ہمارا گھر ایک قصبے میں تھا۔ بہت غریب لوگ تھے لیکن غربت نے ہمارا حسن نہیں چھینا تھا۔ دونوں بہنیں خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ والدہ نے شوہر کی وفات کے بعد ایک اسپتال میں آیا کی نوکری کرلی اور بھائی ریلوے اسٹیشن پر قلی بھرتی ہوگیا۔ وہ بھی ہر ماہ کچھ رقم دے جاتا تھا جس سے ہمارا گزر ہورہا تھا۔
میرا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا جو ابھی کمانے لائق نہیں ہوا تھا۔ ماں نے ہم دونوں بہنوں کو صرف دوسری جماعت تک پڑھایا تھا۔ میری بڑی بہن گھر کا کام کرتی اور میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ چھوٹا بھائی ریلوے لائن کے پاس ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتا۔ والدہ صبح ناشتہ کرکے اسپتال چلی جاتی تھیں۔
یہ ریلوے کا ایک چھوٹا سا ہیلتھ سینٹر تھا جہاں ایک لیڈی ڈاکٹر اور ایک ڈاکٹر کے ساتھ تھوڑا سا عملہ تھا جن کو گھر بھی ریلوے کی طرف سے ملے ہوئے تھے۔
ایک دن بڑا بھائی ریلوے لائن کراس کررہا تھا کہ ریل کی لپیٹ میں آگیا۔ وہ موقع پر جاںبحق ہوگیا۔ میری بڑی بہن کا نکاح بچپن میں جندو چاچی کے بڑے بیٹے منعم سے ہوا تھا لیکن والد کی وفات کے بعد انہوں نے باجی نور کی رخصتی لینے کی بجائے طلاق دے دی۔ جس لڑکے سے نکاح ہوا تھا، وہ دبئی گیا تو وہاں کسی لڑکی سے شادی کرلی اور میری بہن دلہن نہ بن سکی۔
ماں کو نور کا غم تھا اور ساتھ میری بھی فکر تھی کہ میں اب چودہ پندرہ برس کی ہوچکی تھی۔ غربت کے باوجود ہم دونوں بہنیں صورت، شکل سے کسی امیر گھرانے کی لگتی تھیں، کیونکہ حسن خدا کی دین ہے۔ یہ مانگنے سے نہیں ملتا۔
کہتے ہیں کہ اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے۔ جس نے ڈالی بری نظر ڈالی، تبھی اماں زمانے کے ڈر سے ہم بہنوں کو باہر نکلنے نہیں دیتی تھی۔ ہمارے پاس پڑوس میں تمام ریلوے ملازمین کے کوارٹر تھے لیکن ایک دو گھر ایسے بھی تھے جنہوں نے خالی پلاٹوں پر اپنے ذاتی گھر تعمیر کرلئے تھے۔ انہی میں سے ایک چاچی جندو کا مکان تھا جو میری بہن کی سابقہ ساس تھی۔ چاچی جندو کا شوہر میرے والد کا دورپرے کا رشتے دار تھا اور اس کا انتقال ہوچکا تھا۔ ان کا بیٹا بھی اب جوان تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ ماں کے کنٹرول میں نہ رہا تھا، آوارہ ہوگیا تھا۔ پڑھائی چھوڑ کر وہ برے لڑکوں کی صحبت کی وجہ سے سیدھی راہ سے بھٹک گیا تھا۔
اس کی عادت تھی کہ گلیوں میں آوارہ گھومتا اور اگر کوئی لڑکی ادھر سے گزر رہی ہوتی تو اس پر آوازیں کستا اور اسے چھیڑنے کی سعی کرتا۔ لڑکیاں اس کے سامنے آنے سے کتراتی تھیں۔ جدھر سے وہ نمودار ہوتا، وہ فوراً راستہ بدل لیتی تھیں۔
اس لڑکے کا پورا نام انجم تھا اور سب اسے جمی کہتے تھے۔ رشتے داری کے باوجود والدہ نے اس گھرانے سے ناتا نہیں رکھا تھا۔ وہ جمی کے کرتوتوں کے بارے میں سنتی رہتی تھیں۔ ہمیں بھی سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ ہرگز تم لوگوں نے جندو کی گلی سے نہیں گزرنا۔
جمی کے دونوں بڑے بھائی دبئی میں کماتے تھے اور ان کے مالی حالات بہت اچھے تھے۔ جمی کو روپے پیسے کی کمی نہ تھی اور اس کی آوارگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جیب خرچ اپنی ماں سے خوب بٹورتا رہتا تھا۔
ایک روز جبکہ بادل چھائے ہوئے تھے، نور نے اماں سے کہا کہ آج اسپتال مت جائو اور چھٹی کرلو۔ ایسا نہ ہو تیز بارش ہوجائے، پھر کیسے واپس گھر پہنچو گی، راستہ تو کیچڑ سے بھر جائے گا۔ ماں بولی۔ بیٹی! تم کو نہیں معلوم وہاں آج کل کتنی سختی ہوگئی ہے۔ گائوں سے اچانک کوئی کیس آجاتا ہے تو سب سے پہلے آیا کی پوچھ ہوتی ہے۔ میں بلاوجہ ناغہ نہیں کرسکتی۔ بارش ہوگئی تو کچھ دیر اسپتال میں رک جائوں گی۔ تم لوگ میری فکر مت کرنا مگر دروازے کی کنڈی لگا کر رکھنا۔ ماں نصیحت کرکے چلی گئی۔
اللہ کی کرنی پہلے بوندا باندی ہوئی اور پھر بارش شروع ہوگئی لیکن جب ماں کے آنے کا وقت ہوا تو برسات نے زور پکڑ لیا۔ ذرا دیر میں ہی تیز ہوا کے ساتھ پانی کی دھاریں آسمان سے گرنے لگیں اور ہر طرف جل تھل ہوگیا۔
مجھے فکر ہوئی کہ اتنی بارش میں ماں کیسے گھر لوٹے گی۔ یوں بھی میری عادت تھی کہ جب ماں ڈیوٹی پر چلی جاتی، اس کی چھٹی کے وقت میں ضرور گلی میں نکل کر اس کی راہ تکتی۔
کئی بار ایسا ہوا کہ اماں کے انتظار میںگلی میں کھڑی ہوتی تو اچانک جمی دکھائی دے جاتا، تب میں بھاگ کر گھر میں چلی جاتی۔ مجھے چھپاک سے گھر میں گھستے دیکھ کر وہ بڑا محظوظ ہوتا، مسکرا دیا کرتا۔
یہ بات مگر میں نے کبھی کسی کو نہ بتائی۔ جانتی تھی کہ اگر اماں یا نور باجی کو بتا دوں گی تو وہ میرا گھر سے جھانکنا بند کرا دیں گی تو میرا دم گھٹ جائے گا۔ گھر میں قید رہ کر واقعی ہم لڑکیوں کا دم گھٹتا ہے، اسی لئے ہم بہانے سے گھر سے باہر جھانکنے کا موقع تلاشتی ہیں، تاہم آج یہ کوئی بہانہ نہ تھا۔ مجھے بس فکر لگ گئی تھی کہ بچاری اماں جن کے جوتے بھی بوسیدہ تھے، کیسے اس کیچڑ بھری گلی کو پار کرکے گھر پہنچیں گی۔ کہیں گر نہ پڑیں۔ انہی سوچوں میں کھوئی تھی۔ گھر میں بیٹھا نہ گیا تو دروازہ کھول کر باہر گلی کی سمت دیکھنے لگی کہ جدھر سے اماں کے آنے کا امکان تھا۔
اس بات کا ہوش نہ رہا کہ بارش کی وجہ سے میرے کپڑے بھیگ گئے ہیں۔ بس ایک ٹک اماں کی راہ تکنے میں محو تھی۔ احساس نہ ہوا کہ مجھے گلی کے نکڑ سے کوئی دیکھ رہا ہے۔ یہ جمی تھا جو بارش کا لطف لینے
باہر نکلا تھا۔ کبھی اِدھر، کبھی اُدھر گلیوں میں گھوم رہا تھا۔ مجھے دروازے میں کھڑا پایا تو جانے اس دن کیا ہوا کہ اپنے ہوش کھو بیٹھا۔ جتنی دیر دروازے پر کھڑی رہی، وہ ایک درخت کی اوٹ سے مجھے دیکھتا رہا۔ ذرا دیر بعد جب گیلے کپڑوں کی وجہ سے سردی کا احساس ہوا تو میں گھر کے اندر پلٹ گئی۔ اسی دم وہ تیزی سے آیا اور یوں دبے پائوں میرے پیچھے صحن میں داخل ہوگیا جیسے یہ اس کا اپنا گھر ہو۔
بچپن میں وہ بے شک اپنی ماں کے ساتھ ہمارے گھر آیا کرتا تھا لیکن اب تو برسوں گزر گئے تھے اس نے کبھی ہمارے آنگن میں قدم رکھا اور نہ دہلیز پار کی تھی۔
نور باجی باورچی خانے میں چائے بنا رہی تھیں۔ میں سیدھی اس کوٹھری میں چلی گئی جہاں دیوار پر کھونٹیاں لگی تھیں اور ہمارے کپڑے ٹنگے رہتے تھے۔ یہی ہمارے لباس تبدیل کرنے کی جگہ تھی۔ میری پشت تھی اور میں کھونٹی سے اپنا جوڑا اتارنے چلی تھی کہ بھیگے ہوئے لباس کو تبدیل کرلوں۔ اس وقت شام ہونے والی تھی لیکن بارش کی وجہ سے اندھیرا بڑھ گیا تھا اور رات سے پہلے رات محسوس ہورہی تھی۔ فضا میں بارش کا شور، بادلوں کی گرج اور ہوا کی سنسناہٹ نے ماحول میں عجیب سی مستی بھری ہیبت پھیلا دی تھی۔ لگتا تھا کہ کوئی بڑا طوفان آنے والا ہے کیونکہ آج بارش موسلادھار برسی تھی۔
جونہی میں کوٹھری کا دروازہ بند کرنے کے لئے مڑی، حواس باختہ ہوگئی کہ وہ کوٹھری کے اندر آچکا تھا۔ اس سے پہلے کہ چیخ میرے حلق سے باہر آتی، اس نے آگے بڑھ کر میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور جیب سے خنجر نکال لیا۔ خنجر کی نوک مجھے اپنے گلے پر محسوس ہوئی تو میری گھگھی بندھ گئی اور خوف سے میں ٹھنڈی پڑگئی۔ بارش بدستور برستی رہی۔ طوفان میں تیزی آگئی۔ چند لمحوں میں جو قیامت مجھ پر ٹوٹی، اس کا کسی کو علم نہ ہوسکا۔
تھوڑی دیر بعد جونہی جمی کوٹھری سے باہر نکلا، نور باجی بھی کچن سے باہر نکلی۔ اس نے ملگجی بھیگی فضا میں کسی کو صحن سے دروازے کی طرف بھاگتے دیکھا تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ یہ کون تھا…؟ باجی نے مجھ کانپتی چڑیا سے سوال کیا۔ جمی تھا۔ بمشکل میرے حلق سے نکلا۔ وہ ششدر رہ گئی۔
یہ ہمارے گھر کیا کرنے آیا تھا؟ چوری کرنے آیا تھا۔ میں نے سسکتے ہوئے جواب دیا۔ غریب کے گھر چوری کرنے…؟ ہمارے گھر میں چرانے کو رکھا ہی کیا ہے۔ یہ خیال نور کو نہ آیا کہ غریب کے پاس ایک اور قیمتی متاع بھی ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے اس کی عزت…! جس کو اگر کوئی لوٹ کر لے جائے تو پھر غریب کے پاس کچھ نہیں بچتا۔
ذرا دیر بعد اماں بھی گرتی پڑتی بھیگتی ہوئی آپہنچیں۔ در ابھی تک کھلا تھا۔ ہم کو بند کرنے کا ہوش نہ رہا تھا۔ آتے ہی اماں نے کہا۔ دروازہ تو بند کردیا کرو، کوئی جانور بھی گھس آتا ہے بارش سے بچنے کے لئے…! یہ رات میرے لئے ہی نہیں، ہم سب کے لئے قیامت خیز تھی۔ اس رات اتنے زور کا طوفان آیا کہ کوئی چیز اپنی جگہ نہ رہی۔ بند دروازے بھی دھڑ دھڑ کرکے کھل رہے تھے۔ درختوں کا لگتا تھا ابھی جڑ سے اکھڑ جائیں گے، بتیاں سب کی سب گل ہوچکی تھیں، زمین بھی پائوں کے نیچے زور زور سے ہلنے لگی تھی۔ تمام رات ہم خوف کی وجہ سے سو نہ سکے تھے۔
اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی تو نور نے اماں کو بتایا کہ جندو چاچی کا آوارہ چھوکرا گھر میں گھس آیا تھا اور کیسا قہر توڑ گیا ہے۔ اماں نے محلے بھر میں واویلا کردیا کہ محلے والے جان لیں، یہ بدمعاش کہیں دوبارہ نہ آجائے۔ جندو چاچی کو لوگ لعن طعن کرنے گئے اور اس کا در بجانے لگے تب اس نے کچھ رشتے داروں کو بلوا کر اماں سے تصفیہ کرنے کو کہا۔ ہم دونوں گھرانوں میں تو کب کی رنجش چل رہی تھی۔ لوگوں نے کہا۔ بے شک فہد کی اماں غریب ہے مگر ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ محلے والوں نے تھانے جاکر جمی کے خلاف رپورٹ درج کرا دی، کیونکہ وہ سب اس لڑکے کی حرکتوں سے نالاں تھے۔ ماں بچاری کیا کرتی، اس کا تو کوئی سہارا نہ تھا۔ محلے والوں پر تکیہ کرنا تھا کیونکہ رسوائی ہوچکی تھی۔
جمی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بڑے بھائی کو جندو نے اطلاع کرائی۔ وہ فوراً آپہنچا۔ پیسہ کافی تھا۔ اس نے محلے والوں سے ہر صورت صلح کی درخواست کی۔ فیصلہ ہوا کہ وہ میری ماں کو چالیس ہزار دے گا اور جمی مجھ سے نکاح کرے گا۔ تب صلح نامہ ہوگا۔ ماں نے بات مان لی۔ ہم نے جمی کے حق میں بیان دیا اور انہوں نے رقم بھر دی۔
شادی کی تیاری ہونے لگی مگر دوستوں نے جمی کو خوب مذاق کا نشانہ بنایا کہ جس لڑکی کو تم نے دو کوڑی کا کیا، اب اسی سے شادی کرنے چلے ہو۔ ایک بے وقعت چیز کو گھر لا رہے ہو۔ ان باتوں نے اس کو اتنا پریشان کردیا کہ وہ عین وقت پر شادی سے جان چھڑا لینا چاہتا تھا، مگر اس کے بڑے بھائی نے اس کو پکڑے رکھا کہ جو کیا ہے، اب اس کا خمیازہ بھگتو گے ورنہ محلے دار ہم کو جینے نہ دیں گے اور تم بھی 14 سال کیلئے جائو گے جیل کے اندر…! ابھی تو بات حوالات تک ہے۔
وہ دولہا بنا ہوا تھا مگر اس کی حالت عجیب تھی۔ چہرے پر خوشی کے کوئی آثار نہ تھے، سر شرم سے جھکا ہوا تھا جیسے یہ شادی نہ ہو، اسے سزا مل رہی ہو۔ یہ سزا ہی تو تھی، شادی کہاں تھی۔ میں خوبصورت تھی، دلہن بن کر اور خوبصورت ہوگئی تھی، مگر یہ خدا جانتا تھا کہ میرے دل پر کیا بیت رہی تھی۔ میں کب اس شادی پر خوش تھی بس گھٹ رہی تھی۔ گائوں کے بڑوں کے عجب فیصلے پر حیران تھی کہ جو لٹیرا تھا، اسی کے حوالے کررہے تھے۔ یہ میری کیسی عزت بچا رہے تھے، شاید ان کا نظریہ کچھ اور ہو۔ میری خوشی تو اندیشوں کی آگ میں جل رہی تھی۔
میرے اندیشے درست تھے۔ شادی کے دو دن تک جمی گھر سے نہ نکلا، پھر تیسرے روز وہ اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ چلا گیا۔ وہ اسے پہلے اسلام آباد اور پھر دبئی لے گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، میرا سہاگ کہلانے والادوبارہ لوٹ کر نہیں آیا۔ وہ اپنی ماں اور بہن، بھائیوں سے فون پر بات کرتا ہے، مگر مجھ سے بات نہیں کرتا۔ ساس کہتی ہے کہ جمی کہتا ہے کہ بہت کما لوں گا تب لوٹوں گا تاکہ اپنی دلہن کو لے کر کسی بڑے شہر میں عزت سے جی سکوں۔ یہ قصبے والے بڑے عجیب ہیں، چور کو خود باندھتے ہیں اور پھر خود ہی کھول دیتے ہیں۔ (بیگم قریشی … ملتان)