شازیہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ ان دنوں موبائل فون نہیں تھے اور ٹیلی فون بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا۔ ہمارے گھر فون لگا ہوا تھا جبکہ شازیہ کے گھر ٹیلیفون نہیں تھا۔ شازیہ اکثر ٹیلیفون کے بہانے ہمارے گھر آجاتی تھی ،کبھی اس کو کہیں فون کرنا ہوتا تھا، کبھی اس کا کوئی فون آجاتا تھا۔ ہم پڑوسی ہونے کے ناتے اس کو بلالیا کرتے تھے۔ مگر ہر بار جب بھی کوئی فون آتا، شازیہ ہنس ہنس کر باتیں کرتی اور اس دوران اس کو اپنا اور کسی دوسرے کا کوئی خیال نہ رہتا۔ وہ یہ بھی نہ سوچتی کہ ہم پڑوس والے اس کے بارے میں کیا خیال کریں گے۔
شازیہ کے والدین کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ ہر وقت لڑتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے اولاد پر صحیح توجہ نہیں دے پاتے تھے۔ دراصل شازیہ اپنے گھر کے ماحول سے اکتائی ہوئی اور مایوس تھی۔ وہ بارہا مجھ پر اپنے احساسات کا اظہار کرچکی تھی۔ کہتی تھی، تم کتنی خوش قسمت ہو، تمہارے پاس آکر مجھے بڑا سکون ملتا ہے، دل کرتا ہے تمہارے گھر رہ جاؤں، تمہارا گھر تو جنت ہے۔ ایک میرا گھر ہے جہاں ہر وقت امی اور ابو کی چپقلش رہتی ہے۔ انہوں نے تو زندگی کو جہنم کا نمونہ بنا رکھا ہے۔ دل چاہتا ہے کہیں بھاگ جاؤں۔
ایک دن شازیہ کافون آیا۔ میں نے اس کو اپنے گھر کی کھڑکی سے اشارہ کرکے بتایا کہ تمہارا فون آیا ہے۔ وہ دوڑی ہوئی آئی۔ فون پر کسی نے اس سے نہ جانے کیا کہا کہ رونے لگی۔ امی باورچی خانے میں تھیں اور میں اپنے کمرے میں جبکہ فون برآمدے میں لگا ہوا تھا، اچانک اپنے کمرے سے نکلی تو شازیہ کو روتے ہوئے دیکھا۔ بڑی حیران ہوئی کہ شازیہ کو کسی نے ایسی کیا بات کہہ دی ہے جو وہ فون سنتے سنتے رونے لگی ہے۔
جب اس نے ریسیوررکھ دیا تو میں اس کے پاس گئی اور پوچھا۔ شازی کیا بات ہے تم کیوں رورہی تھیں؟ کہنے لگی۔ بہت بدنصیب ہوں مانو۔ اپنے گھر کے ماحول سے چھٹکارا پانے کے لیے میں نے احمد کا سہارا لیا تھا۔ اس نے بڑے وعدے کئے تھے کہ تمہارا ساتھ دوں گا لیکن آج اس نے اپنی منگیتر سے شادی کرلی ہے۔ میں نے اپنا سب کچھ اس پر قربان کیا اور اس موڑ پر آکر احمد نے مجھے دھوکا دے دیا۔
مجھ کو شازیہ پر رحم آیا۔ اس کے آنسو پونچھے، تسلی دی اور پانی پلایا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ اس کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے امی مجھے دیکھ نہ لیں۔ کیونکہ جب وہ فون سننے آتی تھی، ہم اس سے لاتعلق سے رہتے تھے ۔
احمد اور شازیہ کا قرب کس حد تک تھا، یہ تو خدا ہی جانے مگر شازیہ پر احمد کی بے وفائی کا گہرا اثر ہوا اور وہ بیمار ہوگئی۔ تاہم میرے علاوہ اس نے کسی کو یہ نہیں بتایا کہ اس پر کیا گزر رہی ہے۔ شازیہ کو عجیب سے دورے پڑنے لگے۔ کافی علاج ہوا لیکن وہ اچھی نہ ہو سکی۔ لوگوں کی زبان کون روک سکتا ہے۔ کوئی کہتا لڑکی کی شادی جلد کردینی چاہیے، کوئی کہتا کہ جنوں کا سایہ ہے۔ آخر اس کی ماں اس کو پشاور لے گئی جہاں شازیہ کی بڑی بہن کا گھر تھا۔
تین ماہ کے بعد شازیہ اور اس کی ماں واپس گھر لوٹ آئیں۔ اب شازیہ کافی سنبھل چکی تھی۔ وہ ہمارے گھر بھی آئی۔ پہلے سے بہتر اور پُرامید نظر آتی تھی۔ اس کے آتے ہے پھر وہی پرانا سلسلہ چل پڑا۔
ہمارے یہاں فون آتا، میں کھڑکی سے اشارہ کرتی تو وہ دوڑی ہوئی آجاتی۔ ابو اور بھائی گھر سے باہر ہوتے، صرف میں اور امی ہوتے تھے، اس لئے وہ بے دھڑک چلی آتی تھی۔
اس دفعہ کچھ اور معاملہ تھا۔ شازیہ اب کسی اور لڑکے سے شادی کی باتیں کرتی تھی۔ فون اکثر آتا تھا تو شازیہ اس کو یہی کہتی تھی کہ تم میرے گھر آجاؤ اور میرے والدین کو کہو کہ وہ شادی کی تاریخ دیں۔
ایک دن امی نے شازیہ کی ماں سے یہ بات کہہ ہی دی کہ تمہاری لڑکی کسی لڑکے سے شادی کی باتیں کرتی ہے … کیا یہ بات تمہارے علم میں ہے؟ وہ بولی، ہاں یہ کسی سے شادی کرنا چاہتی ہے مگر لڑکا میں نے دیکھا ہے اور نہ شازیہ کے ابو نے۔ مگر اس لڑکی کی ضد ہے کہ نادر سے شادی کرنی ہے۔
حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شازیہ کے والدین نے شادی کے لیے ہاں تو کردی مگر وہ اب بھی چپ چپ رہتے تھے کیونکہ لڑکا ابھی تک ان کے سامنے نہیں آیا تھا۔ ظاہر ہے جب تک لڑکا دیکھا نہ ہو، اطمینان کیسے آتا۔ وہ عجب تذبذب کی کیفیت میں تھے۔ ادھر شازیہ تھی کہ کہتی تھی لڑکا صرف ایک بار آئے گا… بس شادی کے وقت۔
اس بات کا دُکھ اس کے والدین کو بہت تھا کہ لڑکا پہلے کیوں نہیںآسکتا، صرف بیاہ کے وقت ہی کیوں آئے گا۔ ہم بھی سوچتے تھے کہ یہ کیسی عجیب شادی ہوگی کہ لڑکا صرف بیاہ کے وقت آئے گا۔
شازیہ کا گھر بے سکون اور بکھرا بکھرا تھا۔ ان دنوں تو سارے گھر میں اکیلی شازیہ ہی خوش تھی، باقی سارے لوگ گم صم تھے۔
ایک دن نادر کا فون آیا کہ شازیہ میں نے تمہارے والد کے دفتر میں فون کرکے شادی کی تاریخ لے لی ہے۔ اس دن تو اس لڑکی کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔
شادی کی تیاری کا مرحلہ آیا۔ یہ مرحلہ بھی اکیلی شازیہ طے کررہی تھی۔ اکیلی ہی بازار جاتی، اپنے لیے کپڑے، چیزیں، گوٹہ کناری کا سامان اور دیگر خریداری کرتی۔ گھر والے اس کے کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹا رہے تھے، وہ پھر بھی خوش نظر آتی تھی۔
مجھے کہتی مانو! کم ازکم اس جہنم سے نجات مل جائے گی۔ میں جلد ازجلد اس گھر سے دور ہوجانا چاہتی ہوں۔
وہ اپنی شادی کے جوڑے ہمارے گھر لے کرآئی۔ امی نے اس پر ترس کھا کر کچھ دوپٹے رکھ لیے اور مجھے کہا کہ اس کے دوپٹوں پر گوٹا لگا دو، یہ اکیلی سارا کام کررہی ہے۔ میں نے اس کے دوپٹوں پر کناری لگائی اور کچھ کپڑوں کی تیاری میں اس کی مدد کی۔
والدین کوبہت دکھ تھا۔ بھائی بھی چپ تھے کہ جس لڑکے کو نہ انہوں نے دیکھا، نہ یہ پتا کہ اس کا خاندان کیسا ہے اور وہ کیا کرتا ہے …؟ شازیہ نے اس سے شادی کے لیے ضد پکڑلی تھی۔ آخر اپنی بات ان سے منوابھی لی۔ بار بار کہتے تھے، ایک بار لڑکا نکاح سے قبل ہم سے مل لے۔ مگر ان کو یہی جواب ملتا تھا کہ مجبوری ہے، وہ نہیں آسکتا، بس شادی کے وقت ہی آسکے گا۔
بالآخر شادی کا دن بھی آگیا۔ شازیہ کی بہن پشاور سے آگئی۔ پاس پڑوس کے چند لوگوں کو بھی بلایا گیا تھا۔
تاہم یہ شادی چپ چاپ ہورہی تھی، نہ کوئی ڈھولک نہ خوشی… دولہا کو جمعرات والے دن اپنے چند دوستوں کے ساتھ آنا تھا اور جمعہ کو بارات کے ساتھ شازیہ نے رخصت ہوجانا تھا کہ بدھ کے دن فون آگیا۔
آپ لوگ ٹھہر جائیں، یہ شادی سوچ سمجھ کرکریں۔
یہ دولہا کے بڑے بھائی کا فون تھا۔ شام کو نادر کا بھائی آگیا اور اس نے ہنگامہ کردیا کہ یہ شادی کیسے ہوگی جبکہ میرے بھائی نے اپنی بہن کا زیور چوری کیا ہے، ہم نے اس پر چوری کا کیس کیا ہوا ہے۔ وہ مفرور ملزم ہے۔ یہ ساری باتیں شازیہ کے والد سرنیچا کرکے سنتے رہے ۔
اگلے دن پولیس دروازے پر کھڑی تھی، کسی نے پولیس کو مطلع کردیا کہ نادر جو مفرور ملزم ہے، اس کی اس گھر میں آج شادی ہے اور وہ آنے والا ہے لہٰذا اس کو گرفتار کرلو۔
پولیس نے آکر شازیہ کے والد سے کہا۔ دولہا کو ہمارے حوالے کردو، ہم نے اس کو تھانے لے جانا ہے۔ انکل نے جواب دیا وہ آئے تو سہی، ابھی وہ آیا ہی نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کے حالات پتا ہیں کہ دراصل معاملہ کیا ہے؟
شازیہ کے گھر میں ایک ہنگامہ مچ گیا … جیسے کوئی مرگیا ہو۔ ماں سکتے میں بیٹھی تھی اور بھائی سوچ رہے تھے کہ والد نے بغیر سوچے سمجھے بیٹی کے کہنے میں آکر ہاں تو کردی تھی مگر اب کیا کریں۔
کچھ محلے کے شریف لوگ اکٹھے ہوکر تھانے گئے اور انہوں نے انسپکٹر کو کہا کہ آپ پولیس لڑکی والوں کے دروازے سے ہٹالیں۔ جب ملزم آئے گا ہم خود آکر آپ کو بلا لیں گے، مگر ابھی خدا کے لیے ان بیچاروں کے گھر کے دروازے پر پولیس کو نہ بٹھائیں کیونکہ شادی میں ان کے رشتے دار اکٹھے ہوگئے ہیں، ان کی بے عزتی ہورہی ہے۔ پولیس والوں نے ان کی یہ بات مان لی اور وہ وہاں سے چلے گئے لیکن وہ اپنے آدمی سادہ کپڑوں میں ان کے گھر کے اردگرد تعینات کرگئے۔
جمعرات کو نادر اپنے دوچار دوستوں کے ہمراہ دلہن کے گھر آگیا۔ شازیہ کے والد نے اس کو بتایا کہ پولیس آئی تھی۔ ہماری بنی بنائی عزت خراب ہوگئی۔ محلے والے الگ باتیں بنارہے ہیں۔ ادھر دلہن کی ماں کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔
گھروالوں نے دلہن کو سمجھایا کہ اب بھی و قت ہے تم انکار کردو۔ ہم نادر کو جواب دے دیں گے کیونکہ نادر نے یہی کہا کہ اگر دلہن اس شادی پر راضی ہے تو میں دلہن لے کر جاؤں گا، اگر وہ انکار کردے تو میں واپس ہوجاؤں گا۔
شازیہ نہ مانی۔ اس نے کہا ،نادر قاتل ہے یا مجرم … وہ جیسا بھی ہے مجھے منظور ہے، اگر آپ لوگوں نے میری شادی نادر سے نہ کی تو میں خود ہی اس کے ساتھ چلی جاؤں گی۔
گھر والوں کے لیے یہ بڑی آزمائش تھی کیونکہ اب تو لڑکی دلہن بن چکی تھی۔ لہٰذا انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ جو یہ لڑکی چاہتی ہے وہی کرو۔ اگر اس کا یہی فیصلہ ہے تو خود بھگتے گی۔
جلدی جلدی نادر کانکاح شازیہ سے پڑھا دیا گیا۔ اس رات پولیس نہ آئی۔ شاید پولیس بھی چاہتی تھی کہ لڑکی والوں کی عزت رہ جائے اور یہ شادی ہوجائے تو اگلے دن نادر کو گرفتار کرلیں گے۔
سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والوں نے اس رات انکل کے گھر کے گرد پہرہ دیا۔ اگلے دن جب نادر، شازیہ کو ساتھ لے کر رخصت ہونے لگا تو پولیس آگئی۔ شازیہ کو والدین کے گھر رہنے دیا گیا اور پولیس نادر کو لے کر چلی گئی۔
اس بات سے جہاں گھر والوں کو بہت صدمہ ہوا وہاں شازیہ کے والدین کی رسوائی بھی خوب ہوئی اور شازیہ کو کیا ملا؟ کیونکہ وہ دن اور آج کا دن، وہ ابھی تک اپنے والدین کے گھر ہے۔ نادر کو عمر قید ہوگئی اور وہ پھر کبھی شازیہ کو وداع کرانے نہ آسکا۔ شازیہ اس سے جیل میں ملاقات کرنے جاتی تھی۔ یہ انوکھی محبت تھی کہ سب کچھ سہہ کر بھی نادر سے محبت کرتی رہی اور اس کا انتظار کرتی رہی۔
نہ جانے شازیہ کا یہ فیصلہ غلط تھا یا صحیح… مگر اس کو اس شادی کی سخت سزا جھیلنی پڑی۔ گھر جس کو وہ دوزخ سمجھتی تھی اور جس جہنم نما ماحول سے وہ چھٹکارا پانا چاہتی تھی، وہ چھٹکارا پھر بھی اس کو نہ مل سکا اور شادی کے بعد وہ ایک دن کے لیے بھی اس گھر سے جاسکی اور نہ ہی اپنے ماحول سے نجات پاسکی ۔
قدرت کے فیصلے بھی کس قدر اٹل ہوتے ہیں کہ انسان ان کے آگے بے بس ہوجاتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ اس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔
( م… نواب شاہ)