میں ابھی تعلیم حاصل کررہی تھی کہ ابا جان کا انتقال ہوگیا۔ یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ نوکری کرنی پڑے گی۔ بڑی مشکل سے ایک مِل میں ملازمت مل گئی۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے قابل ہوگئی تھی۔
پہلے کبھی گھر سے قدم نہ نکالا تھا۔ اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول… بس ایک راستہ جانتی تھی۔ پانچ وقت نماز پڑھتی تھی اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ خوش رہتی تھی۔ اجنبی لوگوں سے واسطہ پڑا تھا اور نہ باہر کے ماحول کی خبر تھی۔ نوکری کی تو زمانے کی خبر ہوگئی۔ پہلے پہل بہت گھبرائی۔ کوئی آواز کس دیتا تو رونے لگتی۔ کوئی گھورتا تو آنسو نکل آتے۔ زندگی میں قدم قدم پر کانٹے نظر آنے لگے۔ ساتھی لڑکیاں سمجھاتی تھیں کہ ہمت سے کام لو یہاں ایسا ہی ہوتا ہے، کچھ دنوں کے بعد ماحول سے مانوس ہوجائو گی۔ تب یہ باتیں اتنی بری نہ لگیں گی۔ اعتماد آجائے گا تو جینا سیکھ جائو گی۔
مل کے مالک کو میری شکایتیں پہنچنے لگیں کہ ایک لڑکی نئی آئی ہے جو بات بات پر روتی ہے اور منہ بسور کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ساتھی ورکر بھی ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ فیکٹری کے مالک نے مجھے بلوالیا۔
جب اس کے دفتر پہنچی تو وہ اپنے ائیرکنڈیشنڈ کمرے میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس نے فون کا ریسیور کان سے لگا رکھا تھا۔ میں خاموشی سے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر وہ فون پر بات کرتا رہا۔ جب گفتگو ختم کرلی تو میری جانب متوجہ ہوا۔
شکیلہ تم ہی ہو؟ اس نے پوچھا۔
جی… میں نے سادگی سے جواب دیا۔ اس نے مزید کچھ نہ کہا اور کل دوبارہ اسی وقت آنے کی ہدایت کی۔
میں سوچ میں پڑ گئی، خدا جانے کل کیوں بلایا ہے۔ نوکری میری مجبوری تھی جسے کسی قیمت پر کھونا نہ چاہتی تھی۔ رات بھر اسی فکر میں گزری۔ اگلے روز مقررہ وقت پر اس کے دفتر گئی۔ اس نے خوشدلی سے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور اگلی بات جو کہی اسے سن کر میں پریشان ہوگئی۔
کہنے لگا۔ کیا مجھ سے دوستی کروگی؟
میں سٹپٹا گئی اور کوئی جواب سمجھ میں نہ آیا۔ توقف کے بعد پھر اس نے اپنا جملہ دہرایا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا۔
کیا آپ کی بیگم نہیں ہیں؟
کہا…ہے تو مگر اس لائق نہیں کہ اس کو کہیں ساتھ لے جائوں۔
میں دوستی کی بالکل قائل نہیں ہوں، صرف ایک بات جانتی ہوں، اگر کسی کو کوئی پسند ہوتو پھر شادی کرلینی چاہیے۔ یہی دوستی کا نیک مقصد ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اگر آپ کو یہ بات منظور ہے تو میں آپ سے دوستی کرنے کو بھی تیار ہوں۔
وہ بولا۔ مجھے منظور ہے؟
میں نے اس کے قسم کھانے سے اس پر اعتبار کرلیا۔ اس نے بھی مجھ سے وعدہ کیا کہ جب تک مجھ سے شادی نہ کرلے گا، میرے دامن عصمت کو میلی نظر سے نہ دیکھے گا۔
وقت گزرنے لگا… ہم ملتے اور سیر کو جاتے۔ میں اس کے ساتھ گاڑی میں گھومتی پھرتی۔ اب میری نگاہوں میں نئی زندگی کے خواب بس گئے تھے تبھی ہر روز پوچھتی تھی۔ آپ مجھ سے نکاح کب کررہے ہیں؟
بہت جلد، بس ذرا چند کاروباری الجھنیں سمیٹ لوں۔ وہ جواب دیتا تھا۔ جب نہ جاتی، وہ مجھے بلا بھیجتا۔ جب چھ ماہ اس طرح گزر گئے تو میرے دل میں وسوسوں نے سر اٹھایا۔ مجھے ڈر تھا کہ فیکٹری میں میرے ساتھ کام کرنے والے لوگ مجھے کوئی آوارہ لڑکی نہ سمجھ لیں۔ تبھی میں اسد صاحب سے ملنے سے گریز کرنے لگی۔
جب ایک ہفتہ تک نہ ملی تو اس نے مجھے بلا بھیجا۔ جی آمادہ نہ تھا کہ جائوں مگر اس کی ناراضگی کا خیال کرکے چلی گئی۔
وہ سمجھ چکا تھا کہ میں کیوں ملنے سے گریزاں ہوں۔ دیکھتے ہی اس نے کہا۔ شکیلہ خاطر جمع رکھو، میں نے قاضی سے بات کرلی ہے۔ ہم نکاح مذہبی طریقے سے کریں گے۔ تمہیں میںکورٹ میں لے جاکر رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ اس میں میری بھی بدنامی ہوگی۔
جیسے آپ کی مرضی… لیکن ایک بار اگر آپ میرے گھر جاکر امی سے رشتہ مانگ لیتے تو اچھا تھا۔ اس نے تسلی دی۔ فکر نہ کرو۔ میں ان کے پاس بھی جائوں گا۔ اس دن اس کی بے تکلفی بڑھی تو میں رونے لگی۔ تب کہا میں تو تم کو آزما رہا تھا اور تم رونے بیٹھ گئیں۔
اس واقعے کے بعد احتجاجاً میں نہ گئی۔ کئی دن تک ان سے نہ ملی۔ پھر آخر ہماری صلح ہوگئی۔ میں کام کے اوقات کے بعد شام کے وقت اس کے ہمراہ گھومنے پھرنے کو جانے لگی۔ ہر روز وہی بات کہتے، جلد نکاح کرلوں گا۔ بس تھوڑا سا اور انتظار کرلو۔
ایک دن کا ذکر ہے جب میں دفتر گئی۔ وہ کمرے میں موجود نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور لڑکی کمرے میں آگئی… یہ صبا تھی۔ اس کی پرانی دوست۔ وہ مجھ سے گھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ باتوں باتوں میں اس نے مجھے کریدا اور میرا لگائو اسد کی طرف پایا تو رونے لگی۔
میں نے رونے کا سبب پوچھا تو برملا کہا۔ اسد نے مجھے بھی اسی طرح بے وقوف بنایا تھا۔ یونہی شادی کا چکر دیا تھا۔ کافی دنوں اپنے اعتبار میں رکھا۔ جب پوری طرح ان پر بھروسا کرنے لگی تو انہوں نے ایک دن میرے بھروسے کو ٹھیس پہنچائی۔ اس کے بعد شادی کے وعدے سے پھر گئے۔ اب تو ملنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ میری مانو ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ تمہارا کچھ نہیں بگڑا، ہوشیار ہوجائو۔ یہ یونہی جال میں پھنساتے ہیں، یہ ان کا مشغلہ ہے۔
صبا کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اسد صاحب تشریف لے آئے۔ صبا کو میرے پاس دیکھ کر سٹپٹا گئے۔ رکھائی سے مخاطب کیا۔ صبا میں نے تم سے فون پر کہہ دیا تھا کہ آج مجھے ضروری کام ہے، پھر تم یہاں کیسے آگئیں۔
یونہی آگئی۔ وہ بولی اب تو آپ ملنے سے بھی رہے۔ پہلے تو ایک منٹ کی تاخیر بھی گوارا نہ تھی، اب ہمیشہ یہی کہہ دیتے ہیں، مت آئو۔ مجھے ضروری کام ہے۔ یہ کہہ کر وہ روہانسی ہوکر چلی گئی۔
صبا چلی گئی تو مجھ سے پوچھا۔ کیا کہہ رہی تھی۔ میں نے بتایا کچھ نہیں بس اِدھر اُدھر کی ہانک رہی تھی۔ انہوں نے مجھے تنبیہہ کی۔ یہ مجھ سے کینہ رکھتی ہے، اس کی باتوں میں نہ آنا۔
گھرآکر میں نے بہت سوچا تو اپنے آپ کو خود فریبی میں مبتلا پایا۔ تبھی مجھے خیال آیا مرد عورت کو دھوکا دے سکتا ہے۔ لیکن عورت، عورت کو ایسے معاملات میں دھوکا نہیں دیتی اور مرد کا پردہ فاش کردیتی ہے۔ صبا کے چہرے پر دکھ کی تحریر صاف پڑھی جاسکتی تھی۔ سچ اس کی آنکھوں سے جھانک رہا تھا۔ وہ آنکھیں جو آنسوئوں سے نم تھیں، میرے دل نے گواہی دی، وہ جھوٹ نہیں بول رہی تھی۔
بہت غور کرنے کے بعد میں نے ایک پرچہ اسد صاحب کے نام لکھا اور ایک ان کی بیگم صاحبہ کے نام جس میں لکھا تھا۔ مسز اسد کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گی کہ میں آپ کے شوہر کی دوسری بیوی بنوں؟
یہ میرا آخری اور کامیاب حربہ تھا۔ انہوں نے صبا کو خوب برا بھلا کہا اور مجھے بھی کہلوا دیا کہ میں نے تم کو نوکری سے برخاست کردیا ہے، اب میرے دفتر آنے اور مجھ سے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آئندہ مجھ کو فون بھی نہ کرنا۔ میں ایسی ویسی راہ چلتی آوارہ لڑکیوں کو منہ لگانا پسند نہیں کرتا جو شادی سے پہلے غیرمردوں سے دوستیاں رکھتی ہیں۔
میری سہیلی ریحانہ جو میرے ساتھ کام کرتی تھی، مجھ کو ان کا یہ پیغام سنا کر چلی گئی اور میں سکتے میں رہ گئی۔ اب یہ بات اچھی طرح میری سمجھ میں آگئی کہ اسد میرے ساتھ مخلص نہ تھا، صرف اپنی شامیں خوشگوار کرنا چاہتا تھا۔
اگر میرا کچھ خیال ہوتا تو وہ مجھ کو راہ چلتی آوارہ نہ کہتا۔ تاہم میں نے صد شکرکیا کہ مجھے وقت سے پہلے ہوش آگیا تھا۔ آج وہ ایک مجھے آوارہ کہہ رہا تھا… کل اگر رسوا ہوجاتی تو سارا زمانہ مجھے آوارہ کہتا۔ تب میری ماں کا کیا بنتا اور چھوٹی بہنوں پر بھی بے قصور زمانے کی انگلیاں اٹھتیں۔ تب کیا میری کھوئی ہوئی عزت واپس مل جاتی؟ میں میٹرک پاس بھی نہ تھی۔ کوئی دوسری نوکری کیا ملتی۔
میری ماں اچھی سلائی جانتی تھی۔ انہوں نے سلائی کڑھائی میں ڈپلوما کیا ہوا تھا۔ مجھے بھی جوں توں کرکے ایک سال کا کورس کرایا اور جب میں نے ڈپلوما حاصل کرلیا تو ایک جگہ مجھے نوکری مل گئی۔ اسی طرح میں نے اپنی بیوہ ماں کے ساتھ مل کر عرصہ تک چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کی۔ بالآخر ایک متوسط گھرانے سے رشتہ آگیا اور میں اپنے گھر کی ہوگئی۔ آج بھی جب وہ بیتے ہوئے دن یاد کرتی ہوں۔ صد شکر کرتی ہوں کہ میں کم عمری میں ایک بڑی لغزش سے بچ گئی۔ ورنہ جانے میری بربادی کے ساتھ میرے کنبے کا کیا ہوتا۔ چھوٹی بہنوں کو میری خطائوں کی کیسی بھیانک سزا کاٹنی پڑتی اور بیوہ شریف ماں تو پھر جیتے جی مرجاتی۔
سچ ہے یہ زمانہ بری جگہ ہے اور نوعمر ضرورت مند لڑکیوں کے لئے کہ جن پر ان کے کسی سرپرست کا سایہ نہ ہو، یہ دنیا ایک ایسی شکار گاہ ہے کہ جہاں ہر طرف ہوس پرست نگاہیں تعاقب میں رہتی ہیں۔ بھیڑیے شکار کرنے کو گھومتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک شریف لڑکی کو قدم قدم پر لڑنا پڑتا ہے اور اپنی عزت خود بچانی ہوتی ہے۔ اپنا تحفظ آپ کرنا پڑتا ہے۔ اگر لڑکی اچھی ہوتو پھر وہ یقیناً ان عذابوں سے بچ جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کی آپ حفاظت کرتا ہے بشرطیکہ کہ ان کے ارادے نیک رہیں۔ (ن… لاہور)