والد صاحب کو ٹی بی کا موذی مرض لاحق تھا لیکن رشتہ طے کرتے وقت ان لوگوں نے نانی اماں سے یہ بات چھپا لی، یوں انہوں نے میری والدہ اور خالہ کا رشتہ ایک ہی گھر میں دو سگے بھائیوں محراب اور سہراب سے کردیا اور بدلے میں ان کی بہن صفیہ کو اپنے بڑے بیٹے رشید کی دلہن بنا کر لے آئیں۔
ابو شادی کے چار سال بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جن دنوں ابو کی وفات ہوئی میری عمر دو سال، بھائی اظہر صرف چھ ماہ کا تھا اور امی اٹھارہ برس کی تھیں، اتنی کم سنی میں خوشیوں کے پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گئے۔ ہماری نانی کی بدقسمتی کہ نانا نے دوسری شادی کر لی، تبھی ان کو میکے کا سہارا لینا پڑا۔ وہ بچوں کے ہمراہ اپنے بھائی کے پاس گائوں سے شہر آگئیں۔
جب نانی کو والدہ کی بیوگی کی اطلاع ملی تو بیٹی کو لینے آ پہنچیں ،حالانکہ خود اپنے بھائی کے در پر پڑی تھیں جو بچارے ایک اسکول ماسٹر تھے، تنخواہ معمولی تھی، ٹیوشن پڑھا کر گزر اوقات کرتے تھے۔
نانی کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے جو اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ سو ہمارے آ جانے سے اخراجات مزید بڑھ گئے۔ نانی اماں خود محنت مشقت کرنے لگیں۔ وہ دوسروں کے گھروں میں کام کرتیں، اور امی کے بوتیک کے لئے کڑھائی کرتیں۔ انہوں نے ہم دونوں بچوں کو اسکول داخل کرایا تاکہ ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں۔
بھلا ہو نانی اماں کے بھائی احمد بخش کا جنہوں نے ہماری سرپرستی قبول کرلی ان کو ہم بڑے نانا کہتے تھے۔ وہی ہماری اسکول فیس ادا کرتے تھے۔ آخر کب تک، ان کے اپنے بھی بچے تھے، ایک روز نانا نے اظہر کو بلا کر کہا۔ میں اب تم کو مزید نہیں پڑھا سکتا، تم کوئی کام کرو۔ جب اسکول میں چھٹیاں ہوگئیں تو اظہر کام ڈھونڈنے لگا۔
گھر کے سامنے ہی ایک اسٹور تھا۔ جس کا مالک ہمارا پڑوسی تھا، اس نے اظہر کو اسٹور پر ملازم رکھ لیا۔ چونکہ یہ لوگ ہم کو جانتے تھے، وہ میرے بھائی پر بھروسہ کرتے تھے، یہ بہت اچھے لوگ تھے، ہمارے حالات کا بخوبی علم تھا۔ انہوں نے اظہر کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی، میٹرک تک پڑھایا۔ ہم ان کا احسان کبھی نہیں بھلا سکتے۔
ان دنوں ایاز ماموں آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے، جب انہوں نے نانی سے کہا کہ میں آپ کی غربت دور کرنے کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں۔
بیٹے ابھی تمہاری عمر بیرون ملک جانے کی نہیں ہے۔ پہلے تعلیم مکمل کرلو۔ نانی نے جواب دیا۔
وہ نہ مانے، بالآخر وہ دن آگیا جب سترہ برس کی عمر میں غربت دور کرنے کی خاطر ایاز ماموں نے رخت سفر باندھ لیا۔ ایجنٹ نے اس شرط پر ہامی بھری کہ وہ پہلے اس کا قرض اتاریں گے اور پھر اپنی کمائی گھر والوں کو بھیجیں گے۔
ماموں نے یہ شرط منظور کرلی۔ ایک روز وہ نانی اور امی کو الوداع کہہ کر چلے گئے اور آج تک نہیں لوٹے۔ کسی کو علم نہیں ہے کہ وہ کہاں گئے۔ یہاں تک کہ میرے منجھلے ماموں فیاض کی وفات ہوگئی۔
پھر نانی اماں کی وفات پر اظہر بھائی نے ایجنٹ سے معلوم کیا تو اس نے کوئی پتا نہ دیا کہ ہم ایاز ماموں کو اطلاع کرتے کہ جس کی غربت کو دور کرنے تم پردیس گئے تھے وہ ماں مر گئی ہے۔
بڑے ماموں رشید سرکاری محکمے میں کلرک تھے۔ اپنی بیوی صفیہ بیگم کے ہمراہ علیحدہ گھر میں رہتے تھے۔ ان کے مالی حالات ٹھیک تھے، مگر امی اور نانی سے میل جول نہ رکھتے تھے مبادا… ان کی مالی مدد کرنی پڑ جائے حالانکہ ان کی بیوی ہماری سگی پھوپھی تھیں۔
میں نے میٹرک پاس کیا تو ایک اچھا رشتہ آگیا۔ لڑکا سرکاری محکمے میں ملازم تھا۔ شریف لوگ تھے ان دنوں نانی زندہ تھیں، امی اور نانی نے ہاں کردی جب تایا والوں کو پتا چلا تو رشتہ لینے آگئے۔ یہ تائی وہی سگی خالہ تھیں جب ابو فوت ہوئے تھے ہمیں اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کردیا تھا۔ اب رشتہ لینے آئے تو امی نے انکار کردیا، تب تایا بولے۔ تم ہمارے یتیم بھتیجے اور بھتیجی کو ہم سے جدا مت کرو، ہمارے ساتھ رشتہ کر لو گی تو آبائی مکان میں تمہارے بچوں کا حق تم کو دے دیں گے۔
امی نے سوچا بے شک جیٹھ نے برُے دنوں میں ساتھ نہیں دیا، اگر رشتہ کرنے سے میرے بچے پھر سے اپنے باپ کے گھر میں حصہ دار ہو جاتے ہیں تو دربدری سے بچ جائیں گے۔ یوں اظہر کی منگنی تایا کی بیٹی سے کردی۔ تین سال منگنی رہی۔ ان کی شرط تھی کہ اظہر کو ملازمت ملتے ہی رخصتی کردیں گے۔
میرے بھائی نے نوکری کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی، بڑی مشکل سے ایک کمپنی میں نوکری مل گئی۔ اسی اثنا میں ان کی بیٹی کے لئے ایک خوشحال گھرانے سے رشتہ آگیا۔ ادھر جب امی تاریخ لینے گئیں تو انہوں نے نئی شرط رکھ دی۔ تایا نے کہا۔ ہمارا آدھا مکان جو تمہارے بچوں کی وراثت میں آتا ہے، وہ میرے بیٹے اور بیٹی کے نام کردو۔
امی نے اظہر کی شادی سے قبل مکان کی وراثت لکھ کر دینے سے انکار کیا تو انہوں نے منگنی توڑ دی۔
امی بہت دکھی ہوگئیں، تب بھائی نے سمجھایا۔ ماں آزمائے ہوئے کو آزمایا نہیں کرتے… خالہ اور تایا کو جان چکی ہو ان کا خیال چھوڑ دو، پہلے ہم شگفتہ کی شادی کرتے ہیں۔ پھر میں آزاد ہو جائوں گا تو دبئی چلا جائوں گا اور وہاں جا کر اتنا کمائوں گا کہ ہم قرضہ اتار سکیں گے اور گھر بھی بنا لیں گے۔
وہ ایک ایجنٹ کے پاس گیا جو لانچوں کے ذریعے بے روزگار نوجوانوں کو دبئی بھجواتا تھا۔ اس کا نام ظفر تھا۔
بھائی سے ظفر نے ایران تک پہنچانے کے تیرہ ہزار طلب کئے،کہا کہ عمان تک جانے کے مزید پندرہ ہزار ادا کرنے ہوں گے۔
اظہر بھائی نے امی کو نہ بتایا۔ اپنے دوست سے رقم قرض لی اور دو جوڑے شاپر میں ڈال کر ظفر کے پاس چلا گیا۔ امی سے بہانہ کیا کہ کام سے چند دنوں کے لئے لاہور جا رہا ہوں۔
پندرہ آدمی اور بھی تھے۔ ظفر نے ان سب کو لاری میں سوار کرا دیا۔ تمام رات کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ اگلے دن صبح نو بجے کراچی پہنچ گیا، جہاں ایجنٹ کا ایک کارندہ ان کو پک اپ میں بھر کر چاکیواڑہ لے گیا اور ایک پرانے بڑے سے گھر میں ٹھہرایا۔ دوسری صبح پچاس آدمی مزید آگئے، تب اظہر نے امی کو فون کیا۔ ’’اماں میں دبئی جا رہا ہوں، آپ فکر نہ کرنا، دعا کرنا۔ ہم ایک ٹرانسپورٹر کے ساتھ جا رہے ہیں جن کی بسیں مندبلو اور گوادر تک چلتی ہیں۔
امی کیسے فکر نہ کرتیں وہ تو پہلے ہی ڈری ہوئی تھیں خوب روئیں کیونکہ ان کی منہ بولی بہن کا بیٹا عابد بھی اسی طرح دبئی گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ قافلہ رات کی تاریکی میں بس کے ذریعے خطرناک پہاڑی راستوں اور کچی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے جاسک تک جاتا تھا۔ یہ ایرانی بلوچستان کا علاقہ ایسا تھا کہ رات کے اندھیرے میں سڑکیں دکھائی نہیں دیتیں، پتا نہیں چلتا کہ کدھر جا رہے ہیں۔
ان کو بھی جہاں بس نے پہنچایا وہ جاسک کا ہی علاقہ تھا۔ ایک باغ میں دن بھر رہے۔ باغ کیا تھا امرودوں کے سوا کچھ نہ تھا، بارہ گھنٹوں سے کچھ کھایا نہ پیا، رات کو پھر محو سفر ہوگئے۔ صبح شہر کنارے پہنچے جو سمندر سے تقریباً چار کلومیٹر دور تھا۔ بس والوں نے اس قافلے کو یہاں اتار دیا اور کہا کہ بس اب آپ کا سفر ختم ہوجائے گا۔ ابھی یہاں قیام کرو۔ رات کو کنارے پر لے جائیں گے۔
اظہر بھائی کے ساتھ تینتیس آدمی تھے۔ دس روز بعد ان کا نمبر آیا، وہ انہیں پیدل کنارے تک لے گئے، یہ پیدل کا سفر تقریباً تین گھنٹے کا تھا۔ مغرب کے وقت انہوں نے چلنا شروع کیا تو نو بجے شب سمندر تک پہنچے، ایک گھنٹہ لانچ کے انتظار میں یہ پانی میں کھڑے رہے، جس سے حالت بری ہوگئی اور ٹانگیں یخ بستہ لہروں سے بے جان ہوگئیں۔ یہاں پر لانچ نے آنا تھا جو ان کو عمان لے جانے والی تھی۔
اظہر بھائی جس لانچ پر جا رہے تھے اس میں پندرہ آدمیوں کی گنجائش تھی مگر انہوں نے تینتیس آدمی چڑھا دیئے۔ شروع میں لانچ آہستہ چلتی ہے، پھر اس کی رفتار اتنی تیز کردی جاتی ہے کہ ان پر موجود لوگوں کی خوف سے چیخیں نکل جاتی ہیں، تب یہ اپنے خدا اور گھر والوں کو یاد کر کے روتے ہیں کیونکہ کھلے سمندر کی لہریں ان کے اوپر سے گزرتی ہیں اور تند موجیں لانچ کو پلاسٹک کے کھلونے کی طرح اِدھر اُدھر مارتی ہیں۔
اس طرح لانچوں پر کھلے سمندر سے دبئی جانے کا عزم رکھنے والو ں کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ سراسر موت کا سفر ہوتا ہے، کتنے ہی لعل سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں، جو کبھی پلٹ کر واپس اپنے گھروں کو نہیں آتے۔ یہ تو میری ماں کی دعائیں تھیں کہ اظہر بھائی بالآخر ایک روز خستہ حال گھر واپس لوٹ کر آگئے، تب انہوں نے بتایا کہ شگفتہ بہن خدا کسی کو وہاں نہ لے جائے۔ یہ تین گھنٹے کا جان لیوا سفر تھا مگر تین صدیوں کے برابر تھا اور اس طرح اپنے خوابوں کے پیچھے کھلے سمندر سے دبئی جانے والوں کے لئے موت کا بگل تھا۔
آپ دبئی کیسے پہنچے؟ میں نے پوچھا تھا تو بھائی نے بتایا کہ جب ہم عمان کی حدود میں پہنچے بہت تیز ہوا چل رہی تھی اور ہم لوگ کشتی کے اوپر بندھے رسے کو پکڑے ایسے اِدھر اُدھر ڈول رہے تھے جیسے تیز و تند جھونکوں میں رسی پر لٹکے کپڑے اڑتے ہوئے اِدھر اُدھر جھولتے ہیں۔ ہم اسی امید میں سانس لے رہے تھے کہ بس اب منزل آنے والی ہے کہ اچانک ناخدا نے کہا۔ موسم ٹھیک نہیں ہے لانچ کو واپس لے جانا ہوگا۔ تین گھنٹے سمندر میں رہنے کے بعد لانچ نے واپسی کا سفر شروع کردیا۔ شاید خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ خدا خدا کر کے واپس اسی کنارے پر پہنچے جہاں سے چلے تھے تو سبھی بدن کے درد کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔ پائوں کے چھالے زخموں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ اس پر طرّہ یہ کہ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا۔ بھوک پیاس سے نڈھال تھے۔
دو دن بے یارو مددگار بھوکے پیاسے اسی حالت میں پڑے رہے، اب پریشانی اور خوف کے ساتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہ تھا، البتہ ناخدا اپنے عمانی ایجنٹ سے رابطے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
ان دس دنوں میں یہ لوگ روز صرف مٹھی بھر بھنے ہوئے چنے کھاتے رہے تھے۔ آخرکار ناخدا کا رابطہ ایجنٹ سے ہوگیا، اس نے کہا کہ اب موسم بہتر ہے اور ہوا بند ہوگئی ہے، سمندر بھی پرسکون ہوچکا ہے، اب آپ لوگ آجائو۔ وہ عمانی ایجنٹ سمندر کے کنارے جنگل میں موجود تھا، گرتے پڑتے یہ دوبارہ وہاں چلے گئے۔ کنارے سے ناخدا نے لانچ پر سوار کرا دیا۔
موسم ٹھیک تھا، سمندر سویا ہوا تھا، ڈھائی گھنٹے میں عمان کی حدود میں جا پہنچے لیکن اوپر ہیلی کاپٹر گشت کر رہا تھا، تبھی ناخدا نے لانچ کو بند کردیا اور آدھا گھنٹہ پانی میں رہ کر ہیلی کاپٹر کے جانے کا انتظار کیا۔ جب وہ چلا گیا ناخدا نے لانچ کو اسپیڈ دی اور پانچ منٹ بعد کنارے پر اتار دیا۔ ہدایت کی کہ تیزی سے کنارے سے نکل کر سامنے جنگل میں گھس جائو وہاں تم کو ایجنٹ مل جائے گا۔
ایجنٹ ایک کھجور کے درخت پر لٹکا ہوا تھا، اوپر کالی چادر ڈال رکھی تھی، اس نے آواز دے کر بلایا اور ہمیں جنگل سے باہر لے آیا۔ تبھی وہاں پولیس کی گاڑی آگئی۔ سب اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، یہاں پر اٹھارہ افراد پکڑے گئے۔ پھر پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ ہم باقی لوگ زمین پر لیٹ گئے۔ خدا کی مہربانی کہ ہم ان کو نظر نہیں آئے اور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
یہاں کے ایجنٹ کو شاہ جی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ ہم کو ایک مکان میں لے آیا۔ یہاں ہم نے کپڑے تبدیل کئے جو بھیگے ہوئے تھے اور بھاگنے سے پھٹ گئے تھے۔ ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ سب کے سب سو گئے۔
شام پانچ بجے سو کر اٹھے تو شاہ جی کھانا لے آیا تھا۔ یہاں ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ شاہ جی نے بتایا کہ صبح ہم دبئی روانہ ہو جائیں گے۔
صبح کچھ لوگ آئے انہوں نے ہماری گنتی کی اور شاہ جی سے رقم وصول کی اور ہمیں بس میں بٹھایا۔ خود بھی ساتھ چلے مگر تھوڑی دور آگے جا کر وہ اتر گئے اور ہم کو آگے روانہ کردیا۔
ہم سولہ آدمی تھے، بس والا ہمیں ایک جگہ اتار کر چلا گیا۔ دس آدمی ہم میں سے سامنے چلے گئے۔ یہ بکریوں کا باڑہ تھا۔ اب ہم چھ بچ گئے اور پہاڑی کے اوپر بیٹھ گئے۔
ہمیں خبر نہ تھی کہ یہ کون سی جگہ ہے، اس رات ہم پہاڑ پر ہی سو گئے۔ رات کا اندھیرا چہار سو پھیلا ہوا تھا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ صبح ہوئی تو ہر طرف بکریوں اور اونٹوں کے باڑے نظر آنے لگے۔
کب تک بھوکے پیاسے پہاڑ پر رہتے، ہم نے آپس میں صلاح کی کہ نیچے چلنا چاہئے۔ مگر ڈر کے مارے سب ساتھی نیچے جانے پر تیار نہ تھے، بالآخر میں نے ہمت کی اور کہا کہ تم ٹھہرو میں جاتا ہوں، اگر ایک گھنٹے تک واپس نہیں آیا تو سمجھ لینا پکڑا گیا ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، جائوں ہمارے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ تبھی میں ہمت کر کے ایک اونٹوں کے باڑے میں جا گھسا۔ وہاں پر تین پاکستانی کام کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر میرے پاس آگئے۔ خیریت پوچھی تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے تسلی دی اور پانی پلایا کہا کہ گھبرائو نہیں۔ میں نے سارا احوال بتایا کہ لانچ سے آیا ہوں، کافی ساتھی پکڑے گئے ہیں۔ رات سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ انہوں نے کہا پریشان نہ ہو کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ بتائو تمہارے ساتھ اور کتنے لوگ ہیں۔ میں نے بتایا کہ ہم تین ہیں۔ کہنے لگا، ان کو بلا کر لائو۔ میں پہاڑ کی طرف گیا اور جو وہاں میرے انتظار میں بیٹھے تھے انہیں لے آیا۔ باڑے کے ان ملازموں نے ہم کو کھانا پکا کر دیا اور کہا کہ اگر آپ کے پاس ایجنٹ کا نمبر ہے تو ہم کو بتائو۔ ہم نے نمبر دیا تو انہوں نے ایجنٹ سے بات کی جس کا نام جاوید تھا۔
جاوید سے پھر ہماری بات ہوئی۔ اس نے کہا۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم سب لوگ پکڑے گئے ہو اور اظہر نامی لڑکے کا پاکستان سے میرے پاس بار بار فون آ رہا ہے اس کی ماں رو رو کر پوچھتی ہے، میرے بیٹے کی خیریت بتائو۔ کیا وہ بھی ادھر ہے یا پکڑا گیا ہے؟
میں نے کہا۔ جاوید صاحب میں اظہر ہی بول رہا ہوں۔ تب اس بزرگ نے اپنے موبائل سیل سے میری بات امی سے کروا دی۔
پھر جب جاوید نے بتایا کہ میں ایک ٹیکسی والے کو بھیج رہا ہوں۔ کالے رنگ کی گاڑی ہے جو تم لوگوں کو لینے آ رہی ہے۔ پھر رات کو کالی گاڑی ہم کو لینے پہنچ گئی۔ میں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔
ٹیکسی سڑک پر چڑھی ہی تھی کہ پولیس والی گاڑی نے پیچھے سے لائٹ دی کہ گاڑی روکو۔ تبھی ٹیکسی ڈرائیور نے ہم کو کہا کہ پولیس آگئی ہے میں روڈ سے نیچے گاڑی روکنے لگا ہوں، آپ لوگ تیزی سے دروازہ کھول کر بھاگ نکلو۔ اس عمانی ڈرائیور نے لائٹ بند کر کے تیزی سے گاڑی نیچے اتار دی اور کہا بھاگو… اتنے میں پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کردی اور ہم بھاگتے ہوئے جھاڑیوں میں جا چھپے۔
کافی دیر تک پولیس والے کھڑے رہے۔ جب وہ چلے گئے ہم وہاں سے نکلے، اس وقت اتنی پیاس لگی تھی کہ جان نکلی جا رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے کھجوروں کا ایک باغ نظر آیا جہاں کوئی موجود نہ تھا۔ ایک بالٹی پڑی تھی جس میں پانی تھا۔ نہیں معلوم وہ پانی کیسا تھا، مگر پیاس سے مجبور ہو کر ہم نے پیا۔ جب ذرا جان میں جان آگئی تو ساتھی نے کہا، اب ہم ٹیکسی میں نہیں بیٹھیں گے اور نہ ایجنٹ کو فون کریں گے تبھی اس کی دی ہوئی سم توڑ د ی۔ ڈرائیور نے کہا تھا کہ آسمان پر جو تارا ہے اس کی سیدھ میں دبئی ہے لہٰذا ہم ساری رات پیدل چلتے رہے۔ صبح ایک پہاڑی پر چڑھ کر سو گئے۔
دوپہر ہوئی تو سخت گرمی محسوس ہوئی۔ پائوں زخمی تھے، پھر بھی چلتے رہے، تبھی سامنے ایک بڑا سا گھر نظر آیا۔ ہم اندر چلے گئے وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ ایک کھڑکی سے جھانکا یہ کچن تھا۔ سامنے چاول اور مچھلی رکھی تھی، وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ ہم میں سے دو آدمی باہر رک گئے جبکہ دو اندر گئے۔ ٹیبل پرسے دسترخوان اٹھا کر اس میں چاول اور مچھلی باندھ لی اور فریج سے پانی نکالا۔ یہ بوتلیں بھی دسترخوان میں ڈال لیں۔ یہ سامان کھڑکی سے باہر اپنے ساتھیوں کو دیا اور جلدی سے باہر آگئے، پھر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ دور جا کر کھانا کھایا اور آگے چلے۔
چلتے چلتے ایک پہاڑی پر بنے گھر کے سامنے پہنچے تو وہاں دروازے کے پاس ایک عورت کھڑی تھی، جس نے ہم کو بلا کر پوچھا۔ یہاں کیسے آئے ہو تم لوگوں کو کہاں جانا ہے۔ ہم نے جگہ کا نام بتایا تو اس نے کہا کہ تم غلط آگئے ہو، آگے پہاڑی ہے کوئی راستہ نہیں ہے، تم لوگ یہاں سے واپس جائو، اس نے پھر ہم کو راستہ بتایا جو تیس چالیس کلومیٹر تھا، وہ کہنے لگی یہاں سے جلدی نکلو، میرا گھر والا پولیس میں ہے اور وہ ابھی آتا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ تم لوگ پکڑے جائو، میں نے کہا۔ کیا آپ ہم کو پینے کا پانی دے سکتی ہیں۔
اس نے چار بوتلیں پانی کی دیں اور ہم اس پہاڑی سے نیچے اترنے لگے، ڈیڑھ گھنٹے کی اترائی کے بعد ہم سڑک کے قریب ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ گئے تاکہ اندھیرا خوب پھیل جائے تو ہم نکلیں۔
جب اندھیرا ہوگیا ہم روڈ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے، ساری رات سفر کرتے رہے مگر بدقسمتی سے غلط روڈ پر آگئے۔
وہاں میدان ہی میدان تھا اور اونٹوں کے باڑے تھے جو اللہ کا نام لے کر ایک اونٹ کے بارے میں گئے تو ایک اکرم نامی پاکستانی ملا۔ ہم نے پوچھا کہ دبئی یہاں سے رکتنی دور ہے۔ وہ کہنے لگا۔ 200 کلومیٹر ہے مگر آگے بارڈر ہے۔ اس نے ہم کو کھانا کھلایا۔ شام تک ان کے پاس رہے۔ اس نے کہا شام کو پولیس والے اونٹنی کا دودھ لینے آتے ہیں، ابھی اس کمرے میں چھپ جائو۔ اتنا کرسکتا ہوں کہ روڈ پر ایک پاکستانی ہوٹل ہے۔ جب پولیس والے دودھ لے کر چلے جائیں گے تو آپ لوگوں کو اس ہوٹل تک چھوڑ آئوں گا۔
اس نے ہم کو گاڑی میں بٹھایا اور اس پاکستانی ہوٹل کے پاس پہنچایا۔ جاتے ہوئے کہا کہ یہ روڈ پیدل کراس کرو گے تو سامنے بجلی گھر ہے۔ روڈ سے جائو گے تو پکڑے جائو گے، بہتر ہے کہ سامنے والی پہاڑی کے راستے نکلو۔ وہاں سے بارڈر کراس ہو جائے گا۔
ایک گھنٹہ پہاڑی پر چڑھنے میں لگا اور اترنے میں بیس منٹ لگے۔ جب روڈ پر پہنچے تو بارڈر پیچھے رہ گیا تھا۔ دوسرا راستہ بارڈر کے ساتھ ندی میں تھا ،مگر وہاں بارڈر کی لائٹ تھی جو وقفے وقفے سے گھومتی رہتی تھی۔ تبھی ہم نے وہاں سے گزرنا مناسب نہ سمجھا۔
اب ہم لوگ سڑک سے ہٹ کر چلے جا رہے تھے۔ رات کے چلے صبح چھ بجے برہمی پہنچ گئے۔ اب کالر سے پاکستانی روپے نکالنے کا وقت آگیا، ایک دکاندار سے کہا، تین ہزار پاکستانی کے کتنے درھم دو گے، اس نے ایک اسی دیئے، اس سے کچھ کھانے کا سامان لیا اور ایک پچیس درھم کا بوتھ کارڈ لیا۔ کارڈ سے ایجنٹ سے رابطہ کیا۔بتایا کہ ہم فلاں جگہ مسجد کے پاس کھڑے ہیں۔ اس نے کہا۔ میں سمجھا تھا کہ آپ لوگ پکڑے گئے ہو کیونکہ وہ ٹیکسی والا جیل میں ہے۔ آپ لوگ مسجد کے اندر بیٹھ جائو پندرہ منٹ بعد ایک شخص آپ لوگوں کو لینے آ جائے گا۔
وہ شخص آگیا۔ اس نے کہا۔ باہر کالی گاڑی میں ایک ایک کرکے بیٹھ جائو۔ وہ بعد میں آیا اور سیٹ اٹھا کرنیچے بٹھا دیا اور اوپر کمبل ڈال دیئے۔ کہنے لگا صرف پندرہ منٹ کا رستہ ہے۔ محسوس ہوا گاڑی کچے سے جا رہی ہے، ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔ اچانک اسپیڈ بریکر آگیا۔ اس نے کہا۔ آواز نہ نکالنا یہ بارڈر ہے۔ محسوس ہوا کہ پولیس والے نے روکا ہے، اس نے گاڑی کے شیشے کھلوائے پھر کہا جانے دو۔ کچھ آگے جا کر اس شخص نے کہا، اب کمبل اتار دو اور سیٹوں پر بیٹھ جائو۔
جب اس نے گاڑی روکی تو سامنے بڑی بڑی بلڈنگیں تھیں اور بڑی سڑک تھی۔ وہ ہم کواپنے گھر لے گیا۔ اورجب ہم کمرے میں گئے ’’اے سی‘‘ لگا ہوا تھا اور کھانا بھی موجود تھا۔ اس نے ایجنٹ کو فون کیا کہ آپ کے آدمیوں کو لے آیا ہوں تو اس نے کہا کہ ان کو انڈسٹریل ایریا لے آئو اور پیسے لے جائو۔ یہاں ہم نے آرام کیا، پھر نہا دھو کر تیار ہوگئے۔ شام پانچ بجے ہم کو اس نے جاوید کے پاس پہنچا دیا اور اس سے فی آدمی چار سو درھم لئے۔ اس نے کہا، اب اپنے اپنے آدمیوں کو فون کرو۔ میں نے کزن عابد کو فون کیا۔ وہ آٹھ سو درھم لے آئے تھے، جاوید نے یہ رقم ان سے لی اور مجھے حوالے کیا۔
اس وقت میری ایسی حالت نہ تھی کہ چل سکتا۔ پائوں زخمی تھے، کزن نے تو اس سے منت کی کہ کام دلوا دو۔ مجھ پر ایک ہزار درھم قرض ہوگیا ہے۔ عابد نے کام دلوا دیا۔ ہفتہ میں دو سو چالیس درھم ملے۔ کزن نے کہا۔ اس سے تمہارا قرض نہیں اترے گا، لہٰذا اپنے لئے پینٹ شرٹ خریدو۔ چند دن بعد ایک انڈیا کے آدمی سے ملاقات ہوگئی، وہ بہت شریف اور ایماندار آدمی تھا، اس نے مجھے پانی سپلائی کی گاڑی پر رکھ لیا۔ ایک سال اس کے ساتھ کام کیا، پھر وہاں سے ایک شخص سے دوستی ہوگئی جو ڈرائیور تھا جس نے چالیس ہزار کا ویزہ دلوایا۔ یہ رقم بھی بطور قرضہ کزن عابد نے دی مگر کمپنی کا مالک لاہور کا تھا اور یہ ٹھیک لوگ نہ تھے، بہرحال ویزہ لے کر میں شپ کے ذریعہ ایران آیا اور ایران سے گوادر… پاکستان پانچ دن میں پہنچا۔
جب میں پاکستان پہنچا گھر آنے کی بجائے اپنے دوست کے گھر چلا گیا، وہاں سے دبئی کے دوست کو فون کیا کہ میرا ویزہ جمع کرا دو۔ انہوں نے مجھے ویزا بھیجا۔ ویزا ملتے ہی میں نے پاسپورٹ اور ٹکٹ لئے اور دس روز بعد بائی ایئر دبئی چلا گیا۔
کمپنی کے مالک نے کہا تھا کہ ویزا کے بعد آپ کو اسٹور کیپر رکھیں گے مگر انہوں نے لیبر میں لگا دیا۔ مجبوری تھی قرض لے کر اس منزل تک پہنچا تھا، کمپنی میں ایک سال تین ماہ کام کیا، ارباب سے روز جھگڑا رہتا تھا۔ رمضان شریف میں ارباب سے کہا کہ مجھے گھر جانا ہے، میرا پاسپورٹ دے دیں۔ وہ بولا، آپ ٹکٹ لے آئو۔ میں نے اس کے بھائی سے پاسپورٹ مانگا تو اس نے کہا میرے پاس نہیں ہے تمہارا پاسپورٹ… میرے بھائی کے پاس ہے، کل پتا کرنا۔ اگلے روز پھر دفتر گیا، اس نے کہا تمہارا پاسپورٹ امیگریشن میں جمع ہے، وہاں سے لے لو۔ میں حیران رہ گیا، کہا… کوئی بات نہیں مجھے امیگریشن لے چلو۔
میرا سامان کمرے میں تھا۔ جب وہاں گیا ان لوگوں نے بٹھا دیا کہا کہ آپ کے کفیل ارباب نے شکایت کی ہے کہ آپ دو ماہ سے کمپنی سے بھاگے ہوئے ہو۔ میں نے انہیں بہت کہا کہ یہ غلط ہے میں کمپنی میں کام کر رہا ہوں۔ امیگریشن والوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے چھ دن کے لئے بند کردیا۔ جب میرے ایک دوست چنگوانی کو پتا چلا وہ مجھ سے ملنے جیل آیا اور کہا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائو۔
’’میرا سامان کمرے میں ہے وہ لا دو۔‘‘ اگلے دن شام کو جیل میں اس نے سامان لا کر دیا اور پاکستان آنے کے لئے درھم بھی دیئے۔
اس دوران امی دوست کو فون کرتی تھیں کہ اظہر سے بات کرائو لیکن دوست نے کہا کہ یار میں تمہاری والدہ کو کیسے بتاتا کہ تمہارا اظہر جیل میں ہے۔ بس ان سے جھوٹ بولا کہ وہ العین گیاہوا ہے وہاں نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔ وہاں سے رہائی ملی تو پاکستان آگیا، اب تمہارے سامنے ہوں۔ جتنا کمایا ویزے اور آنے جانے میں خرچ ہوگیا اور تنخواہ اور ڈپازٹ وہ لوگ کھا گئے جنہوں نے میرا پاسپورٹ امیگریشن میں دیا تھا۔ آج پھر جیب خالی ہے، جہاں سے چلا تھا وہیں آگیا ہوں۔
یہ روداد سنانے کے بعد میرے بھائی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اول اپنے وطن میں نوکری نہیں… ملتی ہے تو تنخواہ اتنی کم کہ ایک وقت کی روٹی پوری نہیں ہوسکتی۔ صد افسوس اگر اپنے وطن میں روزگار اور تحفظ ملے تو میرے بھائی جیسے یتیم لڑکے موت کے اس سفر پر کیوں جائیں، جس کو لانچ کا سفر کہتے ہیں۔ دبئی جا کر کشادہ رزق خوش نصیبوں کو ہی ملتا ہے۔ اظہر نے تو جو کمایا سب گنوا دیا۔
آج امی خوش ہیں کہ میرا بیٹا آگیا ہے، بھائی کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی ہیں۔ ہم دونوں بہن بھائی خون کے آنسو روتے ہیں۔ اے کاش ہم یتیم نہ ہوتے۔ یتیم بھی ہو گئے تھے تو تایا اور تائی خالہ ہم پر یہ ستم نہ ڈھاتے کہ ہمارے سر چھپانے کا ٹھکانا بھی چھین لیا۔
التجا ہے کہ میرے ہم وطن نوجوان بھائی چاہے کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں، بغیر ویزہ کبھی ناجائز طریقے سے کسی غیر ملک کی سرحد پار نہ کریں، ورنہ وہاں جا کر پچھتائیں گے بلکہ زندگی دائو پر لگ جاتی ہے۔
(ش… اظہر۔ ڈیرہ غازی خان)