جب ہم لاہور میں تھے۔ وہاں میری سہیلیاں تھیں، جن سے ملے بغیر چین نہ آتا تھا۔ اچانک بابا جان کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا۔ یہ خبر مجھے بے حد افسردہ کرگئی کیونکہ اسکول میں لڑکیاں عموماً اپنی ہم جماعت سے مانوس ہوتی ہیں۔ انہیں خیرباد کہنے کو دل نہیں چاہتا۔
ایک دن اداس بیٹھی تھی کہ چچا زاد دانیہ آگئی۔ بولی۔ کیوں اداس ہو؟ کیا یہاں دل نہیں لگا؟ دل کیسے لگے، سہیلیاں تو لاہور میں رہ گئی ہیں۔ یہاں نئی سہیلیاں بن جائیں گی۔ آج میرے ساتھ چلو، تمہیں اپنی سہیلیوں سے ملواتی ہوں۔ اصرار کرکے وہ مجھے اپنے گھر لے آئی۔ چند دن اس کے گھر قیام کیا تو بوریت دور ہوگئی۔ وہ مجھے اپنی گاڑی پر سہیلیوں سے ملانے لے گئی۔ ایک روز بولی۔ آج ایک خاص سہیلی سے ملوانا ہے۔ بہت امیر لوگ ہیں، ان کی بیٹی مہ ناز میری سہیلی ہے۔ تم اچھا سا لباس پہن کر چلنا۔ وہ خود بھی ٹھیک ٹھاک لباس میں آئی تھی۔ ہم اس کی پرانی کلاس فیلو مہ ناز کے گھر چلے گئے۔
گھر کیا تھا، محل تھا بہت بڑا اور شاندار! اونچی چار دیواری اور خوب وسیع و عریض دروازے کہ کئی ہاتھی ایک ساتھ گزر جائیں۔ میں ان لوگوں کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ یہ ایک رئیس آدمی ارباز کی اقامت گاہ ہے۔ ان کی بیٹی میٹرک تک میرے ساتھ پڑھتی تھی، میٹرک کے بعد میں نے کالج میں داخلہ لے لیا لیکن مہ ناز گھر بیٹھ گئی۔ ان لوگوں میں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے آنے کی اطلاع دربان نے اندر دی۔ ذرا دیر بعد ان کی ملازمہ شگفتہ بی بی آگئی۔ یہ ایک شفیق چہرے والی، خوش مزاج، ادھیڑ عمر خاتون تھی۔ اس نے ہمیں مہمان خانے میں بٹھایا۔ بڑا سا کمرہ تھا جو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں پر نایاب اسلحہ ٹنگا ہوا تھا اور کچھ جانوروں کی کھالیں! شاید نایاب جانور تھے جن کا ارباز صاحب نے شکار کیا ہوگا۔ میں کمرے کی ہر چیز بہت دلچسپی اور غور سے دیکھ رہی تھی۔ وہ کمرہ خوابوں کا تاج محل تھا۔ مخملی صوفے پر بیٹھتے ہی میں نے محسوس کیا جیسے میں اس دنیا میں نہیں ہوں۔ تھوڑی دیر بعد مہ ناز اپنے روایتی لباس میں شاہانہ انداز سے کمرے میں داخل ہوئی۔ گرمجوشی سے مجھ سے ملی۔ چند لمحے کے توقف سے ایک دوسری خاتون بھی آگئی۔ یہ مہ ناز سے دو برس بڑی ہوگی۔ سرخ و سفید رنگت اور نفیس و سادہ لباس! اس کی دلکشی دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ چہرہ چودہویں کے چاند جیسا مگر آنکھیں کھوئی کھوئی تھیں۔ میں نے چونک کر ان آنکھوں میں دیکھا تو اس نے نگاہوں کو جھکا لیا جیسے کسی راز کے افشا ہونے سے ڈرتی ہو۔ انیس بیس برس کی عمر میں بھی وہ متین اور سنجیدہ شخصیت کی حامل تھی۔ دانیہ سے خوش اخلاقی سے ملی اور کہا۔ بڑے دنوں بعد آنا ہوا ہے؟
جب سے کالج میں داخلہ لیا ہے، زیادہ وقت پڑھنے میں گزرتا ہے۔ جی تو چاہتا تھا مگر نہیں آسکی۔ آج اپنی کزن کو آپ لوگوں سے ملانے لائی ہوں۔ دانیہ نے میری طرف اشارہ کیا، تبھی گلناز نے میری جانب قدم بڑھا دیئے اور روایتی انداز سے گلے سے لگا لیا۔
اس کے لباس سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میری روح تک معطر ہوگئی۔ یقیناً یہ کوئی بے حد قیمتی اور نایاب سینٹ تھا۔ دونوں خواتین ہمارے استقبال کے بعد سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ اتنے میں ان کی ملازمہ بہترین ذائقے دار شربت لے کر آگئی۔ مہ ناز اور دانیہ آپس میں بات چیت کرنے لگیں، جبکہ مہ ناز کی بھابی مجھے بغور دیکھ رہی تھی۔ میں نے کچھ باتیں کیں اور پھر ہم ان کی خاطر تواضع سے سرفراز ہونے کے بعد آگئے۔ آتے ہوئے گلناز بھابی نے مجھے اور دانیہ کو تحفے میں دو جوڑے بھی دیئے جس سے ان کی مہمان نوازی کا واضح ثبوت مل گیا۔
گھر آکر دانیہ نے پوچھا۔ کیسی لگی میری دوست…؟ تو میں نے کہا۔ اچھی لگی مگر اس کی بھابی زیادہ اچھی لگی۔ افسوس کہ وہ خوش نہیں ہے اپنی زندگی سے! یہ تم نے کیسے کہہ دیا؟ اس کی آنکھوں کے اندر جھانک کر…! جن میں اداسی بھری تھی۔ نہیں بھئی وہ بہت خوش ہے نہ صرف خوش ہے بلکہ اسے اپنے گھر میں کسی شے کی کمی نہیں ہے۔ وہ تو صاف ظاہر ہے کہ کمی نہ ہوگی لیکن دل کی خوشیوں کا تعلق مادی دنیا سے نہیں ہوتا۔ زیادہ فلسفہ نہ بگھارو بھلا وہ کیوں خوش نہ ہوگی۔ دانیہ نے بڑے یقین سے کہا۔
میں سچ کہہ رہی ہوں، تم مجھے اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائو۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، بال کی کھال مت اتارو۔ میری دوستی مہ ناز سے ہے، اس کی بھابی سے نہیں مگر یہ سبھی خوش باش لوگ ہیں۔ خوش و خرم گھرانہ ہے ان کا!
اچھا! دوسری بار ملیں گے تو میں ثابت کردوں گی کہ گلناز خوش نہیں ہے، لگا لو شرط…! اس کے مسکراتے چہرے کے پیچھے کوئی المناک کہانی ضرور چھپی ہوئی ہے۔
ایک ہفتے کے بعد میں نے دوبارہ گلناز سے ملنے کا ارادہ کیا۔ دانیہ نے کہا۔ اتنی جلدی جانا مناسب نہیں ہے، پہلے مہ ناز کو فون کروں گی۔ بلائے گی تو پھر چلے جائیں گے۔ دانیہ نے فون کیا۔ مہ ناز اپنے ماموں کے گھر گئی ہوئی تھی۔ اس کی بھابی نے فون اٹھایا۔ دانیہ سے بات کی۔ میرے بارے میں بھی پوچھا تو دانیہ نے فون مجھے دے کر کہا۔ لو بات کرلو بھابی گلناز تمہاری خیریت معلوم کررہی ہیں۔ میں نے اپنی خیریت بتائی اور ان کی خیریت بھی دریافت کی۔ کب آئو گی…؟ بھابی نے سوال کیا۔ جب آپ بلائیں گی۔ میں تو کہتی ہوں کل آجائو، ڈرائیور بھیج دیتی ہوں۔ ٹھیک ہے کیوں نہیں خود میرا دل آپ سے ملنے کو چاہ رہا ہے۔ اگلے روز انہوں نے ڈرائیور بھیج دیا۔ دانیہ نے جانے سے معذرت کی۔ کہا کہ میرا ٹیسٹ ہے لہٰذا میں اکیلی ہی ان کے گھر چلی گئی۔ گلناز بھابی کو منتظر پایا۔ بہت خوش ہوکر ملیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ خاتون تنہائی کا شکار ہیں یا پھر میں پسند آگئی ہوں۔ انہوں نے کافی دیر تک بٹھایا، کھانا کھلایا اور بہت سی باتیں اِدھر اُدھر کی کرتی رہیں۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے میں آگئی۔
میں نے کالج میں داخلہ لے لیا تو دل سے اداسی کے بادل چھٹ گئے۔ ہم خوشی خوشی پھر سے زندگی کی مصروفیات میں رواں دواں ہوگئے۔ پندرہ روز بعد مہ ناز کا فون آیا۔ کہنے لگی۔ دانیہ! میں ماموں کے گھر سے واپس آگئی ہوں، پلیز کسی روز آجائو۔ ہم بہت بور ہوگئے ہیں۔ مجھے لگا کہ یہ فون اس کی بھابی نے کرایا ہے۔ دانیہ سے کہا۔ چلو چلتے ہیں۔ پاگل ہو، ہر روز کا آنا جانا انسان کی قدر گھٹا دیتا ہے۔ میری کزن نے جواب دیا۔ کچھ روز اور گزرنے دو، پھر چلیں گے۔
اس وقت تو خاموش رہ گئی لیکن دوچار روز بعد میں نے دانیہ کے گھر فون کیا۔ اس کی بھابی نے اٹھایا۔ میری آواز سن کر چہک اٹھی۔ کہنے لگی۔ میں نے دانیہ سے فون کرایا تھا مگر تم نہیں آئیں، اب آجائو۔ کہو تو ڈرائیور بھیج دوں۔ دانیہ کے ٹیسٹ ہورہے ہیں، وہ نہیں آسکے گی۔ کوئی بات نہیں، تم آجائو قرینہ… مجھے تمہارے آنے سے خوشی ہوگی۔ میں تجسس کی ماری بہانہ ڈھونڈ رہی تھی۔ اس نے ڈرائیور بھیجا اور میں اس کے گھر چلی گئی۔ وہ منتظر تھی۔ مجھے دیکھ کر خوشی کا رنگ چہرے پر بکھر گیا۔ اپنے کمرے میں لے جاکر بٹھایا۔ اصرار کیا کہ کھانا کھا کر جانا،میں نے تمہارے لئے خاص طور سے دنبہ پلائو بنوایا ہے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے لان میں لا بٹھایا اور پھولوں کی کیاریوں کی جانب غور سے دیکھنے لگی۔ تب مجھے لگا کہ آج اس کا دل بوجھل ہے۔ کیا بات ہے بھابی! مجھے لگتا ہے کوئی پریشانی ہے جو اندر اندر آپ کو کھا رہی ہے؟ مجھے نہ سہی کسی اور کو بتا دیں۔ انسان کو اپنے دل کا بوجھ ضرور ہلکا کرنا چاہئے۔ اس طرح پریشانی کو اپنے اندر چھپائے رکھنے سے انسان بیمار ہوجاتا ہے۔
میں نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ وہ جلدی سے بولی۔ کیسے بتائوں، جانے کیوں تم مجھے وہ ہستی لگتی ہو جس سے راز دل کہنا مناسب لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ تمہیں اپنا رازداں بنا لوں۔ بھابی…! یہ تو آپ کا بڑا پن ہے، ورنہ میں اس لائق کہاں۔ مجھے بھابی نہ کہو گلناز کہو۔ میں تمہیں اپنا دوست سمجھتی ہوں۔ مجھے اپنا دوست ہی سمجھو۔ میں نے اس کے ٹھنڈے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ میں آپ کی بہنوں جیسی ہوں، کیا آپ رو رہی ہیں؟ اس بات پر بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو گر پڑے۔ گلناز کو روتے دیکھ کر گھبرا گئی۔ بتائو گل! آپ کو کیا غم ہے، کیا اپنی زندگی سے خوش نہیں ہو…؟ سبھی سمجھتے ہیں کہ میں عیش و عشرت میں جی رہی ہوں تو بہت خوش ہوں لیکن مجھ سے زیادہ بدقسمت شاید ہی کوئی ہوگا۔ آخر کیوں… مجھے بتایئے۔ اگر دوست سمجھتی ہیں۔
تو…! اس نے کہنا شروع کیا۔ قرینہ…! یہ بات نو برس قبل کی ہے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ ہم کوئٹہ میں رہتے تھے۔ وہاں بہت اچھا وقت گزر رہا تھا۔ اپنے والدین کی لاڈلی تھی، خاندان کی اکلوتی اولاد اور جائداد کی تنہا وارث…! ان دنوں والد کا ایک کزن نیک دل کوئٹہ پڑھنے آیا ہوا تھا۔ دادا جان نے کہا کہ تم ہمارے یہاں رہو۔ یہاں بہت جگہ ہے۔ انہوں نے اس کو مہمان خانے میں ٹھہرا دیا۔ میں بارہ سال کی تھی اور مہمان خانے چلی جاتی تھی۔ وہاں وہ پڑھ رہا ہوتا۔ میں اس سے ایک معصوم بچی کی طرح محوگفتگو ہوجاتی، طرح طرح کے سوالات کرتی۔ وہ ہر سوال کا جواب دیتا۔
امی جان مجھے اس کے ساتھ بات کرنے سے منع نہیں کرتی تھیں۔ جب میں تیرہ برس کی ہوگئی امی جان کو احساس ہوا کہ اب مجھے مہمان خانے کی طرف نہیں جانا چاہئے لیکن مجھے نیک دل اچھا لگتا تھا تو میں موقع ملتے ہی اس کی طرف جانکلتی۔ لگتا کہ جیسے ہم دونوں دوست ہوں۔ میں اتنے بڑے گھر میں اکیلی ہوتی، کوئی سہیلی یا بہن حتیٰ کہ ہم عمر بھی کوئی نہ تھا۔ کوئی مجھ سے باتیں کرنے والا نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ وہ میرے ذہن میں بسنے لگا۔ اتنی معصوم تھی کہ جیون ساتھی کا مطلب نہیں سمجھتی تھی گھر میں سبھی لوگ اسے پسند کرتے تھے لیکن میں اس کی دیوانی تھی۔ جب تک اس سے بات نہ کرلیتی، چین نہ آتا۔
ایک سال اور پلک جھپکتے گزر گیا۔ میں کچھ اور سمجھدار ہوگئی۔ پندرہ برس کی ہوچکی تھی۔ ایک روز دادا جان سے والدہ نے پوچھا۔ کیا آپ نے شادی کی تاریخ پکی کردی ہے؟ میں نے چونک کر پوچھا۔ اماں جان! کس کی شادی…! وہ بولیں۔ تمہاری شادی… تمہارے چچا کے بیٹے کریم کے ساتھ! مگر امی! میں تو ابھی چھوٹی ہوں۔ بے شک لیکن یہ تمہارے دادا جان کی خواہش ہے کیونکہ وہ بوڑھے ہیں، بیمار رہتے ہیں۔ اپنی زندگی میں پوتے اور پوتی کی شادی کرنے کے آرزو مند ہیں۔ تمہاری شادی ہوگئی، پھر بھی رہو گی ہمارے ساتھ…!
لیکن ماں! میں تو نہیں کرنا چاہتی شادی کریم سے… ماں مجھے بازو سے پکڑ کے دوسرے کمرے میں لے گئیں۔ گل ناز! تم نے ایسی بات کیوں منہ سے نکالی؟ کیا تم ہماری اور اپنی خوشیوں پر پانی پھیرنا چاہتی ہو یا کسی بے گناہ کی جان لینے کا ارادہ ہے؟
ان کا اشارہ نیک دل کی طرف تھا۔ میں نے بے لحاظ ہوکر کہا۔ کیوں وہ کیا برا ہے؟ وہ تو پڑھ رہا ہے، ڈاکٹر بن رہا ہے۔ ماں نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ بولیں۔ وہ تمہیں کیا خوشی دے گا جو تمہیں اپنے چچا کی بہو بن کر ملے گی۔ اپنی خاندانی روایتوں کو خاک میں مت ملائو کیونکہ تمہیں اپنے دادا اور باپ کی وراثت ملنی ہے۔ یہ ہمارے خاندان کا طرئہ امتیاز ہے کہ گھر کی دولت گھر میں رکھنی ہوتی ہے۔ جائداد اگلے گھر منتقل نہ ہونی چاہئے۔ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات…! بزرگوں کے اس فیصلے کو قبول کرلینے میں ہی ہماری اور تمہاری بقا ہے۔ مجھے کسی کی بقا سے غرض نہیں، اپنی خوشی پوری ہوتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ آج جو کچھ تمہارے پاس ہے، کیا تم یہ چاہتی ہو کہ کل یہ سب تمہارے پاس نہ رہے؟ اماں! مجھے نیک دل پسند ہے، اس کے ساتھ خوش رہوں گی ۔دولت کے ڈھیر میں مرمر کر جینا پسند نہیں ہے۔
ٹھیک ہے مجھے اس بات پر غور کرنے دو۔ اس وقت یہ کہہ کر انہوں نے مجھے خاموش کردیا۔ اگلے روز کا جب سورج طلوع ہوا تو نیک دل ہمارے گھر موجود نہ تھا۔ اسے ماں نے مہمان خانے سے رخصت کردیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وہ راستہ بھی بند کرا دیا جو گھر سے مہمان خانے کی طرف جاتا تھا۔
میں بہت روئی۔ رونے کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد آنسو بھی خشک ہوجاتے ہیں، تب انسان آہستہ آہستہ گھلنے اور مرنے لگتا ہے۔ جب نیک دل پر اچانک یہ افتاد ٹوٹی کہ اسے ہاسٹل منتقل ہوجانے کا کہہ دیا گیا تو اس نے کسی طور ملازمہ شگفتہ بی بی سے رابطہ کیا اور وجہ دریافت کی۔ اس نے اسے بتایا کہ گل ناز بی بی اپنے چچا زاد کریم سے شادی سے انکار کررہی ہے کیونکہ وہ آپ سے شادی کی آرزومند ہے۔ ایک بار چند منٹ کے لئے مجھے اس سے ملوا دو، میں اس کو سمجھاتا ہوں۔ اس نے ملازمہ کے آگے ہاتھ جوڑے۔ ورنہ وہ نادان گھل گھل کر مر جائے گی۔ ترس کھاتے ہوئے ملازمہ نے مجھے نیک دل سے ملوا دیا، کیونکہ والدہ گھر میں موجود نہ تھیں۔ اسے دیکھتے ہی میں رونے لگی۔ اس نے کہا۔ میں اپنی کتابیں لے جانے کے بہانے آیا ہوں۔ تھوڑا سا وقت ہے، تم اسے رونے میں ضائع مت کرو، کچھ بات کرو۔
میں ہر صورت تمہاری دلہن بننا چاہتی ہوں۔ جاکر اپنے ماں، باپ کو راضی کرو اور انہیں دادا جان کے پاس لے کر آئو ورنہ یہ لوگ میری شادی چچازاد سے کردیں گے۔ تمہاری جدائی کا دکھ برداشت نہ کرسکوں گی۔
میں آنسو بہا رہی تھی اور وہ پریشان تھا۔ اس نے کہا۔ گلناز! رو مت، آنسو پونچھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے والدین کو جلد سے جلد لے کر آئوں گا، تم تسلی رکھو۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس نے والدین کو راضی کیا۔ وہ گائوں سے بڑی دقتوں کے بعد یہاں پہنچے تھے۔ ان کو دادا جان نے مہمان خانے میں ٹھہرایا۔ آنے کا سبب بتایا تو دادا جان نے ان کی درخواست کو رد کردیا کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ میں اپنے بیٹے اور پوتے پر آپ لوگوں کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ ان دنوں مجھے پھوپی کے گھر بھیج دیا گیا تھا۔ میں واپس آئی۔ سوال کیا۔ شگفتہ! کیا اس کے گھر والے آئے تھے؟ اس نے خوف کے مارے جھوٹ بول دیا کہ وہ نہیں آئے۔ میں انتظار کرتی رہ گئی یہاں تک کہ بزرگوں نے اپنی مرضی کرلی اور مجھے زبردستی کریم کی دلہن بنا دیا۔
جب سے اب تک یہاں ہوں، دوبارہ میکے جانا نصیب نہیں ہوا۔ دادا وفات پا گئے اور والدہ آکر مل جاتی ہیں۔ اس دکھ کو اپنے دل میں چھپا لیا مگر یہ دکھ مجھے تکلیف دیتا رہتا ہے۔ کسی سے اپنا غم بیان نہیں کرسکتی کہ میں یہاں ناخوش ہوں۔ جانے کیوں تمہیں دیکھا تو سوچا کہ تم جیسے غمگسار کی ضرورت تھی مجھے…! جو ہونا تھا، ہوگیا۔ اب دکھ محسوس کرنے سے کیا ہوگا گلناز بی بی! میں نے اسے سمجھانا چاہا۔ وہ بولی۔ یہ راز جو میرے دل میں ہے، مجھے زخمی کرتا رہتا ہے۔ صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا نیک دل میرے والد کے گھر اپنے والدین کو رشتے کے لئے لایا تھا یا نہیں! صرف اتنا جاننا چاہتی ہوں کاش کوئی مجھے اس کی خبر لا دے۔ ایسا تو کوئی قابل بھروسہ دوست اور ہمدرد ہی کرسکتا ہے۔ کیا تم ایسا کرسکتی ہو؟ مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ گلناز کے اس سوال نے مجھے پریشان کردیا، لگا کہ میرے پیروں تلے سے زمین سرک رہی ہے۔ مجھ سے ٹھیک طرح بات نہ ہو پا رہی تھی۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور کہا۔ تسلی رکھو، میں اس بارے میں سوچ کر بتائوں گی۔ لیکن سوچنا کیا، اس کے بعد ڈر کے مارے میں نے فون کیا اور نہ اس کے گھر گئی۔ اس سے ملنے سے باز آگئی۔ کہاں تو گلناز سے ملنے کے لئے بے قرار رہتی تھی مگر اس کے اس سوال نے مجھے اس سے بہت دور کردیا۔
اب میں اس سے دور ہی رہنا چاہتی تھی۔ دانیہ سے کہا کہ اگر گلناز میرے بارے میں پوچھے تو کہنا کہ وہ لوگ واپس لاہور چلے گئے ہیں۔ میں گلناز کی غمگسار نہیں بننا چاہتی تھی کیونکہ میں اس کا دکھ بانٹ سکتی تھی اور نہ اس کی کچھ مدد کرسکتی تھی۔ بھلا پھر میں کس طرح اس کی غمگسار بنتی۔ اس نے کئی بار ڈرائیور کو بھیجا، میں نہ گئی۔ یوں دن پر دن گزرتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ سال گزر گیا۔ یقیناً وہ میری طرف سے مایوس ہوگئی ہوگی۔ ایک دو بار دانیہ نے بھی اصرار کیا کہ گل ناز فون کرکے تمہارے بارے میں پوچھتی ہے۔ چلو اس کے پاس چلتے ہیں۔ اسے تو کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں ہے، ہم پر تو پابندی نہیں ہے۔ میں نے انکار کردیا۔
دانیہ حیران تھی کہ پہلے تو میں اس کے پاس جانے کے لئے اصرار کرتی تھی، اب انکار کرتی ہوں۔ کیا وجہ ہے۔ وجہ میں اسے نہیں بتا سکتی تھی کہ گل ناز کا مندمل زخم جو میں نے اپنی حس جستجو کی وجہ سے کریدا تھا، وہ پھر سے ہرا ہوگیا ہے اور اسے بہت تکلیف دے رہا تھا اور میں اس کے زخم پر مرہم نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ایک بڑے آدمی کی بہو تھی۔ اس کی دوستی کی متحمل ہونا ایک دشوار امر تھا اور اس کی غمگسار ہونا، بڑے حوصلے کی بات تھی کیونکہ کسی کے راز کو راز رکھنا بڑی بات ہے، کجا غمگسار ہونا، وہ بھی ایک شادی شدہ عورت کی…! کسی ایسے کام میں مدد کرنا جس کا انجام بھیانک ہو، بھلا یہ کوئی عقلمندی کی بات تھی؟
میں نے اسی لئے اس آگ سے کنارہ کرلیا کہ جس آگ کی تپش دور سے گزرنے والوں کو بھی جلا دیتی ہے۔ میں نے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر پھر اسے خیرباد کہہ دیا۔ اس بات کا افسوس ضرور ہے مجھے۔ (ق… کراچی)