا کھڑا کر کے لطف لیتی تھی ، آج ڈر گئی۔ اس نے سوٹ کیس میں چند کپڑے رکھے، رکشہ لیا اور بچی کے ساتھ میکے آ گئی ۔ وقاص نے اُسے نہیں روکا۔ والدین نے سمجھایا کہ سفینہ قصور تمہارا ہے۔ اگر ہر وقت بیوی شوہر سےسوالات کرے گی ، تو وہ پریشان تو ہوگا ۔ اب رونے کی بجائے صبر کرو۔ جب وقاص کا غصہ ٹھنڈا ہو گا وہ خود تم کو منانے آجائے گا۔ ادھر وقاص نے بھی اب گھر میں رُکنا مناسب نہ جانا۔ سوٹ کیس اُٹھا کر وہ چلا گیا۔ وہ کسی کو بتا کر نہ گیا تھا کہ ۔ کہاں جا رہا ہے؟ اور نہ اب تک کوئی رابطہ کیا تھا۔ یونہی ایک سال گزر گیا۔ گھر والے اُسے تلاش کر کر کے تھک گئے ۔ اس کا پتا نہ چلا۔ والدین ، بہنوں اور خود سفینہ کا برا حال تھا۔ دن رات سبھی دعا تمہیں کرتے کہ وہ لوٹ آئے یا اس کی کوئی خیر خبر ہی آ جائے۔ ایک دن سفینہ صبح سو کر اٹھی تو آنگن میں چار پائی پر ایک تابوت رکھا ہوا دیکھا۔ وہ حیران رہ گئی۔ تابوت پر لکھا تھا ” شہید وقاص احمد”یہ پڑھتے ہی وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش میں آئی تو بین کرنے لگی۔ کسی نے کہا۔ ہوش کرو، شہید کی موت پر رونا اچھی بات نہیں۔ وقاص کی والدہ اور بہنوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری تھے، مگر وہ بھی ضبط سے کام لے رہی تھیں کیونکہ رونا منع تھا۔ سفینہ نے جب تابوت کےاندر جھانکا تو وہ خالی تھا۔ یہ تابوت صبح وقاص کے دوست پہنچا گئے تھے۔
بات دراصل یہ تھی کہ وہ خفا ہو کر ایک دوست کے پاس چلا گیا۔ اسے اپنی پریشانی بتائی کہ اس کی بیوی اس سے طرح طرح کے سوالات کر کے ہر وقت اس کو بے سکون کرتی ہے، جبکہ وہ اس طرح کا آدمی نہیں ہے، اس لیے وہ اب گھر چھوڑ چکا ہے، تبھی اس کا دوست اس کو جہاد پر لے گیا، جہاں وہ شہید ہو گیا۔ شہادت کے بعد اسی دوست نے گھر والوں کو اطلاع دی اور ایک تابوت بھی بھیج دیا کہ شہید کی یاد تازہ ہو، جبکہ وقاص کو تو وہیں دفن کر دیا گیا تھا، جہاں اس کی شہادت ہوئی تھی-سفینہ اب روتی تھی اور کہتی تھی کہ میں نے اپنے محبوب شوہر کو خود ہی کھویا ہے۔ میں اس کو ناحق تنگ کرتی تھی ، ستاتی تھی تبھی وہ اس راہ پر چلا گیا ، جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ اس نے تو شہادت پائی مگر میں نے کیا پایا؟ اگر میں اس پر ناحق الزامات نہ لگاتی تو وقاص مجھے اور میری بچی کو بھی چھوڑ کر نہ جاتا۔ خدا جانے اُس کے ساتھ کیا ہوا، مگر سفینہ دن رات اس افسوس میں جلتی رہتی ہے کہ میں نے اسے خود کھویا ہے جبکہ مجھے اس کو کھونا نہیں تھا۔ منتوں سے حاصل کی ہوئی محبت کو بھلا کوئی ایسے کھوتا ہے؟