امی جان بڑی خالہ کے یہاں جانا چاہتی تھیں۔ میرے امتحان ہونے والے تھے، نہ جاسکیں۔ پرچے تمام ہوئے تو ہم نے خالہ سے ملنے کے لیے قصور جانے کی تیاری باندھ لی۔ خالہ ثریا ہم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ ان کا گھر بھی کھیتوں کے بیچوں بیچ تھا۔ میں وہاں جاکر بہت خوش ہوتی۔ کھلی فضا اور ہر طرح کی خاطر مدارات۔ جی چاہتا کہ عمر بھر کے لیے یہاں رہ جائوں۔
ہمیں یہاں آئے ایک ہفتہ ہوا تھا کہ خالہ کی نند بینش روتی ہوئی آئیں اور خالو جان کو اپنا دُکھڑا سنانے بیٹھ گئیں۔ میں اتنی چھوٹی نہ تھی کہ ان کی باتیں سمجھ نہ سکتی۔ جوں جوں خالو ان کی باتیں سنتے جاتے تھے، ان کے چہرے کا رنگ بدلتا جاتا تھا۔ آنٹی بینش کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک کا نام رضوانہ اور دوسری کا فرحانہ تھا۔ فرحانہ کی شادی ہوچکی تھی جبکہ رضوانہ کی منگنی اس کے چچا کے بیٹے سے ہوگئی تھی۔ نہیں معلوم کہ منگنی کے وقت اس کے والدین نے بیٹی کی رضامندی لی تھی کہ نہیں، تاہم یہ عجب واقعہ منگنی کے چند ماہ بعد وقوع پذیر ہوا کہ رضوانہ اپنی بڑی بہن فرحانہ کے دیور کے ساتھ بھاگ گئی اور ان کے خاندان میں ہاہاکار مچ گئی۔
جس لڑکے کے ساتھ فرحانہ بھاگی تھی، اس کا نام اصغر تھا اور وہ ایک فیکٹری میں ملازم تھا۔ تنخواہ اچھی تھی، رہائش بھی کمپنی کی طرف سے ملی ہوئی تھی، تبھی اس نے ایسی جرأت کی تھی۔ اللہ جانے یہ دونوں کب سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ رضوانہ آئے دن بہن کے یہاں جاتی تھی۔ فرحانہ خود اسے بلواتی کہ اس کے تین چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن کی دیکھ بھال میں ہلکان رہا کرتی تھی۔ اسے ہمہ وقت کسی مددگار کی ضرورت رہتی۔ ساس بوڑھی تھی جو اتنے چھوٹے بچوں کی پرورش میں بہو کی مدد نہ کرسکتی تھی بلکہ اسے خود دیکھ بھال کی حاجت تھی۔ ایسے میں سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ فرحانہ چھوٹی بہن کو بلوا بھیجے۔
اس روز روز کے آنے جانے نے اصغر اور رضوانہ کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔ وہ اپنی گاڑی پر اسے کبھی لینے اور کبھی چھوڑنے جاتا۔ دلوں کے راز دل ہی جانے تاہم گھر والوں کو ان کی محبت کے بارے میں علم نہ ہوسکا۔ ماں باپ مطمئن تھے کہ لڑکی کی منگنی ہوچکی ہے لہٰذا کسی قسم کا خیال دل میں پیدا نہیں ہوگا۔
والدین بیچارے اولاد پر اعتماد کرتے ہیں لیکن اولاد کبھی کبھی دھوکا دے جاتی ہے۔ ان کی سبکی ہوتی ہے اور صدمے سے وہ نڈھال ہوکر رہ جاتے ہیں۔جہاں تک میں سمجھتی ہوں بینش آنٹی اور خالو جان کی سخت مزاجی سے بھی یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ وہ بہت زیادہ سخت قسم کا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ رکھتے تھے۔ ایک بار جو بات کہہ دیتے پھر اس سے نہ ہٹتے۔ ان کے بارے میں خاندان والے کہا کرتے تھے کہ قربان میاں کی ہر بات پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔ انکار کردیں تو پھر اقرار میں بدلنا محال ہے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ اصغر نے کسی کو گھر میں بتانے کی جرأت نہ کی کہ وہ اپنی بھابی کی بہن کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ بات وہ کم ازکم فرحانہ کو بتا دیتا تو شاید وہی دیور کی خاطر اپنے والدین کو سمجھا بجھا کر بہن کی منگنی چچازاد سے ہونے نہ دیتی۔ یوں کہنا چاہیے کہ کسی نے کوئی بات نہ وقت پر محسوس کی اور نہ ظاہر کرنے کی جرأت اصغر اور رضوانہ نے کی حالانکہ جس قدر اصغر ڈرپوک تھا، رضوانہ اسی قدر نڈر اور بے باک قسم کی لڑکی تھی۔ اگر وہ اسے اجازت دے دیتا تو ضرور یہ لڑکی کم ازکم اپنی بہن کو بتا دیتی کہ دونوں زندگی کا ایک اہم فیصلہ بزرگوں کی شمولیت کے بغیر کرنے جارہے ہیں۔ اصغر کو خوف تھا، بات کھل گئی تو ایسا نہ ہو کہ اس کے والد اسے گھر سے نکال دیں کیونکہ رشتہ قریبی تھا اور لڑکی کی منگنی بھی بے حد قریبی عزیزوں میں ہوچکی تھی۔
جب مسئلہ کسی طرح سلجھتا نظر نہ آیا تو رضوانہ نے خواب آور گولیاں خرید لیں۔ ایک دن اصغر اسے اس کے والدین کے گھر پہنچانے جارہا تھا، اس کے سامنے ہی گولیاں پھانک لیں تو وہ گھبرا گیا اور فوراً ایک ڈاکٹر دوست کے پاس لے گیا جس نے آناً فاناً رضوانہ کا معدہ واش کردیا۔ دراصل یہ گولیاں زیادہ طاقت والی نہ تھیں کہ وہ مر جاتی۔ یہ محض اسے ڈرانے کو رضوانہ نے ڈرامہ رچایا تھا کیونکہ اصغر کسی صورت کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کو تیار نہ تھا جبکہ لڑکی کو ڈر تھا اس لیت و لعل میں کہیں اس کی شادی کی تاریخ ہی نہ رکھ دی جائے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
یہ پرانا دور تو تھا نہیں، نیا زمانہ تھا۔ لڑکا اور لڑکی اگر عاقل، بالغ ہوں تو وہ اپنی مرضی سے کورٹ میرج کرسکتے تھے۔ وہ رضوانہ کے اکسانے پر کورٹ میرج کرنے پر مجبور ہوگیا۔ گرچہ دل سے اس رشتے کو اپنانا نہیں چاہتا تھا۔
ایک دوست کی مدد سے اصغر نے رضوانہ سے کورٹ میرج کرلی اور کراچی چلا گیا۔ ادھر گھر میں کہرام مچ گیا۔ سبھی فرحانہ کو دوش دینے لگے کہ یہ تمہاری لاپروائی کی وجہ سے ہوا ہے۔ روزانہ تم بہن کو بلوا کر گھر میں رکھتیں اور نہ یہ حادثہ ہوتا۔ شوہر نے بھی اسے برا بھلا کہا۔ سسر تو گویا اس کی جان کا پیاسا ہوگیا۔ اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے پوتے، پوتیوں کا بھی خیال نہ کیا۔ حکم صادر فرما دیا۔ جب تک رضوانہ اور اصغر کا پتا نہیں چلتا، تم میکے جاکر رہو گی۔ ہمیں تم جیسی بہو کی ضرورت نہیں۔ گویا کہ اس بیچاری کا ازدواجی رشتہ بھی خطرے میں پڑ گیا۔ سسر نے کہا۔ ابھی تیار ہوجائو، میں خود تمہیں میکے چھوڑ کر آتا ہوں۔ اس وقت تک وہاں رہنا، جب تک میرے بیٹے کا پتا نہیں چل جاتا کہ وہ کہاں ہے۔ یقیناً تمہاری بہن ضرور تمہاری ماں سے رابطہ کرے گی۔ وہ روتی رہ گئی کہ ماموں جان، میرا کیا قصور ہے؟ میں نے تو رضوانہ کو نہیں بھگایا۔ اس معاملے میں، میں شامل نہ تھی مگر اس کی بات کا کون یقین کرتا۔
یہ رضوانہ کی کم عقلی تھی۔ اگر وہ گھر والوں کو بتا دیتی کہ میں چچازاد سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو اس کی ماں ضرور اس کا ساتھ دیتی مگر ماں پر بھروسا کرنے کی بجائے اس نے کورٹ میرج کرنے میں عافیت جانی۔ چھ ماہ فرحانہ میکے اور اس کے بچے باپ کے پاس رہے۔ بچے ماں کے بغیر بیمار پڑ گئے۔ رو رو کر فرحانہ کا بھی بچوں کی جدائی میں برا حال تھا۔ بالآخر ساس کے شور و غوغا کرنے پر سسر نے بیٹے کو اجازت دے دی کہ جاکر بیوی کو لے آئے۔
وقت کے ساتھ ہر معاملہ مدھم پڑجاتا ہے۔ یہی اصغر اور رضوانہ نے سمجھا تھا۔ جب اصغر کی چھٹیاں ختم ہوگئیں تو وہ واپس ڈیوٹی پر آگیا کیونکہ لمبی چھٹی کی وجہ سے اس کی نوکری جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہاں آکر وہ مطمئن ہوگئے لیکن آفس کے ایک شخص نے رضوانہ کے بھائی حماد کو اطلاع کردی کہ تمہاری بہن اور بہنوئی جن کے بارے میں جاننے کی خاطر تم یہاں آئے تھے، وہ لوٹ کر آگئے ہیں۔
سارے خاندان میں رضوانہ کی اس حرکت کا سب سے زیادہ غصہ حماد کو تھا کیونکہ جس لڑکے سے رضوانہ کی منگنی ہوئی تھی، اس کی چھوٹی بہن سے حماد کی شادی ہونا قرار پائی تھی۔ رضوانہ کے بھاگ جانے پر چچا ناراض تھے اور انہوں نے حماد کو بیٹی دینے سے انکار کردیا تھا۔ اطلاع ملتے ہی حماد کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور اس نے رضوانہ کا فون نمبر معلوم کرکے اسے فون کیا کہ تم دونوں واپس آجائو، ہم نے تم لوگوں کو معاف کردیا ہے کیونکہ یہ رشتے ٹوٹنے والے نہیں ہیں۔ امی، ابو تمہارے لیے بہت اداس ہیں۔ امی اس غم میں بیمار پڑی ہیں۔ غرض کچھ اس طرح وہ رقت آمیزی سے گفتگو کرتا رہا کہ رضوانہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے بھائی کی بات کا اعتبار کرلیا جس نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں اصغر اور ان کے گھر والوں کو منا لوں گا اور تمہاری ان سے بھی صلح کرا دوں گا۔ آخر کو ہماری بہن ان کے گھر کی بہو ہے۔
رضوانہ اور اصغر بھی کافی دنوں سے اپنوں سے دور تھے اور اپنے کئے پر نادم تھے۔ بزرگوں سے معافی مانگنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ حماد کی باتوں میں آگئے اور قصور واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب وہ واپس آئے تو حماد نے اصغر کے والدین کو سمجھایا۔ بہو اور بیٹا آپ کی عزت ہیں، انہیں معاف کردیں اور گھر آنے دیں۔ وہ اولاد کی محبت سے مجبور ہوگئے لہٰذا مان گئے۔ کہا کہ ٹھیک ہے یہ لوگ واپس گھر آجائیں، کب تک دربدر پھریں گے۔
اصغر اور رضوانہ ڈرتے ڈرتے گھر پہنچے۔ باپ نے لعن طعن تو کی مگر گھر سے نہ نکالا۔ یوں ان میں صلح ہوگئی اور رضوانہ سسرال میں رہنے لگی۔ ایک ماہ بعد حماد نے رضوانہ کو فون کیا کہ ابو، امی چاہتے ہیں تم اصغر کے ہمراہ میکے میں آنا جانا رکھو۔ اسی وجہ سے وہ دونوں کی دعوت کرنا چاہتے ہیں۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ یہ بھی دل سے یہی چاہتے تھے لہٰذا اب رضوانہ تیار ہوکر شوہر کے ہمراہ میکے دعوت میں آئی۔ کھانا کھانے کے بعد حماد نے کہا۔ اصغر بھائی، چلیں ذرا باہر چلتے ہیں، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ کھیتوں میں ندی کنارے بیٹھتے ہیں۔ وہ پہلے بھی حماد کے ہمراہ ندی کنارے بیٹھا کرتا تھا لہٰذا اصغر اس کے ہمراہ کھیتوں میں نکل آیا۔ رضوانہ دروازے تک آئی تو بھائی نے اسے بھی ساتھ آنے کو کہا۔ وہ چاہ رہی تھی ندی پر ان کے ہمراہ جائے۔ وہ بلاتوقف ان کے ساتھ چل دی۔ جب یہ تینوں ندی پر پہنچے، اچانک اصغر نے پستول نکال لیا اور دونوں پر فائر کرکے انہیں ہلاک کردیا اور وہاں سے سیدھا تھانے چلا گیا۔ اس نے انسپکٹر سے کہا کہ میں ازخود گرفتاری دے رہا ہوں کیونکہ مجھے اپنی بہن کا اصغر کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے کا رنج تھا۔ میں نے انہیں پستول سے فائر کرکے ندی کنارے ہلاک کردیا ہے، ان کی نعشیں ادھر پڑی ہوئی ہیں۔
اسی وقت حماد کو ہتھکڑی لگ گئی اور اس کو حوالات میں بند کردیا گیا۔ پولیس نے جاکر حماد کے والد کو گھر آکر اس واقعے کی اطلاع دی تو ان کا دل بیٹھ گیا کیونکہ حماد ان کا اکلوتا بیٹا تھا جسے وہ بڑھاپے کا سہارا اور اپنی امیدوں کا واحد چراغ سمجھتے تھے۔ آج اسی چراغ سے ان کے اپنے گھر میں آگ لگ گئی تھی۔ ایک بہن اور اس کا شوہر اس کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے، دوسری بہن کا بھی ہنستا بستا گھر اُجڑ گیا تھا۔ جس وقت حماد نے یہ ظلم ڈھایا، اس کی عمر اٹھارہ سال تھی اور آج اس واقعے کو بارہ سال بیت گئے ہیں۔ اس کی سزائے موت اس کی ماں کی دعائوں کی وجہ سے عمر قید میں تبدیل ہوگئی مگر عمر قید ابھی ختم نہیں ہوئی۔ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے۔ جوانی میں بوڑھا نظر آتا ہے۔ جب تک باپ زندہ رہا، وہ اس سے ملاقات کے لیے جاتا رہا۔ اب کوئی نہیں جاتا۔ ماں رو رو کر اندھی ہوچکی ہے جبکہ فرحانہ آج بھی اپنے بھائی کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی جس کے جذباتی پن کی وجہ سے اسے طلاق ہوگئی اور معصوم بچے اس سے چھین لئے گئے۔ اللہ رضوانہ جیسی لڑکیوں کو عقل دے اور حماد جیسے بھائیوں کو حوصلہ اور تحمل جیسی دولت عطا کرے تاکہ ایسے واقعات پر قیمتی جانوں کا زیاں ہو اور نہ ہنستے بستے گھر اُجڑیں۔ (ح۔ک…لاہور)