وحشتیں انتہا کو پہنچ چکی تھیں۔ آج مجھے صرف ماحول سے ہی نہیں ،خود سے بھی خوف آرہا تھا اور خوف سے میری روح کانپ رہی تھی۔ امی سے سالن میں نمک تیز ہوگیا تھا۔ دادی، ابو کا انتظار کررہی تھیں۔ گھر میں آج تماشا ہونے والا تھا اور اس روز روز کے تماشے نے مجھے بہت خوف زدہ کردیا تھا۔
امی کی کوشش تھی کہ میں ابو کے آنے سے پہلے سوجائوں، لیکن مجھے نیند کہاں آنی تھی کہ ماں رو رہی تھیں۔ اس وقت میں اتنی چھوٹی تھی کہ ان کا دکھ بھی نہیں بانٹ سکتی تھی۔ چھ برس کی بچی بھلا کیا کرسکتی ہے۔
ابو کے آتے ہی دادی نے حسب معمول امی کی برائیاں شروع کردیں۔ میری ماں صبر سے سنتی رہیں۔ یہ آج کا نہیں روز کا معمول تھا، وہ بہو کی چغلیاں کرتیں تو امی کو مار پڑتی۔ یہ سب دیکھ کر میں بہت ڈرپوک ہوگئی تھی۔ کسی کے سامنے بات چیت تو دور کی بات، سامنا کرنے سے بھی کتراتی۔ حالانکہ بہو پڑھی لکھی تھی مگر دادی کو ان کا تعلیم یافتہ ہونا ہی کھلتا تھا۔
والد ان کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ سو دادی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ انہوں نے پاس رہ کر بہو کو بیٹے سے دور کردیا تھا۔ گھر میں آتے ہی کسی نہ کسی بات پر بہانہ کرکے بیوی سے جھگڑتے۔ میں نے اسکول جانا شروع کیا تو انہوں نے امی کو پیسے دینے بند کردیئے۔
ایک دن مجھے کتاب لینی تھی، شام کو والد آئے۔ امی نے کہا کہ عبیرہ کی کتاب لینی ہے، کچھ پیسے چاہئیں۔ وہ بولے ۔ نکل جائو میرے گھر سے تم خود بگڑی ہوئی ہو، میری بیٹی کو بھی خراب کردوگی۔ پہلی بار میری ماں نے زبان کھولی۔ کہا۔ صاحب جی جو چاہے ہو، میری بیٹی پڑھے گی۔ بس اتنا کہنا تھا کہ انہوں نے بیوی کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔
میں ڈری سہمی یہ دیکھ رہی تھی، اسی پر بس نہیں کیا۔ میرے باپ نے امی کو بالوں سے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر گھر سے باہر نکال دیا۔ میں خوف کی وجہ سے جہاں بیٹھی تھی، پتھر کی مورت کی طرح جم کر رہ گئی۔ چند لمحوں بعد ایک جھٹکا سا لگا کہ جیسے ہوش آگیا ہو، تبھی دوڑ کر والد کے قدموں کو پکڑ کر کہا۔ ابو، امی کو نہ نکالیں، میں کل سے اسکول نہیں جائوں گی، وعدہ کرتی ہوں۔ ایک تھپڑ انہوں نے زور سے مجھے بھی مار دیا، پھر ہوش نہ رہا کہاں گری، کیا ہوا؟
ہوش آیا تو اسپتال میں تھی اور امی میرے ساتھ تھیں۔ والد شام کو آکر ہمیں گھر لے گئے کیونکہ دادی بیمار تھیں، وہ دیر سے گھر آتے تھے تو ان کی والدہ اکیلی رہ جاتی تھیں۔
ایک رات اچانک میری آنکھ کھلی، امی کراہ رہی تھیں۔ میں نے کمرے کا پردہ ہٹا کر دیکھا۔ والد میری ماں کو موم بتی سے اذیت دے رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ دیکھتا ہوں اب کیسے عبیرہ اسکول جاتی ہے۔ میں خوف سے کانپ گئی۔ اس کے بعد ساری رات نیند نہ آئی۔
صبح امی نے نانی کو فون کیا کہ عبیرہ کو لے جائیں، وہ اسکول میں پڑھے گی اور یہاں اسکول جانے کا مسئلہ ہے۔ نانی کا گھر دوسرے شہر میں تھا، ماموں مجھے آکر لے گئے۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اس کے بعد ابو نے امی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔ بہرحال میں نے اسکول جانا شروع کردیا۔
دوسری کلاس میں تھی جب ایک رات دروازے پر دستک ہوئی۔ ماموں نے در کھولا تو امی ننگے پائوں کھڑی تھیں۔ بھائی سے مل کر خوب روئیں۔ میں خوش تھی کہ امی آگئی ہیں، ہمارے پاس رہیں گی۔ ماموں نے انہیں اسکول میں ملازمت دلوادی۔ ایک سال بمشکل گزرا ہوگا کہ دادی کی وفات ہوگئی۔ ان کی وفات کے بعد ابو آگئے اور معافیاں مانگنے لگے۔ امی ایک مشرقی عورت تھیں ۔ شوہر کے منتیں کرنے پر اس شرط پر ساتھ جانے کو راضی ہوگئیں کہ وہ مجھے اسکول جانے سے نہیں روکیں گے، ساتھ ہی نوکری جاری رکھنے کا بھی وعدہ لیا۔
ابو نے دونوں شرائط مان لیں اور ہم ان کے گھر آگئے۔ ماموں نے بڑی کوششوں سے بہن کا تبادلہ ہمارے علاقے کے ایک اسکول میں کروادیا تاکہ امی ملازمت جاری رکھ سکیں اور مجھے پڑھانے میں انہیں دقت نہ ہو۔
جیسے ہی تبادلہ ہوا، ابو کا ایک اور روپ سامنے آگیا۔ وہ کسی اور راستے پر چل نکلے۔ اب نشے میں دھت گھر آتے اور میری ماں سے رقم کا مطالبہ کرتے۔ وہ انکار کرتیں تو مارنے لگتے۔ ایک دفعہ انہوں نے میری گردن پر چھری رکھ دی اور کہا کہ جلدی سے پیسے نکالو۔ ماں نے خوف سے پیسے دے دیئے اور وہ لے کر چلتے بنے۔ جب برداشت کی حد ہوگئی تو امی نے ماموں کو فون کیا۔ وہ آئے، حالات جاننے کے بعد ہمیں ساتھ لے گئے۔
ان دنوں میں چوتھی جماعت میں تھی۔ یوں ہم پھر سے نانی امی کے گھر رہنے لگے۔ ایک دن والدہ اسکول سے آئیں تو چند ماہ کی چھوٹی سی بچی ساتھ لائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس بچی کے والدین کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس کی ماں میرے ساتھ ٹیچر تھی، اب اسے پالنے والا کوئی نہیں ہے، میں اسے ساتھ لے آئی ہوں۔ آج سے یہ تمہاری بہن ہے اور میں بھی اسے بیٹی بناکر پالوں گی۔ انہوں نے بچی کو نانی اماں کے سپرد کردیا۔
یہ تو بعد میں راز کھلا کہ امی نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ بچی ان کی ساتھی ٹیچر کی ہے جو حادثے میں مر گئی ہے۔ دراصل یہ بچی میرے والد منت سماجت کرکے انہیں اسکول میں تھما گئے تھے کہ اسے کوئی پالنے والا نہیں ہے، تم پالو ورنہ مجھے اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنا ہوگا کیونکہ اتنی چھوٹی بچی کا پالنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ دراصل یہ معصوم میرے والد کی محبت کی نشانی تھی جسے بچی کی ماں، ابو کے گھر کے صحن میں ڈال کر چلی گئی تھی۔
عرصے تک یہ راز، راز ہی رہا۔ نانی اور امی نےمل کر اسے پالا اور اس کا نام عفیفہ رکھا گیا۔ عفیفہ کو پا کر میں خوش تھی۔ ایک کھلونا مل گیا تھا۔ اسکول سے آکر اسے گود میں بھر لیتی اور سارا دن اس سے دل بہلاتی۔
میں چاہتی تھی کہ میرا بچپن بھی دوسرے بچوں کی طرح ہو۔ والدین ساتھ ایک گھر میں رہیں اور ہم سب خوش رہیں۔ یہی خلش مجھے ہر دم ستاتی۔ یوں میں دوسری لڑکیوں سے مختلف ہوگئی۔ اپنی دنیا میں گم رہنے لگی۔ کلاس میں بھی کسی کے ساتھ زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔ والد اپنے گھر اور ہم نانی اماں کے گھر رہتے رہے، یہاں تک کہ میں میٹرک میں پہنچ گئی۔
ایک دن ابو اپنے بھانجے کا رشتہ میرے لئے لے کر آئے۔ امی نے صاف انکار کردیا، کہا کہ عبیرہ کا رشتہ میں اپنے بھانجے سے طے کرچکی ہوں۔ وہ خفا ہو کر چلے گئے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ کون سا بھانجا ہے، جس سے میرا رشتہ طے ہوا تھا کیونکہ ایسا کوئی لائق قسم کا بھانجا تھا نہیں جس سے وہ میرا رشتہ کرتیں۔ ابو نے اس بات کو بھلایا نہیں۔ ایک دن جبکہ امی اسکول گئی ہوئی تھیں، وہ آگئے اور مجھے لے گئے۔ نانی بوڑھی تھیں۔ وہ فساد سے ڈرتی تھیں جبکہ ماموں بھی گھر پر نہیں تھے۔ ماموں آئے تو والدہ نے دہائی دی تب وہ ابو کے گھر گئے اور سمجھا بجھا کر مجھے دوبارہ لے آئے کیونکہ باپ کے گھر اکیلی نہیں رہ سکتی تھی۔ وہاں مجھے نیند ہی نہیں آتی تھی۔
کچھ دن گزرے تھے کہ بڑی خالہ کا بیٹا ارحم نانی سے ملنے آیا۔ خالہ اور ان کے شوہر وفات پاچکے تھے۔ بچپن سے ہی ارحم ددھیال میں رہ رہا تھا۔ نجانے اس روز وہ کیسے ملنے آگیا۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ نانی اماں اس سے مل کر اور مرحومہ بیٹی کو یاد کرکے بہت روئیں۔
وہ خاموش طبع تھا۔ جیسے بہت کچھ ہار چکا ہو۔ مجھے اس میں کشش محسوس ہوئی۔ نانی اماں نے اس سے کہا۔ بیٹا… عبیرہ سے نکاح کرلو، تم ننھیال سے عرصے سے بچھڑے ہوئے ہو، اس طرح پھر مل جائو گے۔
ارحم نے پہلے تو انکار کیا مگر نانی کے اصرار پر ان کا مان رکھ لیا۔ نانی نے ارحم کے والد کے رشتے داروں کو فون کیا۔ وہ ماموں کے گھر آگئے۔ یوں اچانک میرا نکاح امی کے اس بھانجے سے ہوگیا۔
میں جانتی تھی کہ مجھے زبردستی والدہ کے اس گمشدہ بھانجے سے باندھا گیا ہے۔ لگتا تھا نکاح کے بعد ارحم نہیں آئے گا مگر وہ آگیا۔ میری ددھیال میں شور مچ گیا تھا۔ والد اور چچائوں نے بہت ہنگامہ کیا کہ ہم رخصتی نہ ہونے دیں گے مگر ماموئوں نے مل کر ان کے ارادوں کو ناکام بنادیا اور میری رخصتی ہوگئی۔ نانی نے میری زندگی میں اچھے دن لانے کے لئے یہ فیصلہ کیا تھا مگر ان کی سوچ پوری نہ ہوسکی۔ ان کا یہ نواسا، بِن ماں باپ کے پھوپھیوں کے دروں پر پلا تو عجیب سا ہوگیا تھا۔ اسے کسی سے کوئی خاص لگائو نہ تھا بلکہ وہ زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا عادی تھا۔
مجھ سے شادی کے بعد بھی، اس نے اپنی شادی سے پہلے والی سرگرمیاں اور دوستیاں جاری رکھیں۔ اس کی مختلف لڑکیوں سے دوستی تھی۔ ان میں کوئی بھی ٹھیک نہیں تھی۔ شادی کے چند دنوں بعد ہی مجھے لگا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ پہلے ماں کے کندھوں کا بوجھ تھی تو اب ارحم کے کندھوں کا بوجھ بن گئی تھی۔
ارحم کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہ تھا جبکہ میں محبت کی بھوکی تھی۔ وہ مجھے نظرانداز کرتا اور بے توجہی سے ساتھ رہتا تھا۔ گویا مجھے محبت کے لئے مزید ترسنا تھا جبکہ مجھے عادی ہو جانا چاہیے تھا کہ محبتوں پر میرا کوئی حق نہیں مگر کیا کرتی، لڑکی تھی خواب دیکھے بنِا نہیں جی سکتی تھی۔ رخصتی کے دن میں نے بس ایک ہی دعا مانگی تھی کہ یار ب میری زندگی میری ماں جیسی نہ ہو۔
پہلی رات کمرے میں آتے ہی ارحم نے مجھ سے پانی مانگا۔ میں جس چائو سے گھونگھٹ میں تھی، اس کی زوردار آواز سے میرا مان ٹوٹ گیا۔ ہڑبڑا کر اٹھی تو بھاری لہنگا سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ میز پر رکھے جگ سے پانی بھر کردیا۔ خوف سے ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ جونہی ان کو گلاس تھمایا، انہوں نے ٹھیک طرح سے نہ پکڑا۔
گلاس میرے پیر پر گرا اور شیشے لگنے سے پیر سے خون بہنے لگا۔ میں خوف کی وجہ سے رو بھی نہ پارہی تھی۔ جب تکلیف بڑھی تو مجھے کہنا پڑا کہ کوئی پٹی لائیے۔ جواب دیا اپنا دوپٹہ پھاڑ کر پٹی بنالو۔ رات کے وقت کہاں سے پٹی ڈھونڈ کر لائوں۔ میری زندگی ایک آزاد پنچھی کی طرح ہے۔ نانی کا کہنا تو مان لیا ہے مگر بیوی بن کر حکم چلانے یا بیوی کی جگہ لینے کی کوشش مت کرنا۔
سوچتی رہ گئی کیا عورت ذات واقعی اتنی کمزور ہوتی ہے۔ میں ان سے محبت کرنے لگی تو نہ چاہتے ہوئے بھی ارحم کو مجھے اپنے ساتھ رکھنا پڑا۔
اب زندگی گزر نہیں رہی تھی بلکہ کچھوےکی چال چل رہی تھی۔ وقت تھا کہ ڈستا رہتا تھا۔ ایک دن ارحم ایک چھوٹی سی بچی کو لے آئے۔ اسے کہا- سبینہ یہ تمہاری ماما ہیں۔ انتہائی سردی میں مجھے پسینہ آگیا۔
کیا یہ میری بیٹی ہے؟ ہاں یہ ہماری بیٹی ہے۔ انہوں نے ’’ہماری‘‘ پر زور دے کر کہا۔ پاپا پانی چاہیے۔ بچی نے کہا۔ ماما دیں گی آپ کو پانی۔ اس بچی نے میرا ہاتھ پکڑلیا۔ وہ معصوم تھی، اسے کیا کہتی کہ تم کون ہو، کہاں سے آئی ہو اور تمہاری ماں کون ہے؟ میں نے اسے جان سے بڑھ کر عزیز رکھا۔ وہ ارحم سے زیادہ مجھ سے مانوس ہوگئی۔
ان دنوں امی کے پاس رہنے آئی ہوئی تھی۔ ابو ملنے آئے۔ سبینہ کو دیکھ کر پوچھا۔ یہ بچی کون ہے؟ امی اٹھ کر ابو کے کمرے میں چلی گئیں۔ وہ جھگڑنے لگے۔ تمہاری ماں نے میری بیٹی کی قسمت پھوڑ دی ہے۔ ارحم اگر پہلے سے شادی شدہ تھا تو عبیرہ کا رشتہ اس سے کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسی سبب روکا تھا میں نے، تم نہ مانیں، اب پتا چلا اس دھوکے باز کے کرتوتوں کا۔
انور تماشا نہ کرو… یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ والدہ نے جواب دیا تو وہ چلاّنے لگے۔ تب امی نے کہا۔ میں اگر تمہاری بیٹی عفیفہ کو پال سکتی ہوں جو تمہاری غلطی کا ثمر ہے جس کی ماں کا بھی مجھے علم نہیں ہے، پھر بھی اسے بیٹی سمجھ کر پالا ہے اور ماں کا پیار دیا ہے تو پھر عبیرہ اپنے شوہر کی کسی غلطی کا پردہ کیوں نہیں رکھ سکتی۔ جیسا تم نے کیا ویسا ہی تمہارے داماد نے کیا، اب کچھ اللہ کا خوف کرو، فساد کرکے اپنی بیٹی کا گھر خراب مت کرو۔ ارحم جیسا بھی ہے تمہاری بیٹی کا گھر تو بس رہا ہے، جھگڑا کرو گے تو وہ اپنی بچی لے کر چلا جائے گا اور ہماری بیٹی روتی رہ جائے گی۔
اس روز راز کھلا کہ عفیفہ ابو کی بیٹی ہے جبکہ امی نے سب سے یہی کہا تھا کہ ان کی کولیگ کی یتیم بچی ہے جس کے والدین حادثے میں چل بسے ہیں۔ کتنا بڑا جھوٹ بولنا پڑا امی کو اپنے شوہر کے برے اعمال پر پردہ ڈالنے کی خاطر۔
امی کے رونے کی آواز آرہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ مکافات عمل کی زد میں ہمیشہ ہم عورتیں ہی کیوں آتی ہیں۔ میرے باپ نے ماں سے دھوکا کیا اور میرے شوہر نے مجھ سے۔
بے شک مکافات عمل اٹل ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہم ساری زندگی کسی دھوکے کا بوجھ اپنے دل پر لئے رہیں۔ سکون چاہئے تو معاف کرنا سیکھیں کیونکہ ہر شخص اپنے کئے کی سزا بھگتتا ہے اور جو نیکی کرے اس کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔
(رافعہ مستور …کراچی)