مجھے کوئی غم نہ تھا، غم کا مطلب ہی نہیں جانتی تھی۔ ہمارا ماحول سکھ کا گہوارہ تھا، ابو کماتے تھے اور امی گھر چلاتی تھیں جبکہ ہم دونوں بہن بھائی چین کی بنسی بجاتے تھے۔
یہ جنگ ستمبر 1965ء کا واقعہ ہے ان دنوں ہم لوگ سیالکوٹ میں رہتے تھے۔ چین بھری زندگی میں اچانک بھونچال آگیا جب پاک بھارت جنگ چھڑگئی۔ جنگ کے تیسرے روز والد نے کہا کہ تم لوگ اپنی نانی امی کے پاس نواب شاہ چلے جائو۔ کیونکہ سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں خطرہ زیادہ ہے۔ امی نہ مانیں، کیونکہ ابو ڈیوٹی کے باعث اس شہر سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ تبھی امی نے کہا کہ ہم آپ کو یہاں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے، موت تو ہر جگہ برحق ہے اور اللہ کی سب زمین ایک سی ہے۔
دشمن کے ہوا بازوں نے صحیح ٹھکانے کی بجائے شہری آبادی پر بم برسانے شروع کردیے، اس بمباری کی زد میں نہ صرف ہمارا شہر بلکہ گھر بھی نشانے پر آگیا۔
جس رات یہ حادثہ ہوا محلے میں قیامت برپا تھی اور ہم بہن بھائی بے ہوش تھے۔
صبح ہوش آیا تو پتہ چلا کہ ہمارے والدین رات کو دشمن کی بربریت کا شکار ہوگئے ہیں، وہ خوفناک منظر میں یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ جب ہوش آیا، اس منظر کی تاب نہ لاکر پھر بے ہوش ہوگئی۔
نجانے میرے چھوٹے بھائی فارقلیط پر کیا بیتی، جب آنکھ کھلی خود کو ایک اجنبی ماحول میں پایا۔ میری حالت اس وحشت زدہ ہرنی جیسی تھی جو زخمی ہو کر قید ہوگئی ہو… دن رات روتی اور فارقلیط کو پکارتی تھی کہ بھیا کدھر ہو امی ابو بچھڑ گئے ہیں ان کو کہاں سے ڈھونڈ کر لائوں؟
خدا جانے میرا بھائی کہاں تھا اسے کون لے گیا تھا وہ مجھے نہ ملا، جو شخص مجھے زحمی حالت میں اٹھا لایا تھا۔ اس کا نام بہرام خان تھا… مجھے اس کے بارے میں کچھ علم نہ تھا تسلیاں دیتا تھا کہ پرسکون رہو تمہارا بھائی زندہ ہے وہ ڈر کی وجہ سے بھاگ گیا ہے۔ امی ابو تو مکان کے ملبے دب کر اللہ کو پیارے ہوگئے تھے لیکن ہم بہن بھائی چونکہ صحن میں سورہے تھے اسی وجہ سے بچ گئے تھے۔
میں تمنا کرتی تھی اے کاش میں ابھی ان کے ساتھ مرجاتی کئی بار بہرام کے ساتھ اپنے مسمار گھر کے چکر لگائے، فارقلیط کا مگر کوئی سراغ نہ ملا۔
بہرام اور اس کی بیوی کی تسلیاں جینے کا آسرا دے رہی تھیں لیکن دل اندر سے روتا ہی رہتا تھا۔ شروع میں ان لوگوں نے بہت پیارسے رکھا کہ اپنا غم بھول جائوں لیکن ماں باپ اور بھائی سے بچھڑنے کا دکھ، ایک ایک منٹ صدی بن کر مجھ کو روند رہا تھا۔
بہرام کی بیوی بہت نیک عورت تھی اس نے واقعی ماں کا پیار دیا اور کوئی کمی نہ محسوس ہونے دی میں جلد ہی اس کی محبت میں کھوگئی۔
بعض انسان نیکی کرتے ہیں مگر ان کے جذبات وقتی ہوتے ہیں کیونکہ وہ دل سے نیکوکار نہیں ہوتے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر کے فرشتے کو شیطان اپنے پنجے میں جکڑ لیتا ہے… ایسا ہی بہرام خان تھا۔
اس نے میری زندگی بچا کر اور مجھے پناہ دے کر نیکی تو کی تھی لیکن وہ خود اتنا نیک طبیعت نہ تھا۔ میں پندرہ برس کی الہڑ دوشیزہ تھی جو دن رات اس کی نگاہوں کے سامنے رہتی تھی، خود اسے اللہ تعالیٰ نے کوئی بیٹی نہ دی تھی کہ وہ باپ اور بیٹی کے مقدس رشتے کا احساس کرتا۔
رفتہ رفتہ اس کی نیت میں کھوٹ آنے لگا اور اس کے دیکھنے کا انداز بدلنے لگا۔ میں بچی تو ہر گز ایسی باتوں کو نہ سمجھتی تھی، مرد کی فطرت سے نابلد تھی۔ حالانکہ وہ مجھے بیٹی کہتا پھر بھی وہ خود پر سے اختیار کھورہا تھا۔ کچھ باشعور ہوتی تو اس کی نگاہوں کو پہچان کر محتاط ہوجاتی لیکن میں تو ان دنوں فرشتوں ایسی معصوم تھی۔ پس ایک روز اس کی بیوی کہیں گئی ہوئی تھی اور میں اکیلی گھر میں تھی اس کو شیطان نے بہکایا، اس کی بیوی آئی تو میں رو رہی تھی اس نے پوچھا کیوں روتی ہو، رونے سے تمہارے ماں باپ واپس تو نہیںآئیں گے، میں نے جواب دیا۔ خالہ ماں باپ کے لیے نہیں رو رہی مگرآپ کے شوہر کی وجہ سے رو رہی ہوں کیونکہ میں نے ان کو باپ کا درجہ دیا ہوا ہے اور وہ بھی بیٹی کہتے تھے اس مقدس رشتے کا انہیں پالن رکھنا چاہیے۔
خالہ سمجھ گئی کیا کہنا چاہتی ہوں۔ شوہر اس کی بہیمیت پر وہ دنگ رہ گئی کہ ایک پندرہ برس کی کم سن لاوارث بچی پر بد نیت ہوگیا ہے۔ بہرحال خالہ سمجھ دار تھی، اپنی چھت سے محروم نہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے خاموشی اختیارکرلی مگر اب وہ سائے کی طرح میرے ساتھ رہنے لگی تھی گھر پر اکیلا ہرگز نہ چھوڑتی کہیں جاتی ساتھ لے جاتی، ہر طرح سے میری نگرانی کرتی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے اس گھر میں کوئی طوفان اٹھے، خود بھی اپنی حفاظت کررہی تھی اور دعا کرتی تھی خدا اس بدکردار بڈھے کو اس جہان سے اٹھالے جو پہلے میرا محسن تھا پھر دشمن بن گیا۔
خدا نے دل سے نکلی دعا سن لی، ایک روز بہرام خان ٹرک لے جارہا تھا کہ پولیس نے اسے پکڑ لیا، معلوم نہیں کہ وہ ٹرک میں کیا لے جارہا تھا اسے لمبی جیل ہوگئی اور پھر جیل میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے مرگیا۔
خالہ کا اس دنیا میں ایک بیٹے کے سوا کوئی نہ تھا اور یہ بیٹا دوسرے شہر میں اپنی نانی کے گھر رہتا تھا اس کے ماموں اسے پڑھارہے تھے، جب اس کے سالانہ پرچے ہوگئے خالہ نے اس کو بلوالیا اور واپس پشاور جانے نہ دیا۔ کیونکہ یہ اس کا آخری تعلیمی سال تھا جو اب ختم ہوگیا تھا اور ہم دونوں کا تنہا رہنا بھی محال تھا۔
بہرام کے اس اکلوتے بیٹے کا نام ہاشم تھا یہ نہایت شریف النفس تھا۔ گھر میں جوان لڑکی موجود تھی اور وہ میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا۔ وہ اپنے باپ کے برعکس طبیعت کا مالک تھا۔ خالہ کو میری بہت فکر تھی اس نے میرے رشتے کے لیے کئی بار کوشش کی مگر رشتہ نہ ہوسکا تب اس کی نند نے ایک روز مشورہ دیا کہ جب لڑکا اور لڑکی گھر میں موجود ہیں تو باہر رشتہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ذکیہ کو بیٹی بنایا ہے بہو بنانے میں کیا حرج ہے۔
خالہ کے دل میں ایک پھانس تھی اسی وجہ سے وہ بیٹے سے رشتہ کرنے سے کترارہی تھیں۔ بہرحال انہوں نے پھر مجھ سے تذکرہ کیا کہ اگر تم ہاشم کے ساتھ خوش رہ سکو تو میں تمہارا اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہوں گی۔
مجھے ہاشم پسند تھا میں نے ہاں کہہ دی کیونکہ میں کسی اور گھر جانا نہ چاہتی تھی خالہ نے ماں جیسا پیار دیا تھا ایسا پیار اور کہاں مل سکتا تھا۔ خالہ نے وعدہ لیا کہ کبھی بہرام کی بری نیت کا احوال اس کے بیٹے کو نہ بتانا ورنہ پچھتائو گی… میں نے وعدہ کرلیا تو انہوں نے میرا نکاح اپنے بیٹے سے کردیا۔
میری اجڑی ہوئی زندگی میں بہار آگئی۔ ہاشم مجھے بہت چاہتے تھے میں بھی ان کی گرویدہ تھی۔مردوں میں نجانے کیا خرابی ہوتی ہے اکثر شوہر اپنی بیویوں سے ان کا ماضی پوچھتے ہیں۔ ہاشم میں بھی یہ خرابی تھی اکثر پوچھتے تھے تم لاوارث ملی تھیں کبھی کسی نے تمہاری معصومیت سے فائدہ تو نہیں اٹھایا بتادو… وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ نہ کہوں گا۔ اگر تم سے کوئی غلطی ماضی میں ہو بھی گئی تو معاف کردوں گا۔
میں ہر بار انکار کردیتی تھی لیکن ضمیر اس جھوٹ پر ملامت کرتا تھا… تاہم ہر دفعہ جب وہ کریدتے میں جھوٹی سچی قسمیں کھا کر ان کو مطمئن کردیتی تھی۔ سوچتی تھی کہ اگر حقیقت بتادی کہ ان کے والد ہی مجھ پر میلی نظر رکھتے تھے تو ان کا سکون تاحیات تہہ و بالا رہے گا۔
روز روز کے ان سوالوں سے تنگ آکر بالآخر میں نے اپنی ساس کو اس امر سے آگاہ کردیا کہ آپ کا بیٹا بار بار اس قسم کی کرید کرکے مجھے دکھی اور پریشان کرتا رہتا ہے، آپ بتائیے میں کیا کروں؟ کیوں نہ ایک بار حقیقت سے آگاہ کرکے اس قصے کو ختم کردوں۔ کیونکہ میں ان کے روز روز کے ایسے سوالات سے زچ آچکی ہوں، کب تک جھوٹی قسمیں کھاتی رہوں گی۔
میری الجھن سن کر اس جہاندیدہ خاتون نے کہا، ہرگز کوئی ایسی بات تم کبھی بھی اپنے لبوں پر نہ لانا… بیوقوف لڑکی وہ لاکھ قسمیں کھائے کہ تم کو کچھ نہ کہے گا اور معاف کردے گا، اس بات کا یقین مت کرنا۔ کیونکہ مرد کی فطرت اتنی سادہ نہیں ہوتی وہ کبھی بھی تم کو معاف نہ کرے گا اور اس کے سکون کے لیے بھی یہ انکشاف غضب ہوجائے گا۔ مرد عورت کی ہر غلطی معاف کرسکتا ہے لیکن یہ خطا معاف نہیں کرسکتا چاہے، قصور عورت کا نہ بھی ہو۔ اس کے دل کے شیشے میں بال آجاتا ہے پھر وہ سزا اگر عورت کو نہ بھی دے تو خود کو سزا دینے لگتا ہے۔
جب ساس نے سختی سے منع کیا تو میری سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ایسا سچ جو تباہی اور بربادی لائے اس کو دل کے نہاں خانوں میں دفن کردینا ہی بہتر ہے کیونکہ نقصان میرا ہی نہیں میرے پیارے محبت کرنے والے کا زیادہ ہوجاتا۔ اگر میں ان کو ان کے والد کے بارے میں ایسی ویسی بات کہہ دیتی جبکہ وہ مرحوم تھے ہاشم کو پھر بھی چین نہ ملتا اور وہ جو مجھ سے والہانہ پیار کرتے تھے، کیا خبر میں اس پیار کی دولت کو کھوہی دیتی۔ تب میرے جینے کا آسرا باقی نہ رہ جاتا اور پھر میرا تو کوئی اپنا تھا اور نہ کوئی دوسرا ٹھکانہ تھا، میں کہاں جاتی۔
خدا سے معافی طلب کرکے میں نے جھوٹی قسم پر ہاشم کو یقین دلا دیا کہ مجھے کسی نے ہاتھ لگایا اور نہ میلی آنکھ سے دیکھا ہے۔ خدا نے مجھے صرف آپ کے لیے بنایا ہے اور میں آپ کی ہی ہوں۔
میری ساس نے بھی بیٹے کو سمجھایا کہ اس معصوم بچی کو ہم نے اسی لیے پناہ دی تھی کہ یہ پاکیزہ صفت کسی درندہ نما انسان کے ہاتھ نہ لگ جائے، میں نے اس کی حفاظت ایک پھول کی طرح کی ہے۔ تم ایسے سوالات کرکے بیوی کو پریشان مت کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ اس گھر سے سکون اور برأت اٹھالیتا ہے جس گھر میں سربراہ اس قسم کی سوچیں پال لیتا ہے۔ ساس کی باتوں کا ہاشم پر کافی اثر ہوا۔ انہوں نے پھر مجھے ماضی کے بارے میں سوالات کرکے ہراساں کرنا چھوڑدیا اور آج جبکہ میری ساس اس دنیا میں نہیں میں ہر روز ان کی روح کو ایصال ثواب کی خاطر تلاوت قرآن پاک کرتی ہوں اور ان کے لیے دن رات دعا گو رہتی ہوں کہ خدا ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے کہ جنہوں نے انسانیت کی معراج سے کام لیا اور اپنی فراست سے میری جان بچائی اور عمر بھر کی خوشیاں میری جھولی میں ڈالیں۔
میں اپنے بچوں کے ہمراہ ان دنوں انگلینڈ میں رہائش پذیر ہوں اور جب یہاں کا ماحول دیکھتی ہوں، اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے ہم کو اخلاقی اقدار سے مالا مال رکھا ہے ورنہ یہ بڑی عجیب دنیا ہے اور اس دنیا میں کیا کیا نہیں ہوتا۔
(ک… لندن)