انکل اجمل عرصے سے ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ جب ان کے بیٹے کو نوکری ملی تو ماں نے شادی کی رٹ لگادی۔ یتیم بھتیجی موجود تھی۔ سو، گھر کا لڑکا گھر کی لڑکی ، چٹ منگنی کی بھی ضرورت نہ پڑی، البتہ پٹ بیاہ ہو گیا اور بیس برس کی عمر میں خیر سے سالار دلہن والے ہو گئے۔ جب ان کا بیاہ ہوا، پڑوسی ہونے کے ناتے ہم بھی گئے تھے ، ان دنوں میں نو سال کی تھی۔ دلہن اچھی تھی، ہم نے پہلے بھی دیکھی ہوئی تھی۔ میں ان کو آپا سدرہ بلاتی تھی۔ یہ چھوٹی تھیں کہ والدین وفات پاگئے۔ سالار کے والد ، ان کو گھر لے آئے۔ یہ ان ہی انکل کے گھر پلی بڑھی، جب سترہ سال کی ہوئی تو سالار کے ساتھ بیاہ دیا۔ وقت گزرنے لگا۔ میں نے میٹرک کر لیا، تب تک چھ برس میں آپا سدرہ چھ بچوں کی ماں بن گئیں۔ چار بچے تو نار مل ہو گئے مگر دو بعد میں جڑواں یوں گھر میں ان کے رونق کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ آپا بچوں میں کھو گئیں۔ ان کی زندگی میں کوئی خاص حسن نہیں تھا اور اس کا ان کو شعور بھی نہ تھا۔ ادھر سالار بھی سپاٹ کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے ذہن میں جیون ساتھی کا آئیڈیل بننے بھی نہ پایا تھا کہ انہی کے گھر میں پرورش پانے والی ان کی کزن بیوی بن گئی۔ شروع کے دو سال دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش نظر آتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سالار کی توجہ ماند پڑ گئی اور وہ دوست و احباب میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ گھر میں گھرداری چلتی رہی اور باہر دوستوں کے ساتھ ہلا گلا ، سیر و تفریح۔ تنخواہ بھی بڑھ گئی۔ اس روٹین میں ہر سال بچوں کا بھی اضافہ ہوتارہا۔ چار بار ان کے ہاں جڑواں بچے ہوئے۔ قدرت کے راز قدرت ہی جانے ، تاہم اتنے سارے بچوں کے نصیب سے ان کی ترقی بھی جلد جلد ہوتی گئی اور رزق میں بھی اللہ نے بہت برکت ڈال دی۔ اب انہوں نے ایک جنرل اسٹور بھی کھول کر سدرہ کے بھائی کے سپرد کر دیا، جو بہن کے ساتھ انہی کے گھر پلا تھا اور اب بڑا ہو گیا تھا۔ اس نے اسٹور بہت اچھی طرح سنبھالا اور ادھر سے بھی رزق کا بابرکت دروازے کھل گیا۔ جب شادی کو پچیس برس گزر گئے تو یہ بیس بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ اس بات کا شاید کسی کو یقین نہ آئے کہ ایک ہی بیوی سے میں بچے مگر کبھی کبھی انہونیاں بھی ہوتی ہیں۔ اب سالار صاحب چالیس کے ہو رہے تھے۔ یہی عمر در اصل سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرنے والی ہوتی ہے۔ اب زندگی کے اس سنگ میل پر ان کو احساس ہو چلا تھا کہ در اصل وہ ایک خالی خولی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بیوی جسمانی تقاضوں کی امین ضرور تھی مگر روحانی مسرتوں کا سبب نہ بن سکی تھی اور اب تو کبھی کبھی شدت سے یہ چاہ ہوتی کہ اے کاش کوئی ایسی لڑکی ہم سفر بن جائے، جس کے ساتھ وقت بسر کر کے ان کو روحانی خوشی بھی حاصل ہو۔ اتفاق سے میرے شوہر اقبال کی سالار سے دوستی تھی۔ وہ دل کا حال اقبال سے کہا کرتے تھے۔ انہوں نے نوکری چھوڑ کر میرے میاں کے ساتھ شراکت کر لی تھی۔ اقبال اسپیئر پارٹس کا کاروبار کرتے تھے۔ انہوں نے سرمایہ لگایا۔ دونوں کے مقدر کے ستارے ایسے موافق نکلے کہ چار گناہ زیادہ منافع ہونے لگا اور دیکھتے دیکھتے خوشحالی نے اقبال اور سالار دونوں کے گھروں میں ڈیرے ڈال دیئے۔
جن دنوں سالار کے گھر بیسواں بچہ ہوا، وہ مالی طور پر مستحکم ہو چکے تھے۔ گاڑی تھی ، اچھا مکان تھا، کافی بینک بیلنس تھا۔ بیسویں بچے پر خاندان کے کچھ لوگوں نے آکر سدرہ سے کہا کہ اگر ہمیں بچے ایک عورت سے پیدا ہو جائیں تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور دوبارہ نکاح کرانا پڑتا ہے۔ سدرہ نے جب یہ بات شوہر کو بتائی تو سالار نے بات کو ہنسی میں ٹال دیا مگر آپا سدرہ کے دماغ میں اگر کوئی بات بیٹھ جاتی تو پھر مشکل سے ہی نکلتی تھی۔ وہ ہاتھ دھو کر اپنے شوہر کے پیچھے پڑ گئیں کہ دوبارہ نکاح کا بندوبست کرو، ورنہ کہیں ہم گناہگار نہ ہو جائیں۔ جب بیوی نے کئی بار یہ بات دوہرائی تو سالار بھی سوچ میں پڑ گئے۔ وہ اپنے شہر کے مولویوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ بہتر ہے نکاح دوبارہ پڑھوا لو، اس میں حرج کیا ہے۔ خیر ، سالار نے سوچا کہ دوبارہ نکاح میں کوئی ہرج نہیں، چلو، اس کا اہتمام کر ہی لیتا ہوں۔ کم از کم اس طرح میری بیوی تو مطمئن ہو جائے گی۔ اپنی فرمانبردار بیوی کو راضی رکھنا بھی تو نیکی کا کام ہے۔ سالار صاحب جب دوبارہ نکاح پڑھوانے کا اہتمام کر رہے تھے انہی دنوں اچانک ان کے دل میں ایک عجیب سی خواہش نے جنم لیا۔ انہوں نے اقبال سے کہا۔ یار اگر دوبارہ نکاح ہونا ہی ہے تو دلہن وہی پرانی کیوں ؟ اس کی جگہ گھونگٹ میں نیا، نو عمر اور خوبصوت مکھڑا نظر آجائے تو کیا برا ہے، مگر یہ کیونکر ہو سکتا تھا۔ جوان اولاد کی موجودگی میں ، کسی لڑکی کو دوسری بیوی بنانے پر راضی کرنا، خواب کی باتیں معلوم ہوتی تھیں۔ اقبال جانتے تھے کہ سالار ایک شریف آدمی ہیں۔ ان کا بیوی کے سوا کسی اور عورت سے تعلق بھی نہیں رہا تھا اور نہ کسی لڑکی سے کسی قسم کا واسطہ یا معاشقہ تھا۔ ان کی بڑی لڑکی کو انہی دنوں ایک استانی گھر پر پڑھانے آیا کرتی تھی۔ چہرے پر کشش میں سال عمر اور کافی غریب گھرانے کی تھی۔ رکھ رکھائو سے نیک چلن اور شریف نظر آتی تھی۔ اس کا نام امینہ تھا اور بقول سالار کے ، جب وہ گھر آتی تو اس کے آنے سے ایک خوشگواری سی محسوس کرتے تھے۔ وہ جب بھی کبھی دوکان سے گھر چکر لگانے جاتے، یہ وہی وقت ہو تا جب امینہ ان کی لڑکی کو پڑھانے کے لئے موجود ہوتی۔ سالار کو دراصل یہ استانی لا شعوری طور پر بھا چکی تھی مگر شرافت کا خول بھی ان پر خاصا دبیز تھا کہ انہوں نے کبھی اس حقیقت کا خود سے بھی اعتراف نہیں کیا کہ وہ امینہ کو پسند کرتے ہیں۔ جب دوبارہ نکاح کی بات ہونے لگی تو دل نے سوال کیا۔ دوبارہ نکاح بھی اسی پرانی بے کیف عورت سے ہو گا؟ دل کی باتیں، جو کوئی کسی کو نہیں بتاتا مگر سالار صاحب، اقبال کو بتا دیا کرتے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ ایک روز ٹھیک اس وقت گھر سے نکلے جب امینہ ان کی لڑکی کو پڑھا کر جا رہی تھی۔ انہوں نے گاڑی اس کے پاس جا کر روک لی اور کہا کہ آئو میں تم کو تمہارے گھر تک چھوڑ دوں۔ وہ سالار پر اعتبار کرتی تھی کیونکہ ان کی بیٹی کی استانی تھی اور کئی برسوں سے اس بچی کو ٹیوشن پڑھانے آرہی تھی۔ اس دوران کبھی انہوں نے اس پر غلط نگاہ نہ ڈالی تھی۔ وہ بلا جھجھک ان کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ سالار نے جب اسے اس کے گھر پر اتارا تو امینہ نے اخلاقا کہا۔ انکل آئیے ! ہمارے گھر تشریف لائیے۔ وہ تو یہی چاہ رہے تھے۔ جھٹ گاڑی سے اترے اور امینہ کے مکان میں چلے گئے۔ گھر کیا تھا، ٹوٹا پھوٹا جھونپڑا تھا۔ ایک کوارٹر ، جس کی چھتیں بھی ٹین کی تھیں۔ دیواروں کا پلستر جھڑ رہا تھا اور چھت میں ننھے منے شگاف تھے۔ یقیناً چھت بارش کو نہ روک پاتی ہو گی۔ گھر میں کچھ معمولی سا سامان تھا۔ ایک بیوہ ماں ، دو چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی جو میٹرک کا امتحان دے چکا تھا اور اب آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکتا تھا۔ گھر کے حالات سن کر اور ایک پیالی چائے پی کر سالار نے خود سے اقرار کر لیا کہ وہ غلط جگہ نہیں آئے۔ انہوں نے امینہ کو دوسرے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا اور اس کی ماں سے بات چھیڑی۔ امینہ کی ماں ، سالار کی بات سن کر حیران اور ہکا بکا رہ گئی۔ اس کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا کہ اتنے بچوں کا باپ اس کی بیٹی کا اپنے لئے رشتہ مانگ رہا ہے لیکن جب سالار نے اس مفلسی کی ماری کو ایک مکان امینہ کے نام لکھ دینے کا وعدہ کیا، جس میں وہ اور اس کے بچے تا حیات رہ سکتے ہیں، ساتھ اس کے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی پیش کش کی تو بڑی بی رو پڑی۔ بولی۔ ٹھیک ہے ، مجھے آپ کا رشتہ منظور ہے۔ اپنے دوسرے بچوں کے مستقبل کی خاطر ، میں یہ رشتہ کرنے پر تیار ہوں۔ یہ تو بتائیے کہ شادی ہو گی کیسے ؟ تب سالار نے بتایا کہ میں اپنی پہلی بیوی سے دوسرے نکاح کی تقریب کرنے والا ہوں۔ اسی دن پہلی بیوی کے ساتھ تجدید نکاح سے پہلے میں تمہارے گھر پر آئوں گا۔ تم امینہ کو دلہن بنا رکھنا۔ گواہ اور مولوی بھی میں ہی لائوں گا۔ تم نے کوئی زحمت نہیں کرنی۔ میرا اصل نکاح یہاں تمہاری لڑکی سے ہو گا اور تجدید نکاح گھر پر ، جس میں رشتہ دار بھی آسکیں گے۔ اس طرح ایک پنتھ دو کاج ہو جائیں گے۔ سالار نے امینہ کی امی کو اسی وقت پچاس ہزار روپے بھی دیئے کہ یہ شادی کے جوڑے کے لئے رکھو اور زیور میں خود لے کر آئوں گا۔
امینہ کے گھر سے نکل کر سالار کافی خوش اور مسرور تھے۔ محبت کا چکر بھی نہ چلانا پڑا، نہ ہی بار بار محبوب کے در پر جانا پڑا اور نہ اس کی والدہ سے منت سماجت کرنا پڑی۔ افلاس کی ماری بیوہ کو بغیر منت کے منالیا۔ صرف ضرورت مندوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی اور امینہ کا رشتہ چٹکی بجاتے مل گیا۔ جس روز دوبارہ نکاح کی تقریب ہونا تھی، اس سے چار دن قبل قریبی عزیزوں اور محلے داروں کو خبر کی گئی کہ میں مسمی سالار خان ولد اجمل خان کا تجدید نکاح بوجہ حد کثرت اولاد، میں بچوں کے باعث زوجہ محترمہ سدرہ بیگم بنت ٹوٹ گیا ہے لہٰذا اب میں تجدید نکاح کی تقریب منعقد کروارہا ہوں۔ جس میں دوبارہ سہرا باندھوں گا اور میری بیگم دوبارہ دلہن بنے گی۔ آپ سے شرکت کی درخواست ہے۔ سدرہ آپا نے مقررہ دن اپنا میں سال پرانا نکاح کا جوڑا، جو انہوں نے بہت سنبھال کر رکھا تھا، دوبارہ ا زیب تن کیا۔ سالار بھی سہر ا باندھ چکے تھے کہ اچانک وہ تھوڑی دیر کے لئے مولوی صاحب کو لانے کا کہہ کر محفل سے غائب ہو گئے۔ امینہ کے گھر پر ان کے صرف چار پانچ قریبی عزیز ہی موجود تھے۔ خاموشی سے نکاح ہوا اور وہ دوسرے دن آنے کا کہہ کر ، نئی دلہن کو اس کی ماں کے گھر چھوڑ کر اپنے گھر اپنے نکاح کی تقریب میں آگئے۔ دوسری دلہن کا شوق سالار صاحب کو کافی مہنگا پڑا، کیونکہ جب پہلی بیوی کو ان کی اس حرکت کا علم ہوا تو انہوں نے شدید احتجاج کیا۔ یہی نہیں ان کے بچوں کی ساری پلٹن بھی ماں کی ہمنوا بن گئی کہ ایک وقت میں دو عورتوں سے نکاح ہوا ہی نہیں۔ نکاح تو صرف اس سے ہوا جس کے ساتھ اس روز پہلے جا کر نکاح کے کلمات پڑھے بلکہ آپا سدرہ نے شور مچادیا کہ ان کا نکاح جو ٹوٹ گیا تھا ابھی تک ٹوٹا ہوا ہی ہے اور اب اس کو جوڑنے کی حاجت بھی نہیں ہے کہ سالار میاں نئی نویلی دلہن امینہ سے نکاح پڑھوا چکے ہیں۔ آپا سدرہ جیت گئیں کہ ان کی پارٹی بہت مضبوط تھی۔ سارے بچے ان کے ساتھ تھے اور چھوٹے دو نا سمجھ طفلان کے سوا باقی سب کے سب باپ کے خلاف سینہ سپر ہو گئے تھے۔ ان کو پسپا ہونا ہی تھا، سو وہ گھر سے نکال دیئے گئے اور پہلی بیگم نے ان کو مزید شوہر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ناچار منہ لٹکائے اپنی دوسری دلہن کے پاس بوریا بستر لے کر آنا پڑا۔ اچھا سا مکان خریدا، اس میں نیا فرنیچر ڈلوایا، کپڑے جوتے وغیرہ بھی نئے خریدے کیونکہ اب ان کا داخلہ اپنے اصل گھر میں بند کر دیا گیا تھا۔ خوش قسمتی کہنا چاہیے کہ اب تک ان کے والدین حیات تھے مگر وہ بھی بڑی بہو کے ساتھ تھے۔ صرف وہی نہیں ان کے تمام رشتہ دار برادری آپا کے ہے کے ہمراہ تھی۔ آپا سدرہ بہت کٹھور نکلیں۔ انہوں نے دوبارہ شوہر کو نہ تو شوہر مانا اور نہ صلح قبول کی، البتہ وہ ان سے میں بچوں کا خرچہ باقاعدگی سے ہر ماہ ٹھوک بجا کر لیتی تھیں۔ اس واقعے کو کافی برس گزر گئے ہیں۔ خدا کی کرنی کہ امینہ کہ اللہ تعالی نے اولاد نہ دی۔ دونوں میاں بیوی اب بھی ساتھ رہتے ہیں مگر بقول سالار ، مجھے آج بھی سکون نہیں ہے، کیونکہ میرے بچے مجھے برا سمجھتے ہیں اور مجھ سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ امینہ ہر لحاظ سے اچھی ہے وہ سالار کا بہت خیال رکھتی ہے۔ ان سے محبت کرتی ہے سلیقہ شعار ہے۔ ماں ان کے ساتھ رہتی ہے۔ بھائی کو پڑھنے کے لئے سالار نے بیرون ملک بھجوادیا اور چھوٹی بہنوں کی شادیاں کرادیں۔ یہ فرائض اور وعدے بھی انہوں نے پورے کیے۔ ان کو ان کے آئیڈیل جیسی بیوی بھی امینہ کی صورت میں مل گئی مگر دل کو سکون نہیں ہے۔ جب مجھے اور اقبال کو سالار اور امینہ نے اپنے گھر دعوت پر بلایا تھا تو میں نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا جس کا جواب سالار صاحب نے یہ دیا کہ نئی بیوی بے شک میرے آئیڈیل کے مطابق ہے مگر پرانی رفیقہ حیات سے بچھڑ کر بھی میں افسردہ رہتا ہوں کہ وہ بھی میری تابعدار ، وفادار ، نیک اور سلیقہ شعار تھی۔ مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ جب یہ سوچتا ہوں کہ وہ دوسری شادی کی وجہ سے مجھ سے بچھڑ گئی تو دل بے سکون ہو جاتا ہے۔ مرد در اصل دوسری شادی سکون کے لئے کرتا ہے مگر میرا تجربہ مختلف رہا۔ اگر میری پہلی بیوی دوسری بیوی کو قبول کر لیتی تو شاید مجھے سکون مل جاتا۔