میرے شوہر جس فیکٹری میں ملازم تھے، اس کا مالک بہت نیک اور شریف آدمی تھا۔ اس کا نام احمد کمال تھا۔ احمد کمال کی کافی جائداد تھی۔ جس علاقے میں ان کی رہائش تھی، وہاں قریب ہی اوسط درجے کا ان کا ایک مکان بھی تھا جو چار کمروں اور ایک صحن پر مشتمل تھا۔ یہ گھر عرصے سے خالی پڑا تھا۔
فیکٹری میں کام کرتے ہوئے بدقسمتی سے ایک روز میرے شوہر کلیم بوائلر کے پھٹنے سے شدید طور پر جھلس گئے اور زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ وہ احمد کمال کی فیکٹری کے بہت پرانے کارکن تھے۔ مالک کو اپنے محنتی، دیانتدار ملازم کے جاںبحق ہوجانے کا صدمہ ہوا۔ احمد کمال نے ہماری مدد میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ مجھے گھر بیٹھے گارمنٹ کی سلائی کا کام بھجواتے اور رہنے کے لیے اپنے بنگلے کے قریب وہ گھر بھی دے دیا جو عرصے سے خالی پڑا ہوا تھا۔
بتاتی چلوں کہ پہلے ہم کرائے کے مکان میں رہتے تھے، اب کرایہ ادا کرنے سے قاصر تھے، تبھی انہوں نے یہ مکان عنایت کیا تاکہ ہم کرائے کی زحمت سے بچ سکیں۔
احمد کمال کے احسانات کیا کیا گنوائوں لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا کہ ان کی عنایتیں بعد میں شرمندگی میں بدل گئیں…!
جن دنوں بیوہ ہوئی، میرے دو بچے تھے۔ ایک بیٹی فائزہ اور ایک بیٹا فاران۔ یہی دونوں میری زندگی کا کل سرمایہ تھے۔ بیٹی تیرہ سال کی تھی جبکہ بیٹا گیارہ برس کا تھا۔ جب کلیم نے فیکٹری کے حادثے میں وفات پائی۔ اب مجھے دونوں کی ماں اور باپ بن کر پرورش کرنی تھی۔
بچوں کو پروان چڑھانے کی خاطر سخت محنت کی۔ توقع تھی کہ میری یہ محنت رنگ لائے گی اور جب فائزہ اور فاران بڑے ہوجائیں گے تو سارے دلدر دور ہوجائیں گے لیکن باپ کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے فاران آوارہ لڑکوں کے ہتھے چڑھ گیا اور ساتویں جماعت کے بعد اس نے اسکول چھوڑ دیا۔ سارا دن گھر سے غائب رہنے لگا۔ صبح کا نکلتا رات کو گھر لوٹتا تھا۔
جلد ہی ظاہر ہوگیا کہ وہ چرس وغیرہ کا نشہ کرنے لگا تھا۔ پہلے تو گھر کی اشیاء غائب ہونے لگیں کیونکہ وہ انہیں بیچ کر نشہ کرتا تھا۔ پھر مجھ سے رقم طلب کرنے لگا۔ کہاں تک اس کا مطالبہ مانتی کہ محنت مشقت کی اجرت سے گھر کا خرچا مشکل سے پورا ہوتا تھا لیکن فاران کو کیا پروا تھی۔ جب اسے نشے کے لئے رقم نہ ملتی، میرا گریبان پکڑ لیتا اور گلا پکڑ کر دبانے لگتا، تب میری چیخیں نکل جاتیں۔ فائزہ جہاں بیٹھی ہوتی، دوڑ کر آتی اور مجھے فاران سے چھڑاتی۔
کیا بتائوں کہ اس وقت دل کی کیا حالت ہوتی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے اور کچھ بس نہ چلتا تو اسے بددعا دینے لگتی تھی۔ جب وہ میرا گلا اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتا، بلبلا اٹھتی اور بے اختیار منہ سے بددعا نکل جاتی کہ فاران! تجھے خدا سمجھے، اللہ کرے تجھ کو پھانسی لگے۔
جس اولاد سے زیادہ توقع ہو، اسی سے دکھ ملیں تو دل خون ہوجاتا ہے۔ میری بھی فاران سے مستقبل کی امیدیں وابستہ تھیں جو خاک میں مل گئیں۔ وہ یا تو گھر سے کئی روز غائب رہتا یا پھر سارا دن پڑا سوتا رہتا۔ ہمارے نزدیک وہ بے حس بس ایک زندہ لاش کی طرح تھا۔
فائزہ مجھے سمجھاتی تھی کہ ماں، بھائی کو پیار دو اور اسے مت دھتکارا کرو… بددعائیں نہ دیا کرو، آخر تو تمہارا بیٹا ہے۔ کیا خبر کبھی خدا اسے راہ راست پر لے ہی آئے۔ لیکن میں تو مایوس ہوگئی تھی۔ یہی جواب دیتی تھی کہ فائزہ! اب یہ بھٹکا ہوا کبھی راہ راست پر نہیں آسکتا۔ بھلا نشہ باز لوگ بھی کبھی راہ پر آئے ہیں… اب تو یہی جی چاہتا ہے کہ کہیں ایسا گم ہو کہ گھر لوٹ کر نہ آئے۔ اس کے نشے نے تو ہمیں فاقوں پر مجبور کردیا ہے۔
جب گھر میں قدم رکھتا، ہنگامہ کھڑا ہوجاتا۔ وہ آتا ہی تب تھا جب اسے مجھ سے پیسے چاہئے ہوتے۔ جونہی وہ پیسے طلب کرتا، میرے منہ سے بددعائیں جاری ہوجاتیں کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ بغیر روپے لیے ٹلنے والا نہیں ہے۔ میرے منہ سے اس قدر بلند آواز میں اسے بددعائیں نکلتیں کہ پڑوس تک آواز جاتی۔ تب اکثر پڑوسن بھی آکر سمجھاتی کہ بہن! اولاد جتنی بری ہو، ایسی بددعا نہ دیا کرو۔ کوئی گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ منہ سے نکلی بات پوری ہوجاتی ہے۔
لوگوں کے سمجھانے سے دل اور دکھتا۔ میں کہتی تھی۔ تم لوگوں کو کیا پتا محنت کی کمائی جب بیٹا نشے میں اُڑائے تو کیسا جی بلکتا ہے۔ دیکھ لینا کہ اس بے غیرت کا انجام بُرا ہی ہوگا۔
یہ سچ ہے کوئی ماں کسی غیر کی اولاد کے لیے بھی ایسی بددعا پسند نہیں کرتی مگر اس لڑکے نے ایسا جی جلایا کہ لگتا تھا میرے اندر اس کے لیے ممتا ہی مر گئی ہے۔ سوچتی تھی شکر ہے فائزہ فرماں بردار اور احساس کرنے والی لڑکی ہے ورنہ میں تو جیتے جی مرجاتی۔
فائزہ پانچ وقت نماز پڑھتی تھی اور ہر نماز کے بعد اپنے بھائی کے سدھرنے کے لیے دعا کرتی تھی۔ وہ اسکول جاتی اور واپس آکر گھریلو کام کاج میں میرا ہاتھ بھی بٹاتی تھی۔ جب وہ گھر کا کام نمٹاتی، اس دوران میں اجرت پر کافی کپڑے سلائی کرلیتی تھی۔ میری اوقات نہ تھی کہ اپنی یتیم بچی کو اعلیٰ تعلیم دلواتی مگر اس کا شوق دیکھ کر قریبی کالج میں داخلہ دلوا دیا۔
فائزہ کالج سے آکر محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی۔ یوں وہ اپنا تعلیمی خرچہ نکال لیتی تھی۔
میرا ارمان تو یہ تھا کہ فاران تعلیم حاصل کرتا اور فائزہ کو میں میٹرک کے بعد کسی اچھے گھر بیاہ کر فرض سے سبکدوش ہوجاتی مگر یہ ممکن نہ ہوسکا اور مجھے فائزہ کی محنت پر انحصار کرنا پڑا۔
ایک دن جبکہ فائزہ کالج سے گھر آرہی تھی، جانے کس خیال میں تھی کہ گلی پار کرتے ہوئے احمد کمال کے بیٹے عاطف کمال کی گاڑی کے سامنے آگئی۔ سڑک پر گر گئی، زیادہ چوٹ تو نہیں آئی کیونکہ گاڑی بہت کم رفتار میں تھی۔ گاڑی سے ٹکرا کر گرنے کی صدمے سے بے ہوش ہوگئی۔
عاطف کے ساتھ گاڑی میں اس کی بہن بھی تھی۔ دونوں نے جلدی سے فائزہ کو اٹھا کر گاڑی میں بٹھایا اور گھر پہنچا دیا۔ عاطف نے مجھ سے معذرت کی اور یہ بھی کہا۔ آنٹی! میرا قصور نہ تھا، جانے آپ کی بچی کن خیالوں میں چل رہی تھی کہ گلی پار کرتے ہوئے اسے میری گاڑی بھی نظر نہیں آئی، شکر ہے رفتار آہستہ تھی اور میں نے عین وقت پر کار روک لی ورنہ تو چوٹ زیادہ لگنے کا امکان تھا۔ بہرحال پانی وغیرہ پینے سے فائزہ کے حواس بحال ہوگئے تو اس نے بھی عاطف سے معذرت کی اور وعدہ بھی کیا کہ وہ آئندہ سڑک یا گلی پار کرتے ہوئے احتیاط سے کام لے گی۔
یہ واقعہ آیا گیا ہوگیا مگر کچھ واقعات جو بظاہر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں، اصل میں وہ معمولی نوعیت کے نہیں ہوتے۔ چوٹ جسم پر نہ لگی تھی مگر دل پر ضرور لگی کیونکہ اس کے بعد عاطف اور فائزہ نے ایک دوسرے کو فراموش نہ کیا۔
فائزہ تو لڑکی تھی۔ اسے اپنی یتیمی اور میری بیوگی کا احساس تھا، تبھی اس نے اپنے دل کے احساسات کو تھپک کر سلا دیا مگر عاطف ایک امیر زادہ نوجوان لڑکا تھا۔ فائزہ کی ایک جھلک دیکھ کر اس کے سکون کی دنیا جو تہہ بالا ہوئی تو وہ روزانہ ہی اس کی ایک جھلک دیکھنے کو چھٹی کے وقت کالج کے گیٹ کے پاس جا کھڑا ہوتا۔
پہلے فائزہ کو پتا نہ چلا مگر جب روز اسے وہاں کھڑا پایا تو جان گئی کہ یہ میرے لیے ہی آتا ہے۔ بچی تھی، ایسے معاملات سے ناواقف تھی، بری طرح ڈر گئی۔ اسے زیادہ خیال یہ تھا کہ میری ماں کو پتا چلا تو کیا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ میری ذات اس کے لیے بدنامی کا باعث بن جائے۔
میں نے تو بیوگی کا یہ عرصہ احمد کمال کے پڑوس میں ایسے احتیاط سے گزارہ تھا کہ سارا محلہ ہی میری تعریف کرتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ کلیم کی بیوہ نے شرافت سے محنت مشقت کرکے جس طرح بیوگی میں بچوں کی پرورش کی ہے، یہ تو بس اسی کی ہمت ہے۔ وہ یہ بھی کہتے کہ آفرین ہے، اس کی بچی نیک ہے لیکن لڑکا خراب نکلا ہے۔
لڑکے خراب ہوں تو لوگ افسوس کرتے ہیں لیکن اگر لڑکی خراب ہو تو لوگ صرف باتیں ہی نہیں بناتے، لعنت ملامت بھی کرتے ہیں اور رسوا بھی کرتے ہیں بلکہ بیوہ عورت کا جینا تک دوبھر کر ڈالتے ہیں۔
ایک روز فائزہ نے ہمت کرکے عاطف کو سمجھایا کہ میرے پیچھے کالج کے گیٹ تک مت آیا کرو، تمہیں تو معلوم ہے ہمارے کیا حالات ہیں، ہم تمہارے والد کی فیکٹری کے مزدور ہیں اور ان کے ہم پر احسانات بھی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کو علم ہوجائے تو ہم غریب لوگ ان کی بخشی ہوئی چھت سے بھی محروم ہوکر دربدر ہوجائیں۔
فائزہ نہیں جانتی تھی کہ عاطف سے بات کرنا زیادہ باعث مصیبت بن جائے گا۔ اپنی دانست میں تو اس امیر زادے کو اپنی مجبوریوں کا احساس دلا کر بات کو اسی موڑ پر ختم کرنا چاہتی تھی لیکن بات چیت کا یہ پہلا مرحلہ ہی اس کے گلے پڑ گیا۔ عاطف نے اصرار کیا کہ ایک بار میرے ساتھ چلو تو پھر کبھی تمہارے راستے میں نہ آئوں گا۔ بس یہی میری شرط ہے۔ بات نہ مانو گی تو روز مجھے اپنے کالج کے گیٹ کے سامنے کھڑا پائو گی۔
اس کا جواب سن کر میری بیٹی اور پریشان ہوگئی۔ مجھے کچھ بتا کر پریشان نہ کرنا چاہتی تھی۔ وہ جس بات سے خوف زدہ تھی، آخر وہی بات ہوگئی تھی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آرہا تھا کیا کرے۔
پہلے سوچا مجھے بتا دے، پھر یہ سوچ کر رہ گئی کہ ماں کیا کرلے گی… زیادہ سے زیادہ احمد کمال سے کہے گی۔ وہ بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ دیں گے یا روکیں گے تو کہیں ایسا نہ ہو وہ اور ضد پکڑ لے۔ تب میں ضرور اسے پڑھائی سے ہٹا کر گھر بٹھا لوں گی۔
اگلے روز جب عاطف پھر اس کے پیچھے آیا۔ وہ اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی تاکہ اس کو منت سماجت سے سمجھا سکے لیکن عاطف نے تو کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ اسے لے کر وہ ایک دوست کے بنگلے پر گیا اور کہا کہ مجھ سے شادی کرلو ورنہ عزت گنوا کر گھر جائو گی تو یقیناً عمر بھر پچھتائو گی۔ تم نہیں جانتیں میں جس چیز کو پسند کرلوں، اسے حاصل ضرور کرتا ہوں۔
اب میری بیٹی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ وہ کیوں اس سرپھرے نوجوان کی گاڑی میں بِنا سوچے سمجھے چڑھ بیٹھی تھی۔ اب تو وہ کلی طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی۔ اس نے تبھی کہا۔ ٹھیک ہے میں عزت نہیں گنوانا چاہتی مگر تمہاری میری شادی کیسے ہوسکتی ہے۔ تم ایک امیر کبیر باپ کے بیٹے ہو اور میں ایک غریب بیوہ کی لڑکی ہوں، ہمارے خاندان کے درمیان دولت کا بہت فرق ہے، یہ رشتہ ہو ہی نہیں سکتا۔
رشتہ نہیں ہوسکتا، ہمارا نکاح تو ہوسکتا ہے اور اس کا انتظام کیا ہوا ہے۔ ہمارا نکاح آج ہی اسی وقت ہوسکتا ہے بلکہ ہوجائے گا اگر تم راضی ہوجائو، میں بعد میں گھر
والوں کو بھی منا لوں گا۔
فائزہ ہمیشہ احمد کمال کے گھرانے کے ٹھاٹ باٹ کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی آئی تھی۔ آج اسی گھرانے کا لڑکا اسے اپنی منکوحہ بنانے پر اصرار کررہا تھا۔ جانے کیا سوچ کر وہ عاطف کے ساتھ ہولی اور دونوں نے نکاح کرلیا۔ شام کو عاطف اس کو میرے گھر پر چھوڑ گیا۔
میں نہیں جانتی تھی کہ میری بیٹی کے پرس میں آج ایک اہم پرت بھی ہے اور وہ تھا اس کا عاطف کے ساتھ نکاح نامہ۔
دو دن سے فاران غائب تھا، اسی شام کو وہ بھی گھر آگیا۔ آتے ہی روپے طلب کرنے لگا کیونکہ اس کا نشہ ٹوٹ رہا تھا۔ میرے پاس اس روز پیسے نہیں تھے تبھی اس نے میری گردن کو دبوچنے کے لے اپنے ہاتھ بڑھا دیئے۔ میں حسب معمول چلاّنے لگی۔
اے بدبخت! مجھے پھانسی نہ لگا، خدا کرے تجھے پھانسی لگے۔ آج میرے پاس تجھے دینے کو ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔
میرے چلاّنے پر فائزہ دوڑی آئی اور اپنے بھائی کے کرخت ہاتھوں کی گرفت سے میری گردن چھڑانے لگی۔ تب فاران نے کہا۔ ماں! روپے نہیں دیتی تو ہی دے دے، تیرے پاس تو ٹیوشن کے پیسے جمع رہتے ہیں۔
اس نے کہا۔ بھائی! قسم ہے آج تو میرے پاس بھی کچھ نہیں ہے، ٹیوشن والے بچے پہلی کے بعد فیس لا کر دیتے ہیں اور ابھی پہلی میں دو تین روز باقی ہیں۔
تو جھوٹ بولتی ہے، تیرے پاس پیسے ہوں گے، کچھ تو ہوں گے ہی… وہ بہن سے الجھنے لگا، تبھی اس کی نگاہ میز پر رکھے فائزہ کے پرس پر پڑ گئی۔ دوڑ کر گیا اور پرس اٹھا کر کھول لیا۔ پرس کو ٹٹولا پھر الٹ دیا۔ چند سکوں کے ساتھ کچھ کاغذ بھی میز پر بکھر گئے۔ اس نے ایک کاغذ کو اٹھا کر دیکھا، یہ نکاح نامہ تھا۔ عاطف کمال نے فائزہ کلیم سے نکاح کیا تھا، احمد کمال کے بیٹے نے اس کی بہن سے نکاح کرلیا تھا۔
نکاح نامہ پڑھتے ہی فاران کا رنگ بدل گیا۔ اس نے کہا تو یہ بات ہے، تو ایک فیکٹری کے مالک کی بہو ہے، اس کے اکلوتے وارث کی منکوحہ ہے۔ ایک امیر کبیر گھر کی بہو اور تیرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
فائزہ تو ایسے کھڑی بھائی کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے زندہ لاش ہو۔ رنگت سفید پڑ چکی تھی جسے کاٹو تو لہو نہیں۔ ایک حرف بھی لبوں سے نکالنے کی سکت نہیں تھی اس میں، ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ وہ دروازے کی چوکھٹ کو تھامے کھڑی تھی اور مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہ کر پا رہی تھی لیکن فاران… اسے کب کسی بات کا ہوش تھا۔ اس نے بہن کا نکاح نامہ ہاتھ میں پکڑا اور باہر نکل گیا۔ جانے کس ارادے سے۔ ہم ماں بیٹی میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اب وہ کیا کرنے والا ہے۔ جونہی وہ گھر سے نکلا، سامنے اسے عاطف نظر آگیا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا جبکہ اندر اس کے والد بھی موجود تھے۔ فاران نے بلند آواز میں للکارا۔
ہاں بھئی عاطف! تم تو اب ہمارے رشتے دار ہوگئے ہو۔ رشتے میں میرے بہنوئی لگے نا… کچھ روپے ہوں گے تمہارے پاس؟ بھئی مٹھائی لے کر محلے میں بانٹنی ہے، خوشی کی بات ہے نا… تم نے میری بہن سے نکاح کیا ہے۔ اس نے نکاح نامہ لہرایا تو عاطف کا رنگ فق ہوگیا۔ باپ کے ڈر سے وہ بولا۔
’’تم پاگل ہو، نشئی پاگل… جانے کس کا کاغذ اٹھا لائے ہو یا جعلی کاغذ بنوا کر مجھے بلیک میل کررہے ہو محض روپوں کے لیے، یہ روپے لے لو مگر میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے، میں نے کوئی نکاح نہیں کیا کسی سے، مجھے بلیک میل نہ کرو۔
کیا تم نے نکاح نہیں کیا ہے میری بہن فائزہ سے… بے غیرت جعلی آدمی تو تم ہو، اپنے عیش کی خاطر میری بہن سے جعلی نکاح نامہ پُر کروایا ہے، نکاح کیا ہے تو مانو، پھر اس کو رخصت کرکے گھر لے آئو۔
کہہ دیا نا کہ میں نے کسی سے کوئی نکاح نہیں کیا ہے۔ تمہاری بہن سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے، وہ تو بہن ہے میری، اب جائو یہاں سے۔
عاطف اسے دھکے دینے لگا اور نکاح نامہ چھین لینے کی کوشش کرنے لگا۔ فاران نے غصے میں جیب سے خنجر نکال لیا اور پے در پے عاطف پر وار شروع کردیئے۔ وہ تڑپ کر زمین پر گر گیا لیکن میرے بیٹے نے بس نہ کیا، وہ وار پر وار کرتا گیا یہاں تک کہ عاطف کے چوکیدار نے پیچھے سے آکر اسے دبوچ لیا جو نماز پڑھنے قریبی مسجد میں گیا ہوا تھا۔
اس شور پر احمد کمال بھی گھر سے باہر نکل آئے، پھر تو محلے دار اکٹھے ہوگئے۔ عاطف کو اسپتال اور فاران کو تھانے لے گئے۔ نکاح نامہ تو عاطف کے خون میں تربرتر ہوچکا تھا، اس پر درج نام و تحریر بھی سرخ ہوگئی تھی اور پڑھی نہ جاتی تھی لیکن پولیس کے سامنے فاران اپنے بیان پر ڈٹا ہوا تھا کہ یہ نکاح نامہ ہی ہے، غور سے پڑھنے کی کوشش کرو، میں نے خود پڑھا ہے، اپنی ان آنکھوں سے… میں فائزہ کا بھائی ہوں، نشہ ضرور کرتا ہوں مگر بے غیرت نہیں ہوں۔ عاطف دھوکا کرنا چاہتا تھا میری بہن کے ساتھ، تبھی تو نکاح کرکے مُکر رہا ہے کیونکہ اس کے والدین ہم غریبوں پر صرف ترس کھا سکتے ہیں، ہمیں کبھی اپنا رشتہ دار قبول نہیں کرسکتے تھے۔ ہم ملازم جو تھے ان کے…!
فاران کی کسی نے نہ سنی۔ اس کی کون سنتا۔ اسے حوالات سے جیل اور پھر پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا گیا کیونکہ بقول لوگوں کے یہی انصاف کا تقاضا تھا۔ اس نے اپنے محسن کے جواں سال بیٹے کو جان سے مار دیا تھا۔ محلے داروں کا کہنا تھا کہ یہ صرف اس وجہ سے ہوا کیونکہ وہ ماں کا گلا دبوچ کر نشے کے لیے پیسے مانگتا تھا۔ ماں کی بددعا لی تھی اس نے۔ لوگ ایک دوسرے سے کہتے کہ ماں، باپ کی کبھی بددعا نہیں لینی چاہیے کیونکہ ان کی دعا، بددعا عرش پر جاتی ہے اور عرش کو ہلا دیتی ہے۔
تاہم جس دن پھانسی کے بعد محلے دار فاران کی لاش جیل سے وصول کرکے لائے، اس دن مجھے ہوش نہ رہا تھا کیونکہ اس دن میرے لئے گویا زمین ہی نہیں عرش بھی ہل گیا تھا۔ میرے بین کرنے سے خود احمد کمال اور ان کی بیوی کی آنکھوں میں بھی آنسو تیر رہے تھے کہ جن کے بیٹے کو میرے بیٹے نے مارا تھا۔ آج بھی لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ بیٹی ہو یا بیٹا، خدا نیک اولاد دے ورنہ تو بے اولاد ہی رہنا اچھا ہے۔ اس واقعے کے بعد ہم نے احمدکمال کا گھر چھوڑ دیا۔ پرانے محلے کے ایک پڑوسی کے گھر چند دن پناہ لی۔ انہوں نے ہی ایک نیک اور غریب لڑکا تلاش کرکے فائزہ کا اس کے ساتھ نکاح کردیا۔ فائزہ نے صبر شکر کے ساتھ نئی زندگی کو قبول کرلیا کہ وہ میرا دکھ اور اپنی مجبوریاں جانتی تھی۔
خدا کا شکر کہ میرا داماد شریف انسان ہے اور اس میں کوئی بری عادت نہیں ہے۔ معمولی تنخواہ دار ہے۔ فائزہ بھی ایک اسکول میں پڑھاتی ہے۔ دونوں کی آمدنی سے گزربسر عزت سے ہورہی ہے۔ فاران کی جدائی کا داغ دل پر ہے، یہ دکھ بھلانے کا نہیں ہے لیکن داماد کے روپ میں جو بیٹا ملا ہے، آج اسی پر خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔ اسی نے بڑھاپے میں سہارا دیا ہے کہ عزت سے زندگی کے باقی دن بھی کٹ جائیں گے۔
(س۔ق … کراچی)