میں ایک باپردہ لڑکی تھی، کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی۔ والد کی وفات کے بعد جب مالی حالات بہت خراب ہوئے تو قدم دہلیز سے باہر رکھناپڑے۔ باہر کی دنیا میں قسم قسم کے لوگ ملے۔ میں لوگوں کے روپ پہچانتی نہ تھی، ہر کسی کو اچھا سمجھتی تھی۔ کیا کرتی حالات کے جال میں جکڑی ہو ئی تھی ،ملازمت تو کرنی تھی۔
کئی دفاتر میں گئی، کہاں کہاں درخواستیں نہ دیں، ملازمت نہ ملی۔ بالآخر ایک سہیلی کے بھائی نے مدد کی اور ایک این جی او میں نوکری مل گئی۔ ہماری ڈیوٹی مختلف پناہ گزین کیمپوں میں لگتی۔ جو تارکین وطن اپنے ملک کے جنگی حالات سے گھبرا کر آئے تھے اور ہمارے ملک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، ان کی بے بسی دیکھ کر بعض اوقات آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔
یہ پڑوسی ملک کے باشندے شہروں سے کچھ دور خیمہ بستیوں میں رہتے تھے۔ ان دنوں میرے ساتھ ایک میڈیکل آفیسر کام کر رہا تھا جو ان خیمہ بستیوں میں بیمار لوگوں کے علاج معالجہ میں مددگار تھا۔ وہ بہت نفیس قسم کا تھا۔ نرمی اور اخلاق سے بات کرتا، جو لوگ اس کے ساتھ کام کرتے تھے سب سےہی حسن ِسلوک سے پیش آتا، ہر کسی کی مدد کرتا اور جب مجھے کسی قسم کا تعاون چاہئے ہوتا تو وہ پیش پیش ہوتا۔ اس کا نام معین الدین تھا، ہم اسےمعین صاحب بلاتے تھے۔
ایک دن میں بازار میں کچھ ضروری اشیاء لینے گئی کہ اچانک وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ شاید کہیں قریب دھماکا ہوا تھا۔ آواز تو ہم نے بھی سنی تھی۔ سب ہی لوگ گھبرا کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ میں بھی گھبرا گئی۔ ہر کوئی سواری ڈھونڈ رہا تھا تاکہ اس جگہ سے نکل پڑے۔ ایسے میں سواری ملنا آسان نہیں ہوتا تب ہی دل سے دعا نکلی۔اے کاش کوئی اپنا نظر آ جائے جو مجھے یہاں سے دور لے جائے۔ دل پر بہت زیادہ خوف و ہراس طاری تھا۔
دل سے نکلی یہ بے اختیار دعا قبول ہو گئی۔ کسی نے میرے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے شاپر تھام لئے، دیکھا تو یہ معین صاحب تھے۔ میری جان میں جان آ گئی۔ وہ بولے۔چلو میرے ساتھ۔
سڑک پار ان کی گاڑی موجود تھی۔ جلدی سے ہم گاڑی میں بیٹھ کر بازار سے محفوظ سڑک کی طرف نکل آئے۔ کچھ دور آگے جا کر ایک ریستوران کے سامنے انہوں نے گاڑی روک لی۔ بولے۔ آئو چائے پی کر تھوڑا سا فریش ہو جائیں۔ اوسان بحال کر لوں، گاڑی بھی ٹھیک طرح سے نہ چلا پا رہا تھا۔
میں نے اس وقت انکار مناسب نہ سمجھا، انکار کی گنجائش نہ تھی۔ ہم ریسٹورنٹ کے اندر جا بیٹھے۔ چائے کی بجائے انہوں نے کھانے کا آرڈر دے دیا کیونکہ دوپہر ہو رہی تھی اور یہ چائے کا نہیں کھانے کا وقت تھا۔ لنچ کے دوران وہ بے تکلفی اور اپنائیت سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ میری بھی تعریف کی لیکن میں نے اپنی تعریف کو سنجیدگی سے نہ لیا کیونکہ مرد لوگ لڑکیوں کی اس طرح سے تعریف کرتے ہی ہیں۔ یوں بھی میں اچھی شکل و صورت کی مالک تھی اس لئے تعریف کچھ اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
ڈیوٹی کے دوران اب ہم بے تکلف دوستوں کی طرح بات کرتے۔ اجنبیت اپنائیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اکثر وہ مجھے ساتھ کھانے کا کہتے اور میں مان جاتی۔ شاید کہ زندگی کی بے رنگی اور انتھک محنت سے گھبرا گئی تھی۔ اب تو زیست کی تپتی دھوپ میں معین کا وجود ایک سایہ دار شجر کی طرح تھا۔ اس کا ساتھ میرے لئے بڑا خوشگوار تھا۔ زندگی سہل لگنے لگی، ملازمت بھی مشقت نہیں لگتی تھی۔ اب وقت کا ایک ایک لمحہ جو پہلے اپنے وجود پر بھاری قدموں سے چلتا محسوس ہوتا تھا، پھولوں کی مانند ہلکا پھلکا لگنے لگا تھا۔ سال گزر گیا اور پتابھی نہ چلا۔
دوسری بار ہمیں اس شہر سے دوسرے قریبی شہر میں آباد خیمہ بستیوں کے باسیوں کی خدمت و خبر گیری کا ذمہ سونپا گیا تھا۔ ہم نے یہاں اکٹھے چند ہفتے کام کیا تھا کہ معین صاحب کی ڈیوٹی ایک اور کیمپ میں لگا دی گئی۔
مجھے یہاں اس کے بغیر کام کرنا تھا۔ معین کے جانے سے شدت کے ساتھ اس کی کمی محسوس ہونے لگی جیسے سر سے کوئی حفاظت کرنے والا ہاتھ ہٹ گیا ہو۔ اداس رہنے لگی۔ یقین تھا وہ ضرور آئے گا یا اپنے کیمپ میں میری تعیناتی کرا لے گا۔ اسی آس میں دن گزارنے لگی۔ لگتا تھا جیسے کہ میں اس کے بغیر ادھوری ہوں۔ وہ میرا کچھ نہ لگتا تھا پھر بھی اپنا سا لگتا تھا۔
دو ماہ بعد وہ ایک دن ’’وزٹ‘‘ پر ہمارے کیمپ آیا، بتایا کہ وہ بھی میرے بغیر خود کو ادھورا خیال کرتا ہے اور اسے بھی تنہائی عذاب لگتی ہے۔ شاید کہ یہی وہ وقت تھا جب کسی وقتی جذبے کے تحت اس نے مجھے شادی کی پیشکش کر دی۔
اس کی زبان سے ایسے کلمات سننے کو میں ترس رہی تھی۔ دل پھول کی طرح کھل اٹھا۔ بہت خوش تھی۔ درحقیقت یہی وہ گھڑی تھی جس کا مجھے عرصےسے انتظار تھا۔ مستقبل واضح میرے سامنے تھا اور میں پرسکون تھی۔ انجان رستوں کے پیچ و خم اب مجھے نہیں ڈراتے تھے۔ امی کو بتایا کہ آپ میری فکر نہ کریں بلکہ چھوٹی کی فکر کریں کیونکہ مجھے میری منزل مل گئی ہے۔
میں یکسوئی سے ڈیوٹی سرانجام دینے لگی۔ جب وزٹ پر معین آتا، ہم ڈیوٹی کے بعد وقت گزارنے باہر نکل جاتے تھے۔ وہ اچھی اچھی باتیں کرتا اور مجھے مستقبل کے روشن خواب دکھاتے نہ تھکتا۔ چھ ماہ بعد اس نے میری تعیناتی اپنے کیمپ میں کروا لی۔ ہم پھر یکجا ہو گئے۔ یہ کیمپ میرے گھر سے کافی دور تھا۔ معین کو رہائش گاہ ملی ہوئی تھی اور میرا یہاں رہائش کا مسئلہ سنگین تھا۔ کچھ دن ایک کولیگ لڑکی کے گھر رہتی رہی مگر کب تک کوئی کسی کے گھر مہمان رہ سکتا ہے؟ اپنی رہائش کا بندوبست تو کرنا ہی تھا۔
معین نے مجھے کہا ۔اگر چاہو تو میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔
مگر کس حیثیت سے؟ ہمارے ساتھ کام کرنے والے کیا اس بات کو برداشت کر لیں گے۔
اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہم شادی کر لیں، تب ساتھ رہنے پر کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔
ہم دونوں کے کچھ گھریلو مسائل تھے کہ فوری طور پر شادی نہ کر سکتے تھے۔ اس کا حل معین نے یہ نکالا کہ نکاح کر کے ساتھ رہ سکتے ہیں، رخصتی بعد میں بزرگوں کی موجودگی میں ہو گی۔ میں نے مان لیا۔ مجھے معین پر پورا بھروسہ تھا۔
جس این جی او میں ہم کام کر رہے تھے اس کے دو ساتھی دوستوں کو معین نے گواہ بنایا اور دوسرے دو کو میں نے بنا لیا اور ہم نے چار کولیگ کی موجودگی میں نکاح کر لیا۔ اس طرح تمام ساتھی ورکرز کو بھی علم ہو گیا کہ ہم نے نکاح کیا ہے۔ ہم ساتھ رہنے لگے۔ کسی کو اب ہم پر اعتراض کرنے کی جرأت نہ تھی۔ نکاح نامہ میرے پاس تھا اور سب ہم کو میاں، بیوی کے طور پر جانتے اور سمجھتے تھے۔ کسی کو اس سے غرض نہ تھی کہ ہمارا یہ نکاح باقاعدہ رجسٹرڈ ہوا ہے کہ نہیں اور رخصتی ہوئی ہے یا نہیں۔ ہم نے گھرداری کا سارا سامان اکٹھے خریدا۔ برتن، ٹی وی سیٹ حتّیٰ کہ دیاسلائی تک۔
اس کیمپ کی خدمت میں ہم دو برس ساتھ رہے۔ وہاں سب ہم کو میاں، بیوی کی حیثیت سے ہی جانتے تھے۔ ہم میاں، بیوی ہی تھے، صرف دنیا کی نظروں میں رخصتی ہونا باقی تھی۔ نکاح نامہ میرے پاس تھا، ضمیر پر کوئی بوجھ نہ تھا البتہ میں معین سے یہ ضرور کہتی تھی کہ تم نے مجھے باقاعدہ دلہن نہیں بنایا۔ اس کا جواب ہوتا۔ رخصتی کی رسم والدین کی دعائوں میں ہو گی۔ دلہن بھی بنائوں گا اور تھوڑا انتظار کر لو۔
میری چھوٹی بہن کی شادی ہو گئی۔ معین کے بھی کچھ اس قسم کے مسائل تھے جو کافی حد تک حل ہو چکے تھے۔ اس کی ترقی بھی ہو گئی تھی۔ اب حالات عرصے بعد ہمارے لئے پوری طرح سازگار ہونے والے تھے۔ ان ہی دنوں میں نے محسوس کیا کہ اب رخصتی بزرگوں کو اعتماد میں لے کر ہو جانی چاہئے۔ معین سے پرزور الفاظ میں مطالبہ کیا کہ نکاح کو بزرگوں پر ظاہر کر کے ہمیں
رخصتی کرا لینی چاہئے۔
تھوڑے دن اور صبر کرو، ابھی یہ ذمہ داری قبل از وقت ہے، میرے لئے اور کچھ ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا لازمی ہے۔ وہ کسی طور میرا مطالبہ ماننے کو تیار نہ تھا تب میں نے زچ آ کر کہہ دیا کہ جو نکاح نامہ میرے پاس ہے اسے میں خود جا کر اس کے اور اپنے گھر والوں کو دکھا دوں گی، اس کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بولا۔ایسا کرو گی تو خود مشکل میں پڑ جائو گی۔میں اس کے بعد کسی معاملے کا ذمہ دار نہ رہوں گا، لہٰذا میرا کہا مان لو اور اس امر سے باز رہو۔ میں تم سے باقاعدہ شادی کا اعلان بہت جلد اور ضرور کروں گا لیکن میرے حالات فی الحال ایسے ہیں کہ مجبور ہوں۔
اس کے منہ سے ایسی باتیں سن کر سکتے میں رہ گئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ اس قدر پہلوتہی سے کام لے سکتا ہے۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ تمہارے خلاف نکاح نامہ لے کر کورٹ چلی جائوں گی لیکن اس جان کا خون نہ کروں گی جو اب میری ذات کا حصہ بن چکی ہے اور میرے وجود میں زندگی کی ضمانت ہے۔
میری ہٹ دھرمی پر وہ پریشان ہو گیا۔ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس معاملے پر میں اتنی جذباتی ہو جائوں گی لیکن میں اس کی کسی مجبوری پر ہتھیار ڈالنے پر راضی نہ تھی۔ دن رات منت سماجت کرتا تھا۔ میرے پائوں پکڑ کر التجا کرتا بالآخر اس نے اتنا مجبور کیا کہ مجھے وقت سے قبل ماں بننے کی مسرت کا گلا گھونٹنا پڑا کیونکہ میں اس موڑ پر آ چکی تھی کہ اب واپس بھی نہ لوٹ سکتی تھی۔ کیا بتائوں کس دل سے اس کا کہا مانا۔
بیان نہیں کر سکتی کہ مجھے اس وقت کتنے ذہنی کرب اور اذیت سے گزرنا پڑا۔ اس سانحے پر میں کئی دنوں تک روتی رہی۔ خود سے اور معین سے نفرت محسوس ہوتی تھی۔ کئی دن تک ڈیوٹی پرنہ گئی لیکن پھر خود کو سمجھانا پڑا۔ ڈیوٹی پر نہ جاتی تو ملازمت سے ہی ہاتھ دھونے پڑ جاتے۔
ایک دن میں کیمپ وزٹ کیلئے نکلی تو میری الماری میں رکھا ہوا وہ نکاح نامہ معین نے تلاش کر کے اٹھا لیا اور کئی دن تک مجھے اس کی گمشدگی کا علم نہ ہو سکا۔ ایک دن کپڑے ترتیب سے رکھتے ہوئے خیال آیا۔ جس صندوقچے میں میرے چند زیورات تھے اسے کھول کر دیکھا تو صندوقچے کا لاک ٹوٹا ہوا ملا اور وہاں سے نکاح نامہ غائب تھا۔
ان دنوں سادگی سے نکاح نامے پر دولہا دلہن اور گواہوں کے دستخط ہوا کرتے تھے، بعد میں جب کوئی چاہتا رجسٹرڈ کرا لیتا۔ میرے ہوش جاتے رہے کیونکہ معین نے کہا تھا کہ رخصتی کے بعد اس کو رجسٹرڈ کرا لیں گے۔
مجھے معین پر ایسا اعتماد تھا جیسا کہ انسان کو اپنے خدا کے بعد کسی پر ہوتا ہے۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ دھوکہ دے گا لیکن نکاح نامہ اڑا لینے کا کیا مقصد تھا؟ میں نے معین سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ میں نے اس کو جلا دیا ہے کیونکہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی۔ نکاح نامہ نہ تھا بس ایک اسٹیمپ پیپر تھا۔ ہم نکاح دوبارہ اپنے بزرگوں کے روبرو ہی کریں گے۔ بس ایک، دو ماہ بعد ہی۔ جب میں بگڑنے لگی تو کہا۔میں کل گائوں جا رہا ہوں، میرا پہلا نکاح اپنی چچا زاد سے ہو چکا ہے اور یہ آٹھ سال قبل ہوا تھا، اب اسے ختم کرنے جا رہا ہوں۔ واپس آ کر تمہیں خوشخبری سنا دوں گا پھر ہم تمہارے گھر چلیں گے تمہاری والدہ اور ماموں وغیرہ سے بات کرنے۔ باقاعدہ ان سے تمہارا رشتہ مانگوں گا۔
دل اندیشوں کی زد میں دھڑکتا رہ گیا۔ معین چلا گیا… کبھی واپس نہ آنے کیلئے۔ وہ ملازمت چھوڑ کر گیا تھا، مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ اس کے ایک دوست سے اس کے گائوں کا پتا ملا۔ اس کے گائوں گئی، وہ اپنی بیوی کو لے کر بیرون ملک جا چکا تھا۔ اپنے کانوں پر یقین نہ آتا تھا۔ میرے پاس تو واحد ثبوت وہی نکاح نامہ تھا جو وہ لے گیا تھا اور وہ لوگ تھے جن کو شرم کے مارے معین کا کارنامہ بتانے سے گھبرا رہی تھی۔
کیا ثبوت تھا میرے پاس۔ذلت و رسوائی سے بچنے کی خاطر میں نے اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا اور اپنے شہر لوٹ کر آگئی۔ گھر والوں کو کچھ نہ بتا سکی۔ کافی دنوں تک مغموم رہی۔ آہ کاش! وہ مجھے کبھی مل جائے تو اس کا گریبان پکڑ لوں، جس کے نزدیک ایک عورت کی عزت کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔ اتنے عرصے تک اس نے مجھے اپنی بیوی باور کرائے رکھا اور پھر مجھ سے یکلخت سارے ناتے توڑ کر کسی اور دنیا میں جا بسا۔
آج سمجھ میں آیا کہ نکاح کو خفیہ رکھنے سے کیوں منع کیا گیا ہے۔ یہ وہ مقدس بندھن ہے جس کا باقاعدہ اعلان ضروری ہے اور ولیمہ بھی اسی لئے کیا جاتا ہے کہ عزیز و اقارب، سارے معاشرے کو علم ہو جائے کہ ایک شخص نے کسی عورت کو زوجیت میں لیا ہے اور وہ اس بندھن کو نباہنے کا پابند و جواب دہ ہے، سارے معاشرے کے روبرو۔ جو لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ خفیہ نکاح سے شادی ہو جاتی ہے۔ مرد، عورت ایک مضبوط رشتے میں بندھ جاتے ہیں، وہ حقیقی زندگی کے رموز کو نہیں سمجھتی ہیں۔ ایسے خفیہ نکاح کرنے والے تو کسی بھی وقت عورت کو دھوکا دے کر بھاگ سکتے ہیں۔ ان کو پکڑنے کیلئے کورٹ بھی ثبوت مانگتی ہے۔
عرصےتک میں بیمار رہی اور آج بھی ذہنی طور پر بحال نہیں ہوں کہ خود اپنی نظروں سے گر کر آدمی آدھا بھی نہیں رہ جاتا۔ وہ زندگی کے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت کھو دیتا ہے۔ وہ سنگ دل اپنی زندگی میں خوش و خرم ہو گا مگر میں خوشیوں کے ایک، ایک لمحے کو ترستی ہوں۔ (ش…مظفرگڑھ)