ہم سب پر جیسے کوئی بجلی سی آگری تھی۔ ہم میں سے کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اتنا بڑا سانحہ ہو جائے گا جو ہمیں دہلا کر رکھ دے گا اور غم کے پہاڑ ایک ایک کر کے ٹوٹ پڑیں گے۔ میں گھر میں اپنے والد کی اچانک موت پر سب سے زیادہ پریشان تھا، کیونکہ گھر کا تمام بوجھ میرے کندھوں پر آپڑا تھا جو کسی چٹان سے کم بھاری نہ تھا۔ اس وقت میری عمر ہی کیا تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ پریشانی کیا ہوتی ہے ، مسائل کیا ہوتے ہیں۔ زندگی بے فکری اور سکون سے گزر رہی تھی۔ میری دو جوان بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کا رشتہ خاندان سے باہر طے پا چکا تھا، تین مہینے کے بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ میرا کوئی اور بھائی نہیں تھا جو یہ بوجھ اٹھاتا اور ساتھ دیتا۔ چا یا ماموں کی حالت بھی ایسی نہ تھی کہ وہ ہماری کفالت کر سکتے۔ ان کی خود گزر بسر بمشکل ہو پارہی تھی۔ جو کچھ کرنا تھا، وہ مجھے ہی کرنا تھا۔ مجھے ایک سرکاری دفتر میں ملازمت کرتے ہوئے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا۔ والدہ کو ملا کر ہمارا کنبہ کل چار افراد پر مشتمل تھا۔ بد قسمتی سے مکان بھی کرائے کا تھا۔ میری تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ گھر چلا سکوں۔ والد صاحب ایک آڑھتی کے ہاں منشی تھے۔ اگر وہ حیات ہوتے تو ہم دونوں کی آمدنی میں گھر نہ صرف اچھی طرح چلتا بلکہ خاصی بچت بھی ہو جاتی کیونکہ والد صاحب پارٹ ٹائم بھی کیا کرتے تھے اور رات دس گیارہ بجے گھر لوٹتے تھے۔
وہ دور بڑی سادگی اور قناعت کا تھا۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور نمائشی زندگی کا مظاہرہ نہ ہوتا تھا۔ جھونپڑی میں رہ کر محلوں کے خواب نہ دیکھے جاتے تھے۔ حلال رزق کی بڑی قدر تھی۔ دو وقت کی روٹی عزت سے مل جاتی تو بارگاہ الہی میں شکر بجالاتے، خوش رہتے تھے۔ دوسرے دن میرے عربی کے استاد مولانا عبدالباری صاحب، والد صاحب کی وفات پر تعزیت کرنے کے لئے گھر تشریف لائے تھے۔ وہ انتقال کے دن کسی کام سے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے ،اس لئے انہیں میرے والد کی رحلت کی خبر نہ ہو سکی تھی۔ میں نے انہیں اپنے گھر یلو حالات سے آگاہ کیا اور اپنی پریشانی کے بارے میں بتایا۔ وہ میری باتیں بڑی غور سے سنتے رہے۔ جب میں انہیں اپنا ساراد کھڑ ا سنا چکا تو وہ بولے ۔ ظفر بیٹے ! تمہارے مسائل اور پریشانیاں بڑی آسانی سے دور ہو سکتی ہیں۔اس قدر فکر مند رمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں ان کی بات سن کر دل میں بہت خوش ہوا۔ ایک دم میرے اعصاب پھول کی طرح ہلکے ہو گئے۔ یہ واحد شخص تھے جنہوں نے میری دل جوئی کی اور دلا سا دیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ کسی مخیر شخص سے مجھے مالی امداد دلوائیں گے۔ وہ صاحب حیثیت گھرانوں میں جاکر ان کے بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ شاید وہ کسی سے میری سفارش کریں گے۔ میں نے اشتیاق آمیز لہجے میں پوچھا۔ وہ کیسے ؟ وہ ایسے کہ تم صرف اور صرف اللہ کی ذات پر توکل کرو بیٹے! انہوں نے جو جواب دیا، اسے سن کر میرا دل بجھ گیا، چہرہ اتر گیا۔ انہوں نے میر ابشرہ جیسے بھانپ لیا۔ وہ بولے ۔ دیکھو بیٹے الہ اپنے ان بندوں کو کبھی ماپوس اور نامراد نہیں کرتا ہے جو صرف اس سے مانگتے اور اس پر توکل کرتے ہیں ، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ جو شخص بندوں پر بھروسہ کرتا ہے ، اس سے امیدیں باندھ لیتا ہے ،اسے کچھ نہیں ملتا ہے۔ میں ایسی باتیں مولویوں سے ہزار بار سن چکا تھا۔ پھر بھی میں نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں آپ کے ارشاد پر کار بند رہنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ مگر یہ تو کل غیر متزلزل ہونا چاہئے ۔ وہ ناصحانہ انداز میں بولے۔ اس کے ساتھ تم صبر و شکر اور نماز کا دامن مضبوطی سے تھام لو تو اللہ تم پر اور فضل کرے گا۔ میں نے ان کی نصیحت گرہ میں باندھ لی۔ یوں بھی اللہ پر توکل کے۔ سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ بہن کی شادی کے اخراجات پورے ہونے کا دور تک کوئی امکان نہ نظر نہیں آتا تھا۔ رشتے داروں سے کسی قسم کے زر ، تعاون اور مدد کی ذرہ بھر امید کے نہیں تھی۔ان سے توقع رکنا فضول تھا، کیونکہ انہوںنے مان جای لئے رک کر دیاتھا کہ ہم سوال نہ بن جائیں۔ شادی کی تاریخ دو مہینے آگے بڑھ گئی تھی، اس لئے کہ شادی والدہ کی عدت کے بعد ہی ہو سکتی تھی۔ جیسے جیسے شادی دن قریب آرہے تھے ، ویسے ویسے میری فکر اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ والدہ کی عدت ختم ہونے کے پانچ دن بعد لڑکے کے والد ہمارے ہاں آئے۔ میں ایک بات بتانا بھول گیا کہ میری والدہ، بہن کی شادی کے سلسلے میں ذرہ بھر بھی پریشان نہیں تھیں۔ وہ مجھے پریشان دیکھ کر کہتی تھیں۔ بیٹے ! تم فکر مند کیوں ہوتے ہو… الله بڑا کار ساز ہے ، مسبب الاسباب ہے۔ لڑکے کے والد کو دیکھ کر میں نے دل میں سوچا کہ ان سے شادی کے لئے ایک سال کی مہلت لے لوں گا۔ جب میں نے ان سے شادی کے لئے ایک سال کی مہلت مانگی تو انہوں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ کس لئے ؟ اس لئے کہ حالات اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ ایک برس کی مہلت مل جائے گی تو اس کے اندر ہم تیاری کر لیں گے۔ اگر ایک سال میں بھی تم تیاری نہ کر سکے تو کیا کرو گے …؟ مزید ایک سال کی مہلت مانگو گے ؟ وہ بڑے نرم اور محبت بھرے لہجے میں بولے۔ جی نہیں …! میں نے بڑے اعتماد سے کہا۔ اللہ نے چاہا تو ایک سال کے اندر اندر ہم کسی نہ کسی طرح تیاری کر لیں گے۔
تمہاری جو آمدنی ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے تم تیس برس میں بھی کچھ نہیں کر سکتے ، کیونکہ یہ سو پچاس روپے کی بات نہیں ہے ۔ کیوں …؟ انہوں نے یہ بات غلط نہیں کہی تھی۔ ان کی بات سن کر میری گردن جھک گئی، جیسے میں نے اعتراف کیا ہو، پھر بھی میں نے کمزور لہجے میں کہا۔ آپ سچ فرماتے ہیں۔ لیکن کوشش تو کرنے دیں! دو میں یہاں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ میری بہن کا بیٹا ہے ساجد ! وہ میری طرف متوجہ ہو کر بولے۔ سے تم نے منگنی کے موقع پر ضرور دیکھا ہو گا۔ اس کا اپنا چلتا ہوا کاروبار ہے.. آپ لوگ پسند کریں تو اپنی چھوٹی بہن زینب کارشتہ دے دیں اور ان دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی دن اور ایک ساتھ کر دیں۔ اس طرح خرچ خاصا کم ہو جائے گا اور آپ لوگ ایک بڑے فرض سے سبکدوش بھی ہو جائیں گے ۔ ان کی بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔ رب العزت نے بن مانگے ایک بہت اچھا رشتہ بھیج دیا تھا۔ ایسے رشتے تو خواب میں بھی نہیں ملتے اللہ کا جتنا شکر ادا کیا جائے، کم تھا۔ میر ادل خوشی سے بھر گیا۔ بھائی صاحب ! رشتہ تو بہت اچھا ہے۔امی نے ممنونیت سے کہا۔ ”آپ نے ہماری بچی کو اس لائق سمجھا۔ پہلے بڑی بچی کی شادی تو ہونے دیں۔“ دونوں بچیوں کی شادی ایک ساتھ کرنے ہیں حرج ہی کیا ہے …؟ اس طرح دونوں فرض بیک وقت ادا ہو جائیں گے اور آپ کے سر سے بوجھ بھی اتر جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا۔ ہمارے حالات کیا ہیں، آپ سے کیا چھپانا ایک بہن کی شادی کے لئے ہی ساز گار نہیں ہیں، اسی لئے تو آپ سے مہلت مانگ رہے ہیں۔ یہ آپ کا خلوص اور محبت ہے کہ دونوں بہنوں کی شادی ایک ساتھ چاہتے ہیں۔ آپ کی اس خواہش کا ہم دل سے احترام کرتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ نا ممکن ہے ۔ میں نے معذرت کی۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ آپ لوگ کن حالات سے دوچار ہیں لیکن آپ شادی کے اخراجات کی بالکل پروانہ کریں۔ وہ امی سے کہنے لگے۔ آپ دونوں بچیوں کو ایک جوڑے میں رخصت کر دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا لیکن میں جانتا ہوں کہ دنیا والوں کی خاطر کچھ نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ دیکھیں زینت اور زینب میری بیٹیوں کی طرح ہیں۔۔۔ آپ کی عزت، میری عزت ہے۔ میں پانچ ہزار روپے ساتھ لایا ہوں۔ دونوں بچیوں کی شادی کے لئے دے رہا ہوں لیکن اس بات کی بھنک میرے گھر کے کسی فرد کے کانوں میں پڑے اور نہ ہی آپ کے رشتے داروں کو اس بات کا علم ہو۔ یہ راز ہم تینوں کے درمیان رہے گا۔ کل میری بہن اور بھانجیاں آکر زینب کی بات پکی کر جائیں گی۔ اتنا کہہ کر انہوں نے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا جس میں پانچ ہزار کی رقم موجود تھی۔ ان کے جانے کے بعد میری والدہ سجدے میں گر پڑیں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں اور ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔ میں بھی اس قدر متاثر اور جذباتی ہوا تھا کہ میری آنکھ ی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی مانند بہنے لگے ۔ وہ کتنے مخلص، عظیم اور بلند شخص تھے۔ رب العزت نے جو سبب بنا یا تھا، اس کے بارے میں خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اللہ نے ہمیں اس بہانے سے نوازا تھا، کیونکہ ہم نے صرف اور صرف اس کی ذات پر بھروسہ کیا تھا۔ اس روز سے اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہو گیا۔ ایک غیر متزلزل یقین ! عبدالباری صاحب جب بھی ملتے، یہی کہتے کہ باری تعالیٰ کی ذات پر جو یقین رکھتا ہے، وہ اسے بھی مایوس نہیں کرتا ہے۔ میں نے سوچا کہ انہیں بتادوں کہ زینت کے سسر نے ہماری اس طرح مدد کی ہے کہ دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہیں لیکن معاملہ چونکہ رازداری کا تھا، اس لئے چاہتے ہوئے بھی میں نہیں بتا سکا۔ بہنوں کی شادی کے بعد میری زندگی میں اور بھی واقعات پیش آئے۔ میری راہ میں مشکلات بھی پیش آئیں۔ چونکہ میں نے ہر قسم کے حالات میں اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیا تھا اس لئے اللہ نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ اس نے میری بڑی سے بڑی مشکل کو آسان کیا۔ وہ بے شک بڑا مشکل کشا ہے۔ میں ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں کہ اس نے کس طرح میرا مستقبل بنا دیا اور مجھے ایک ایسی مشکل سے نکالا جس کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بہنوں کی شادی کے کوئی ایک برس بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔
پاکستان بننے کے ایک برس بعد میں اپنی والدہ کو لے کر پاکستان آگیا۔ کراچی شہر میں سکونت اختیار کر لی۔ میں بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان آیا تھا۔ کچھ دن ایک رشتے دار کے ہاں رہا، پھر میں نے ایک مکان کرائے پر لے لیا چونکہ میرے پاس ہندوستان میں ملازمت کا تجربہ تھا، اس لئے سرکاری ملازمت مل گئی اور میں نے ایک دور کی رشتے دار لڑکی سے شادی کر لی۔ دیکھتے دیکھتے چالیس برس بیت گئے۔ میرے سامنے لوگ کیا سے کیا بن گئے مگر میں ایک ادنی سرکاری ملازم ہی رہا۔ میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نجی دفتر میں ملازمت کر لی۔ میرے دوست احباب اور رشتے دار طعنے دیتے کہ تم جس محکمے میں پچیس برس بھاڑ جھو سکتے رہے، چاہتے تو رشوت سے نہ صرف اپنا گھر بنالیتے بلکہ پر تعیش زندگی گزار سکتے تھے۔ میں ان لوگوں کے طعنے سن کر غصے میں آنے کے بجائے دھیرے سے مسکرا دیتا۔ پھر ان سے کہتا کہ اس میں شاید اللہ کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے۔ میں جو ہوں، جیسا ہوں، خوش ہوں۔ اس نے مجھے ضمیر کی دولت عطا کی ہے۔ اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے عزت و آبرو سے رکھا ہے۔ کوئی مجھ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس نے مجھے کسی شخص کا محتاج نہیں بنایا۔ میں صرف اس کا محتاج ہوں، مجھے اس کی ذات پر پکا یقین ہے کہ وہ میرے بچوں کی زندگی تابناک بنا دے گا۔ میری دولڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ میری بیوی عابدہ صرف نام کی عابدہ نہ تھی۔ وہ ایک سگھڑ ، سلیقہ مند اور کفایت شعار بیوی تھی۔ اس کی قناعت پسندی کی وجہ سے قلیل آمدنی میں گھر چل رہا تھا۔ وہ لڑکیوں کی شادی کے خیال سے فکر مند اور پریشان ہو جاتی تھی۔ میری لڑکیوں کے لئے رشتوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ وہ بہت خوبصورت اور پر کشش تھیں۔ لڑکیوں کی مائیں ایسی ہی چاند سی بہو کے خواب دیکھتی تھیں۔ پھر وہ اپنی ماں کی طرح نیک سیرت، سگھڑ اور سلیقہ مند تھ رتھیں۔ ان کا چرچانہ صرف محلے بلکہ رشتے داروں اور خاندان میں تھا، لیکن بات جہیز اور فضول رسموں کے معاملے پر اٹک جاتی تھی۔ لڑکے والے یہ بات بھول جاتے کہ میں نیو کراچی کے ایک کوارٹر میں کرائے پر رہتا ہوں، تنہا کمانے والا ہوں، میں ایک نجی دفتر میں ملازمت کرتا ہوں، میری تنخواہ پچاس ہزار نہیں پانچ ہزار روپے ہے۔ آج کی مہنگائی میں پانچ ہزار روپے میں کیا ہوتا ہے۔ پھر بھی خدا کا شکر تھا کہ قناعت اور سادگی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح گزر بسر ہو جاتی تھی۔ پھر میرے گھر میں رنگین ٹیلیویژن تھا نہ فریج ! اس کے باوجود لڑکوں کی مائیں اپنا منہ کسی عفریت کی طرح کھول دیتی تھیں۔ عجیب اتفاق دیکھئے کہ میری بہنوں کی طرح میری دونوں بیٹیوں کا رشتہ بھی ایک ہی خاندان کے دولڑکوں سے ۔ طے پا گیا۔ شادی سات مہینے کے بعد طے ہونا پائی۔ لڑکے والوں نے جہیز اور مایوں کی کوئی شرط نہیں رکھی۔ میرے اصرار پر انہوں نے مہندی کی رسم بھی ختم کر دی۔ میں نے یہ دیکھ کر لڑکیاں اس خاندان میں دی تھیں کہ لڑکے شریف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ان کی کمائی حلال رزق پر مبنی تھی۔ وہ میری بیٹیوں کی رخصتی ایک ہی دن میں چاہتے تھے۔ میں نے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی ہر بات مان لی۔ عابدہ نے دونوں بیٹیوں کے جہیز کے لئے ایک جگہ بی سی ڈالنے کی بات کی۔ پانچ سو روپے مہینے کی بی سی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شادی سے ایک ماہ قبل دس ہزار روپے کی بی سی دیں گے۔ میں نے دفتر کے مالک سے بات کی تو انہوں نے میں ہزار روپے کی رقم بطور قرض دینے کا وعدہ کر لیا۔ اس طرح تیس ہزار روپے کا مسئلہ حل ہو گیا لیکن اب بھی خاصی رقم کی ضرورت تھی۔ عابدہ بہت زیادہ فکر مند اور پریشان رہنے لگی تھی۔ یہ ایک فطری امر تھا۔ اسے لڑکیوں کی ماں ہونے کے ناتے گھر کی عزت اور وقار کا بڑا خیال تھا۔ میں لڑکیوں کے چہروں اور آنکھوں میں حزن و ملال دیکھتا تھا۔ وہ بڑی حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ماں، باپ کے دکھ کو سمجھتی تھیں لیکن زبان سے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ ایک روز مجھے دفتر سے آنے کے بعد ایک مڑا تڑا کاغذ ملا۔ میں نے اٹھا کر دیکھا تو اس پر بڑی بیٹی بتول کی تحریر نظر آئی۔ امی جان….! میں اور ماریہ یہ محسوس کر رہی ہیں کہ جب سے ہم دونوں بہنوں کا رشتہ طے ہوا ہے ، آپ اور ابو مالی حالات کی وجہ سے سخت پریشان ہیں کہ شادی کے اخراجات کے لئے رقم کہاں سے لائیں۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ ہم اس گھر کی بیٹیاں ہیں، آپ دونوں ہمیں جان سے بھی پیارے ہیں۔ ہم سے آپ دونوں کی فکر مندی، پریشانی اور دکھ دیکھا نہیں جارہا ہے ۔ کہنا تو نہیں چاہئے لیکن یہ بات کہنے کے لئے مجبور ہیں کہ یہ رشتہ توڑ دیں۔ اس رشتے کے ختم ہونے پر ہمیں کوئی غم نہیں ہو گا، خوشی ہو گی کہ ایک بڑے بوجھ سے نجات مل گئی۔ ہم دونوں بہنیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کسی اسکول میں استانی کی ملازمت کر لیں گی یا کسی ادارے میں ملازم ہو جائیں گی۔ آخر سیکڑوں لڑکیاں ملازمت کرتی ہیں۔ ہم اولاد ہونے کے ناتے والدین پر بوجھ بننا نہیں چاہتیں۔ آپ اور ابو نے جس طرح ہماری پرورش کی اور تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں۔ اگر کسی اسکول یا دفتر میں ہمار املازمت اختیار کرنا نا مناسب ہے تو پھر گھر میں سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا جاسکتا ہے۔ ہماری گلی کی کئی لڑکیاں گھروں میں سلائی کا کام کرتی ہیں اور ہر ماہ ایک معقول رقم حاصل کر لیتی ہیں۔ ہماری یہ تحریر ابو کو نہ دکھائیں اور نہ ہی ان سے اس موضوع پر کوئی بات کریں۔ آپ کی بیٹیاں …!
بتول … صابره
☆☆☆
یہ خط پڑھ کر میں آبدیدہ ہو گیا۔ مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد اللہ کو یاد کر کے خوب رویا۔ میری لڑکیاں کتنی حساس اور حقیقت پسند تھیں۔ عابدہ نے اس موضوع پر مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے ظاہر ہونے دیا کہ میں نے خط پڑھ لیا ہے۔ جب میں رات سونے کے لئے دراز ہوتا تو عابدہ پوچھتی ۔ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیسے اور کہاں سے ہو گا ؟ کیا آپ کوشش کر رہے ہیں…؟ وہ راتوں کو سوتے ہوئے اچانک بیدار ہو جاتی اور گھٹ گھٹ کر رونے لگتی۔ مجھے بیدار کر کے کہتی۔ آپ کو ذرہ بھر فکر نہیں، آپ گھوڑے بیچ کر سو جاتے ہیں … آخر یہ شادی کیسے ہو گی ؟ سوچ سوچ کر مجھے اختلاج ہونے لگتا ہے۔“ میں اسے دلاسا دیتا اور سمجھاتا۔ ”اللہ کی بندی! تم آرام سے سو جائو۔ کسی بات کی فکر مت کرو… ہم نے اللہ پر توکل کیا ہے ، اب وہی اس کے اسباب بنائے گا۔ وہ آسمان پر جوڑے بناتا ہے تو دنیا میں انہیں رخصت کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اللہ پر جو بھروسہ کرتا ہے ، وہ اسے کبھی مایوس نہیں کرتا۔ مایوسی کفر کفر ہے۔ اس نے چاہا تو سب کام بخیر و خوبی انجام پا جائیں گے ۔ میرے دفتر میں کئی لوگ ہر مہینے انعامی بانڈ کی پرچیاں خریدتے تھے۔ ان کے کبھی چھوٹے بڑے انعام نکل آتے تھے۔ یہ ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ لوگ پر چیاں خرید کر تباہ ہو رہے تھے۔ بہت کم لوگوں کی قسمت یاوری ہوتی تھی۔ دفتر کے ساتھی مجھے مشورہ دیتے کہ میں بھی ہر مہینے دو تین سو روپے کی پرچیاں خرید کر اپنی قسمت آزمائی کروں، کیا پتا کوئی بڑا انعام نکل آئے۔اس طرح بچیوں کی شادیاں بڑی دھوم دھام سے ہو جائیں گی۔ تمام مسئلے چٹکی بجاتے حل ہو جائیں گے۔ میں ان لوگوں سے کہتا کہ مجھے ان پر چیوں پر نہیں، اللہ پر بھروسہ ہے۔ میں کوئی ایسا کام کرنا نہیں چاہتا جو غلط اور غیر شرعی ہو… یہ ایک طرح کا جوا ہے۔ میری مشکل وہی حل کرے گا، یہ میرا ایمان اور یقین ہے۔ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ کر نہیں آتی، اچانک آتی ہے۔ جہاں دس ہزار کی کمیٹی ڈال رکھی تھی، وہ عورت ایک حادثے کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہوگئی لہٰذا یہ بی سی پس پشت چلی گئی۔ اس کے تیسرے دن جس کمپنی میں میں ملازمت کر رہا تھا ، اس کمپنی کا دیوالیہ نکل گیا لہٰذا ایک مہینے کی تنخواہ دے کر ملازمین کو فارغ کر دیا گیا۔ میں نے اس خیال سے دو تین دوستوں سے ہیں ہزار کی رقم قرض لی تھی کہ کمپنی سے قرض ملتے ہی انہیں لوٹا دوں گا۔ کمپنی کے دیوالیہ ہوتے ہی مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ادھر بی سی کے دس ہزار روپے بھی ہاتھ سے گئے۔ مالک مکان نے میرے حالات کے پیش نظر مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا۔ میری بیوی اور دونوں لڑکیوں کارورو کر برا حال تھا۔ اس اچانک اور غیر متوقع افتاد کے باوجود میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ میں نے اپنی بیوی اور لڑکیوں کو سمجھایا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کی آزمائش ہے۔ اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت اور بہتری ہے۔ اس نے چاہا تو مصیبت کے یہ بادل جلد چھٹ جائیں گے۔ ہم نے اس کی ذات پر بھروسہ کیا ہے ، وہ ہماری مشکل ضرور آسان کر دے گا۔ شادی میں میں دن باقی رہ گئے تھے۔ میں دن رات دوڑ دھوپ کر رہا تھا کہ کہیں سے اتنی رقم کا بندوبست ہو جائے کہ کسی طرح شادی کے فرض سے سبک دوش ہو جائوں لیکن ایسی کوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔ ہر سمت گھپ اندھیرا تھا۔ ایک روز میرے بچپن کے ایک دوست احسن صدیقی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ کلیئرنگ ایجنٹ تھے۔ ان کی بڑی کوشش ہوتی تھی کہ مجھے کسی طرح فائدہ پہنچائیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ بیرون ملک سے دو سو استعمال شدہ فریج کی ایک لاٹ آئی ہے جسے ایک پارٹی نے کسٹم سے خریدا ہے۔ ان میں کوئی نہ کوئی ایسا نقص ہے جسے وہ لوگ اونے پونے بیچ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا نقص ہزارہ، پانچ سوروپے میں درس رست ہو جائے گا۔ تم تم ایک فریج خرید لو، اسے میں بکوادوں گا۔ اس طرح چار چھ ہزار روپے تمہیں منافع مل جائے گا۔ اگر تمہارے پاس رقم ہے تو اسی وقت میرے ساتھ چلو اور ایک فریج اٹھا کر لے آئو۔ میں نے دل میں سوچا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں اگر چھ ہزار روپے منافع کے مل جائیں تو کیا برے ہیں۔ میرے پاس قرض لی ہوئی رقم پڑی تھی۔ اس رقم کو ابھی تک کسی وجہ سے خرچ نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے عابدہ سے مشورہ کیا۔ وہ غریب خود بھی یہی چاہتی تھی کہ کہیں سے کسی طرح بھی دو چار پیسے ہاتھ آجائیں۔ اب جو دو چار پیسے مل رہے ہیں تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ فورام حسن بھائی کے ساتھ چلے جائیں۔
احسن کے ساتھ میں اسٹور پہنچا۔ وہاں مختلف سائز کے فریج موجود تھے۔ ایک بڑا فریج اچھی طرح پیک تھا لیکن ایک طرف کا گتا پھٹا ہوا تھا جس سے اس کا ڈینٹ جھانک رہا تھا اور وہاں جو گاہک موجود تھے ، وہ اس ڈینٹ کی وجہ سے خریدنے سے احتراز کر رہے تھے۔ احسن نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اسے خرید لوں، یہ ڈینٹ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی اچھی قیمت مل جائے گی۔ میں یہ فریج لے کر گھر پہنچا۔ اسے صحن میں ایک طرف رکھ دیا اس لئے کہ میر ادو کمروں کا مکان تھا۔ پہلے ہی اتنا سامان موجود تھا کہ اسے اندر نہیں رکھ سکتا تھا۔ پڑوسیوں نے یہ سمجھا کہ ہم نے یہ فریج جہیز میں دینے کے لئے خریدا ہے۔ وہ ہمارے گھر آکر مبارکباد دینے لگے ۔ فریج کو ہم نے اس طرح رکھا تھا کہ اس کا ڈینٹ دکھائی نہ دے تا کہ وہ یہ اعتراض نہ کریں کہ لڑکی کو جہیز میں دینے کے لئے سیکنڈ ہینڈ فریج خرید کر لائے ہیں۔ موسم کئی دنوں سے ابر آلود تھا۔ آسمان پر سفید اور کالے کالے بادل تیرتے رہتے تھے۔ کبھی تو سیاہ گہرے بادل چھا جاتے اور کبھی سورج نکل آتا تھا۔ اس رات سخت گرمی تھی لیکن بارش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں اور عابدہ اس رات بڑی دیر تک جاگتے اور اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے رہے تھے۔ میں اس کی دل جوئی کرتا رہا تھا کہ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھو، نا امید نہ ہو ، وہ بڑا کار ساز ہے۔ عابدہ کا کہنا تھا کہ شادی سر پر کھڑی ہے ، ہم ایسے نیک بندے نہیں ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی معجزہ ہو جائے۔ پھر ہم کب سوئے، کچھ پتا نہیں چلا۔ ہم گہری نیند کی آغوش میں تھے کہ اچانک عابدہ نے مجھے جھنجوڑ کے جگاد یاتر اس وقت رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے اس کا متوحش چہرہ دیکھا تو اچھل پڑا۔ ایسالگ رہا تھا جیسے گھر میں چور گھس آئے ہوں۔ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ کیا ہوا تم اس قدر پریشان اور خوف زدہ کیوں ہو رہی ہو…؟ ہور کیا آپ یہ آواز نہیں سن رہے ؟ اس کی آواز حلق میں اٹک رہی تھی۔ وہ بمشکل بولی ۔ بارش کی آواز … دیکھئے کیسی موسلا دھار بارش ہو رہی ہے جیسے آسمان پھٹ پڑا ہو۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور ہنس کر بولا۔ یہ تو اللہ کی رحمت ہے۔ کئی دنوں سے سخت گرمی پڑ رہی ہے، بارش کی وجہ سے کم ہو جائے گی، موسم سہانا اور خوشگوار ہو جائے گا۔“ اس وقت بارش زحمت بنی ہوئی ہے۔ باہر فریج بارش میں بھیگ رہا ہے ، اسے جلدی سے اندر لائیں، نہیں تو وہ پانی سے خراب ہو جائے گا۔ کیا کہا فریج …؟ میں اس طرح اچھل پڑا جیسے سر پر ہتھوڑا پڑا ہو۔ میں فوراً بستر سے نکلا اور دروازہ کھول کر صحن میں آیا تو دیکھا کہ فریج موسلا دھار بارش میں نہا رہا ہے۔ فریج خاصا بڑا اور نہایت بھاری ری تھا۔ میں اسے اپنی جگہ سے ہلا تو سکتا تھا، اٹھا نہیں سکتا تھا۔ اسے اندر لانے کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنے بچوں کو جگایا۔ جب فریج کے پاس پہنچے تو میں نے دیکھا کہ فریج بارش میں پوری طرح بھیگ چکا ہے۔ اس کی پیکنگ کا بیڑا غرق ہو رق ہو چکا تھا۔ تھا۔ گئے کا کارٹن بھیگ کر پھٹ چکا تھا۔ فریج کا یہ حشر دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ عابدہ کا چہرہ سفید پڑتا چلا گیا۔ اس کی حالت مردے سے ؟ سے بھی بد تر ہو رہی تھی۔ لڑکیوں کے چہر۔ کے چہرے فق ہو گئے تھے۔ انہوں نے بھی گہرا اثر لیا تھا۔ ان کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔ کہاں تو پانچ چھ ہزار روپے کا فائدہ سوچاتھا، کہاں ہزاروں کی رقم کا نقصان ہو گیا تھا۔ مفلسی میں آٹا گیلا ہو گیا تھا، لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ ہم نے جلدی سے ایک کمرے کا سامان ایک طرف کر کے فریج کو کمرے میں لا کر رکھا۔ فریج چونکہ بہت بھاری تھا اس لئے اسے اٹھاتے اٹھاتے ہم بھی بارش میں بھیگ گئے۔ ہم سب نے جلدی سے کپڑے تبدیل کئے۔ میں اس کمرے میں آکر کرسی پر غمگیں سا بیٹھ گیا جس میں فریج رکھا تھا۔ سوچوں میں ڈوب گیا کہ اب کیا ہو گا؟ دل کی حالت غیر ہونے لگی۔ عابدہ بھی سامنے والی کرسی پر آبیٹھی تھی۔ وہ سسکیاں بھرنے لگی تھی۔ میں نے تسلی کا ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ دل بھر کے رولے تاکہ ساری بھڑاس نکل جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب عابدہ کے آنسو تھے تو وہ زخم خوردہ لہجے میں بولی۔ اللہ میاں آخر ہمیں کن گناہوں کی سزا دے رہا ہے …؟ ہو سکتا ہے ہم سے نادانستگی میں کوئی گناہ سر زد ہو گیا ہو گا۔ کسی کی دل آزاری ہو گئی ہو۔ میں نے دلگرفتہ لیجے میں جواب دیا۔ دہم نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو دھوکا نہیں دیا، حرام کا نہیں کھا یا پھر یہ سب کچھ کس لئے ہو رہا ہے …؟ شاید اللہ کو ہم لوگوں کی آزمائش منظور ہو۔ میں نے اس کے رخساروں پر ڈھلکتے آنسو پونچھے ۔ دعا کرو کہ ہم ثابت قدمی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں… شکوہ اور ناشکری نہ کریں۔ آپ ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے ؟ “ عابدہ نے سسکتے ہوئے کہا۔ لڑکیوں کی شادی سر پر ہے اور مشکل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ اتنی رکاوٹیں قدم قدم پر کھڑی ہو رہی ہیں۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ شادی نہیں ہو پائے گی۔ اللہ کو کیا ہمارا امتحان اس وقت لینا تھا؟ ہر بات میں اس کی کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ ایک طرح سے میں نے اسے ہی نہیں اپنے آپ کو بھی تسلی دی۔ شاید اس میں اس کی کوئی بہتری ہو۔ بس آپ جھوٹی تسلیاں دیتے رہیں۔ وہ اپنے چہرے کو دوپٹے سے ڈھانک کر رونے لگی۔
فریج کو اس کمرے میں لانے کے بعد میرابیٹا اور لڑکیاں اس کے اوپر کا کارٹن جو بھیگ چکا تھا، صحن میں ایک طرف پھینک کر فریج کو کپڑے سے صاف کرنے لگے۔ فریج کے دروازے میں جو تالا تھا، اس میں چابی لٹک رہی تھی۔ میرا بیٹا ندیم فریج کا دروازہ کھولنے لگا تو میری بیٹی نے اسے ڈانٹا مگر وہ شریر اپنی حرکت سے باز نہیں آیا۔ اس نے موقع پاکر چابی گھمادی اور دروازہ کھول لیا پھر فریزر کا دروازہ کھول کر اندر جھانکنے لگا۔ چند لمحوں تک جھانکتا رہا پھر ایک دم پر ہیجان لہجے میں چیخا۔ امی ، ابو…! ادھر آئیں، دیکھیں یہ کیا ہے؟ پھر کیا کوئی نئی مصیبت نازل ہو گئی ؟‘ عابدہ نے چہرے سے دوپٹہ ہٹا کر سخت لہجے میں کہا۔ اس منحوس فریج کو گلی میں لے جا کر پھینک دو۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر فریج کے پاس پہنچا تو میری آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ مجھے اپنی نظروں پر یقین نہیں آیا۔ یوں لگا جیسے کوئی بہت ہی سہانا خواب دیکھ رہا ہوں۔ مجھ پر ایک لمحے کے لئے سکتہ سا چھا گیا۔ میں دم بخود کھڑا اندر جھانک رہا تھا۔ میری عقل کام نہیں کر رہی تھی۔ اس میں سونے کی بیس عدد سلاخیں اور نوٹوں کی گڈیاں پولی تھین کی تھیلیوں میں پیک کی ہوئی رکھی تھیں۔ ہر سلاخ دس تولے کی تھی۔ پھر میں نے نوٹوں کی گڈیاں دیکھیں۔ یہ بھی ہیں عدد تھیں۔ دس گڈیاں برٹش پائونڈ کی تھیں، پانچ گڈیاں امریکی ڈالر کی اور پانچ گڈیاں درہم کی تھیں، پھر ایک چرمی تھیلی میں زیورات موجود تھے۔ میں اور عابدہ فوراً ہی سجدے میں گر گئے اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے ۔ اللہ نے چھپر پھاڑ کے اتنادے دیا تھا کہ سارے دلد را یک دم دور ہو گئے تھے۔ میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا کہ وہ مجھے اس قدر عطا کرے گا۔ مجھے بے پناہ دولت اس لئے دی تھی کہ میں نے اس کی ذات پر غیر متزلزل تو کل کیا تھا، یقین کیا تھا۔ میں نے بیوی، بچوں کو سختی سے منع کر دیا کہ اس بات کی کسی کے کان میں بھنک نہ پڑے۔ میں نے سب سے پہلے ایک مکان خریدا، پھر اپنی بچیوں کی شادی نہ صرف سادگی سے کی بلکہ زندگی بھی سادگی سے گزاری۔ میں نے پر تعیش زندگی گزارنے کی بجائے اپنے خاندان کی ان غریب لڑکیوں کی شادی کے لئے پچاس پچاس ہزار روپے جن کی شادی والدین کی مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں ہو پارہی تھیں، دے دیئے۔ میں نے ملازمت چھوڑ کر ایک جنرل اسٹور کھول لیا۔ کم منافع اور رعایت کے باعث میرا اسٹور خوب چلتا ہے۔ میں آج بھی چراغ سے چراغ جلاتا رہتا ہوں ۔ اللہ نے مجھے یہ چراغ اس لئے دیا ہے کہ میں اس چراغ سے دوسروں کے چراغ روشن کرتا رہوں۔