Sunday, April 27, 2025

Yaha Koi Apna Nahe| Teen Auratien Teen Kahaniyan

جب ہوش سنبھالا گھر میں اماں کو سلائی کرتے اور ماموں کو سودا سلف لاتے دیکھا۔ ان دونوں کے منہ سے مرحوم ابا کا ذکر بھی سنا کرتی تھی کہ بہت شریف الطبع اور نفیس آدمی تھے،کتابوں کی دکان تھی، علم دوست تھے، محلے میں سبھی ان کی عزت کرتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور انہیں کم سن ماموں کے سہارے چھوڑ کرچل بسے۔
دکھ سکھ کے دن جوں توں کر کے گزرتے رہے۔ میں اسکول میں پڑھتی رہی اور ماں سلائی کرتی رہیں۔ گھر میں روز محلے کی عورتوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ کیونکہ امی بہت عمدہ سلائی کرتی تھیں۔انہوں نے گورنمنٹ ووکیشنل سینٹر سے دو سالہ ڈپلوما کیا تھا، کچھ اپنا شوق تھا کہ کٹنگ میں طاق تھیں۔ کیا جانتی تھیں کہ ایسا وقت آ پڑے گا کہ یہ شوق ان کے لیے گزر اوقات کا وسیلہ بن جائے گا۔
بیشک محلے میں ان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا، ہنر مندی اور سلائی میں ٹیلر ماسٹر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ درزی اس دور میں ایک سوٹ کا چار سو روپیہ لیتا تو یہ ایک سو میں اس سے اچھا سی کر دیا کرتی تھیں۔ تبھی سارے محلے کے کپڑے سلنے ان کے پاس آنے لگے۔ ماں کی مشین سے ایسی سنگت ہو گئی کے سر کھجانے کی فرصت نہ رہی، عام دنوں کے علاوہ عید شادی کے موسموں میں عورتوں کا ہمارے گھر تانتا بندھ جاتا۔ اور ڈھیروں ڈھیر کپڑے سلنے کو آ جاتے۔
میں بہ مشکل میٹرک کر سکی، ماں نے مجھے گھرداری سنبھالنے کے مشن پر جو لگا دیا تھا، انہیں اب میری شادی کی فکر تھی جس کے لیے ان کے خیال میں جہیز ضروری تھا، ورنہ کسی معقول گھرانے سے رشتے کی امید نہ رکھی جا سکتی تھی۔ ماموں نے ایف ایس سی کرنے کے بعد ادویات کے اسٹور پر ملازمت کرنے کی خاطر ضروری کورس کیا، پھر فارمیسی اسٹور پر سیلز مین ہو گئے، ماموں بھی کمانے لگے، ہمارے گھر کے مالی حالات سنبھل گئے۔ والدہ چاہتی تھیں کہ اپنے بھائی کی شادی کر دیں اور بھابھی گھر سنبھال لے۔ لیکن ماموں راضی نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا پہلے نازیہ کی شادی ہو جائے اس کے بعد میں اپنا گھر آباد کرنے کے بارے میں سوچوں گا۔
محلے کی تمام خواتین سے والدہ کی اچھی واقفیت تھی کہ ان کا برسوں کا آنا جانا تھا۔ جب وہ کپڑے سلوانے آتیں، تھوڑی دیر بیٹھ کر میری ماں سے دکھ سکھ بھی کر لیتیں۔ اکثر خواتین اپنے جواں سال بچوں کے رشتے کے بارے میں تفکر کا اظہار کرتیں۔
’’بہن اگر کوئی اچھا رشتہ ہو تو بتانا۔ ‘‘ ایسا کہنے کا مطلب یہ ہوتا کہ کسی دوسری خاتون نے اگر یہی پیغام دیا ہے تو وہ دونوں طرف بات پہنچا دیں۔ والدہ یہ کام بخوبی کر سکتی تھیں جب ایک بی بی کہتیں مجھے بیٹی کے لیے اچھا لڑکا مطلوب ہے تو دوسری جب آتی وہ اپنے بیٹے کے لیے کسی پڑھی لکھی لڑکی کے رشتہ کی طالب ہوتی، والدہ اسے بتا دیتیں کہ فلاں بی بی نے مجھے کہا تھا تمہارا تذکرہ ضرور ان سے کروں گی۔ قسمت میں ہو گا تو رشتہ مل جائے گا۔ رشتے ناتے ایسے ہی کسی وسیلے سے ہوتے ہیں۔
جب دو خواتین کی ضرورت کا تذکرہ والدہ کی زبانی ہو جاتا تو وہ ایک دوسرے سے رابطہ کر لیتیں یوں کئی رشتے بنتے اور شادیاں ہو جاتیں۔ والدہ سلائی والی خالہ کے بعد رشتہ کرانے والی خالہ مشہور ہوگئیں۔ حالانکہ امی جان کا اس میں کوئی شعوری عمل دخل نہ تھا۔ وہ فی سبیل اللہ تذکرہ کرتی تھیں۔ شاید کسی کا کام ہو جائے اگر دعائوں سے تقدیریں بدلتی ہیں تو ممکن ہے کسی کی دعا کے صدقے میں ان کی بیٹی کا نصیب بھی کھل جائے۔
جتنی خواتین کپڑے سلوانے آتیں وہ اب زیادہ اس غرض سے آنے لگیںکہ کلثوم بی بی کو بہت سے اچھے گھرانے کی بیبیاں جانتی ہیں ان کے ذریعے رشتے ہو جاتے ہیں، لہٰذا ہم بھی ان سے جا کر مدعا کہیں گے تو ہماری بچیوں کے نصیب کھل جائیں گے۔
ادھر امی جان کو روز و شب میری فکر گھلا رہی تھی۔کہتی تھیں یہ خیر سے اپنے گھر کی ہو جائے تو میں چین سے مر سکوں گی۔ یوں ماں اور ماموں کسی رشتے کے انتظار میں روز جیتے اور روز مرتے رہے… والدہ کے توسط سے درجنوں لڑکیوں کے رشتے ہوئے لیکن میرے لیے وہ نہ آیا جو مجھے ڈولی میں بٹھا کر اپنے گھر لے جاتا۔ والدہ ہر خاتون کو رشتہ بتاتیں مگر اپنی بیٹی کے لیے زبان نہ کھلتی، انہیں لحاظ آتا تھا۔ سوچتی ضرور تھیں کہ یہ رشتہ ڈھونڈتی پھرتی ہیں مجھ سے بار بار کہتی ہیں کہ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ گیا ہے، بر سر روزگار ہے، بزنس ہے۔ یہ ہے وہ ہے، آخر انہیں میری بیٹی کیوں نظر نہیں آتی۔
غربت گھر کی باندی ہو جائے تو اچھے رشتے بھی مشکل سے آتے ہیں۔ محلے والے کچھ امیر کبیر، کچھ کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ تھے۔ اماں ہر کسی سے دکھ سکھ کرتیں۔ جانے کتنے لڑکے پڑھ لکھ کر جوان ہو گئے۔ افسر بھی ہو گئے لیکن یہ کسی نے نہ پوچھا کہ تم نے اب تک نازو کا رشتہ کیوں نہیں کیا، آخرکب تک گھر میں بٹھائے رکھو گی۔ کلثوم کی بیٹی پر کسی کی نظر نہ ٹکی حالانکہ میں خوب سلیقہ مند، سگھڑ،خوبصورت اور با ادب تھی جو آتی کہتی،کلثوم تیری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے، اللہ نصیبہ اچھا کرے، صاحب نصیب ہو۔
اس دعا پر اماں اب خود منہ سے کہنے لگی تھیں کوئی اچھا رشتہ آجائے میری نازو کے لیے بھی بس یہی دعا کرو۔ جواب ملتا اللہ نے چاہا تو نصیبہ کھل جائے گا۔ وقت گزرتا گیا، محلے کی کئی لڑکیاں سہاگنیں اور لڑکے دولہا بنے۔ پھر بچوں کے ماں باپ بھی بن گئے تھے مگر میرا نصیبہ نہ کھلا۔
میری عمر تیزی سے پکے سن کی طرف منازل طے کرتی جارہی تھی اور ماں عمر رسیدگی سے بڑھاپے کی طرف محو سفر تھیں، ماموں کی گھر بسانے کی آرزو تھکنے لگی۔ ان کے سر میں بھی چاندی کے بال چمکنے لگے لیکن میرے لیے کوئی اچھا رشتہ نہ آیا۔
اب دونوں کے لیے میرے وجود کا پہاڑ ایسا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ وہ اب اٹھتے بیٹھتے کہتیں جانے کتنے رشتے کرائے کسی کی دعا نہ لگی، میری بیٹی کے بھاگ نہ کھلے۔ اماں بیچاری اسی فکر میں سٹھیانے لگیں اور ماموں باہر ملنے جلنے والوں کے بیچ میرے رشتے کے لیے التجا آمیز لہجے میں باتیں کرنے لگے۔
والد حیات تھے تو گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ ماں نے محنت کا دامن تھاما، عزت میں فرق نہ آیا مگر حیثیت میں بہت بڑا فرق آگیا۔ پہلے لوگ ان کو فاروق کی بیگم کہتے تھے۔ پھر سلائی والی خالہ نام پڑ گیا اور اب وہ رشتے کرانے والی مشہور ہو گئیں۔ تبھی میرے لیے کوئی رشتہ لے کر نہ آتا۔ ہمارا گھر بھی کیا تھا۔ کئی برسوں سے سفیدی ہوئی اور نہ ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہو سکی، اب یہ گھر ایک کھنڈر کی سی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ دیواروں سے پلستر اکھڑ گیا تھا، نل ٹوٹ گئے تھے، پانی چھت کی ٹنکی اور دیواروں سے بہتا تھا، بارش میں اس کمرے کی چھت جہاں پانی کی ٹنکی بنی تھی جھر جھر بہنے لگتی تھی۔ فرنیچر چالیس برس پرانا لگتا۔ ایسے گھر کی لڑکی لینے کون آتا ہے۔ اگرچہ اماں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اچھا خاصا جہیز جمع کر کے اسٹور میں بھر دیا تھا۔
ایک وقت ہوتا ہے کہ لڑکی سنہرے خواب دیکھتی ہے گھر بسانے کے، ا سے سجانے کے، یہ خواب فطرت کا تحفہ ہوتے ہیں لیکن مجھ پر وہ وقت آ چکا تھا کہ میں ان خوابوں کو خدا حافظ کہہ چکی تھی۔ ماموں ایک روز اخبار پڑھتے پڑھتے امی جان سے مخاطب ہوئے۔ کلثوم باجی روز اخبار میں طرح طرح کے اشتہارات نظر سے گزرتے ہیں۔ آج ضرورت رشتہ کا ایک اشتہار پڑھا، خیال آ گیا کیوں نہ ہم نازو بیٹی کے لیے اس اشتہار کنندہ سے رابطہ کرلیں۔ ممکن ہے اس طرح ہماری بیٹی کی قسمت کھل جائے۔
جیسی تمہاری مرضی، ماں نے بے دلی سے جواب دیا اور سلائی میں مشغول رہیں۔
ماموں نے اپنے طور پر ان لوگوں سے رابطہ کر لیا اور ہفتہ بعد ان کا جواب بھی آ گیا۔ ایک رشتہ میرے لائق تھا اور لڑکے والے لڑکی کو دیکھنے آنا چاہتے تھے۔ ماموں نے پتا سمجھایا، اگلے روز دو خواتین ایک نوجوان کے ہمراہ آ گئیں۔ نوجوان تیس برس کا لگتا تھا، ممکن ہے دو چار سال زیادہ عمر کا ہو، میں بھی کب نوخیز لڑکی رہ گئی تھی۔ ستائیس سال کی ہو چکی تھی، نازو کے لیے تو اس عمر کا رشتہ موزوں رہے گا، امی بولیں، دیکھ منے بھیا کہیں پہلے سے شادی شدہ نہ ہو۔ اچھی طرح چھان بین کروں گا باجی۔
ماموں بھلا کیا چھان بین کرتے، قطعی اجنبی لوگ تھے وہ، کوئی جان نہ پہچان، لڑکے کی والدہ اور بہن نے یقین دلایا کہ ہمارا بیٹا بہت نیک، شریف اور تابع دار ہے، خوب کمائو بھی ہے۔ گھر میں اللہ کا دیا سب ہی کچھ ہے اور آپ لوگ چل کر ہمارا گھر دیکھ لیں۔ ماموں ناتجربہ کار، عقل بھی ایسی کہ جو کچھ کوئی کہتا یقین کر لیتے۔ وہی ان لوگوں کا گھر دیکھنے گئے اور بڑی تعریفیں کیںکہ امیر لوگ ہیں۔ ہماری نازو کی خوش قسمتی ہے جو ہم جیسے غریب لوگوں میں رشتہ کرنے کو تیار ہیں۔ ورنہ ایسے ٹوٹے پھوٹے گھر میں کون آتا ہے۔ والدہ کچھ تذبذب میں تھیں کہ لڑکا اچھی شکل کا ہے۔ پڑھا لکھا ہے۔ امیر لوگ ہیں گھر بھی شاندار ہے۔ کسی شے کی کمی نہیں ہے۔ خوب کمائو ہے، شریف ہے تو پھر کیوں غیروں میں ایک غریب گھر کی لڑکی پسند کر لی، کیا انہیں اپنے ہم پلہ رشتے نہیں ملا۔
آپی آپ بہت شکی ہیں، عجیب و غریب باتیں سوچتی ہیں، بھئی لوگ سبھی ایک سے نہیں ہوتے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک امیری غریبی کی تفریق پسندیدہ بات نہیں ہوتی۔ شرافت اور لڑکی کا طور طریقہ، سیرت، سلیقہ ان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ہماری نازو میں کیا کمی ہے۔ انہوں نے ایک نظر لڑکی کو دیکھا اور پسند کر لیا۔
بس یہی کافی ہے۔ باجی یہ رشتہ مت ٹھکرایئے گا۔ بڑی مشکل سے نازو کے بیاہنے کی سبیل نکلی ہے،آج یہ بھی رد کر دیا،کیا خبر کل کوئی دوسرا رشتہ آئے نہ آئے۔ اتنے عرصے سے والدہ بھی نماز میں وظیفے کا سہارا لیے تھیں اب رشتہ آ گیا تھا، دل مضبوط کر کے ان لوگوں کو ہاں کہہ دی۔ میری شادی منیر سے ہو گئی۔ انہوں نے میرے ساتھ ایک ماہ گزارہ۔ میکے آئی تو بڑی سی گاڑی میں، محلے والے حیران کہ رشتے کرانے والی خالہ کی بیٹی کی کس طرح اتنے امیر لوگوں میں شادی ہو گئی۔ ایک ماہ بعد منیر نے بتایا کہ وہ دبئی جا رہے ہیں وہاں کاروبار کرتے ہیں، چھٹی پر آئے تھے۔ اب لوٹ کر جانا ناگزیر ہے۔ لیکن کب تک واپس آنا ہو گا آپ کے بنا یہاں اکیلی کیسے رہوں گی؟
اکیلے کیوں رہو گی۔ تم کو تمہارے میکے چھوڑوں گا، وہاں جاکر بلانے کی کوشش کروں گا۔ زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے گا بہت جلد میرے پاس آ جائو گی۔ بتاتی چلوں کہ مجھے دو خواتین ان کے ساتھ رشتہ دیکھنے آئی تھیں… شادی کے بعد… ان کے ساتھ چار
دن رکھا پھر مجھے کراچی لے آئے، بولے،میرا مین دفتر یہاں ہے اور ایک فلیٹ بھی ہے۔ تم یہاں رہو گی میرے ساتھ۔ دبئی جانے لگے تو کہا کہ ایک دوست کے گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں، یہی تم کو میرے پاس دبئی پہنچا دے گا۔ چاہو تو میکے جاکر رہ لو لیکن خانیوال کافی دور ہے، سوچ لو۔ کہاں رہنا چاہو گی۔ جہاں آپ مناسب سمجھیں وہیں رہ لو ں گی۔
میرے خیال میں تو فصیح کے گھر پر رہنا بہتر ہوگا۔ وہ تمہارا پاسپورٹ ضروری کا غذات بنوائے گا اور تم کو میرے پاس بھجوانے کا بندوبست کرے گا۔ لازم ہے کہ تم کراچی میں موجود رہو۔ ہاں چاہو تو چند روز کے لیے ماں سے مل آنا۔ فصیح تمہیں لے کر جائے گا، وہ فصیح کے گھر مجھے لے گئے جہاں ایک بوڑھی عورت اور ملازم تھا۔ بتایا کہ یہ عورت فصیح کی خالہ ہے۔ بھانجے کے پاس رہتی ہے۔ تم ان کے پاس رہو گی۔ جو بھی حالات تھے قبول کرنا تھے۔ اپنے شوہر کی خاطر … منیر دبئی چلے گئے اور میں فصیح کی خالہ کے پاس آ گئی، یہاں سے دوچار بار امی سے بات ہو ئی، وہ مطمئن تھیں کہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ پوچھا کہ تمہارے ماموں کو بھیجوں، ابھی نہیںجب میرا ویزا آ جائے گا فون پر بتا دوں گی آپ اور ماموں آ کر مل جانا۔
ایک ماہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ اس دوران دو بار فصیح ہفتے ہفتے بھر گھر نہ آیا۔ اس کے ملازم نے بتایا کہ کاروبار کے سلسلے میں جاتے رہتے ہیں۔ کھانا ان کی خالہ بناتی تھیں اور ملازم سودا وغیرہ لاتا، اوپر کے بہت سے کام کرتا تھا۔ مجھے انہوں نے الگ سے ایک کمرہ دے دیا تھا، فصیح کو گئے دس دن ہو گئے تھے۔ پھر ایک دن اچانک وہ آ گیا اور کہا کہ ویزا آ گیا ہے تیاری کر لیں۔ دبئی جانا ہے۔ منیر تو نہیں آسکا۔ میرے ساتھ دبئی جائیں گی آپ۔ جانے کا وقت بھی آ گیا۔ امی سے فون پر بات ہوئی، یہ سب اچانک ہوا اور امی سے ملنے کا ٹائم بھی نہ ملا۔ میں فصیح کے ہمراہ دبئی روانہ ہو گئی۔ ایئرپورٹ پر منیر لینے آیا ہوا تھا اسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی۔ میں نے کہا کہ امی کو فون پر بتا دو میں آپ کے پاس بخیریت پہنچ گئی ہوں۔ وہ فکر مند تھیں۔ بولے کہ ہاں ابھی ہوٹل چل کر بات کرا دیتا ہوں۔
میں نے کہا ہوٹل کیوں…کیا گھر نہیں ہے۔ جواب دیا، ہوٹل چل کر ذرا فریش ہو جائو،کھانا وغیرہ کھا لیں پھر گھر بھی چلتے ہیں، گھر یہاں سے کافی دور ہے۔ سو میل سے کچھ زیادہ فاصلہ ہے تھکن ہو جائے گی۔ یہ دونوں مجھے ہوٹل لے آئے۔ کھانا وغیرہ کھایا۔ پھر کہا اب تم تھوڑا آرام کر لو۔ تب تک ہم ایک کام سے جاتے ہیں دوچار گھنٹے تک واپس آئیں گے۔
امی سے تو بات کروا دو۔ ہاں، ابھی کراتا ہوں۔ بھول ہی گیا تھا۔ انہوں نے میری بات کروا دی۔ امی کافی پریشان تھیں کیونکہ ملاقات بھی نہ ہو سکی تھی۔ میں نے تسلی دی۔ بولیں میری منیر سے بات کرائو۔ اسے کہا کہ میری بیٹی کو پردیس لے گئے ہو۔ بہت خیال رکھنا، اسے کوئی تکلیف نہ دینا۔ جواب دیا بے فکر رہیے خالہ جی۔ آپ کی بیٹی ہے تو میری بھی شریک زندگی ہے۔ اسے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ والدہ بے چاری کیا کہہ سکتی تھیں سوائے دعا کے اور کیا کرسکتی تھیں۔ اب میں ان سے دور جا چکی تھی اور کسی اور کے بس میں تھی۔ مغرب کے بعد یہ لوگ آئے۔ کہا تیار ہو؟ چلنا ہے میں نے منہ دھوکر کپڑے بدل لیے۔ وہ مجھے ایک شاندار گھر لے آئے۔ گھر کیا تھا محل تھا اور ہر چیز قیمتی و اعلیٰ تھی۔ ہر شے سے امارت ٹپک رہی تھی میں تو جیسے خوابوں کی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔
یہ خواب یوں ٹوٹا کہ یہ گھر میرا گھر نہ تھا، اور منیر میرا شوہر… میرا نہ تھا۔ یہ لوگ غلط لوگ تھے اور غلط کام ان کا کاروبار تھا۔ یہ اپنے وطن سے غریب اور لاوارث لڑکیاں لاتے۔ یہاں ان کو دوسروں کے ہاتھوں میں سونپ کر روپیہ کمانے کا ذریعہ بناتے تھے۔ یہ لوگ دیکھ بھال کر ایسی چڑیا پکڑتے جن کے پیچھے کوئی مضبوط آدمی نہ ہوتا۔
آگے کیا ہوا۔ میںکن کن کٹھنائیوں سے گزری، یہ ایک طویل کہانی ہے اور مجھ میں رقم کرنے کی بھی تاب نہیں ہے۔ سنتی تھی کہ بنگلہ دیشی عورتوں کو ملازمت اور اچھی زندگی کا جھانسا دے کر لوگ دوسرے ملکوں حتیٰ کہ ہمارے وطن میں ناجائز طریقوں سے لے آتے ہیں۔ اور یہاں لا کر فروخت کر دیتے ہیں۔ ان سے مذموم کام بھی لیتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ منڈی لگتی ہے جہاں خریدنے والے ان کو خرید کر لے جاتے ہیں۔ گائوں میں ایسی کئی بنگلہ دیشی لڑکیاں اور عورتیں دیکھی تھی، جن کو دیہاتی اپنے لیے شادی کے غرض سے خرید کر لائے تھے۔ ان میں بہت سی بے چاری شادی شدہ اور بچوں والی تھیں۔ و ہ اپنے نصیبوں کو روتی تھیں، آج میرا حال ان سے برا تھا۔
مجھ ایسی اور بھی تھیں جن کو میری طرح خرید کر یہاں لایا گیا تھا۔ کسی سے شادی کر کے،کسی کو ملازمت کا جھانسا دے کر اور اب وہ دلدل میں پھنسی تھیں۔ کچھ دولت کی چمک کی وجہ سے اس دلدل میں رہنے کی عادی ہوچکی تھی لیکن میری جیسی کے دل میں عزت کی پامالی کا درد ناسور بنتا جا رہا تھا۔
دن رات دعا کرتی تھی۔ آخر اللہ نے سن لی اور ایک روز ایک ایسا ہمدرد انسان مل گیا جس کی مدد سے میں اس دلدل سے نکل کر اپنے وطن لوٹ آنے میں کامیاب ہو گئی۔ یقین نہ آتا تھا کہ اپنے گھر آ چکی ہوں۔ بڑی حیرت تھی کہ کیسے معجزہ ہوگیا۔ اور میں واپس اپنی ماں کے پاس آ گئی۔ اماں نے حال سنا تو روتے روتے نڈھال ہو گئیں لیکن منہ پر تالا لگا لیا کہ اپنی عزت خود اچھالنا نہیں چاہتی تھیں۔
ہم نے خاموشی اختیار کر لی، اب بھی عورتیں سلائی کرانے کے لیے کپڑے لاتیں، میرے بارے میں اماں سے سوال کرتیں اور والدہ جواب دیتیں، جو اللہ کو منظور تھا ہو گیا۔ بیٹی کی شادی ایک جوا ہے، منافع ہو کہ خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
وہ بہت ہمدردی کرتیں لیکن یہ خیر خواہ بیبیاں باہر جاکر کہتیں۔ بے چاری نازو… اتنی اچھی لڑکی کی قسمت پھوٹ گئی۔ خالہ جی نے دسیوں رشتے کرائے اپنی ایک بیٹی کا رشتہ صحیح جگہ نہ کرا سکیں۔ ہمیں تو پہلے ہی خدشہ تھا کہ امیر گھرانے میںدی ہے خدا خیر کرے۔ اپنے سے ا ونچے لوگوں میں رشتہ جوڑیں گی تو ایسا ہی ہو گا، بیٹی کو طلاق ہو گئی نا آخر۔ کسی غریب کے گھرمیں دیا ہوتا دو وقت کی روٹی ملتی مگر گھر تو ہوتا۔ والدہ کے کانوں میں جب ایسی باتیں پڑتیں تو وہ خاموشی سے آنسو پونچھ کر مشین پر جھک جاتیں۔ بھلا کیا مقابلہ تھا اس دنیا سے۔ سلائی مشین سے سنگت تھی سو نباہ رہی تھیں۔ دنیا بڑی سفاک جگہ ہے اور لوگوں کی گز بھرزبانیں ہیں۔ کسی کو جواب دینا ہم جیسے غریبوں کے بس کی بات نہیں۔ (ع۔الف۔ خان پور)

Latest Posts

Related POSTS