عادل میاں ہمارے رشتہ کے چچا ہوتے تھے ۔ بیوی کی وفات کے بعد چچا اکیلے رہنے پر مجبور ہو گئے ۔ آس پاس کے رشتہ دار ان کا خیال رکھتے۔ وہ السر کے مریض تھے بازارکا کھانا کھا کر بیمار پر جاتے تھے کبھی کسی کے گھر سے روٹی آجاتی مگر ان کو یہ بھی گوارانہ تھا کہ پڑوسیوں کے ٹکڑوں پر گزرہو۔ محلے میں ان کی رشتےدار نے کہنا شروع کیا کہ عادل تم دوسری شادی کر لو ان کی کو ششوں سے عادل کی دوسری شادی ہو گئی۔ دوسری بیوی خوبصورت اور جوان تھی مگر باغی تھی۔ سوتیلی ماں بچپن سے فیشن سے منع کرتی کہ شادی ہو گی تو اس نے تہیہ کر لیا کہ اپنے ارمان شادی کے بعد نکالوں گی – چچا کی آمد نی زیادہ نہیں تھی ایک ورکشاپ پر ملازم تھے مکان آبائی تھااور حق حلال کی روزی روٹی پر گزارہ کرتے تھے۔ تنخواہ سے گھر کا نظام مشکل سے چلتا ایسی عیاشیوں کے لیے پیسے کہاں سے آتے ؟ شروع دنوں میاں بیوی خوش رہے۔ عادل کی بیوی زیادہ تر گھر ہی میں رہتی محلے کے گھروں میں بھی آتی جاتی نہیں تھی۔ سوتیلی ماں نے تواس کو بھلا دیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا رفعت ہوشیار ہو گئی ۔ اب وہ خود ہے بازار اکیلے آنے جانے لگی۔ جب گھر سے نکلی تو ہر جھجھک ختم ہو گئی – بازار میں پھرتے پھراتے ایک دن وہ ایک اجنبی عورت سے ٹکراگئی۔ عورت خاصی فیشن ایبل اور تیز طرار تھی اس نے آنافانا چچا کی دلہن کو سہیلی بنالیا اور یہ اس خاتون کو گھر لے آئیں۔اب تو یہ روز کا معمول ہو گیا۔ رفعت جب تک نو بہار سے نہ ملتی اسے چین نہ آتا۔ دونوں کے مزاج ہم خیال اور ہم طبیعت تھے ، نو بہاراوررفعت روز دوپہر کے بعد بازار کو نکل جاتیں- دیکھنے سے نو بہار ایک امیر عورت لگتی تھی۔ اس کا لباس عمدہ اور تراش خراش ، دولت مندوں کی سی تھی محلے کی خواتین اس عورت کے لباس اور زیورات سے متاثر نظر آتی تھیں ، لیکن کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ رفعت کا اس امیر عورت سے کیا جو ڑ بنتا ہے جب ملاقاتیں زیادہ ہونے لگیں تو محلےوالے نو بہارکیآمدورفت پر نظر رکھنے لگے کہ دونوں کی دوستی میں کون ساراز پوشید ہ ہے۔ جب عادل گھر آتے ،بیوی کامزاج نہ ملتا ۔ وہ اکھٹری کھڑی رہتی۔ بات بے بات الجھتی اور ذراذراسی بات پر جھگڑ اشروع کر دیتی۔ کبھی کہتی مجھے اچھے کپڑے لا کر دو، میک آپ کا سامان لا دو۔ وہ پہلے پہل تو سمجھاتے رہے کہ تنخواہ کم ہے۔ میں یہ سب چیز میں لا کر تم کو نہیں دے سکتا۔ عزت کی چادر سے ہم نے اپنی غربت کو ڈھکا ہوا ہے۔ جب رفعت نے شوہر کو زیادہ تنگ کرنا شروع کیا تو دونوں کے درمیان نوبت مار کٹائی تک آگئی۔ چونکہ ہمارا گھر ان کے بالکل ہی نزد یک تھا، تبھی امی اور بھائی جھگڑے میں مداخلت کرتے ، ان کے گھر سمجھانے کو جاتے ۔ رفعت کسی کی بات نہ سمجھتی بلکہ شوہر کی کم حیثیتی کا گلہ کرتی اور کہتی کہ میں بھی انسان ہوں۔ میری بھی کچھ خواہشیں ہیں جو شادی کی قید ایسے ہی بھگتنی تھی تومیں ماں باپ کے گھر ہی اچھی تھی صاف ظاہر تھا کہ رفعت اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتی تھی عادل چچا دن بھر کی محنت کے بعد بھی پریشا ن تھے ۔ جب گھر میں قدم رکھتے ہیوی طعنہ دیتی کہ لوگوں کی بیویاں عیش کرتی ہیں تو میں کیوں ویسے نہیں رہ سکتی۔ غریب بہت سمجھاتے کہ بیوی اللہ چاہے گا تو ان کے دن بھی سنور جائیں گے مگرنوبہار رفعت کو کسی اور سمت لئے جاری تھی۔ رفعت اب بڑے گھر اور قیمتی زیورات کے خواب دیکھنے لگی تھی ۔ نوبہار اس کو امیر بننے کے کچھ نئے طور طریقے سمجھا رہی تھی جس کا چچا سمت کسی کو علم نہ تھا- نو بہار در حقیقت بازار کی عورت تھی اور رفعت چو نکہ خوبصورت تھی۔ وہ اس کو بھولی بھالی جان کر اپنےرستے چلانا چاہ رہی تھی۔اس کے مقاصد کا علم تو خود رفعت کو بھی نہیں تھا۔ نو بہار اس کو اکساتی ، اس کے شوہر کی غربت کا احساس دلاتی۔ کہتی کہ تمہاری حق تلفی ہورہی ہے تمہاری جیسی صورت والی کو تو دولت میں کھیلنا چاہئے تھا۔ نو بہار کا ایک واقف کار کمال تھا۔ جس کی ویڈیو کی دکان تھی۔ وہ اکثر رات کو اس کی دکان پر لے جاتی جہاںدونوں آئس کریم کھات یں ۔ کمال اچھے کردار کا آدمی نہ تھا جب دونوں کی خوب دوستی ہو گئی تووہ اکیلے بھی رفعت کے گھر آنے جانے لگا۔ کمال بڑا کائیاں آدمی تھا۔ اب وہ رفعت کے لئے تحفے بھی لانے لگا، جس میں عمدہ لباس اور میک آپ کا سامان ہوتا اور مصنوعی جیولری جس کی رفعت لالچی تھی جب چچا نے وہ تحفے تحائف گھر میں دیکھے ، پو چھا کہ کس نے دیئے ہیں ؟ رفعت فخر سے جواب دیتی جو میری بہن بنی ہے اس نے دیے ہیں وہ بہت امیر ہے جب روز محلے والوں نے کمال کو چچا کے گھر آتے جاتے دیکھا توان کے بھی کان کھڑے ہوگئے۔ ، ایک روز ایک دو محلے داروں نے چچا سے اس بات کا تذکرہ کر دیا۔ تبھی ان کو کرید ہوئی اور ایک دو پہر وہ کام چھوڑ کر گھر آگئے۔ بد قسمتی سے کمال آگیا جب چچا نے گیٹ کھولا۔ سامنے اجنبی کھڑا تھا۔ پوچھا۔ کیوں آۓ ہو ؟ وہ بولا۔ نوبہار نے بھیجا ہے ۔ رفعت سے ان کو کچھ کام ہے۔چچا نے کمال کو اندر نہ آنے دیا اور بے عزت کر دیا۔ کہا جو کہنا ہے ، مجھ کو بتادو۔ میری بیوی کو کسی کا پیغام دینے کی ضرورت نہیں اس کے بعد ان کی بیوی نے نیا پہلو بدلا۔ اب چچا کے جاتے ہی روزانہ تیار ہو کر جلیل کی دکان پر چلی جاتی اور تمام دن وہاں بیٹھی رہتی اور شوہر کے آنے سے پہلے گھر آجاتی۔ یونہی دن گزرتے رہے۔ رفعت کے فیشن اور اس کی خواہشات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ کسی کو کانوں کا ن خبر نہ تھی کہ کیا چل رہا ہے ایک دن دونوں بدمعاشوں نے رفعت کو کمال کی دکان پر دیکھ لیا اور بولے اتنی دور آنے کیا کیا ضرورت ہے ، تمہاری جو ضروتیں ہیں ہم پوری کر دیا کر یں گے۔ اگلے دن یہ دونوں بد معاش رفعت کے دروازے پر پہنچ گئے۔ اوربے دھڑک اندر گھس آۓ۔ جھجک کا پہلا قدم ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد دونوں رفعت کے گھر آنے جانے لگے ۔ معلوم تھا کہ ایسے لوگ بلیک میانگ کا دھندہ کرتے ہیں ، کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ،رفعت پھر عورت تھی ۔انہوں نے اپنے اس معرکے کا تذ کر ایک نوجوان دوست سے کیا جس کا نام جان عالم تھا۔ یہ بھی کچھ کم بد معاش نیت نہ تھالیکن چوہدری صاحب کا بیٹا تھا لہذا باپ کی طرف سے کچھ عزت ملی ہوئی تھی۔ چچا جب گھر میں نہ ہوتے چوہدری کا بیٹا بھی آ جاتا۔ یہ تو یک نہ شد تین شد ہو گئے رفعت گھبرائی۔ تب اس نے اس شرط پر جان عالم سے دوستی کر لی کہ وہ ان بدمعاشوں سے اس کی جان چھروادے گا، جو اس کو بلیک میل کر کے خدا جانے کہاں کہاں لے جانا چاہتے تھے ۔ جان عالم بااثر تھا۔ اس نے ان بدمعاشوں کو روک دیا اس کے گھر نہ آیا کریں۔ یوں چوہدری کے بیٹے عالم کی رفعت سے گہری دوستی ہو گئی۔ وہ پیسے والا آدمی تھا۔ اس کی گاڑی پر بیٹھ کر رفعت تمام شہر کی سیر کرتی ، اچھے ہوٹلوں کا کھانا کھاتی ، شاپنگ کرتی اور بہت خوش رہتی تھی۔ محلے والے سارا معاملہ بھانپ چکے تھے لیکن انہوں نے اس سر پھرے نوجوان کے منہ لگنا مناسب نہ جانا اور محلے کے ایک بزرگ سے جاکر کہا کہ آپ عادل کو جاکر خبر کر دیں کہ یہ ان کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔اس بزرگ نےچچا کہا بیٹا گھر کی حفاظت کیا کرو۔ روز گار میں اس قدر بھی مگن نہ رہو کہ گھر والے آزاد ہو جائیں بزرگ کی بات چچا کی سمجھ میں آگئی ، پھر بھی پوچھ ہی لیا۔ بزرگوار ! آپ کیا چاہتے ہیں ؟ یہ کہ کبھی کبھی اپنے سیٹھ سے چھٹی لے کر دو پہر کو گھر کا چکر لگالیا کرو۔ ٹھیک ہے تا یاجی … میں آ جائوں گا۔ ایک روز اچانک دو پہر کوعادل چچا گھر آگئے۔ دیکھا کہ چوہدری کالڑ کا ان کے گھر کادروازہ کھول کر اندر جارہاہے۔ ان کی تو سٹی گم ہو گئی ، کیو نکہ جان عالم نے ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی اندر سے درواہ زلاک کر دیا تھا اور چچا باہر کھڑے رہ گئے تھے ۔اب وہ اندر کیسے جاتے …؟ باہر کھڑے سوچتے رہے۔ تبھی سامنے والا دکان داران کے پاس آیا۔ یہ دبے قدموں چلتے مکان کی پچھلی جانب گئے اور اس دکان دار سے سیڑھی مانگ کر عقبی دیوار پر چڑھ گئے، پھر کسی طرح چھت پر پہنچے۔ جھانک کر دیکھازینے کا دروازہ بند تھا مگر باورچی خانے کی کھڑ کی کھلی تھی۔ وہ پائپ کے سہارے پھسلتے ہوۓ نیچے آگئے۔ بیڈ روم کی کھڑکی تھوڑی سی کھلی تھی باقی پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ جھری سے جھانکا۔ بیوی اور چوہدری کا سپوت دونوں کمرے میں تھے۔ کھڑکا محسوس کر کے ان کی بیوی باہر آگئی۔ یہ فورا کھٹر کی کی اوٹ میں ہو گئے۔ بیوی باورچی خانے میں گئی اور وہاں سے صحن سے ہوتی ہوئی بیرونی دروازہ دیکھنے چلی گئی جو اندر سے بدستور بند ملا۔ دروازے کو بند پا کر اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس اثنا میں چچا کھڑ کی کے راستے باورچی خانے کے اندر پہنچ گئے وہاں سے برآمدے میں آگئے اور پھر اس رستے سے سامنے والے کمرے میں چلے گئے جبکہ جان عالم دوسرے کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔ جس کمرے میں چچا تھے وہاں سر دائی گھوٹنے والا ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے وہی اٹھالیا اور بیوی کے لوٹ آنے کے انتظار میں چپ سادھ کے بیٹھ گئے یوی صحن سے گزرتی برآمدے کی طرف آنے کی بجاۓ باورچی خانے چلی گئی ، کچن بند کر کے وہ اس کمرے کی طرف گئی جہاں جان عالم اس کا منتظر تھا۔ پائوں کی چاپ سن کروہ بولا آ گئی ہو میری جان ! کد ھر چلی گئی تھیں ؟ یہ سُن کر عادل چچا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ دروازے کے پیچھے کھڑے تھے ۔ان کی بیوی کمرے کے اندر جاچکی تھی۔ جہاں عالم اوندھے منہ بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ چچا اب اور زیادہ برداشت نہ کر سکتے تھے۔ برابر والے کمرے کے دروازے کے پیچھے سے نکل کر وہ بھی ان کے سروں پر پہنچ گئے اور دیوانہ وارڈنڈے کو ان پر برسانے لگے ۔ پہلے دو تین وار جان عالم کو لگے کیونکہ وہ اوندھا لیٹا تھا اس لئے ہر وقت سر پر پڑنے والے وار نہ دیکھ سکا تھا۔ ڈنڈے کی ضربات ایک کے بعد ایک اتنی تیزی سے پڑیں کہ اوندھے سے سیدھے ہونے کا اس کو موقع ہی نہ مل سکا۔ ضر بات بھی اس قدر شدید کہ وہ اپنا سر تک نہ اٹھا سکا تھا۔جبکہ رفعت خوفنر دو بھاگتی ہوئی دروازے سے باہر راہداری میں پہنچ گئی۔ بیوی کو بھاگتے دیکھ چچا نے جان عالم کو چھوڑ دیا اور رفعت کے پیچھے بھاگے ۔اسے بر آمدے ہی میں جالیا۔ وہ اس پربھی ڈنڈے برسانے لگے ، یہاں تک کہ ان کے قدموں میں گر گئی۔ وہ چیخنے چلانے لگی کہ مت مارو۔ مجھے مت مارو۔ لیکن چچا اپنے ہاؤس کھو بیٹھے اور دونوں کو جن سے مار کر ہی دم لیا اس کے بعد وہ فوراً تھانے چلے گئے اور خود کو حوالہ پولیس کر دیا۔ پولیس نے لاشوں کو قبضے میں لیا۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا اور جو قانونی کاروائی ہو نا تھی ھوئی ۔ کیس چلا… چچا کو تین سال قید ہوئی۔ تین سال بعد وہ رہا ہو گئے۔ اس کے بعد وہ پھر سے اپنے بر باد گھر میں اکیلے ہی رہنے لگے اس کو دوبارہ سے آباد کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ کیونکر سوچتے، جبکہ وہ عورت ذات ہی سے نفرت کرنے لگے تھے۔ بعد میں بھی باوجود قاتل کہلانے کے انہوں نے کبھی کسی کو نقصان نہ پہنچایا۔ تبھی محلے کے بچے، بوڑھے اور جو ان سبھی اب بھی ان کے ساتھ عزت سے پیش آتے تھے اور کوئی ان سے خوف نہیں کھاتا تھا۔ ہم اکثر سوچتے کہ چچا تو اچھے آدمی تھے۔ نجانے پھر کیوں ان کو یہ سزاملی کہ قاتل کہلاۓ اور قتل جیسا گناہ کبیرہ ان سے سرزد ہو گیا۔ اس میں ان کیبھی غلطی ہو گی لیکن رفعت ایسی بیویوں کا بھی دوش ہوتا ہے کہ جو اپنی خواہشات کے پیچھے عزت گنوانے کوبھی برا نہیں سمجھتی ہر عورت کو سوچ سمجھ کر سہیلی بنانا چاہئے ، کیو نکہ ہر راہ چلتی عورت دوست نہیں ہوتی۔ شوہر ا گر محنت و مشقت سے حلال کی روزی کماتا ہے تو بیوی کو اسے کم حیثیت سمجھ کر محض نمود و نمائش کی خاطر بھٹک جانا بھی تو زیب نہیں دیتا۔