Thursday, November 7, 2024

Yeh Kanton Bhari Zindagi | Teen Auratien Teen Kahaniyan

جب وکیل صاحب نے دوسری شادی کا مشورہ دیا تو میں شش و پنج میں پڑ گئی ۔ میرا سارا دھیان اپنے بیٹے پر تھا جسے میں سوتیلے رشتے سے بچانا چاہتی تھی۔ ہماری پرورش بھی سوتیلے باپ نے کی تھی جس کے ہاتھوں بے پناہ دکھ، ذلت و خواری بھی ملی اسی لئے دوسری شادی نہ کرنا چاہتی تھی۔
ہمارے حقیقی والد ایک متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ وہ میٹرک پاس تھے اور ایک وکیل کے منشی تھے۔ جو آمدنی ہوتی، اسی میں صبر وشکر سے گزارہ کرتے تھے۔ ہم چار بہنیں ابھی کمسن تھیں کہ ایک بار محلے میں کچھ تنازع ہوا۔ احتجاج پر پولیس آئی، لاٹھی چارج ہوا۔ ایک لاٹھی میرے والد کے سر پر لگی۔ وہ موقع پر جاںبحق ہوگئے۔ یوں ایک معمولی چوٹ کارگر ہوگئی اور وہ جان سے چلے گئے۔
کچھ دن سوگ میں گزارنے کے بعد والدہ کو ہوش آیا تو گھر میں فاقوں کی نوبت آچکی تھی۔ ہم بچیاں کھانے اور دودھ کیلئے بلک رہی تھیں۔ امی نے برقع اوڑھا اور وکیل صاحب کے گھر گئیں۔ انہوں نے تھوڑی سی رقم سے مدد کردی لیکن یہ ہمارے مسئلے کا مستقل حل نہ تھا۔ کچھ عرصہ پڑوسیوں نے ساتھ دیا پھر سب نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اب جو کرنا تھا، میری ماں نے کرنا تھا۔ وہ گھر سے نکل کر محنت مزدوری نہ کرسکتی تھیں۔ ہم چاروں کو کس کے آسرے پر چھوڑتیں۔ گھڑی بھر کیلئے اگر ان کو گھر سے نکلنا ہوتا تو ہمیں تالے میں بند کر جاتیں۔ گھر بیٹھے جو کام ملتا، کرتیں۔ اس میں گزارہ ممکن نہ تھا۔ ایک دن پڑوسن آئی اور ہمیں بھوک سے نڈھال پایا تو کہا۔ ناظمہ بہن! برا نہ مانو تو ایک بات کہوں؟
ہاں کہو۔ اماں نے جواب دیا۔
تم تنہا ان بچیوں کو نہیں پال سکتیں۔ کیوں نہیں کسی شریف آدمی سے نکاح کرلیتیں۔ کم ازکم ان معصوموں کو دو وقت کی روٹی تو مل جائے گی ورنہ ان کا صبر تم پر پڑے گا۔
کس سے نکاح کروں، کون جانے کیسا ہو۔ بچیوں کا ساتھ ہے، آج چھوٹی ہیں، کل بڑی ہوں گی۔
سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اچھے، برے سبھی طرح کے ہوتے ہیں۔ دیکھ بھال کر شادی کرنا تو اللہ کرے گا ان کی پرورش کی کوئی سبیل نکل آئے گی۔ اللہ مسبب الاسباب ہے۔
ٹھیک ہے تمہاری بات… اچھے برے کی پرکھ کا مجھے ملکہ نہیں۔ جو آج اچھا ہے، کل برا ہوجائے۔ کون ضمانت دے گا۔ پھر مجھ چار لڑکیوں والی سے شادی کیوں کرے گا کوئی…! یہ لڑکے نہیں کہ بڑے ہونے پر کما کر لائیں گے۔ ان کا بوجھ ایسا ہے کہ شادی پر خرچہ اور جہیز اور شادی کے بعد بھی لڑکیوں کے سسرال کو راضی رکھنے کو پیسہ بہانا پڑتا ہے۔
تم ہر وقت بس دور کی کوڑی لایا کرو۔ ارے بھئی کچھ باتیں اللہ پر بھی چھوڑی جاتی ہیں۔ تم ہامی بھرو تو میں اپنے میاں سے کہوں کہ تمہارے لئے کوئی مناسب جیون ساتھی ڈھونڈنے کی سعی کریں؟ چلو ٹھیک ہے۔ جب کوئی مل جائے تو بتا دینا۔
اماں نے تو یونہی کہہ دیا تھا مگر پڑوسن ہمدردی کی ماری ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی۔ بالآخر انہوں میری ماں کیلئے ایک رشتہ ڈھونڈ نکالا۔ بتایا کہ ہمارے میاں کے دفتر میں ایک شخص کلرک ہے۔ یہ اس کا بڑا بھائی ہے۔ عمر پینتیس سال ہے۔ بیوی نے طلاق لے لی تھی، کوئی اولاد بھی نہیں ہے۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے بیچارے کو روٹی پکا کر دینے والا کوئی نہیں ہے۔ بھائی کے ساتھ رہتا ہے مگر بھاوج کبھی کھانا پکا دیتی ہے کبھی خود پکا لیتا ہے۔ کہو تو اس کی بھاوج سے بات کروں؟
کام کیا کرتا ہے؟ پولیس والوں کیلئے مخبری کا کام کرتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کی مخبری کرکے کمیشن بناتا ہے۔ کہیں جوا کھیلا جارہا ہو یا ہیروئن فروشی ہوتی ہو، یہ ایسے لوگوں کی ٹوہ میں ہوتا ہے پھر پولیس کو خبر کرتا ہے، وہ چھاپہ مارتے ہیں، مجرموں کو پکڑتے ہیں۔ گویا اس کا تعلق پولیس اور جرائم پیشہ لوگوں سے رہتا ہے۔
نہ بھئی…! ایسے آدمی سے زندگی جوڑنا مجھے منظور نہیں۔ میرا بچیوں کا ساتھ ہے۔ کوئی اسکول ماسٹر ہو، کلرک یا دکاندار ہو تو غور کرلیتی مگر یہ رشتہ میرے جی کو بھایا نہیں ہے۔
ارے بھئی تم بڑی وہمی ہو۔ میرے میاں ایسے ویسے کا رشتہ کیوں بتائیں گے۔ پہلے خوب چھان پھٹک کریں گے تبھی بات تم تک آئے گی۔ اس آدمی کا بھائی ان کا دوست ہے، ساری فیملی کو جانتے ہیں۔ بہت شریف اور خاندانی لوگ ہیں۔
بات دراصل یہ تھی کہ پاس پڑوس والوں سے بھی ہماری کسمپرسی اور فاقے زدہ روزوشب دیکھے نہ جاتے تھے۔ امی کی شادی جب ہوئی وہ سولہ سال کی تھیں۔ سال بعد پہلی بیٹی نے جنم لیا تو اگلے برس میں پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد باقی دونوں بہنوں کی عمروں میں بھی ایک سال کا فرق تھا۔ سب سے چھوٹی سارہ بھی چار برس کی تھی کہ میری ماں بیچاری نے بیوگی کی چادر اوڑھ لی۔ زندگی جس تیز رفتاری سے انہیں گلے ملی، اب اتنی ہی سست روی سے گزرنے لگی تھی غرض والدہ پے درپے مشکلات سے لڑتے لڑتے نیم جان ہوگئی تھیں۔
خالہ زبیدہ نے کہہ سن کر امی کو نکاح ثانی پر راضی کرلیا۔ جس مکان میں ہم رہتے تھے، وہ میرے مرحوم والد کا تھا جو انہیں اپنے باپ کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ ماں شکر ادا کرتی تھیں کہ سر پر چھت موجود ہے ورنہ کرایے کے مکان میں ایک بے سہارا بیوہ کا رہائش اختیار کرنا اس مہنگائی کے دور میں ممکن نہیں تھا۔ والدہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح ثانی کرلیا۔ شروع دنوں میں ہم نے کچھ محسوس نہ کیا کہ یہ کون شخص ہمارے گھر آکر رہائش پذیر ہوگیا ہے۔ والدہ نے کہا۔ یہ تمہارے آقا جانی ہیں تو ہم انہیں آقا جی بلانے لگے۔د وڑ کر اس کےپاس جاتے، وہ کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان روزانہ لے آتے تھے۔ فاقوں سے نجات ملی۔ دو وقت کی ہمیں روٹی مل گئی۔ یہ آقا جی ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھے۔ ماں کو بھی کچھ سکون نصیب ہوا کہ آقا جی نے کبھی ہمیں ڈانٹا ڈپٹا اور نہ ماں سے برا رویہ رکھا۔
ہمیں اسکول پڑھنے کی اجازت دے دی۔ پرائمری تک ہم ساری بہنوں نے تعلیم حاصل کی اس کے بعد سوتیلے باپ نے کہا کہ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا ہے، بیٹیوں کیلئے بس اتنا ہی کافی ہے۔ ان کو وقت پر ان کے گھر کا کرنا ہے۔ کچھ پیسہ بچائیں گے تو ان کے ہاتھ پیلے کرپائوں گا۔
والدہ نے بھی مزید اصرار نہ کیا۔ ہمارا مسئلہ تو روٹی، کپڑا اور زندگی کی بنیادی ضروریات تھیں جو آقا جی پوری کرتے تھے۔ جب ہم بڑی ہوگئیں تو ہمارے اخراجات بھی بڑھ گئے۔ ادھر آقا جی روزبروز کاہلی کا شکار ہوتے جاتے تھے۔ ایک آدھ بار کچھ مہینوں کیلئے گھر سے غائب بھی ہوئے پھر لوٹ کر آگئے۔ رفتہ رفتہ غربت نے ہمارے والد کی کاہلی کی وجہ سے ڈیرہ جما لیا۔ والدہ محنت مزدوری کرکے گھر چلانے پر مجبور تھیں جبکہ گھر کا تمام کام ہم بہنیں مل کر کرتی تھیں۔ یوں وقت گزر رہا تھا۔
مجھے یاد نہیں آقا جی نے کبھی ہمیں پیار سے بلایا ہو یا باپ کی طرح ہمارے سروں پر ہاتھ رکھا ہو۔ وہ ایک اجنبی کی طرح ہمارے گھر میں رہتے تھے۔ ہم بھی ان سے دور دور رہتے تھے۔ وہ اب چڑچڑے ہوگئے تھے، امی کے ساتھ بھی جھڑک کر بات کرتے۔ ماں ان کی جھڑکیوں کی عادی ہوگئی تھیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید باپ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
جب پانچویں کے بعد ماں نے اسکول سے اٹھا لیا تو میں بہت روئی۔ ضد کرتی کہ چھٹی میں داخلہ لوں گی لیکن اماں نے سمجھایا کہ بیٹی! اسکول صرف امیروں کے بچے جاتے ہیں، غریبوں کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ ماں کبھی کبھی ہمیں دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتیں شاید ان کو ہماری فکر ستاتی تھی۔
ایک دن آقا جی گھر آئے تو ہمارے لئے کپڑے اور کافی چیزیں لائے۔ اماں سے بھی پیار سے بات کرنے لگے۔ بہت حیرانی ہوئی کہ اس روکھے پھیکے انسان کے اندر یہ جذبوں کی برسات کیسے ہوگئی؟ شام کو کھانا کھایا اور صحن میں پڑی
چارپائی پر لیٹ گئے۔ اماں سے کہا۔ ناظمہ! ذرا حقہ تازہ کردو۔ ماں نے حکم کی تعمیل کی اور جب حقہ بھر کر ان کے پاس رکھا تو انہوں نے بڑے پیار سے کہا۔ اب ذرا میرے پاس بیٹھ جاؤ۔ والدہ قریبی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ ہاں! بولو کیا بات ہے؟
بات تو کچھ نہیں لیکن ملک صاحب کی بیوی بیمار ہے۔ وہ بہت پریشان ہیں، ان کی زنانی کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر تو بگو کو چند روز کیلئے ان کے ہاں جانے دے تو ان پر بڑا احساس ہوگا۔ انہوں نے بڑے احسان کئے ہیں مجھ پر۔ کئی غریبوں کا میں نے ان سے کام کروایا ہے۔ تو جب چاہے ان کی بیوی کی عیادت کو جاسکتی ہے۔ اچھا ٹھیک ہے۔ اماں نے دھیمے سے کہا۔ اگر تم کہتے ہو تو بھیج دیتی ہوں۔
اماں، ملک صاحب کی بیوی کو جانتی تھیں۔ پہلے بھی آقا جی کے ہمراہ کئی بار ان کے گھر جا چکی تھیں۔ یہ علاقے کے بااثر آدمی تھے، دولت مند تھے۔ میرا سوتیلا باپ ان کی خدمت گزاری کرکے کچھ رقم کما لاتا تھا۔ اماں نے سوچا کہ چلو کوئی بات نہیں، مشکل گھڑی میں بلا رہی ہیں۔ پہلے بھی ہم ان کی خدمت کرتے رہے ہیں۔
آقا جی میری بہن بگو کو ساتھ لے گئے۔ وہ بہت خوبصورت اور گوری چٹی تھی اسی لئے اس کا نام بگو پڑ گیا تھا جس کا مطلب گوری رنگت والی…! آقاجی اس کو ملک صاحب کے گھر نہیں لے گئے بلکہ شہر لے جاکر فروخت کردیا اور پیسے لے کر آگئے۔ اماں نے پوچھا۔ بگو کو پہنچا آئے؟ کہا نہیں…! اس کا بیاہ کر آیا ہوں۔
یہ کیسی شادی ہے، کیا بیٹی کی شادی ایسے کی جاتی ہے؟ ماں رونے لگیں کہ آقا جی تو نے کیسے کردی، مجھے بھی نہیں لے گیا اور کس کے ساتھ کی ہے، کچھ تو بتا…؟
اس نے کہا۔ اب چپ کر، لے جائوں گا تجھے بھی بعد میں، غریب کی بیٹی کی شادی میں دھوم دھڑکا نہیں ہوتا۔ ماں کو بھلا اس جملے سے کیسے سکون آتا۔ وہ چپ نہ ہوئی اور زور سے رونے لگی تو اس بے رحم نے چولہے سے جلتی ہوئی لکڑی کھینچ لی اور ہماری ماں کو مارنے لگا جس سے ان کے کرتے میں آگ لگ گئی۔ ہم نے شور مچایا تو لکڑی پھینک دی اور اماں کو چادر میں لپیٹ کر کرتے کی آگ بجھا دی۔
چار ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ ماں روتے روتے آدھی رہ گئی۔ تب وہ گیا اور جہاں بلقیس کو بیچا تھا، وہاں سے کسی طرح نکال کر واپس لے آیا ۔کچھ عرصے بعد دوبارہ اس کو ایک اور جگہ فروخت کردیا۔ اس طرح اس کو دوبارہ کافی رقم مل گئی۔ بلقیس نے اماں کو احوال دیا تھا کہ وہ آدمی شادی کیلئے لڑکی خریدنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھ سے نکاح کیا تھا اور بیوی بنا کر اچھی طرح رکھا ہوا تھا۔ وہ بیچارہ اب روتا ہوگا۔ اس نے کہا کہ چل تیری ماں بہت بیمار ہے، ایک گھڑی کو ملا لاتا ہوں ورنہ تیری جدائی میں دم نکل جائے گا اس کا…! مجھے خبر ہوتی کہ جھوٹ بول رہا ہے، کبھی اپنا گھر چھوڑ کر نہ آتی۔
اب آقا جی کو کمائی کا انوکھا راستہ سوجھ گیا تھا۔میری دوسری بہن کو بھی اسی طرح نکاح کرا کے رقم لے کر آگئے۔ ماں سے شادی کا کہتے تھے لیکن بیٹی کے عوض رقم لینا فروخت کرنا ہی ہوتا ہے۔ ان کا ضمیر مردہ ہوچکا تھا۔ دو سال بعد میری باری آگئی۔ انہوں نے میرا سودا ایک چمڑے کے تاجر عبدالقادر سے کردیا اور رقم لے لی۔ یہ ایک اچھا انسان تھا۔ مجھ سے نکاح کیا تو واقعی بیوی بنا کر رکھا، اپنی عزت سمجھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے اس لالچی سوتیلے باپ سے نجات ملی تاہم ماں اور بہنوں سے بچھڑنے کا دکھ تھا تب عبدالقادر نے کہا کہ وہ مجھے میری ماں اور بہنوں سے ضرور ملوائے گا تاہم آقا جی کے ڈر سے لوٹ کر میکے نہ گئی۔ دن، رات اپنے شوہر کی خدمت کرتی۔ ہم میاں، بیوی صلح سے رہنے لگے۔ اللہ نے دو بیٹے بھی دے دیئے۔ اب اپنے سوتیلے والد کی صورت بھی دیکھنا نہ چاہتی تھی۔
ایک روز اچانک آقا جی آئے تو ہم حیران ہوگئے کیونکہ جب سے مجھے عبدالقادر کے حوالے کیا تھا پھر صورت نہ دکھائی تھی۔ میرے شوہر نے خیریت دریافت کی کہا کہ میری بیوی کا دم آخر ہے۔ آخری بار رابعہ کو دیکھنا چاہتی ہے۔ مجھے یقین نہ آتا تھا لیکن عبدالقادر کو یقین آگیا۔ ماں دوبارہ نہیں ملے گی، جانا چاہو تو جاسکتی ہو۔ میں نے چھوٹے بیٹے کو اٹھا لیا اور بڑے کو وہیں چھوڑ دیا۔ آقا جی کے ساتھ آگئی۔
میرا خدشہ غلط نہ تھا۔ وہ گھر لے جانے کی بجائے مجھے کہیں اور لے گیا۔ اس بار میری قسمت کھوٹی نکلی۔ جس شخص نے خریدا تھا، وہ عورتوں سے ذلت کے کام کرواتا تھا۔ یہ تین آدمی تھے جن کے حوالے مجھے آقا جی کر گئے تھے۔ یہ لوگ بہت ظالم تھے۔ انہوں نے مجھ پر تشدد کیا اور مار کی وجہ سے میرے بدن پر نیل پڑ گئے۔ کہا نہ مانتی تو میرے بیٹے کو پیٹنے لگتے تھے۔ میری نگرانی ہوتی تھی کہ بھاگ نہ سکوں۔ ان کے قبضے میں اور بھی کچھ لڑکیاں تھیں۔ یہ بنگلہ دیشی تھیں اور دھوکے سے ان کے ملک سے انہی کے لوگ یہاں لا کر فروخت کرگئے تھے۔ یہ بے غیرت ہمیں اپنی بیویاں کہتے لیکن بری راہ پر بھی لگائے رکھتے۔ اللہ جانے میرے شوہر کو میری ماں کے اس خاوند یعنی آقا جی نے کیا جواب دیا ہوگا۔
جب مجھے اپنا بیٹا یاد آتا تڑپنے لگتی تھی۔ کلی طور پر ان کی قید میں تھی۔ شوہر کو پیغام بھجوانے سے بھی قاصر تھی۔ دل میں ٹھان لی تھی جب بھی موقع ملا، یہاں سے بھاگ نکلوں گی۔ بالآخر مجھے موقع مل گیا۔ ایک بھکارن گلی میں سدا لگاتی تھی اور میں بچا ہوا کھانا اسے کھڑکی کی سلاخوں سے دے دیا کرتی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کسی طرح یہاں سے نکلنے میں مدد کرو۔ اس نے ایک پھٹا ہوا برقع لا دیا اور ایک کشکول بھی…! بولی اب یہاں سے نکل بھاگنا تیرا کام ہے۔ میں نے ان چیزوں کو چھپا کر رکھا۔ ایک دن چوکیدار کھانا کھانے کے بعد واش روم ہاتھ دھونے چلا گیا۔ مجھے بس اتنی ہی مہلت مل سکی۔ برقع، کشکول اور اپنا بچہ لے کر میں گیٹ سے نکل بھاگی۔ گلی میں برقع اوڑھ کر کشکول ہاتھ میں پکڑ لیا اور بچے کو برقع میں چھپا لیا۔ تیز تیز قدموں سے گلی پار کرلی۔
اب مجھے کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ یہاں لوگ آجا رہے تھے۔ میں سڑک پر آگئی۔ ایک بس آرہی تھی، وہ پل بھر کو رکی تھی۔ ایک مسافر اترا تو میں لپک کر چڑھ گئی اور کشکول مسافر کے سامنے کردیا۔ چند نے کچھ سکے ڈالے۔ وہی میں نے بس والے کو کرائے کے طور پر دے دیئے۔ ایک عورت جس کے پاس بیٹھنے کو جگہ ملی، اسے بتایا کہ مصیبت زدہ ہوں۔ میری مدد کرو۔ اس نے غور سے میری بات سنی اور جب وہ آگے کہیں اتری تو میں بھی اتر گئی۔ اس نے اپنے شوہر کو میرا احوال بتایا جو اس کے ہمراہ سفر کررہا تھا۔ یہ لوگ مجھے اپنے گھر لے آئے اور میری والدہ کو میرے بارے میں پیغام بھیجا۔ اس عورت کا بھانجا وکیل تھا لہٰذا دو دن بعد مجھے ان کے پاس بھجوا دیا تاکہ وہ میری مدد کرے۔ والدہ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔
میں وکیل صاحب کے گھر رہنے لگی۔ ان کے گھر کا کام کرتی۔ انہوں نے میرا کیس لڑا۔ پہلے شوہر سے رابطہ کیا مگر عبدالقادر نے مجھے دوبارہ ساتھ رکھنے سے انکار کردیا۔ شاید وہ ڈر گیا تھا کہ میں بردہ فروشوں کے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں۔
وکیل صاحب نے اس سے طلاق دلوا دی۔ بیٹا جو میرے پاس تھا، کمسن تھا لہٰذا عدالت نے میرے پاس رہنے دیا۔ معلوم ہوا کہ ماں وفات پا گئی ہیں اور آقا جی نے چھوٹی بہن سارہ کی بھی اسی طرح پیسے لے کر شادی کردی ہے۔ اب اس گھر میں کیا کرنے جاتی۔ وکیل صاحب کا گھر پھر اچھا تھا۔ انہوں نے تحفظ تو دیا تھا۔
کچھ سال بعد انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں نکاح ثانی کرلوں۔ رشتہ بھی انہوں نے تلاش کیا تھا۔ میں نے آقا جی کو یاد کیا تو کانپ گئی۔ سوچا اگر یہ شخص جس سے نکاح ہوگا، آقا جی جیسا سوتیلا باپ نکلا تو میرے بچے کا کیا ہوگا تاہم وکیل صاحب نے بہت تسلی دی کہ ڈرو نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ


اچھا اور شریف آدمی ہے اور میں نکاح میں تمہارا ولی ہوں تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔ بالآخر ان کے کہنے پر میں نے شادی کرلی۔ یہ ریٹائرڈ آدمی تھے۔ بہت اچھے چلن کے انسان تھے۔ ان سے شادی کے بعد مجھے تحفظ ملا اور سکھ ملا۔ میرے بچے کو باپ کا پیار ملا، وہ اسکول جانے لگا اور میں نے ماضی کی تلخیوں کو بھلانا شروع کردیا۔ آج میرے پاس گھربار سبھی کچھ ہے لیکن میں آج تک اپنی بچھڑی بہنوں سے نہ مل سکی کیونکہ معلوم نہیں وہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں۔ سوتیلی ماں بن کر اپنے شوہر کی دو بن ماں کی بچیوں سے بہت پیار بھرا سلوک روا رکھا کہ سوتیلے پن کی ڈسی ہوئی تھی۔ آج وہ بھی مجھ سے ایسی محبت کرتی ہیں جیسے سگی بیٹیاں ہوں۔ (ق… بہاولنگر)

Latest Posts

Related POSTS