میرے والد ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ زمیندار تھے اور انہیں اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنے کی آرزو تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم سب گائوں سے شہر منتقل ہوجائیں۔
ہم چار بہن، بھائی تھے۔ میں اکلوتی ہونے کی وجہ سے سب کی چہیتی تھی۔ دو بھائی مجھ سے بڑے اور ایک چھوٹا تھا۔ ان سب سے زیادہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا اور میں ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھا کرتی تھی۔
ان دنوں میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی اور بہت محنت کرتی تھی۔ میری ایک سہیلی تھی جو بے حد غریب تھی۔ ان کے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے۔ میں اس کی مدد کردیا کرتی تھی۔ اس کی والدہ پڑھی لکھی تھیں۔ مجھے اچھی باتیں سمجھاتیں اور پڑھائی میں مدد کرتی تھیں۔ انہی نیک خاتون کی ہمت افزائی کی بدولت میں آگے بڑھتی چلی گئی۔
میٹرک پاس کیا تو ابو نے گائوں سے شہر جا بسنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہاں انہوں نے مکان خریدا اور امی سے کہا کہ اب چلنے کی تیاری کرلو۔ تبھی والدہ نے سامان باندھنا شروع کیا۔ ہمیں بتایا کہ تمہارے ابو نے گھر خرید لیا ہے اور اب وہ جلد ہمیں شہر بلوارہے ہیں۔ بہت خوش ہوئی کہ شہر جاکر کالج میں داخلہ لے سکوں گی۔ مجھے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا ہوتا نظر آنے لگا۔
ابو کی شادی کے چھ ماہ بعد پھپھو کی شادی ہوگئی تھی تب سے وہ لاہور میں اقامت پذیر تھیں۔ ہم لوگ لاہور شفٹ ہوگئے۔ پھپھو سے ملاقات ہوئی تو وہ ہم سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے دو بچے تھے۔ بیٹا بڑا اور بیٹی میری ہم عمر تھی۔ وہ ہم سے یوں گھل مل گئے جیسے برسوں کے بچھڑے ملتے ہیں۔
نیا گھر بہت اچھا تھا۔ مگر کالج میں داخلے کا مرحلہ درپیش تھا۔ پھپھو کی بیٹی نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ اس نے کہا تم ہمارے کالج میں داخلہ لے لو۔ وہی مجھے اپنے ساتھ لے گئی اور پھر میں اس کے ساتھ پڑھنے لگی۔ ہم اکٹھی آتی جاتیں تھیں۔ میری اس کے ساتھ گہری دوستی ہوگئ تھی۔ گھر قریب قریب تھے۔ جب جی چاہتا، ایمان کے گھر چلی جاتی اور مل کر اسٹڈی کرتے۔ شہر آکر ابو نے بزنس شروع کیا۔ ان کے بزنس پارٹنر کا بیٹا اپنے والد کے ہمراہ اکثر ہمارے گھر آجاتا۔ اس کا نام شہزاد تھا۔ ابو کو شہزاد سے انسیت ہوگئی اور انہوں نے میرے لیے اس کو پسند کرلیا۔
پھپھو نے بھی دل میں مجھے بہو بنانے کا ارادہ کررکھا تھا۔ میں تو ایمان کی خاطر ان کے گھر آنا جانا رکھتی تھی کہ ہم کلاس فیلو تھیں اور اکٹھے پڑھائی کیا کرتی تھیں۔ میرا دھیان کبھی پھپھو کے بیٹے شکیل کی طرف نہ گیا۔ نہیں جانتی تھی کہ شکیل میرے بارے میں کیا سوچتا ہے اور کیسے جذبات رکھتا ہے۔ میں اپنی پڑھائی میں مگن اردگرد سے بے نیاز رہتی۔
وقت گزرتا رہا۔ یہاں تک کہ میڈیکل کے آخری سال میں آگئی۔ تب پھپھو نے باقاعدہ والدین سے میرے رشتے کی بات کی۔ امی نے کہا۔ ذکیہ آپا! تمہیں تو پتا ہے کہ نویدہ کو ڈاکٹر بننے کا جنون ہے۔ جب تک وہ تعلیم مکمل نہ کرے گی، تب تک تم خاموش رہو۔ ابھی ہم اس کی کہیں شادی نہیں کررہے۔ اطمینان رکھو۔ جب نویدہ کی شادی کا ارادہ کریں گے، سب سے پہلے تمہارا سوچیں گے۔ شکیل نے بی اے کیا تھا۔ اسے ملازمت نہ ملی تو مزید تعلیم حاصل نہ کی بلکہ بیکار کے مشغلوں میں وقت گزارنے لگا۔ وہ اپنے باپ کے بزنس میں بھی ہاتھ نہ بٹاتا تھا جبکہ والد کو نکمے نوجوان نہیں بھاتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے اس بھانجے کے رشتے کو ناپسند کیا۔ وہ میری شادی شہزاد سے کرنے کے آرزومند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شہزاد میں وہ گن ہیں کہ ایک دن بہت ترقی کرے گا۔
انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ مستقبل کے منصوبے سبھی بناتے ہیں پر ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اور بندہ یہ کہہ کر صبر کرلیتا ہے کہ یہی قسمت میں لکھا تھا۔ تاہم جو محنت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اس کا صلہ ضرور عطا کرتا ہے۔ میں نے بھی بہت محنت کی تھی لہٰذا میٹھا ثمر ملا اور ایک روز میں ڈاکٹر کی ڈگری لینے میں کامیاب ہوگئی۔
میرے لیے یہ بڑی کامیابی کا دن تھا۔ خوش تھی کہ اللہ نے محنت رائیگاں نہیں جانے دی تھی۔ میرے دو بھائی کالج میں پڑھ رہے تھے اور بڑا بھائی ابو کے ساتھ فیکٹری جاتا تھا۔ والد کا خیال تھا کہ اب میری شادی ہوجانی چاہیے یا کم از کم رشتہ طے کرلینا چاہیے۔ امی نے مجھ سے بات کی۔ میں ازحد پریشان ہوگئی۔ میں نے کہا۔ امی جان! ابھی تو میں صرف ایم بی بی ایس ہوئی ہوں، میڈیکل کالج کا دروازہ کراس کیا ہے۔ آج کل محض ایم بی بی ایس کی ڈگری لینا کافی نہیں ہے۔ ایک ماہر اور کامیاب معالج بننے کے لیے چار سال کا مزید کورس کرنا لازم ہے۔ مجھے اسپیشلسٹ بننا ہے تب جاکر میرا مستقبل سنورے گا۔ فی الحال مزید چار سال کی مہلت دیجیے۔ اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچ جائوں تو شادی کے بارے سوچیے گا۔ اگر ابھی شادی کے جھنجھٹ میں پھنسا دیں گی تو سخت ڈسٹرب ہوجائوں گی۔ والدہ میرے جذبات کو ہمیشہ سمجھتی تھیں۔ انہوں نے ابو کو قائل کرلیا کہ آپ ابھی سے نویدہ کو شادی کے بندھن میں مت جکڑیں۔ سب لڑکیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اس میں صلاحیت ہے کچھ بن کر دکھانے کی، وہ جنونی حد تک محنتی ہے۔ اس کا دھیان صرف پڑھائی کی طرف ہے۔ شادی جب ہونا ہوگی ہوجائے گی۔ فی الحال جلدی کریں اور نہ میری بیٹی کے ذہن پر دبائو ڈالیں۔ وہ ڈسٹرب ہوگی تو آگے نہ پڑھ سکے گی۔ یوں بھی شادی کے بعد پڑھائی کی تکمیل محال ہوجاتی ہے۔
سب باتیں صحیح ہیں مگر اچھے رشتے بھی تو بار بار نہیں ملتے۔ شہزاد ہمارے ساتھ بزنس میں جم کر کام کررہا ہے۔ بہت دیانتداری اور جانفشانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ لوگ کب تک انتظار کریں گے۔
جسے نویدہ سے رشتہ کرنا ہوگا، وہ انتظار کرلے گا۔ اگر انتظار نہیں ہوسکتا ان لوگوں سے تو کردیں اپنے بیٹے کی شادی جہاں ان کا جی چاہے۔ ضروری تو نہیں بزنس پارٹنر کے بیٹے کو ہی داماد بنائیں۔ کل کاروبار میں اونچ نیچ ہوئی تو سمدھی سے بھی تعلقات خراب اور روپے پیسے کے حساب کتاب کی خاطر داماد سے بھی اَن بَن… یوں بھی یہ رشتہ مجھے کھٹکتا ہے۔ میری بیٹی کو رشتوں کی کمی نہیں ہے۔ جب وہ ایک قابل ڈاکٹر بن جائے گی، ایک سے ایک اچھا رشتہ مل جائے گا۔ بھلا والدہ سے وہ کب جیت سکتے تھے۔ دم سادھ لیا اور میں نے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھانے شروع کردیے۔
ایک روز اسپتال جانے کے لیے سواری کا انتظار کررہی تھی کیونکہ والد گاڑی لے گئے تھے اور دوسری گاڑی بھائی کے پاس تھی۔ اس دن مجھے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہ تھا۔ گھر سے نکلی تو سڑک کے کنارے کسی ٹیکسی کے انتظار میں کھڑی ہوگئی۔ کچھ دیر گزری تھی کہ ایک گاڑی قریب آکر رکی۔ چونک کر دیکھا۔ فرنٹ سیٹ پر فراز براجمان تھا۔ بولا۔ مس نویدہ شاید سواری کے انتظار میں کھڑی ہیں۔ میں اسپتال ہی جارہا ہوں۔ فراز ہمارے ہی شعبے میں تھا۔ وہ میرا ہم جماعت تھا۔ اجنبی نہ تھا۔ مجھے واقعی دیر ہورہی تھی۔ بلاتامل اس کی پیشکش قبول کرلی اور اس کے ہمراہ اسپتال آگئی۔
آج ہماری ایک ہی وارڈ میں ڈیوٹی تھی۔ پہلی بار اس کی جانب توجہ کی تو وہ مجھے اچھا لگا۔ زندگی میں انسان کسی نہ کسی کے بارے سوچتا ضرور ہے کہ اگر اس کا ساتھ مل جائے شاید زندگی اچھی گزر جائے۔ یہ خیال پہلی بار آیا تو ذہن سے جھٹک دیا کہ ابھی اپنا مقصد پانے کے لیے کچھ وقت اور حسنِ کارکردگی پر صرف کرنا چاہیے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو منزل کھوٹی رہ جائے۔ فراز ڈیوٹی کے دوران میری بہت مدد کرنے لگا جس سے تھکن کا احساس کم ہوجاتا اور سکون بھی ملتا۔ ہم کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر اکٹھے لنچ کرلیتے۔ اس دوران باتیں بھی ہوجاتی تھیں۔ جس روز کسی وجہ سے وہ نہ آتا، اس کی سخت کمی محسوس ہوتی اور رات بھر سو نہ پاتی۔
کورس مکمل ہونے میں ایک سال رہ گیا تھا تب امی نے کہا۔ بیٹی تمہاری پھوپی دبائو ڈال رہی ہیں کہ ہم انہیں تمہارا رشتہ دیں اور ادھر شہزاد کے والد تمہارے والد کے کان کھا رہے ہیں کہ کم از کم منگنی ہی کرلیں۔ سال بعد شادی ہوجائے گی۔
امی کی بات سنی۔ میرے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ماں، باپ کتنے بھولے ہیں۔ امی کیا کہہ رہی ہیں اور ابو کیا سوچ رہے ہیں۔ دونوں یہ نہیں سوچتے کہ ان کی بیٹی بھی اپنے لیے کچھ سوچ سکتی ہے۔ مجھ سے نہیں پوچھتے کہ بیٹی تم نے کیا سوچا ہے اپنی زندگی اور اپنے جیون ساتھی کے بارے میں…! کیا صرف وہی میری شادی کے بارے سوچ سکتے ہیں۔ کیا صرف انہی کو یہ اختیار ہے۔ خود میں اپنے جیون ساتھی کو منتخب کرنے کا حق نہیں رکھتی کیا۔
امی، ابو اپنے خیالوں میں داماد کا تصور سجائے بیٹھے تھے جبکہ میرے دل کے تخت پر ڈاکٹر فراز براجمان ہوچکا تھا۔ والدین کے خیال میں یقیناً ان کے فیصلے درست تھے اور میں اپنی ذات اور دلی خوشی کے لیے فراز کے حق میں ووٹ دے چکی تھی۔ اپنے فیصلے کو زیادہ حقیقت پسندانہ اور دانش پر مبنی سمجھ رہی تھی۔ میں جو ایک ڈاکٹر تھی، ماہر معالج بننے کے لیے مزید محنت کررہی تھی۔ اتنی فراست تو رکھتی تھی کہ اپنے لیے موزوں جیون ساتھی منتخب کرسکوں۔
ایک دن جبکہ ہم کیفے ٹیریا میں لنچ کررہے تھے۔ اس نے کہا۔ نویدہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ کیا مجھ سے شادی کریں گی؟ کتنا سیدھا سادہ سوال تھا مگر کس قدر مشکل جواب تھا اس سوال کا… میں سنتے ہی پریشان ہوگئی حالانکہ یہی میرے دل کی آواز تھی۔ دلی جذبات کو اس پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ کہا کہ والدین سے بات کرکے جواب دوں گی۔
فراز نے مجھے بتایا تھا کہ وہ خوشحال والدین کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ایک بڑے سے گھر میں وہ صرف تین افراد ہی رہتے تھے۔ ماں، باپ اور فراز… لہٰذا ماں، باپ چاہتے ہیں کہ اب ان کی فیملی میں ایک اچھی بہو کا اضافہ ہوجائے۔
میں نے والدہ کو فراز کے بارے میں بتا دیا۔ ان کا ووٹ پھپھو کے حق میں تھا جبکہ والد شہزاد کو داماد بنانے پر ڈٹے تھے۔ کافی انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ اماں نے دلائل دیے کہ اپنے پھر اپنے ہوتے ہیں۔ پھپھو تمہاری تم سے بہت پیار کرتی ہیں۔ شکیل برسرِ روزگار ہوچکا ہے۔ تمہارے مقابلے میں اس کی تعلیم کم سہی مگر گریجویٹ ہے۔ چٹّا اَن پڑھ تو نہیں ہے۔ سوچو کہ اپنوں کی محبتیں اور چاہتیں انمول ہوتی ہیں، غیر پھر غیر ہوتے ہیں۔ یہ اماں جان کی فلاسفی تھی اور والد صاحب کی سوچ کہ شہزاد بہترین معاملہ فہم اور کاروباری ذہن کا شخص ہے۔ وہ اگر مٹی کو ہاتھ لگائے تو سونا بن جائے۔ یہ لڑکا کھو دیا تو سمجھو کہ بہترین موقع گنوا دیا۔
سال بھر امی، ابو کو قائل کرنے میں لگا۔ بالآخر میں جیت گئی۔ میری خوشی کے آگے انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ یوں کورس مکمل ہوتے ہی ہم دونوں کی دھوم دھام سے منگنی ہوگئی۔ منگنی کے چند ہفتوں بعد فراز نے بتایا کہ اسے امریکا جانا ہے۔ مزید پڑھائی کرنی ہے۔ دو سال بعد لوٹ سکوں گا۔ پھر ہماری شادی ہوجائے گی۔ منگنی تو ہوچکی تھی۔ مجھے فراز پر اعتماد تھا۔ دل اداس ضرور ہوا مگر میں نے اسے ڈِس ہارٹ نہ کیا کیونکہ جانتی تھی کہ جنہیں پڑھنے کا جنون ہوتا ہے، لگن ہوتی ہے، وہ ایک تند و تیز دریا کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کا راستہ روکنا گویا دریا کو کوزے میں بند کردینا ہوتا ہے۔ میں اسے کسی طور الجھن میں نہ ڈالنا چاہتی تھی۔
جاتے ہوئے فراز نے مجھے اپنے دوست اظہار کا نمبر دیا کہ اگر امریکا میں مجھ سے رابطہ نہ ہوسکے تو اس سے میرے بارے میں فون کرکے معلوم کرلیا کرنا اور پریشان مت ہونا۔
دو سال، دو صدیوں کے برابر لگے مگر میں اس کا انتظار کرتی رہی اور آنے والے دنوں کے بارے میں سہانے خواب دیکھتی رہی۔ وقت گزرتا گیا۔ دو سال بیت گئے۔ شروع دنوں میں روز فون آتا پھر وقفے بڑھتے گئے۔ کہتا کہ پڑھائی میں مشغول ہوگیا ہوں، فرصت نہیں ملتی۔ رفتہ رفتہ بالآخر رابطہ ختم ہوگیا۔
سخت پریشان تھی کہ مجھ سے بات نہیں کررہا۔ میرے ابو، امی پوچھتے، فراز کب آئے گا اور میں جھوٹ بول دیتی کہ جلد آنے والا ہے۔ جب اس نے عرصے تک رابطہ نہ کیا تو دل کا چراغ بجھنے لگا۔ میں نے اس کے دوست اظہار کو فون کیا۔ پہلے وہ بھی صاف بات کرنے کو تیار نہ تھا۔ بالآخر اسے مجھ پر ترس آگیا۔ بتا دیا کہ فراز کو بھول جائو۔ اس نے امریکا میں ایک دولت مند عورت سے شادی کرلی ہے کہ اسے یہاں کی شہریت چاہیے تھی۔ مجھے جس بات کا بالکل ڈر نہ تھا، وہ بات ہوگئی یعنی ایک ناقابلِ یقین بات ہوگئی۔
جب والدین نے بار بار اصرار کیا کہ فراز کا نمبر دو۔ ہم خود بات کرتے ہیں تو میں نے انہیں بتا دیا کہ نمبر پر بات نہیں ہوسکتی۔ اس نے وہاں شادی کرلی ہے، وہ اب یہاں نہیں آئے گا۔ یہ اطلاع ان کے لیے بہت تکلیف کا باعث تھی مگر ان سے چھپانا بھی مناسب نہ تھا کیونکہ وہ دن، رات شادی کی تیاریوں میں لگے تھے۔
والدین بہت دکھی رہنے لگے۔ وہ ہر حال میں میری شادی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے لیکن ان کی نظر میں کوئی مناسب رشتہ نہ تھا۔ شہزاد کی شادی ہوچکی تھی اور پھپھو بھی ہم سے مایوس ہوکر بیٹے کے لیے دلہن لے آئی تھیں۔ ان کی نظروں میں بس یہی دو رشتے تھے میرے لیے اور خود میرا دل ایسا ٹوٹا کہ اب شادی کا تصور ہی سوہانِ روح ہوگیا تھا۔
پانچ سال بعد جب میں ادھیڑ عمر ہوگئی، ایک سرجن صاحب کا رشتہ آگیا۔ وہ شریف آدمی تھے۔ باہر سے آئے تھے۔ والد کے ایک دوست کے بھانجے تھے اور تقریباً دس برس مجھ سے بڑے تھے۔ والد نے اتنی منت سماجت کی کہ میرے آنسو نکل آئے۔ سوچا جنہوں نے مجھ سے سچی محبت کی، جن ہستیوں نے مجھے پال پوس کر اس لائق کیا، آج میں انہیں کیا خوشی نہیں دے سکتی۔ والدین کی خوشی کی خاطر میں نے سرجن طاہر سے شادی کرلی۔
میری شادی کے دو سال بعد فراز وطن واپس آگیا۔ جس عورت سے شادی کی تھی، اس نے طلاق لے لی اور اب وطن کی یاد ستائی تو میری یاد بھی آگئی۔ وہ ہمارے گھر گیا۔ امی نے بتا دیا کہ نویدہ کی شادی ہوگئی ہے۔ یہ سن کر جیسے اس پر پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ جانے وہ کیا سوچ کر آیا تھا کہ میری مشرقی منگیتر ابھی تک اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی ہو گی۔
اپنی ماں کی خوشی کے لیے فراز نے اپنی خالہ زاد سے شادی کرلی مگر اس لڑکی سے بھی نہ بنی۔ وہ اس قدر لڑتی جھگڑتی تھی کہ ساس، سسر اور فراز تینوں کا جینا حرام کر ڈالا۔ وہ بیمار پڑ گیا اور پچھتاوا اس کا مقدر بن گیا۔ فراز دنیا میں ایسا ہی نصیب لکھوا کر لایا تھا کہ نہ ملی دولت اور نہ ہی ملی اسے اچھی شریک حیات۔ شاید اسی کو کہتے ہیں کھیل مقدر کا۔ (تزئین … کراچی)